تحریر ۔ سلام سنجر

قوم اور مادر وطن کے لیئے جس طرح ایک لیڈر درد رکھتا ہے اتنا ہی اگر کوئی شاعر یا ادیب رکھے تو دونوں میں بس فرق اتنا ہوتا ہے کہ ایک لیڈر اپنے تقاریر اور گشتانک کے ذریعے اپنی قوم سے ایک وابستگی بنا کر رکھے گا اور انہیں متحرک کرتا رہے گا جبکہ ایک شاعر قوم کے درد اور احساسات کو الفاظ میں ڈال کر شاعری کی صورت میں قوم سے مخاطب ہوتا ہے ، اپنی شاعری کے ذریعے سے قوم کی رہنمائی میں کمر بستہ رہے گا ۔ مبارک قاضی ایک ایسی ہی عظیم شخصیت تھے جنہوں نے شاعری کے ذریعے بلوچ قوم کی رہنمائی میں ہمہ وقت پیش پیش تھے ۔

واجہ مبارک قاضی بلوچستان کے مردم خیز اور ساحلی شہر پسنی میں کہدہ امان اللہ کے گھر 24 دسمبر 1956 کو پیدا ہوئے ،انہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم پسنی ہائی اسکول میں مکمل کی ہے۔ تعلیم کیا تھی؟ پاکستان کے زیر قبضہ بلوچستان میں تعلیم حاصل کرنا ایسا ہے جیسا آپ کاغذ کو کسی کافی مشین میں ڈال کر پھر نکالیں گے وہ ہوبہو آپ کو ویسا دکھائی دے گا جس طرح اس میں پہلے سے موجود تھا ۔

1972میں میٹرک کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے سندھ مسلم کالج (ایس ایم کالج) کراچی چلے گئے۔ لیکن مالی مسائل نے ان کی تعلیم کو متاثر کیا۔ لہذا انہوں نے اپنی تعلیم ادھوری چھوڑ دی اور اپنے خاندانی کاروبار میں شامل ہونے کے لئے اپنے علاقے میں واپس آ گئے۔

1978ء میں اردو آرٹس کالج سے بی اے کی ڈگری حاصل کرنے کے لیے دوبارہ کراچی چلے گئے، اس کے بعد انہوں نے کوئٹہ میں بلوچستان یونیورسٹی سے ایم اے کیا اور بین الاقوامی تعلقات (آئی آر) میں ڈگری حاصل کی۔

اس زمانے میں قاضی کو انقلابی شاعری کرنے پر تنقید کا سامنا رہا ۔ جبکہ ان پر اور ان کے گھر پر قاتلانہ حملے اور بم دھماکے بھی ہوئے تھے۔

ان کے کئی مشہور شعری مجموعے ‘شاگ ماں سبزین ساوڈ ء، ‘ہانی منی ماتیں وطن ، زَرنوشت ، جنگل چینچو زیبا اِنت، منی عھد ءِ غم ءِ قصّہ، آپ سمّاک ءَ جتگ ،مُرگ پہ کُدوھاں رَپتگ اَنت، چَولاں دریا یل داتگ شامل ہیں ۔

مبارک قاضی نے بلوچی زبان کے لئے ایک بہتر تبدیلی لائی اور اسے حیرت انگیز طور پر نئی شکل دی۔ بلوچستان کے عوام ہمیشہ ان سے محبت اور احترام کرتے رہے ہیں۔ ان کا شمار بلوچستان کی معروف اور اہم شخصیات میں ہوتا ہے۔ انہیں بلوچ عوام نے بہت پسند کیا ۔ کہا جاتا ہے کہ بلوچ مردہ پرست ہیں لیکن قاضی وقار الگ تھا بلوچ قوم نے انہیں زندگی میں ہی وہ قدر و منزلت عطا کی جن کا حقدار تھا اور انہوں نے بلوچ اور بلوچ ادب کے ساتھ انصاف کرتے ہوئے ایک فرزند کی حیثیت سے شاعری کی صورت میں اپنا حق ادا کیا ۔

دپ ءِ پُلیں ھبر ھوناں، دل ءِ کوھیں صبر ھوناں

دلوں پاھار کنت کہ مکہیں ماتانی سر ھوناں

زمین ءَ آپ ءِ بدل ءَ ھون ریتکگ پُلیں دھکان ءَ پمیشکہ رُستگیں درچکانی درستیں تاک ءُ بر ھوناں

تیاب ءُکوہ ءُ کلگ کہن ءُ جو، دریا ءُ نیلیں زِر

تلار ءُ کوہ ءُ پٹ ءُ وڈ دشت ءُ چیل ءُ گر ھوناں

شعر جو عبرانی: شیر” سے ماخوذ ہے جس کے معنی راگ اور بھجن کے ہیں نیز آج تک شعر پڑھنے کے لئے عربی میں انشا( گانا) کا لفظ استعمال کیا اس کی پوری تائید کرتا ہے کہ شعر کا ماخذہ واقعی غنا اور موسقی ہے ۔

ایک شاعر جب شعر کہتا ہے تو اس کو ایک قسم کے الہان اور سوز کے ساتھ کہتا پھر موسیقار اسی سوز کو ساز کے ڈھانچے میں ڈال دیتا ہے ، اسی وجہ سے شاعر کو ہمیشہ ایک پر سوز اور پر احساس شخصیت کے طور پر جانا اور یاد کیا جاتا ہے سب سے بڑا مثال قاضی صاحب ہیں ،

مبارک قاضی کی شاعری لوگوں کو قوم پرستی کے عزائم کا سب سے بڑا سبق دیتی ہے، ان کے تمام اشعار متعدد بلوچی گلوکاروں نے گائے ہیں۔ مبارک قاضی کی شاعری کی وجہ سے بلوچی ادب اور زبان میں اچھی طرح سے اصلاح ہوئی ہے۔

آج قوم لیجنڈری بلوچ قومی شاعر مبارک قاضی کو جدید بلوچ آزادی کی تحریک میں شاعری کی صورت میں ان کے گہرے تعاون پر ان کی شاعری کے ذریعے خراج تحسین پیش کرتی ہے۔ وہ بلوچستان کے خوبصورت خطہ میں پیدا ہوئے، اور اس نے اس خطے کو اپنی شاعری اور خوبصورت بنایا دیا ۔

چول چول موجاں گوں ماھکان دریا اِنت

کئے بزانت شُھاز ءَ کئی سَر جنان دریا اِنت

چو گش ئے گوں آچاراں جلواناک یکدار اَنت

گوں تلاھیں استاراں آزمان دریا اِنت

قاضی کی اشعار بلوچ عوام کی امنگوں، جدوجہد اور لچک کی بازگشت کرتی ہیں، جو نسلوں کو اپنے حقوق اور آزادی کے لیے لڑنے کی تحریک دیتی ہیں۔

تکگاں ھون ءِ لواریں هار

جنگجاه ءَ برو سرمچار

مبارک قاضی، ایک ادبی چراغ، 20 ویں صدی کے آخر میں ایک نمایاں شخصیت کے طور پر ابھرے، جب بلوچستان نے آزادی کی جدوجہد میں ایک نئے سرے سے اضافہ دیکھا۔ ان کی شاعری بلوچ قوم کے اجتماعی درد، کرب اور امنگوں کے اظہار کے لیے ایک طاقتور ستون بن گئی۔ قاضی نے اپنی فصیح و بلیغ اشعار کے ساتھ فنکارانہ صلاحیتوں کو سرگرمی کے ساتھ ملایا، اپنے لوگوں کے شعور کو بیدار کیا اور انہیں آزادی کی جدوجہد میں متحرک کیا۔

وفا ءُ رُژن ءِ زند ءُ زانگ ءِ نام اِنت بلوچستان

پہ دائم گُلزمین ءَ مانگ ءِ نام اِنت بلوچستان

وتی حق ءِ کتاب ءِ وانگ ءِ نام اِنت بلوچستان

منی بیلاں منی دُردانگ ءِ نام اِنت بلوچستان

من ءَ چوں دیدگاں دوست اِنت اگاں سبز اِنت کہ ویران اِنت

بلوچستان نمیران اِنت ، بلوچستان نمیران اِنت

قاضی کی شاعرانہ چمک مظلوم بلوچ آبادی کے ساتھ گونجتی تھی، ان کے جذبات کو اپنی گرفت میں لیتی تھی اور طویل عرصے سے دبی ہوئی غیر کہی ہوئی شکایتوں کو آواز دیتی تھی۔ ان کے اشعار میں بلوچ عوام کو ان کی ثقافتی شناخت سے لے کر ان کے بنیادی حقوق اور وسائل سے محرومی تک کی جدوجہد کی عکاسی کی گئی ہے۔ اپنی نظموں کے ذریعے، اس نے اپنی قوم کے ساتھ ہونے والی ظلم و ناانصافیوں پر روشنی ڈالی، انہیں ظالموں کے خلاف اٹھنے اور دنیا میں اپنے جائز مقام کا دعویٰ کرنے پر زور دیا۔

جدید بلوچ آزادی کی تحریک میں قاضی کا تعاون صرف ان کی شاعری تک محدود نہیں تھا۔ انہوں نے بلوچ کاز کی وکالت کے لیے اپنے پلیٹ فارم کا استعمال کرتے ہوئے مختلف ثقافتی اور سیاسی فورمز میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ ان کی پرجوش تقریر، تحاریر اور اشعار نے بے شمار افراد کو جدوجہد میں شامل ہونے کی ترغیب دی، جس سے بلوچ عوام میں امید اور عزم کی ایک چنگاری آگئی۔

مدتے کہ پہ وتی آجوئی ءَ راهچار من

گلزمین ءِ مادریں حقّانی بیرک دار من

گوں هدا ءِ توکل ءَ تیر ءُ تپنگ بڈّ ءَ کت انت

چادر ءِ لمب ءَ پتات اَنت قاضی ءِ گپتار من

سِستگیں سرگْواتے آں ، من بلوچیں ماتے آں ،

متعدد چیلنجوں اور خطرات کا سامنا کرنے کے باوجود، مبارک قاضی انصاف اور آزادی کے حصول میں غیرمتزلزل رہے۔ اس نے اپنی شاعری اور اپنی فعالیت دونوں کے ذریعے اپنے لوگوں کے خلاف ہونے والے مظالم کو بے خوفی سے بے نقاب کیا، جو بلوچ قوم کے لیے لچک اور مزاحمت کی علامت بنے۔

آج، جب ہم جدید بلوچ آزادی کی تحریک میں مبارک قاضی کی بے پناہ قلمی خدمات کو یاد کرتے ہیں، ہمیں معاشروں کی تشکیل اور تبدیلی کی تحریکوں کو ہوا دینے میں آرٹ اور ادب کی طاقت کو یاد کیا جاتا ہے۔ ان کی شاعری بلوچ عوام کو ان کے شاندار ورثے، ان کی جدوجہد، اور دنیا میں اپنے جائز مقام کے حصول کے لیے ان کے غیر متزلزل عزم کی یاد دلاتے ہوئے ایک الہامی ذریعہ کے طور پر کام کر رہی ہے۔

مبارک قاضی کی وراثت بلوچ عوام کے دل و دماغ میں ہمیشہ نقش رہے گی اور آنے والی نسلوں کے لیے رہنمائی کا کام کرتی رہے گی۔ ان کے الفاظ گونجتے رہیں گے، بلوچ قوم کو انصاف، آزادی اور روشن مستقبل کے لیے جدوجہد کرنے کے لیے بااختیار بنائیں گے۔

جب ہم اس عظیم اور غیر معمولی شاعر کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں تو ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ آزادی اور انصاف کی لڑائی کے لیے ہمت اور تخلیق دونوں کی ضرورت ہوتی ہے، اور مبارک قاضی کا انمول جذبہ ہمیشہ ہمیں ایک بہتر کل کی تلاش میں آگے بڑھنے کی ترغیب دیتا رہے گا ۔

ڈیہہ ءِ غم کہ دل ءَ وھدے بے چاڑ کنت

وت سرا جل جُشیت ستک باور بکن

توری مردم وتی جان ءِ ھوناں بدنت

قاضی دنیا گُشیت ستک باور بکن