دنیا کی تاریخ بتاتی ہے کہ جب کوئی قوم غلامی کی زنجیروں میں جکڑی جائے، تو یا وہ فنا ہو جاتی ہے یا پھر مزاحمت کی راہ اختیار کرتی ہے۔
بلوچ قوم نے فنا ہونے کے بجائے مزاحمت کو چُنالیکن یہ مزاحمت صرف ایک ریاست یا ایک جغرافیے کے خلاف نہیں تھی ۔یہ ایک تاریخی وحدت، ایک تہذیبی شناخت، اور ایک مادرِ وطن کی بازیافت کے لیے تھی، جسے ہم “متحدہ بلوچستان” کے نام سے جانتے ہیں۔
دو ریاستیں، ایک جبر:
بلوچستان ایک ایسا وطن ہے جسے دو سامراجی ریاستوں پاکستان اور ایران نے مصنوعی سرحدوں سے چیر ڈالا۔ ایک نے برطانیہ کے وارث بن کر اسے “الحاق” کا نام دیا، اور دوسرے نے صدیوں پر محیط ایرانی استبداد کو بلوچوں کی تقدیر بنا دیا۔ مگر سچ یہ ہے کہ بلوچ دونوں ریاستوں کے لیے صرف ایک عددی اقلیت نہیں بلکہ ایک مزاحم قوم رہی ہے۔ پاکستان و ایران کے جبر میں فقط فرق طریقہ واردات کا ہے ،نیت اور انجام میں یکسانیت ہے۔
پاکستان میں بلوچوں کو چپ کرانے کے لیے ویرانوں میں لاشیں پھینکی جاتی ہیں، ایران میں انہیں چوراہوں پر لٹکایا جاتا ہے۔ ایک چھپ کر مارتا ہے، دوسرا دکھا کر مگر دونوں کا مقصد ایک ہے۔ بلوچ کی آواز خاموش کرنا، اس کی زمین ہتھیانا، اس کی شناخت مٹا دینا۔
تاریخی وحدت کا تصور: نوری نصیر خان کا خواب:
متحدہ بلوچستان کوئی مفروضہ یا رومانوی تصور نہیں، بلکہ یہ ایک جیتی جاگتی حقیقت تھی جسے نوری نصیر خان نے اپنی سیاسی حکمت، عسکری قوت اور سماجی بصیرت سے جوڑا تھا۔ بلوچ قبائل کی منتشر قوتوں کو ایک وفاق میں پرو کر انہوں نے ایک ایسی ریاست کی بنیاد رکھی تھی جو نہ صرف خودمختار تھی بلکہ داخلی و خارجی امور میں بھی آزاد تھی۔
یہی وہ سیاسی، تہذیبی اور جغرافیائی وحدت ہے جس کے احیاء کی جدوجہد آج بلوچ قوم کر رہی ہے اور یہی وہ موقف ہے جس پر ہیربیار مری جیسے رہنما اٹل ہیں۔
بدلتے بیانیے اور فکری انحراف:
تاہم، جدوجہد کے اس سفر میں کچھ ایسے موڑ بھی آئے جہاں بعض رہنماؤں نے اپنے موقف میں لچک دکھائی۔ ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے کبھی ایران کو قابض اور بلوچ دشمن ریاست کہا، لیکن آج وہ اس سے “حمایت” مانگنے کو سیاسی مجبوری قرار دے رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ متحدہ بلوچستان کا نظریہ درست ہے، لیکن وقت اس کا متحمل نہیں۔ ان کے خیال میں پہلے پاکستانی بلوچستان کو آزاد کیا جائے، پھر ایرانی حصے کی بات ہو۔
یہ بیانیہ بظاہر حقیقت پسندانہ لگتا ہے، لیکن درحقیقت یہ بلوچ قومی وحدت کے نظریے کو کمزور کرتا ہے۔ ایک جسم کے دو ٹکڑوں کو الگ الگ آزاد کرنے کا خواب، بالآخر ایک ادھورے انقلاب کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔ کردوں کی مثال دینے والے بھول جاتے ہیں کہ کرد آج تک ایک متحد ریاست حاصل نہیں کر سکے ،تقسیم ہی ان کی کمزوری بنی۔
آج کا نعرہ: ایک وطن، ایک قوم، ایک جدوجہد:
متحدہ بلوچستان کا تصور آج بھی بلوچ نوجوانوں کے دلوں میں دھڑک رہا ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ اگر ہم نے ایران یا پاکستان میں سے کسی ایک کے قبضے کو “عارضی قبولیت” دی تو کل یہی عارضی سمجھوتہ مستقل غلامی میں بدل جائے گا۔
یہ وقت مصلحت کا نہیں، وحدت کا ہے۔ یہ وقت انتظار کا نہیں، اقدام کا ہے۔ بلوچ مزاحمت صرف پاکستان سے نہیں، ایران سے بھی ہے کیونکہ دونوں نے بلوچ قوم کے وجود کو چیلنج کیا ہے۔
اختتامیہ: مزاحمت عبادت بنے:
اگر ہم واقعی بلوچ قوم کے وارث ہیں، تو ہمیں متحدہ بلوچستان کے نظریے کو اپنی سیاست، اپنی فکر اور اپنے عمل کا مرکز بنانا ہوگا۔ یہ صرف ایک نعرہ نہیں، بلکہ ایک عہد ہے مادرِ وطن کے تحفظ کا، اس کے بچوں کے مستقبل کا، اس کی پہچان کے استحکام کا۔
ہمیں فیصلہ کرنا ہوگا، کیا ہم تاریخ کا ادھورا باب بننا چاہتے ہیں، یا ایک مکمل قوم کی صورت تاریخ رقم کرنا چاہتے ہیں؟ اگر جواب دوسرا ہے، تو پھر مزاحمت صرف ایک سمت نہیں، ہر سمت سے ہونی چاہیے ،مشرق سے مغرب تک، دل سے میدان تک، اور فکر سے فداکاری تک۔