تاریخ محض واقعات کا سلسلہ نہیں بلکہ انسانی جدوجہد اور شعور کا مسلسل ارتقاء ہے۔تاریخ تضادات کی کوکھ سے جنم لیتی ہے اور جدلیاتی عمل سے گزرتی ہے۔ جدلیات میں ہر عمل کا تضاد موجود رہتا ہے جہاں ظلم اور مزاحمت، جبر اور آزادی، غلامی اور خودمختاری کے بیچ ایک مسلسل ٹکراؤ موجود رہتا ہے۔ یہی تضاد انسانی تاریخ کو متحرک کرتا ہے، اسے جمود سے نکال کر ارتقاء کی راہ پر گامزن رکھتا ہے اگر تاریخ میں تضاد نہ ہوں تو انسانی تاریخ ساکن رہتی ہے انسانی شعور نے ہمیشہ ان قوتوں کو چیلنج کیا ہے جو آزادی، امن اور خود ارادیت کو سلب کرنا چاہتی ہیں تاریخ گواہ ہے کہ قوموں نے جب اپنی سرزمین پر بیرونی قدم دیکھے تو انہوں نے خاموشی اختیار نہیں کی بلکہ مزاحمت کی ایک تاریخ رقم کی۔ یہ مزاحمت کبھی قبائلی شناخت کے تحفظ کیلئے ہوئی، کبھی عقیدوں کی حفاظت کے لیے اور اکثر اپنی مٹی، اپنی ثقافت، اور اپنی خودمختاری کی بازیابی کے لیے لڑی گئی ہیں تاریخ میں قبضہ گیریت اپنی سرزمین پر قبضے کے خلاف جنگوں کی ایک طویل تاریخ ملتی ہے جو دھرتی کے باسیوں نے قبضہ گیروں کو اپنے سر زمین سے بے دخل کرنے کے لئے لڑی تھیں جن میں کینیا، ویتنام،الجرائر،کیوبا،گنی بساؤ، گھانا، ہندوستان، بنگلہ دیش، آئرلینڈ، تامل، افغانستان، روس، تیونس، کردستان، سندھ، بلوچستان، فلسطین وغیرہ کی جدوجہد دنیا اور علم والوں کے سامنے روز روشن کی طرح عیاں ہے یہ وہ تاریخ ہے جس میں قابض کے خلاف ہر مزاحمت فقط ایک ردعمل نہیں بلکہ ایک فکری و روحانی بیداری کا اظہار ہے۔ اس میں دھرتی سے محبت، قومی شناخت اور انسانی وقار کی بازیافت کی ایک گہری خواہش کارفرماہے۔ قومیں جب اپنی زمین پر اجنبی سایوں کو دیکھتی ہیں تو ان کا ضمیر بیدار ہوتا ہے، اور وہ تاریخ کے سینے پر اپنا وجود ثبت کرنے کے لیے اٹھ کھڑی ہوتی ہیں۔محققین اور دانشور قبضہ گیر اور مقامی کے دائمی جنگ کو لیکر آج تک اُن وجوہات کو ڈھونڈنے میں کوشاں ہیں جو اِس جنگ کو ایندھن اورتوانائی مہیا کر رہی ہیں۔ آج کے سکالر اِس طاقت سے حیرت زدہ ہیں جو مظلوم کے عزم و استقلال میں پنہاں ہے در اصل اِس آسان اور پیچیدہ سوال کے امتزاج کا بنیادی جواب سرزمین کو اُن عظیم فرزندوں کے پاس ہے جو وطن کے مٹی کا قرض چکاتے ہوئے سروں کا نظرانہ پیش کر رہے ہیں۔
کتاب” کالونائزر اینڈ دی کالونائزڈ” میں مصنف” البرٹ میمی” لکھتے ہیں کہ “قبضہ ایک تباہی ہے جو مقامی لوگوں کی تمام چیزوں کو اس طرح سے مٹا دیتہے جس طرح کوئی بڑی قدرتی آفت تمام بنی ہوئی چیزوں کو صفحہ ہستی سے مٹا دیتی ہے”۔ فلسطینی رائٹر اور پاپولر فرنٹ کے ترجمان غسان کنفانی اپنے انٹرویو میں کہتے ہیں کہ” گردن اور تلوار میں کبھی مزاکرات نہیں ہو سکتے” ۔ انکا یہ بیان قابض اور مقبوضہ کے بارے میں تضاد کو واضح کرتا ہے۔ فینن بھی اسی شدید تضاد کے ماننے والے تھے انکے بقول” ڈی کالونائیزیشن ہمیشہ ایک پرتشدد عمل ہوتا ہے”۔ نواب خیربخش مری کے بقول “پاکستان بلکل ناپاک چیز ہے، اس میں رہنا ناپاکیت ہے،اس میں رہنا کفر ہے،اس میں رہنا بے غیرتی ہے، میں اتنا ظلم کروں کہ خود کو پاکستانی کہوں جو قوم نہیں، ثقافت نہیں”۔ نواب خیربخش مری کے بقول جو بلوچ خود کو پاکستانی کہتا ہے وہ کفر کررہا ہے۔ اتنا واضح اور شفاف پیغام بلوچ اور پاکستان کے درمیان تضاد کو واضح کرتا ہے۔ سنگت ہیربیار مری اپنے انٹرویو میں کہتے ہیں کہ” ہمیں پاکستانی کہنا گالی سے کم نہیں، ہمیں برا لگتا ہے جب کوئی ہمیں پاکستانی کہتا ہے، بلوچ کو پاکستانی کہنا گالی سے کم نہیں ہے”۔ شہید بالاچ مری اپنے آخری انٹرویو میں بلوچ اور پاکستان کے تضاد کو ان الفاظ میں تاریخ بند کرتے ہیں کہ” پنجابی جب تک بلوچوں کو لوٹ سکتے ہو تو لوٹو عیش موج مستی کرو لیکن جب بلوچ اپنے پاؤں پر کھڑے ہوئے نہ صرف آج بلکہ گزرے ہوئے کل کا بھی حساب لے گا۔”
ہر قوم میں اس کے وطن کے سرفروشوں نے قبضہ گیریت اور اسکی آفتوں سے اپنی سرزمین، زبان،ثقافت، ادب،مذہب اور اپنے اور اپنے لوگوں کے وجود کی بقا اور زندہ رکھنے کے لئے اپنی زندگی کی بازی لگا دی یا ابھی تک لگائی جارہی ہے۔ وطن کے اِن شہزادوں میں کینیا کے ڈیڈن کمتی، گنی بساؤ کے امیلکار کبیرال،گھانا کے نکرومہ،الجرائر کے فرانز فینن ، کیوبا کے ڈاکٹر چی گویرا، فیڈل کاسترو، چین کے چیرمین ماؤزے تنگ، ہندوستان کے بھگت سنگھ ، سکھ دیو،راج گرو، چندر، شیکر آزاد ، فلسطین کے ڈاکٹر جارج حبش، لیلہ خالد ، محمود درویش،غسان کنفانی اور بلوچستان کے شہید بالاچ مری، شہید کمبر چاکر ، شہید الیاس نذر،شہید درویش مری، سگار بلوچ بالا مری ، شہید ماما بگٹی ، شہید ماہکان بلوچ ، شہید ازل مری،بابا ھیر بخش مری ، شہید نورا پیرک، شہید اکبر بگٹی ، شہید سعادت مری ، شہید مجیید لانگو، شہید چیرمین غلام محمد ، شہید ڈاکٹر منان ، شہید سنگت ثناء، لالا منیر سمیت ہزاروں گمنام شہید شامل ہے جنوں نے قبضہ گیرت کے خلاف کے لڑ کر قربان ہونے کو ترجیح دی۔
وطن کے لیے سردھڑ کی بازی لگانے والے ان کرداروں میں ایک عظیم کردار وطن ندر بانک ماہکان شہید کی ہے جو بی ایل اے کی پہلی خاتون وطن ندر تھیں جن کا کردار بلوچ تاریخ کے پنوں میں ہمیشہ کے لئے امر ہوگیا ہے۔ تاریخِ عالم میں نیشنلسٹ تحریکوں میں خواتین کا کردار اکثر نظر انداز کیا جاتا رہا ہے، لیکن کئی ایسی تحریکیں ہیں جہاں خواتین نہ صرف شریک ہوئیں بلکہ قوم اور وطن کی خاطر وطن ندر جیسے انتہائی اقدامات میں بھی پیش پیش رہیں۔ کُرد قومی تحریک میں زِلان کرد نامی خاتون نے 1996ء میں ترکی کی ریاستی طاقت کے خلاف پہلا وطن ندر حملہ کیا۔ یہ حملہ ایک فیصلہ کن لمحہ تھا جس میں ایک خاتون نے قومی شناخت اور آزادی کے لیے اپنی جان قربان کی کردستان ورکرز پارٹی (PKK) نے زلان کی قربانی کو ایک قومی علامت بنا دیا، جس کے بعد کُرد خواتین نے مسلح جدوجہد میں بڑے پیمانے پر شرکت شروع کی ان خواتین کو نہ صرف عسکری تربیت دی گئی بلکہ انہیں تحریک کا ایک نظریاتی چہرہ بھی بنایا گیا اور آج تک خواتین مرد فائٹرز کے ساتھ ہر آول دستے میں خدمات سر انجام دے رہے ہیں اسی طرح قابض سری لنکا میں تامل جہدوجہد کے دوران تامل آزادی پسند تنظیم جسے دنیا ایل ٹی ٹی ای Liberation Tigers of Tamil Eelam کے نام سے جانتی تھی، انہوں نے خواتین کو منظم طور پر لبریشن ٹائیگرز میں شامل کیا۔ 1987ء میں پہلی تامل خاتون وطن ندر حملہ آور دُرگا نے ایک بڑے فوجی ہدف کو نشانہ بنایا جس میں 40 سے زائد سری لنکن فوجی مارے گئے۔ اس کے بعد خواتین خودکش حملہ آوروں کی ایک طویل فہرست سامنے آئی۔ تامل خواتین نے نہ صرف میدان جنگ میں حصہ لیا بلکہ وطن ندر دستوں کا بھی حصہ بنیں جنہیں “بلیک ٹائیگرز” کہا جاتا تھا۔ ان خواتین کا کردار صرف جنگی نہیں بلکہ خالصتاً نظریاتی اور سیاسی تھا جو تامل شناخت اور مزاحمت کی علامت بن گئیں۔
کئی دیگر قوم پرست تحریکوں میں بھی خواتین نے نمایاں کردار ادا کیا، فلسطینی تحریک میں لیلیٰ خالد نے ہوائی جہاز ہائی جیک کر کے دنیا کی توجہ فلسطینی مسئلے کی طرف مبذول کروائی۔ چیچنیا میں روسی قبضے کے خلاف لڑنے والی خواتین، جنہیں بلیک ویڈوز کے نام سے جانا جاتا ہے اپنے اہل خانہ کی شہادت کے بعد مزاحمت کی صفِ اول میں شامل ہوئیں۔ ان مثالوں سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ نیشنلسٹ تحریکیں تنہا مردوں تک محدود نہیں رہیں بلکہ خواتین نے بھی شعوری اور فکری طور پر ان تحریکوں میں فعال کردار ادا کیا بالخصوص جب ان کی قوم ظلم، جبر اور شناخت کے بحران سے گزر رہی ہو۔ خواتین کو عسکریت میں شامل کرنے کا مقصد صرف دشمن کو حیران کرنا نہیں بلکہ ان تحریکوں کے اندرونی ڈھانچے میں خواتین کو ایک متحرک سیاسی اور عسکری قوت کے طور پر تسلیم کرنا بھی تھا۔ چاہے وہ کُرد تحریک ہو، تاملوں کی آزادی کی جدوجہد ہو، یا فلسطینی مزاحمت ان تمام میں خواتین کی شمولیت ایک شعوری، منظم اور نظریاتی فیصلہ تھا۔ ان کی قربانیاں نہ صرف ایک وقتی عمل تھیں بلکہ قوم کی اجتماعی یادداشت کا حصہ بن چکی ہیں، جنہیں تحریکوں نے اپنے بیانیے کا مرکز بنایا ہے۔
جدید بلوچ قومی تحریک میں پہلے وطن ندر باز خان مری عرف درویش مری نے 30 دسمبر 2011 ء بی ایل اے ہائی کمان کی اجازت کے بعد ڈیتھ سکواڈ سربراہ شفیق مینگل کے کوئٹہ میں گھر پر ایک وطن ندر حملہ کیا۔جس میں ان کے مبینہ ڈیتھ اسکواڈ کے بیس افراد مارے جاتے ہیں۔ یہ بی ایل اے آزاد بلوچ مجید بریگیڈ کی پہلی باضابطہ کاروائی تھی، جس کی ذمہ داری لیتے ہوئے باز خان مری عرف درویش کو فدائی حملہ آور قرار دیا گیا۔
وطن ندر بانک ماہکان بلوچ جو کہ قلات میں ایف سی کے ونگ کمانڈر پر وطن ندر حملہ کرنے والی بی ایل اے کی پہلی خاتون وطن ندر تھیں ان کا تعلق پاکستانی زیر قبضہ بلوچستان کے علاقے گوادر سے تھا ، وہ بلوچ سمندر کی بہادر بیٹی تھیں جنہوں نے قوم کی آزادی کو اپنی زندگی کا مقصد بنایا۔ انہوں نے چار سال قبل شعوری طور پر مجید بریگیڈ کا حصہ بن کر یہ ثابت کیا کہ بلوچ عورت نہ صرف باشعور ہے بلکہ قربانی کے میدان میں مردوں سے بڑھ کر ہے۔ بانک ماہکان مضبوط اعصاب، بلند حوصلے اور روشن فکر کی حامل تھیں۔ انہوں نے بیچلر آف سائنس کی ڈگری حاصل کی، لیکن ان کی اصل پہچان ایک باعلم مجاہد، تاریخ و ادب کی شناسا اور قومی شعور کی علمبردار کے طور پر ہوئی۔ ان کی زبان سے نکلے الفاظ محض جملے نہیں، ایک زندہ قوم کی روح کی صدا تھے۔ان کی محبت بلوچ قوم، بلوچ سرزمین اور زبان کے لیے الفاظ سے بالا تر تھی ایک ایسا عشق جو لہو سے رقم ہوتا ہے
۔بانک ماہکان نے اپنی قربانی سے قوم کو وہ نظریاتی سمت عطا کی جو وقت کی دھند میں دھندلی کر دی گئی تھی۔انہوں نے قوم سے آپنے آخری خطاب میں واضح الفاظ میں کہا۔”اس بلوچستان کے لیے جو پچھلے پچھتر سالوں سے غلامی کی زنجیروں میں جکڑا ہے جسے تین ٹکڑوں میں تقسیم کیا گیا ہے، جہاں پاکستان اور ایران مل کر بلوچ قوم کو مٹانے پر تلے ہیں اس بلوچستان کی آزادی کے لیے قومی اتحاد ناگزیر ہے” وہ بلوچستان کو قبضہ گیروں کی بانٹی گئی سرحدوں سے آگے دیکھتی تھیں وہ ڈیرہ غازی خان، راجن پور، جیکب آباد، کشمور، کراچی، بندر عباس، مغربی بلوچستان، ہلمند کے بلوچوں کو ایک قومی وحدت میں جڑنے کا پیغام دیتی ہیں وہ ان لکیروں کو خون سے مٹا کر کر پیغام دیتی ہیں کہ ان کے نزدیک قابض کی بنائی ہوئی سرحدیں، بلوچوں کے دلوں کو تقسیم نہیں کر سکتیں اور بلوچوں کو متحد ہوکر متحدہ بلوچستان کی آزادی کے لیے جدوجہد کرنی چاہیے۔ وہ کہتی ہیں کہ بلوچوں کو زبان، مذہب، قبائل اور سرداری نظام کے ذریعے بانٹ کر ان کی قومی طاقت کو تقسیم اور کچلا گیا ہے”ایرانی بلوچ” اور “پاکستانی بلوچ” جیسی اصطلاحات استعمار کے ہتھیار ہیں، تاکہ قبضے کو جواز دیا جا سکے۔ ان کا کہنا تھا کہ “جیسے پاکستان بلوچ نسل کشی کرکے بلوچ شناخت کو مٹا رہا ہے، ویسے ہی ایران بلوچوں کو خاک و خون میں نہلا رہا ہے وہ بھی قابض ہے ۔ان کی صدا تھی کہ اس جدوجہد میں بلوچ مرد تنہا نہیں، آپ کے ساتھ آپ کی مائیں کفن باندھ کر کھڑی ہیں۔وہ کہتی ہیں کہ ہم آزادی دیکھیں گے، اور ایک ساتھ دیکھیں گے۔ اس غلامی کے اندھیروں میں بھی ہم ایک ساتھ ہیں، اور جدوجہد کی تپتی راہوں میں بھی ہمارا قدم قدم سے جڑا ہے۔ ہمارا اتحاد، ہمارا اتفاق یہی ہمارا ہتھیار ہے، یہی ہماری فتح کی ضمانت ہے.
وطن ندر ماہکان بلوچ دشمن کو للکارتے ہوئے کہتی ہیں کہ میں ماہکان بلوچ، صرف ایک نام نہیں بلکہ ایک فریاد، ایک عہد ہوں،ایک شارُل ہوں، سُمعیہ ہوں، ماھو ہوں، میں بلوچستان کی بیٹی ہوں جس کے ذروں میں شہداء کا لہو پیوست ہے، جس کے پہاڑوں نے غیرت، قربانی اور مزاحمت کو جنم دیا ہے۔ بلوچستان بلکہ آپ کے لیئے ایک نام ہے مگر ہمارے لیئے ہماری پہچان ہے، ہمارا وجود ہے، ہماری ماں ہے اور ہماری بقا کی ضمانت ہے۔ ہم ایک ایسی قوم ہیں جن کی تاریخ 1400 سال پرانی ہے، جنہیں صحابیوں کی شرف بھی حاصل ہے۔ مگر ان 75 سالوں میں ہماری شناخت کو مٹانے، ہماری نسل کو ختم کرنے، ہماری ثقافت کو روندنے کی مسلسل کوشش کی گئی۔ ہمارے طلبہ، بزرگ، خواتین، اور یہاں تک کہ معصوم بچے بھی ریاستی جبر سے محفوظ نہیں۔ ہم نے جبری گمشدگی کو ماں کی گود سے لے کر جوانی تک اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ یہ ظلم، جبر، اور بربریت اب ہماری روزمرہ کی زندگی کا حصہ بن چکا ہے۔ مگر یہ نہ سمجھو کہ کوئی دیکھ نہیں رہا۔ دنیا کی نظریں شاید بند ہوں، مگر تاریخ سب کچھ محفوظ کر رہی ہے اور تاریخ کا فیصلہ نہایت منصفانہ اور تلخ ہوتا ہے۔ ہم اب خاموش نہیں رہ سکتے۔ ہماری ماں، ہماری دھرتی، ہم سے فریاد کر رہی ہے۔ کوئی بھی رشتہ ماں سے پیارا نہیں ہوتا، اور ہم اپنی ماں کے لیے اپنی ہر خوشی، ہر لمحہ، حتیٰ کہ اپنی جان بھی قربان کرنے کو تیار ہیں۔ اگر آج ہم خاموش ہوئے، اگر آج ہم نے اپنی آواز نہ بلند کی، تو آنے والے ہزاروں سال بھی غلامی کے ہوں گے۔ ہماری زمین، زبان، ثقافت سب مٹ جائیں گے۔ “
بلوچ نیشنلزم کی علمی و فکری تعریف کو اگر سنجیدگی سے جانچا جائے تو یہ محض ایک سیاسی نعرہ یا وقتی ردعمل نہیں، بلکہ ایک مکمل فکری، سماجی اور تاریخی نظریہ ہے جو ایک قوم کی اجتماعی شناخت، بقاء اور خود ارادیت کی جدوجہد کو ظاہر کرتا ہے۔ وطن ندر بانک ماہکان بلوچ جیسے فکری رہنماؤں نے اپنے کردار، افعال اور بیانات کے ذریعے بلوچ نیشنلزم کی ایسی تشریح پیش کی ہے جو اسے صرف ایک خاص مقبوضہ جغرافیہ یا تحریک تک محدود نہیں رکھتی بلکہ اسے ایک ہمہ جہت قومی فریضہ قرار دیتی ہے۔ بلوچ نیشنلزم کا بنیادی مقصد قومی شناخت کا تحفظ ہے جو زبان، ثقافت، تاریخ اور روایات سے جُڑی ہوتی ہے۔ اس شناخت کے تحفظ کے لیے ضروری ہے کہ قوم کو قومی بنیادوں پر یکجا کیا جائے، تاکہ بیرونی قبضے اور سامراجی سازشوں کے خلاف متحد ہو کر مؤثر مزاحمت کی جا سکے۔ سرزمین کا دفاع صرف ان حدود تک محدود نہیں ہونا چاہیے جو قابض قوتوں یعنی ایران اور پاکستان نے کھینچی ہوں، بلکہ یہ ایک تاریخی و تہذیبی تصور ہے جو پورے خطے کی وحدت یعنی متحدہ بلوچستان پر زور دیتا ہے۔ بلوچ زبان اور ثقافت کا تحفظ اس تحریک کا ایک اہم ستون ہے، کیونکہ یہی وہ عناصر ہیں جو قوم کو شناخت دیتے ہیں۔ ایک آزاد، خودمختار اور متحد بلوچستان کا قیام اس جدوجہد کا حتمی ہدف ہے۔ اگر ان میں سے کوئی ایک پہلو بھی غیر موجود ہو یا نظرانداز کیا جائے تو نیشنلزم اپنی اصل روح کھو دیتی ہے اور پھر یہ ایک فریب، ڈھونگ بن جاتا ہے جو قومی شعور کو دھوکہ دیتا ہے۔ لہٰذا، بلوچ نیشنلزم ایک ہمہ جہت نظریہ ہے جو مکمل اور جامع شکل میں ہی اپنی سچائی اور افادیت رکھتا ہے۔