آپ سر ہیں اور آپ ہی سرکار ہیں ۔جو حکم میرے سالار زی وقار، آپکا یہ ناچیز خدمت گار فرمان بردار بندہ حاظر ہے۔ آپ اس دہکتی آگ و سورج کی کرنوں سے منور دن کو کالی رات کہہ دیں تو بھی ہم مانیں، اور کوئی چارہ بھی تو نہیں، رات کی تاریکی سے ہمارا پرانا یارانہ ہے، تاریکی ہی تاریکی ہے ہر سو دیکھو، آپ برا مان گئے کہ ہم نے جھوٹ کو جھوٹ بولنے کی جرات کی، تو کیسے کی، چلیئے آپ ناراض نہ ہوئیے، ہم نہیں بولتے جھوٹ کو جھوٹ ۔ آپ چاہیں جو بھی بولیں، اناپ شناپ، جھوٹ، غلط بیانی، دلیل کو مقتل گاہ میں رکھ دیں یا سرِ بازار اسکی نیلامی لگا دیں، پا پھر حقیقت کے گردن پر چھری پھیر دیں، اوہ ۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ میں کیا بک رہا ہوں، ۔۔۔۔۔۔۔۔ معاف کیجئے گا آپ جو بھی حرف زبان سے ادا کریں وہ حرف میرے لیئے حرفِ آخر ہوگا، ہم سب شکستہ راہ و منحرفانِ شانِ واجہ آج کے بعد بس یہی بولیں گے کہ ۔۔۔۔ آپ برحق ہیں ۔۔۔۔۔۔ آپ ہی حق ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آپ منصور ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ باقی سب کک ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ سب مل کر بولو جے واجہ جی ۔۔۔۔۔ جے واجہ جی ۔۔۔۔۔ یہ زبان بھی ناں، دیکھ لیجیئے ایک دن ناراض کرکے ہی چھوڑے گا میرے عزت ماآب آقا و بانیانِ ملت و منصب کو، لیکن کیا کریں واجہ، ہم جیسے دریدہ دہنوں کی مجبوریاں سمجھ لیں، ہمیں ہماری زبان درازیوں سمیت درگز فرما دیں، آپ ہی دیالو ہیں واجہ، آپ ہی کا یہ شان ہے، معاف کرنا اور ہمت و بہادری و صبر سے کام لینا، چھوٹی چھوٹی معاملات کو پاؤں تلے روند کر بے نیازی سے آگے بڑھ جانا اور بڑے معرکوں کی اہمیت کو نظر میں رکھ کر کوتاہ و بے وقعت معاملات کو نظر انداز کرنا، یہ سب آپ ہی کی نازک فطرت میں شامل ہیں، آپ کے انہی گھنوں کا ایک پوری دنیا معترف ہے، (جن ، جن لوگوں کو ہمارے چوٹی کے رہبرانِ ملت و منصب پر ان کی معاملہ فہمی، سنجیدگی، فکری بلندی سمیت بلند پایہ کے سیاسی ادراک پر کوئی شک ہے تو ان سرکشوں کے لیئے بس اتنا ہی کہنا کافی ہے کہ آپ مانیے یا نہ مانیے لیکن آج کے اس دیدہ دلیرانہ گستاخی کے بعد اور رہتی دنیا تک ہم بذاتِ خود اپنی کامل ہوش و حواس کی موجودگی میں ” اسلامی جمہورہائے ایران ” کو ایک دنیا ہی سمجھتے ہیں، آپ نہ مانیں ۔۔۔ آپکی مرضی) بس ایک ہم ہی ہیں، سر کش اور زبان دراز و سیاسی گنوار، ہمیں ناں سیاسی رواداری کا علم ہے اور نہ ہی آپ کی طرح سیاسی اخلاقیات و معاملہ فہمی کا فہم و ادراک ہے، ہم مانتے ہیں تسلیم کرلیتے ہیں کہ ہم محرومانِ شعور کے مجمع سے ہیں، بخش دیجیئے ہم خطاکار کو ۔۔۔۔۔۔۔ ویسے بھی آپ جیسے جہاں دیدہ لوگ تو اس بات کو اچھی طرح سے سمجھتے بھی ہونگے کہ گستاخ زبان کو راہ حق پر آتے آتے وقت تو لگتا ہی ہے، بہت خاک چھانا، سب کہتے تھے اور درس دیتے تھے کہ حق بات کہو اور ڈھنکے کی چوٹ پر کہو، بڑا وقت لگا اس گستاخی کو پانے میں، وقت کا ہم سب قائل ہیں ناں، صحیح وقت پر صحیح فیصلے، اسکا صحیح ادراک اور اسکا صحیح استعمال، لیکن یہ صحیح کا گردان آپ جیسے زیرک رہبر و رہنماؤں کے شایانِ شان ہرگز نہیں، چلو اس بے باک و گستاخ نما لفظ “صحیح ” کو کاٹ دیتے ہیں۔ آج کے بعد آپ کا کوئی بھی فیصلہ( صحیح و غلط کے سرحدوں سے پرے)، کسی بھی وقت پر، کسی بھی قسم کے ادراک و لا ادراکی اور کسی بھی طریقہِ استعمال کے ساتھ کریں وہ فیصلہ ہمارے سر آنکھوں پر، ہمیں قبول ہے نہ کوئی سوال نہ ہی کوئی تردد، اس یقین دہانی کے ساتھ کہ اس زبانِ گستاخ سے آگے اگر ایک لفظ بھی اپنی طرف سے نکلا تو جو سزا رہبرانِ گرامی چاہیں ہم اپنی گناہ گار گردن جھکائے پیش کیئے دیتے ہیں، اس لمحہ ہائے گزشتہ کے بعد جو آپ کے زبان مبارک سے نکلے ہم اسے تبرک سمجھیں گے گرہ میں باندھیں گے اور آسمانی صحیفوں کی طرح اسے مکمل حقانیت و تائید کے ساتھ دوسروں تک پہنچانا اپنا فرض زندگی مان لیں گے، اسے سچ کے زرق برق لبادے میں سجا کر پیش کریں گے، بس ہم سے سمجھنے میں بھول ہوئی ویسے تو آپکا لفظ ، لفظ سچائیوں کا امین ہے، مگر ہم انہیں اور سچے کھرے اور مزید کھرے بناکر پیش کریں گے اپنی طرف سے ہزار جتن کریں گے، آپکے الفاظ کو سجائیں گے، ضرورت پڑی تو کوئی نئی اصطلاح کا اختراع بھی کردیں گے لیکن مزاج گرامی پر گراں گزرے کوئی بات تو یہ ہزیمت ہم سے برداشت نہیں ہوتی اور یہ تصور ہم ہی کو شرمندہ کردیتی ہے، اتنی قربانیاں، اتنی دشواریاں، اور اس پیمانے کی تباہ حالیاں، اگر کوئی بات جھوٹ لگے یا ہضم نہ بھی ہوجائے تو بھی خاموش رہنا چاہئیے، لیکن کہاں ہم جیسے گنکو تھیلی اور کہاں ان جیسے مہان ہستی راجہ بوج، ہمیں ان ہستیوں کا مان ہے ان پر ہم کو غرور بے حد و حساب ہے، ہم اپنی کہی ہوئی ساری باتیں ردی کے ٹوکری کے نزر کرتے ہیں، حتی کہ ہم اپنی ذات کو ردی کی نزر کیئے دیتے ہیں، کیونکہ آپ کا مان ہے تو اپنا سر بر آسمان ہے، کیا ہم اور کیا ہمارے الفاظ اور انکی حقانیت، بس رہبرانِ مسند و ملت کی مزاج گرامی کو کچھ گراں نہ گزرے اور ہماری قوم دوستی کی ایقان جانے انجانے میں سرزد ہوئے خطاؤں کے نظر ہوکر قوم دشمنی کی القابات کے جہنم میں بھسم نہ ہوجائے، آقا جی شما چاہتے ہیں، اس بار در گزر کیجئیے گا آئندہ اپنی گمان و تصور پر آپ کی حقانیت و ایقان کا پہرہ بٹھائیں گے تاکہ کوئی بھولی بسری ماضی کی یاد بھی ہمارے خیالوں میں گھس کر ہمیں گستاخی کا مرتکب نہ بنا پائے، اس احسانِ درگزر کے عوض ہم جیسے سیاسی پاتال کے اپاہج زہنوں والے لوگ ( لوگ نہیں کیڑے مکوڑے) تا عمر آپکی کورنش بجا لاتے ہیں، لیکن کچھ چیزوں کی وضاحت سرکار سے مانگتے ہیں خدا نخواستہ اس نیت سے نہیں کہ ہمیں سرکار سے کوئی بیر ہے، یا جہاں پناہ کی سیاسی وارداتوں میں کوئی کمی یا نقص ہے، ہم تو پیر کے جوتی، خیر جوتی تو افضل چیز ہے، ہم ان جوتیوں کے میل کے بھی برابر نہیں، وہ اور انکی قربانیاں، ہم اور ہماری بد زبانیاں، بخش دیجئیے آقا، ہم پوچھنے یا وضاحت طلب کرنے کی جسارت اس لیئے کررہے ہیں تاکہ مستقبل میں اگر راہبرانِ مسند و ملت کے قول و فعل میں خدا نہ کرے خدا نہ کرے جانے انجانے میں کوئی تضاد پایا جائے تو اسے کس طرح تعبیر یا پیش کیا جائے، میرے منہ میں خاک مگر یہ ممکنات کہ دنیا ہے کل کو کیا جانے کسی کا قلم اپنی تجربات کی رو میں بہہ کر خدا جانے کیا سے کیا سے لکھ دے، ایک بار پھر وضاحت کرتا چلوں، خدارا برا مت مانیئے گا، خدارا طیش میں آکر ہمیں بلوچستان سے بدر نہ کیجیئے گا، اس وضاحت طلبی کا مقصد ہر گز آپکو غلط ثابت کرنا نہیں اور نہ ہی آپ کے تجربات کو جھٹلانا مقصود ہے آپ تو ماشاللہ سے سدا بہار ہیں اور سدا سچے ہیں، کچھ کہنے کی جسارت سے پہلے جذبہِ ایمان و یقین کو فرحت بخشنے والا یہ نعرہ حاضر خدمت ہے، جگ جھوٹا ۔۔۔۔۔۔ آپ سچے ۔۔۔۔۔۔۔ آپ مہان ۔۔۔۔۔اور ۔۔۔۔۔ ہم عقل کے کچے۔
جہاں پناہ اگر جان کی امان پاؤں تو کچھ کہنے پوچھنے اور سمجھنے کی جسارت کروں، کیوں کہ سمجھانے کی جسارت کرکے پہلے ہی سے ہم بہت نادم و شرمندہ ہیں، سیاسی رواداری کا پاس رکھتے ہوئے چلو ہم یہ بھی کہتے ہیں کہ جھوٹ نہیں تھا غلط بات تھی، غلط بیانی تھی، رائے عامہ کو بھٹکانے کو ادنی سی مگر نیک نیت کوشش تھی، اپنے تجربات کو بیان کرتے ہوئے مکالماتی الجھاؤ سے کام لیا گیا تھا تھا، ، لیکن غلط کیا ہے اور غلط کس چیز کو کہتے ہیں، خود مکالماتی الجھاؤ کیا ہے ؟ اور کیوں اسکی ضرورت پیش آتی ہے ؟ ہم جہاں تک سمجھے ہیں اسے بیان کیئے دیتے ہیں، اگر ہم سے غلطی ہوئی، غالب امکان ہے کہ ہوگی، تو ہمیں نا سمجھ ، خبطی اور سوادی سمجھ کر در گزر فرما کر اور پھر اچھے سے سمجھا دیجیئے، ہم اپنی بات شروع کرنے سے پہلے ایک بار آپکی تعظیم و حقانیت کا حلف اٹھاتے ہیں، ویسے سیانے کہہ گئے ہیں کہ کسی سے سیاسی میدان میں اختلاف رکھا جا سکتا ہے، اسکی نظریات پر، اسکی طریقہ کار پر،اسکی سیاسی رکھ رکھاؤ پر،مگر اختلاف کو ہمیشہ برابر کے فریق ہی اختلاف مانتا ہے طاقت و قوت میں تھوڑی سے اونچ نیچ کے بعد اختلافات کو بد تمیزی و بد تہذیبی و زبان درازی سے ہی تعبیر کیا جائے گا، لیکن اس سے قطع نظر میں ابھی یہ سمجھنے کی جسارت کررہا ہوں کہ آیا کسی جھوٹی بات پر اختلاف رکھا جاسکتا ہے ؟ اگر کوئی مجھ سے جھوٹ بول رہا ہو تو میں اس سے کیسے معاملہ کروں ؟ کیا میں یہ کہوں کہ مجھے آپ سے اختلاف ہے یا پھر سیدھا، سیدھا یہ کہہ دوں کہ آپ جھوٹ بول رہے ہیں ۔ کیوں کہ کل تو آپ نے خود جو باتیں کی تھی وہ آج کے تمھاری اس بات کی حقانیت کو ثابت کرنے میں نہ صرف قاصر ہیں بلکہ اس بات کو الٹا جھٹلا رہے ہیں، نوے کے عشرے سے وابستگیاں ختم کرنا سرداریت کو دوش دینا اور کہنا کہ ہم نے اسی وقت اپنی تعلقات کو زہنی طور پر ختم کیا تھا، وٖغیرہ کے تناظر میں، جھوٹ توخود سچ کی لاموجودگی ہے، جھوٹ پر اختلاف ہم آخر کن علمی و عقلی بنیادوں پر کریں، کوئی جھوٹ بول رہا ہو اور میں اسکی تعظیم میں مودبانہ انداز میں ہاتھ باندھے کھڑا حضور کی سامنے سر جھکائے اس سے اختلاف رکھنے کی بات کروں، کوئی زی الشعور پوچھے کہ ایک کے متعلق جھوٹ پر کوئی کس طرح اختلاف کی بات کرسکتا ہے، جھوٹ بذات خود ایک حتمی عنصر ہے، جو چیز اپنے آپ میں حتمی یا متعلق ہو اس پر مزید اختلاف کی گنجائش کہاں سے پیدا کریں ہم، اگر کوئی شخص ایک تالی میں کھانا کھائے اور لمحے بعد اس بات پہ اڈ جائے کہ میں نے تو اس تالی میں کھانا نہیں کھایا، تو کیا اس سے اختلاف رکھیں یا اس کو بتا دیں وہ سفید جھوٹ بول رہے ہیں، برائےِ کرم راہنمائی فرمائیے گا۔
ایک اور بات اگر کوئی جھوٹ بول رہا ہو تو اس میں غالب امکان یہی ہوسکتا ہیں کہ اس جھوٹ میں وہ کوئی چیز، بات، راز، حوالہ یا معلومات چھپانے کی جتن کررہا ہو، اب یہ ہمیں سمجھا دیں کہ کیا یہ سیاسی بد اخلاقی کے زمرے میں آتا ہے، اخلاق کی گراوٹ کے کھاتے میں فٹ آجاتا ہے یا پھر اس جھوٹ کو جھوٹ کہنے میں کسی کی قد کاٹی میں کوئی کمی واقعی میں واقع ہوجانے کا خطرہ لاحق رہتا ہے، کیا جھوٹ بولنے سے موجود اعتماد کا دھڑن تختہ نہیں ہوگا، کیا اس جھوٹ کی ماحول سے جو روایات نکلے گی وہ تباہ کن نہیں ہوگی؟ کیا جھوٹ کی بنیاد پر بن جانے والی کوئی سوچ اپنے اندر اخلاقی جواز رکھتی ہوگی، اگر واقعی میں ایسا ہے تو پھر اختلاف کی بات ہی نہ کرو، آپکے مزاج گرامی کو خوش رکھنے واسطے پھر ہم یہی کریں گے کہ بڑی بے شرمی اور ڈھٹائی کے ساتھ اس جھوٹ کو سچ و حق کا جامہ پہنائیں گے، اور کوئی دلیل نہیں دیں گے ہم یہ کہیں گے کہ جہاں پناہ جو کہہ رہے ہیں وہ بات نہ صرف سچ ہے بلکہ سچائی کی بلند تریں مثالوں میں بھی اپنا یکتا مقام رکھتا ہے، علاوہ ازیں یہ بھی ہم عقل سے پیدل لوگ بوجھنا چاہتے ہیں کہ کیا اس پہ انسانی کردار کا دار و مدار نہیں ہے کہ کوئی شخص کتنا جھوٹ بولتا ہے، کب اور کس نوعیت کی جھوٹ بولتا ہے، اور کیوں جھوٹ بولتا ہے، اور تب جب اس کردار کی بناوٹ میں لامتناہی انسانی لہو کی ٹپکتی بوندیں شامل ہوں، کیا کوئی بھی کردار، تم، آپ، وہ، یہ، واجہ، سالار، جہاں پناہ، تحریک و ملت و مسندوں کے رکھوالے اور سیاسی منصبوں کے گدی نشین یہ سب کردار کسی کے طفیل ہیں آیا یہ سب پیدائشی و فطری اور نسبتی و خاندانی ہیں، اجتماعی قربانیوں کا طفیل کہہ لیں یا پھر ان تمام لہو کی سیلِ رواں پر اس کا سہرا سجا دیں، کم از کم یہ شہرت یا مقام کسی کا زاتی جاگیر تو نہیں کہ جس پر ناراض ہوکر خود کی جھوٹ کو جھوٹ کہنے پر سیخ پا ہوا جائے، ایک کوئی کردار جسے خون سے سینچا اور پسینے سے نشونما دیا جائے اور وہ کردار آگے جاکر اپنی قول و فعل کا پاس نہ رکھے تو توقع کیا ہونی چائیے ؟ جہاں پناہ، کیوں کہ ہم نے تو پڑھا تھا کہ جھوٹ انسانی کردار کو ملیا میٹ کر ڈالتا ہے، اور مضبوط و بلند کردار کے علاوہ کوئی شخص چاہے کتنا بڑا طرم خان ہو معنی نہیں رکھتا، کارڈف یونیورسٹی کے محقق جوناتھن ویبر کہتے ہیں کہ “گو کہ دھوکہ دہی کے تمام طریقے عمومی طور پر غلط ہیں مگر جھوٹ کا ان میں سے بد ترین مقام ہے”، اور جہاں کردار کی کم مائیگی سامنے آجائے تو ان تقلید کنندگاں کی سیاسی و معاشرتی کردار و ساکھ پر کیا اثرات مرتب ہوں گی، انکے اعتماد و اعتبار کے پیمانے اپنے بڑوں کے حوالے سے کیا ہونگے ؟ اور کس طرح کے سیاسی و سماجی و اقدار ابھر کرسامنے آئیں گے؟ کہ جہاں جھوٹ کو جھوٹ کہنے پر سرزنش کی جائے اور اسکی شدت کو کم اور نوعیت کو بدل کر اختلاف نام رکھ دیا جائے۔ لیکن میرے سپہ سالارانِ مسند و ملت ہم جیسے کور دیدوں کو یہ بھی سمجائیے کہ خون کی قیمت پر بن جانے والی اس تحریک میں شامل کرداروں کی محض اس لئے مدح سرائی کی جائے کہ وہ قربانیاں دیتے آرہے ہیں یا وہ ” واجہ ” بنے بیٹھے ہیں، لیکن ہم تو یہی سمجھتے ہوئے آرہے ہیں کہ اس لہو کی سیلِ رواں میں سیاسی اخلاقیات کی بنیاد ہی سچائی ہے، اگر سچائی اپنی اصلی و حقیقی شکل و ہیئت و ساخت میں نہ رہ گئی ہو تو پھر اس تحریک، جسے قوم سچائیوں کی آدرش مان کر خون سے اس کی قوت بڑھا رہے ہیں، خود اس تحریک کی حقانیت کا پیمانہ کیا ہوگا، خون کی اس بہتی پھوار میں واجہی و سپہ سالاری کا بھرم اگر سچائیوں کی آدرشوں پر بھاری پڑ جائے تو قوم اپنی ارمانوں سمیت غلامی کے مزید بھیانک و تاریک ترین کھائیوں میں دب جائیگی۔
جھوٹ کو اگر جھوٹ نہیں کہیں گے تو اس کو کیا کہے گے ؟ کوئی ایسا سہل لفظ یا توضیح بتا دیں کہ جس کو استمعال میں لاتے ہوئے قوم کے ارمانوں اور واجہ و سپہ سالارانِ ملک و ملت کی شان و طبیعت دونوں کو ہزیمت سے بچا دیں، لیکن سمندر کے دو کناروں کے مانند تضاد کی اس جہنم کو کیسے آپس میں ملا پائیں گے، آپ ہی رہنمائی فرمائیں تو ہمارے بھاگ کھل جائیں جہاں پناہ، مگر ہم سمجھتے ہیں یقینا آپ یہی سمجھتے ہیں کہ ہم بالکل غلط سمجھتے ہیں لیکن جھوٹ کی فلسفے میں ایک کفایت ہے مگر وہ کفایت ابن الوقتی ہے، گروہی ہے، زاتی و موضوعی مفاد پرستی کا، کامل تحریک کے حوالے سے اگر کوئی کفایت موجود ہے تو وہ ڈھنکے کی چوٹ پر کہی گئی سچائی کے انمٹ حروف ہیں، کاش کہ کوئی مثال بھی دیتے کہ ہم نے کہاں کہاں ایسی زبان درازی روا رکھی کہ جو طبیعت نازک پر اس قدر گراں گزری، شاید کوئی ایسی لائق تحسین مثال نہیں ملی آپکو سارے مثالیئے میں اس لیئے آپ بھی تہی دست و تہی دامن اپنی گلہ کرنے پر اکتفا کر بیٹھے، جھوٹ کی ہیئت، اسکی ساخت و بنیاد، اور جھوٹ سے جنم لیتے ان تمام ہلاکت خیز نقصانات کا اگر کوئی علمی و استدلالی تجزیہ کسی دوست کو کرنا ہے تو قلم ہمیشہ قرطاس کی امانت رہیگی، اور مکالمے سے بہترین چیز کوئی نہیں سمجھنے اور سمجھانے کے حوالے، گالی بد تہذیبی و سیاسی غلاظت کا نہ ہم کل حامی تھے اور نہ آج اس کا کوئی شائبہ ہم پر واضح ہے وہ الگ بات ہے کہ جو چیز تمھاری مخصوص استدلالی بند و بست میں فٹ نہ ہو جائے تو وہ گالی یا بد تہذیبی و زبان درازی قرار پائے، مگر اس لہو کی سیلِ رواں میں بغیر کسی مصلحت پسندی کے شکار ہوئے جھوٹ کو جھوٹ کہنا ہی حقیقی استدلال و سچائیوں کا اوج ثریا ہے، کیونکہ یہ تحریکی کہانی لہو سے عبارت ہے اور اس میں عزت سادات کی پگڑی محض اس حد تک محفوظ ہے جہاں کوئی کردار اس تحریک کی بنیادی سچائیوں کی جوہر سے جڑی ہوئی ہو، جھوٹ کو جھوٹ کہنا ایک ادنی سی بات ہے، گذشتہ ہفتے منظور پشتین کے حوالے سے ایک کالم میں قلم آزمائی کی تھی، اسی منظور پشتین سے منصوب ایک قول سے اختتام کیئے دیتا ہوں، وہ کہتے ہیں کہ ” جس دن پشتون نوجوانوں نے میرا گریبان پکڑ کر کہا کہ منظور تم غلط کررہے ہو تو میں سمجھوں گا کہ پشتون نوجوان جاگ گئے ہیں”، بس آپکی اطلاع کے لیئے عرض ہے کہ ہم بلوچوں کے غالبا سبھی لیڈروں نے اپنی اپنی سیاسی نشستوں و بیٹھکوں میں منظور پشتین جیسی باتیں لمبی لمبی کرکے چھوڑی ہیں، سو اب ان کہی ہوئی باتوں کی قرض کا عملی بنیادوں پر ادائیگی کا وقت پہنچ چکا ہے، جھوٹ کو جھوٹ کہنا خیر بڑی بات نہیں، دیکھتے جائیے کہ کب سوالات سے بھرے ہاتھ گریبانوں تک پہنچ جائیں۔
جان کی امان پاؤں تو عرض کروں کہ ایک تحریک جس کی ہر لفظ صرف اور صرف لہو سے عبارت کی جارہی ہو وہاں ایسے نازک طبیعت لے کر آنا اور یوں برا مان جانا اور واجہی کے بھرم کو قائم رکھنے کا تقاضا کرنا جد و جہد کی بنیادی ساخت و ہیئت سے روگردانی کے مترادف ہے ۔