جنیوا (ہمگام نیوز) چئیرمین بلوچ نیشنل موومنٹ ڈاکٹر نسیم بلوچ نے 28 ستمبر کو اقوام متحدہ کے اجلاس کے دوران ایک جاپانی این جی او انٹرنیشنل کیرئیر سپورٹ کی طرف سے منعقدہ ایک ضمنی تقریب سے خطاب کیا۔جس کی صدارت شون فوجیکی نے کی۔ اس تقریب میں چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) توجہ کا مرکز تھا ، جو چین کے ‘ون بیلٹ اینڈ ون روڈ’ اقدام کی توسیع کے طور پر ملٹی بلین ڈالر منصوبہ ہے۔

چیئرمین نسیم بلوچ نے تقریب کے شرکاء کو اس منصوبے کے بلوچستان اور اس کے عوام پر پڑنے والے تباہ کن اثرات کے بارے میں آگاہ کیا۔

ڈاکٹر نسیم بلوچ نے تقریب میں مدعو کرنے پر منتظمین کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اپنی گفتگو کا آغاز کیا اور اس بات پر روشنی ڈالی کہ سی پیک منصوبے کی کامیابی کی صورت چین ’ بلوچ سرزمین ‘ کو ہتھیا لے گا۔

انہوں نے بلوچ قوم کے اس تاثر کو بھی شرکاء کے سامنے پیش کیا کہ یہ منصوبہ ایک سامراجی عمل ہے جو بلوچستان کی آبادی کو تبدیل کر دے گا۔ مہذب دنیا سے فوری اپیل کے باوجود، بلوچوں کی التجا نہیں سنی گئی اور وہ ایک بڑے تاریخی چیلنج کا سامنا کرنے کے لیے تنہا رہ گئے ہیں۔

سی پیک منصوبہ کا انحصار گوادر پورٹ پر ہے، جب کہ یہ روٹ بھی بلوچستان کے وسیع علاقے سے گزرتی ہے۔ ڈاکٹر نسیم بلوچ کے مطابق، چینی حکومت بلوچستان کے اہم مقامات پر اپنی فوج تعینات کرکے گوادر کے راستے تزویراتی طور پر اہم آبنائے ہرمز پر کنٹرول حاصل کرنا چاہتی ہے۔ بلوچ قوم اپنے لوگوں اور ثقافت کی بقا کے لیے اس منصوبے کے خلاف مزاحمت کر رہی ہے۔

ڈاکٹر نسیم بلوچ نے یہ بھی نشاندہی کی کہ پاکستانی فوج گوادر کی مقامی آبادی کو بے گھر کرنے کے لیے مختلف حربے استعمال کر رہی ہے۔ چیئرمین نے اس بات پر بھی زور دیا کہ دنیا کو یہ تسلیم کرنے کی ضرورت ہے کہ بلوچ اپنی بقا کی جنگ لڑنے والے خطے میں وفادار، باوقار اور قابل اعتماد شراکت دار ہے۔

 انہوں نے کہا کہ بلوچ قوم ذاتی فائدے یا معاوضے کے لیے نہیں لڑ رہی۔ بلوچ قوم کو چین کو اپنی مزاحمت کی طاقت دکھانے کے لیے عالمی برادری کی حمایت، پختونخوا اور گلگت بلتستان کے عوام کے تعاون کی ضرورت ہے۔

ڈاکٹر نسیم بلوچ نے اس بات پر بھی مایوسی کا اظہار کیا کہ حال ہی میں دہلی میں جی 20 پلس سربراہی اجلاس میں ‘انڈیا، مڈل ایسٹ، یورپ کوریڈور’ منصوبے کی توثیق کی گئی ، جس میں بلوچستان کا ذکر نہیں تھا۔

انہوں نے کہا کہ متنازعہ علاقوں میں سرمایہ کاری بین الاقوامی اصولوں کے خلاف ہے، لیکن جب طاقت اور پیسے کی بات آتی ہے تو عالمی قوانین کو اکثر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔

آخر میں ڈاکٹر نسیم بلوچ نے منتظمین کا ایک بار پھر شکریہ ادا کیا کہ انہوں بلوچستان کی حالت زار پر بات کرنے کے لیے یہ پلیٹ فارم فراہم کیا۔ انہوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ عالمی برادری ان کی باتوں پر توجہ دے گی اور بلوچ عوام کی قربانیوں کا اعتراف کرے گی۔