نہیں یہ تو ان بلوچ طلباء وہ طالبات کی درسگاہ ہے جو کتابوں سے دوستی اور لگن رکھتے ہیں۔ یہ ایک بڑی تعجب اور حیران کن بات ہے کہ دنیا کے تعلیمی اداروں کے سربراہاں میں سے واحد وائس چانسلر مالک ترین صاحب ہیں جسکو Bibliophobia یعنی کتابوں سے ڈر ہے۔ یہ ایک قسم کا Anxiety Disorder ہے، جو کہ وائس چانسلر کو لاحق ہوچکی ہے۔ یہ ایک شدید نفسْیاتی بیماری ہے۔ جسکے امراض کتاب اور Reading Culture میں انتہائی گھبراہٹ کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ایسی مرض میں مبتلا لوگ جب کتابوں کو دیکھ کر Trachycardia یعنی انکے دل کی دھڑکنیں تیز ہو جاتی ہیں اگر خدانخواستہ کتابوں کو ان سے دور نہیں رکھا گیا تو انکو Panic Attack ہوجاتی ہے اور وہ بے ہوش ہوکر اپنی حواس کھو بیٹھتے ہیں۔

جامعہ لسبیلہ کے ایک طالب علم کا کہنا ہے کہ کل جب فوڈ گالا میں ایک طرف بساک اور بی ایس ایف کے اراکین نے کتب اسٹالز منعقد کئے تھے تو جامعہ لسبیلہ کے وائس چانسلر مالک ترین صاحب فوڈ گالا کا جائزہ لینے کیلئے وہاں تشریف لائے لیکن جس جگہ پر بک اسٹال کا انعقاد کیا گیا تھا جہاں مختلف تصانیف کی کتابیں رکھی گئی تھیں، وہاں محترم وی سی صاحب نے منہ پیر کر واپس چلے گئے۔ محترم کی کتابوں سے ڈر کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس نے فوری طور پر ایکشن لیکر اوتھل کے ہشاش بشاش پولیس کے نوجْوانوں کی بھاری نفری کو طلب کر دہشتگرد کتابوں کو محاصرے میں لیکر انکو گرفتار کرکے پوری طور پر لسبیلہ یونیورسٹی کے احاطے سے نکال باہر کیا گیا تاکہ یونیورسٹی ایک بڑی تباہی سے بچ سکے۔ یقینََا یہ انکی دوراندیشی اور وسعت نظری تھی کہ اس نے مرض کو پھیلنے سے پہلے احتیاطی تدابیر کو اپنا کر انکے Causative Agent کو نکال باہر کروایا گیا۔ کیونکہ محترم وائس چانسلر کو اس بات کا بخوبی اندازہ ہے کہ کتابیں بلوچ نوجوانوں کی زہن کو کس حد تک اثر انداز کر سکتے ہیں۔ کیونکہ کتابیں پڑھنے سے مظلوم اور محکوم قوم کے نوجْوانوں کے انَدْر شعور و آگاہی بیدار ہوجاتی ہے جس سے مستقبل میں محترم وائس چانسلر اور انکے حواریوں کی بالادستی اور منصب کو شدید خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔ اس خطرات کے پیش نظر پولیس نے بروقت کارروائی کرکے کتابوں کو انتہائی غیر مہزب انداز میں اسطرح گھسیٹ کر پھینکا گیا جس طرح ایک چور اور قاتل کو بھی نہیں پکڑا جاتا۔

یہاں افسوس کی بات یہ ہے کہ چور، ڈاکو، منشیات فروشوں کو کھلی چوٹ دی گئی ہیں لیکن علم و دانش کے پیکاروں کو مختلف ہتھکنڈوں کے زریعے ڈرا دھمکا کر یاں انکو خاموش کرایا جاتا ہے یاںکہ انکو گراؤنڈ سے ہٹا دیا جاتا ہے۔

مالک ترین صاحب کو اگر تعلیمی ادارے کے بجائے محکمہ پولیس میں ڈی ایس پی کے عہدے پر تعینات کرتے تو یہ علاقے کیلئے شاید نیک شگون بات ہوتی کیونکہ ایک Bibliophobic Patient کو اگر کتابوں کے قریب رکھا جائے تو یہ انکی صحت کیلئے اچھی بات نہیں ہے، Psychiatrist کا کہنا ہے کہ اگر کسی زہنی امراض کو ایسی چیزوں سے دور رکھا جائے جس سے انکو پریشانی اور تکالیف لاحق ہو تو یہ انکی زہنی تنَدْرستی کیلئے کافی بہتر نسخہ ہے۔ اگر ایسے امراض جنکو کتابوں سے تکلیف ہوتی ہے انکو یونیورسٹی کا سربراہ تعینات کیا جائے تو یہ عمل نہ صرف انکی صحت کیلئے نقصاندہ ہوتی ہے بلکہ پڑھائی کے ماحول کو بھی برے اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔

محترم مالک ترین صاحب کو پتہ نہیں بار بار کیوں مجبور کیا جاتا ہے کہ انکو پولیس اور دیگر محکمہ کے بجائے صرف اور صرف جامعات کا وائس چانسلر ہی بننا ہے۔ یہ واحد کردار ہے جس نے بلوچستان یونیورسٹی کو بحران زدہ کرکے وہاں کے تعلیمی ماحول کو کس حد تک خراب کیا گیا، بلوچستان یونیورسٹی اسیکنڈل جیسے سنگین واقعات درپیش ہوئے۔ اسکے بعد محترم کو یونیورسٹی آف پَنجگُور میں بطور وی سی تعینات کر کے وہاں کے تعلیمی ماحول کو بھی خراب کیا گیا۔

جامعہ لسبیلہ واحد یونیورسٹی تھی جس میں پسماندہ بلوچستان کے پسماندہ ترین علاقوں سے غریبوں کے بچے جو بڑے بڑے تعلیمی اداروں کا خرچہ برداشت نہیں کرسکتے تھے لسبیلہ یونیورسٹی کا انتخاب کرکے یہاں رہ کر پڑھنے کو ترجیح دیتے تھے۔ لیکن حکمرانوں کو یہ بات ہضم ہو سکیں کہ غلام قوم کی اولادیں یہاں باآسانی تعلیم حاصل کرکے اپنے محکوم اور مظلوم قوم کے روشن مستقبل کو سنوار سکیں۔ لسبیلہ یونیورسٹی کو بھی کسی بدبخت کی نظر لگ گئی۔ ہوا یہ کہ مالک ترین صاحب کو یہاں کو وائس چانسلر تعینات کرکے جامعہ لسبیلہ کی ماحول کو بلوچستان یونیورسٹی کی اسکینڈل زدہ ماحول میں تبْدیل کرانا ہے۔ جب سے مالک ترین صاحب لسبیلہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر تعینات ہوئے ہیں تب سے ایک گھٹن زدہ ماحول نے جنم لیکر یونیورسٹی ایک فوجی چھاؤنی میں تبْدیل ہوچکی ہے۔ بلوچ طلباء کو مختلف طریقے سے حراساں کیا جا رہا ہے، انکی پروفائلنگ کی جارہی ہے۔

اولڈ ہاسٹل جہاں پہ غریب طلباء رہائش پزید تھے، اپنے کپڑے خود دھو سکتے تھے، کو بند کیا گیا ہے، بلوچ نوجْوانوں کی کافی تعداد ہاسٹل سے محروم ہیں انہیں سر رکھنے کا جگہ بھی فراہم نہیں کیا گیا ہے۔

ہاسٹل میں پولیس کو اسطرح الرٹ کیا گیا ہے اور بلوچ طلباء کو جس انداز میں تلاشی لیا جا رہا ہے جیسے کوئی دہشتگرد یونیورسٹی کے احاطے میں داخل ہوچکی ہو۔ ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت گرلز ہاسٹل میں روزانہ کی بنیاد پر مختلف نوٹیفیکیشن جاری کرکے انہیں زہنی طور پر ہراساں کیا جاتا ہے کہ اگر 6 بجے کے بعد کوئی ہاسٹل کے اندر داخل نہیں ہوا تو انکو ہر ایک گھنٹے کے اضافے کے طور پر جرمانہ عائد کیا جائے گا۔ جسکی وجہ سے بلوچ طالبات لائبریری جاکر پڑھنے سے محروم ہیں کیونکہ لائبریری گرلز ہاسٹل کی احاطے سے باہر ہے۔

بلوچ طلباء کی معاشی قتل کے تسلسل کو برقرار رکھنے کیلئے جامعہ لسبیلہ میں زیر تعلیم تمام بلوچ طلباء کیلئے اسکالرشپس کے دروازوں کو بند کیا گیا ہے جس سے غریب طلباء کسی حد تک استفادہ حاصل کرسکتے تھے جبکہ ہاسٹل کی فیس کو 1800 سے بڑھاکر 5000 تک اضافہ کیا گیا ہے اور رجسٹریشن کے نام پر غریب طلباء سے 2500 وصول کیا جا رہا ہے۔

کتابوں سے نفرت، تعلیم سے نفرت، بلوچ طلباء کی معاشی قتل، ان سب کا مسائل کو اکٹھا کرکے اس بات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ بلوچ نوجوانوں کی تعلیم ان لوگ کو ہضم نہیں ہوسکتی۔ یہ لوگ کسی حد تک بلوچ نوجْوانوں کو تعلیم سے دور رکھنا چاہتے ہیں، لیکن ہمارے نوجْوانوں کو پڑھنا چاہئے بس پڑھنا چاہئے۔ تاریخ، فلسفہ، نفسْیات، سائنس، ادبیات اور مختلف تصانیف کی کتابوں سے لگاؤ رکھنا چاہیئے۔