تحریر : زیردان بلوچ ہمگام آرٹیکل ابتدا سے ہی اگر دیکھا جائے تو خطے کا سب سے امیر ترین علاقہ بلوچستان تعلیمی لحاز سے ہمیشہ پیچے ہی رہا ہے۔ وفاق اور پنجاب کے شہری ہمیشہ سے یہی طعنہ دیتے رہے ہیں کہ بلوچوں کو انکے میر اور نواب پڑھنے نہیں دیتے۔ ان سے اگے بڑھنے کا موقع چین کر اپنے ہی بچوں کو لندن اور دوسرے ملکوں میں عیاشی کے لئے بیجھتے ہیں۔ میرا سوال انہی پنجاب کے شہریوں سے ہے کہ کیا لالا فہیم کو اسکے ادارے سے نواب خیر بخش مری نے لاپتہ کیا یا کہ سردار عطاءاللہ مینگل نے؟ کیا لالا فہیم اپنے ادارے میں ہتھیاروں کی سمگلنگ کرتا تھا؟ یا پھر ریاستی دہشت گردوں کی طرح اس کے ہاتھ معصوم شہریوں کے خون سے رنگے تھے۔؟ یہ بات تو سب کے سامنے عیاں ہے کہ لالا ایک پُرامن شہری ہونے کے ساتھ ساتھ لوگوں کو کتاب فَراہم کرتا تھا ۔ “علم و ادب ” پبلشر کا مینیجر تھا نہ وہ ریاستی دہشتگردی میں ملوث تھا اور نہ ہی وہ غیر قانونی پروپگنڈا کرتا تھا مگر اس کو کس جرم میں ریاستی ادارہ سی ٹی ڈی نے جبری طور پر اس کے ادارے سے لاپتہ کردیا۔؟ خاران اور مستونگ کے واقعے کو ابھی دو ہفتے ہی نہ گزرے تھے کہ یہ خبر ملی کہ لالا فہیم کو کراچی اردو بازار میں انکی دکان سے جبری طور پر ریاستی مسلح افراد نے لاپتہ کردیا ہے۔ لالا فہیم جیسے نوجوان کی جبری گمشدی نہ صرف ایک المیہ ہے بلکہ یہ پورے بلوچ قوم و علم دوست طبقے کے لئے کسی بربادی سے کم نہیں ہے۔ مجھے یاد ہے کہ ایک مرتبہ میں نے لالا سے پوچھا کہ فہیم جان آج کل تو کتاب پڑھنے والے اور خریدنے والے بہت کم ہیں اور اکثر لوگ انٹرنیٹ سے کتاب پڑھتے ہیں تو آپ اور اپکا ٹیم کتنا کماتے ہو؟ لالا نے جواب دیا کہ یار پیسہ ملے نہ ملے کم از کم علم و ادب کا کاراوان بڑھے گا، آہستہ آہستہ لوگ پڑھیں گے، میرا ایمان ہے کہ ایک نہ ایک دن بلوچستان کے نوجوانوں میں کتابی کلچر عام ہوگا۔ میں سمجھتا ہوں کہ لالا جیسے پُرامن شہری اور کتاب دوست نوجوان کو جبری طور پر لاپتہ کرنا نہ صرف معاشرے کی تہذیب کی بربادی کے مترادف ہے بلکہ علم ،ادب اور کتاب کے خاتمے کی ایک کوشش ہے۔