کچھ لوگ اس دنیا کی بھیڑ چال میں کھوجانے کے بجائے اپنی ہی انداز و شان سے جی کر مثال بن جاتے ہیں، دنیا میں اتنے انسان اتنی قومیں اور ان میں سے اتنے قبائل اور پھر انکے اندر مزید زیلی خاندان و نام و نصب مطلب سالہا سال گزرنے کے بعد کچھ ہی ایسے کارہائے نمایاں انجام دینے والے لوگ ان انگنت انسانوں میں سے ابھرتے ہیں جو عظمتوں کی حقیقی مثال بن جاتے ہیں، یہ کوئی مبالغی آرائی ہرگز نہیں ہے بلکہ یہ سمجھنا لازم ہے کہ مثال انسان کیوں بنتا ہے یا تو انسان وہ کام کرتا ہے جو کسی نے کبھی نہیں کیا ہو یا پھر بہت ہی کم لوگوں نے کیا ہو اسی طرح وہ اپنی ممتاز صلاحیتوں کے بل پر اور اپنی کام کی وجہ سے سب سے جدا حیثیت اور مقام کا مالک ٹہر جاتا ہے، یا پھر انسان اس لیئے امتیازی حیثیت کا مالک قرار دیا جاتا ہے کہ وہ ایک مروجہ کام جسے سب کررہے ہیں لیکن وہ اسے الگ انداز اور نہاہت ہی جان فشانی سے سرانجام دے دیتا ہے جو اکثر لوگ انجام دینے سے قاصر ہوں یہ چیز انسان کے اندر ایک امتیازی جداگانہ اور استثنائی حیثیت پیدا کرتا ہے، لہذا اسکے ساتھی جو اسی کام میں مصروف ہوں اسکی ہمت، شجاعت اور سمجھ بوجھ کی داد دئیے بغیر نہیں رہ پاتے، دنیا میں سبھی کاموں کو اسی طرح کیا جاسکتا ہے چاہے وہ کوئی چھوٹا ہی کام کیوں نہ ہو یا پھر اپنی نظریات اور فکر و فلسفے کے لیئے جان سے گزرجانے کی زمہ داری ہو، لیکن کم لوگ ہوتے ہیں جو اپنے کام اور زمہ داریوں میں باقی تمام لوگوں سے جدا ایک امتیازی اور الگ رنگ ڈالتے ہیں اور سرخرو ہوجاتے ہیں، چھاپہ مار جنگ اور اسکی سختیاں کیا کسی سے ڈھکی چھپی ہیں ہر گز نہیں، لیکن انہی کھٹن اور دشوار گزار زمہ داریوں سے مکمل عہدہ برا ہوجانا ہر چھاپہ مار کی استعداد و قوت میں نہیں ہوتی اسی لیئے اس راہِ پرپیچ و پر خار میں کئی لوگ جان سے جاتے ہیں اور یقینا سب کی شہادت کا رتبہ اپنی جگہ نہایت ہی اہمیت رکھتا ہے مگر امتیازی حیثیت کچھ لوگوں کی نصیب میں آتی ہے، قادر مری عرف لاغری انہی کم لوگوں میں سے ایک تھے جو اپنے زمہ داریوں سے ایک مثالی چھاپہ مار کی حیثیت سے برابر عہدہ برا ہوجانے میں کامیاب ہوکر ہمیشہ کے لیئے امر ہوگئے، آج ہم اسی جرات مند نوجوان کا تذکرہ کریں گے۔
جب یہ خبر گردش کررہی تھی کہ کوہستان مری کے بعض علاقے اور بھمبور میں فوجی جارحیت بڑی شد و مد سے شروع کی گئی ہے تو پیشانی میں پریشانی کے آثار نمودار نہ ہوئے اور یہ گمان بھی نہ گزرا کہ اس میں کوئی انہونی یا تکلیف دہ بات ہے، یہ وہی علاقہ ہے جہاں انگریز کے دور سے لے کر آج تک مزاحمت کو کبھی داغ مفارقت نہیں ملی، جب بھی وطن نے پکارا تو کفن پر دوش مٹی کے دیوانے کھینچے چلے آئے قربان گاہ میں قربان ہونے کو، بھلی چڑھانے کو اور خون سے ناموس وطن کی حفاظت کرنے کی ریت جتنی دنیا میں پرانی کوہستان مری و کوہلو کی مٹی اسکی زمانہ قدیم سے گواہی دیتی چلتی چلی آرہی ہے، انگریز نے دوران جنگ عظیم جنگ میں جھونکنے اور ایندھن بنانے کے واسطے جب کرایے کہ قاتل سپاہی و محافظ کے نام پر بھرتی کرنا شروع کردیئے تو سبھی لوگ، کیا پنجابی کیا بلوچ اور کیا سندھی سبھی سردار تمندار جاگیردار و قبائلی میر و معتبروں نے اپنے اپنے لوگ ریوڑوں کی طرح ہانکتے ہوئے انگریز سرکار کے سامنے پیش کردیئے اور جاہ و جلال پا کر وہ معززین شہر بن گئے مگر اسی قرب و جوار میں ایک دیوانہ قبیلہ ایسا تھا جس نے انگریز سرکار کی حکم کی تعمیل سے انکار کرتے ہوئے اپنے لوگوں کو بھرتی نہیں ہونے دیا، اور باقاعدہ انگریز کے ساتھ خونی معرکہ بھی ہوا، اس سے پہلے جب انگلو افغان جنگوں کا سلسلہ شروع ہوا تو انگریز سرکار کو اس علاقے میں ناکوں چنے چبوانے والے اسی قبیلے کے لوگ تھے، ایک مکمل اور ناقابل انکار و تردید اور ٹھوس سچائیوں سے مزین ایک تاریخ ہے کہ جس میں مری بلوچ قبیلے اور اس علاقے میں رہنے والے لوگوں نے کس طرح جری و بہادری کے کارنامے انجام دے کر بلوچ قومی منشا و آرزو کو ایک حد تک قابل قبول بنانے کی سعی کی، اسی لیئے جب سنا کہ مری علاقے میں فوجی جارحیت تسلسل کے ساتھ اب بھی جاری ہے تو دل کو اطمینان سا ہوگیا کہ تاریخی سچائیوں کے امین سپوت آج پھر اپنی رفتگاں کی قبروں کو افتخار کا نشان بنا کر مورچہ زن ہیں اور لڑ رہے ہیں وگرنہ اتنی قوت اور اس قوت کی وحشیانہ استعمال کے ساتھ فضائی و زمینی تازہ دم کمک ہونے کے باوجود اگر ایک معرکہ کسی مخصوص علاقے میں دسیوں روز تک بلا ناغہ جاری رہے تو سمجھ لینا چاہئیے کہ وہاں مزاحمت کی آگ ابھی تک دہک رہی ہے وہی سینکڑوں سال سے دہکتی ہوئی انگارے آج بھی بلوچ سپوتوں کی سینوں میں انتقام کی تپش برقرار رکھے ہوئے ہیں، یہ معنی نہیں رکھتا کہ سامنے کون ہے، وہ چاہے برٹش ہو یا پھر اسکی سنتری پاکستان بس دشمن کے حکم کے سامنے سرِ تسلیم کو خم نہیں کرنا ہے، چاہے اس میں جان کیوں نہ چلی جائے، یہی میرمہراب خان کی بنائی ہوئی ریت ہے اور وہی ریت آج بھی قادر مری عرف لاغری جیسے لاغر بدنوں مگر چٹانوں جیسا جذبہ و حوصلہ رکھنے والے لوگوں کے روح میں آج بھی برقرار ہے۔
لوگ پوچھتے ہیں کہ انسان کب تک لڑتا رہے گا، تھک جائے گا ہار جائے گا دشمن کے بربریت کے سانے ڈھیر ہوجائے گا، بھوک بیماریاں خاندان و بال بچوں کے غم اور اصول پرستی کی بوجھ کب تک انسان اپنے کاندھوں پر اٹھاتا پھرے گا، کوئی حد ہوتی ہے برداشت کی بھی لیکن یہاں جب قادر مری جیسے باہمت پر عزم نوجوانوں کی کہانی کو دیکھتے ہیں تو دل میں ایک حوصلہ سا گھر کرجاتا ہے کہ انسان تھکن سے چور ہوکر مقصد سے دست بردار نہیں ہوتا، انسان دشمن کی ہیبت ناک قوت سے ڈر کر اسکے سامنے سجدہ ریزہ نہیں ہوسکتا، لیکن شرط یہی ہے کہ وہ انسان ہو اور اس میں انسانی بنیادی آزادیوں کو پانے کی تمنا اور ولولہ موجود ہو، فروری 2005 کو بلوچ قومی لشکر بی ایل ائے کے ساتھ جڑنے کے بعد قادر مری عرف لاغری نے ان تمام خدشات کو اپنی ہمت اور پائے اسقامت سے غلط ثابت کروادیا، 13 سال کی اس جد و جہد میں لازمی بات ہے کہ بہت سارے ایسے لمحے آئے ہونگے جہاں انسان اپنی راہ سے بھٹک جاتا ہے یا بھٹکنے کے بارے میں سوچتا ہوگا، جب 2005 جو جنگ کی شروعاتی زمانہ تھا یہ نوجوان اسی وقت سے اس کاروان کا مسافر ہے اس نے اپنی آنکھوں کے سامنے کتنے ساتھیوں کو شہید ہوتے کتنوں کو گبھرا کر بھاگتے کتنوں کو تکالیف و آلام کی وج سے روتے چلاتے اور کتنوں کو دشمن کے سامنے سجدہ ریز ہوتے دیکھا ہے تب سے اب تک پلوں کے نیچے سے کتنا پانی گزر چکا ہے وہ سب دیکھ چکے ہیں، جد و جہد کی جذباتیت سے تھک ہار کر کتنے لوگ کنارہ کش ہوئے، کتنے بٹھک گئے، پھر سلفی اور نمود و نمائش کا دور آیا لوگ سال بھر کی جد و جہد کے بعد اپنے آپ میں رہنما و سالار بن بیٹھے اور بازاروں گلی کوچوں میں ایک تشہیری گہما گہمی نے جنم لیا لیکن کھچ ایسے لوگ تھے جو کہ اس تمام بچگانہ پن سے خود کو دور رکھ کر خالص بنیادوں پر تحریکی مشن کی آبیاری کرتے رہے اور آخر میں شہید ہوکر تا ابد امر ہوگئے، شہید قادر مری عرف لاغری انہی مخلص قومی کاروان کے سپاہیوں میں سے ایک تھا جو اپنا لہو اسی ہی خاموشی کے ساتھ سرزمین کو دھان کرکے بھمبور براہمی گوکڑت کے مقام پر ہم سے جسمانی طور پر جدا ہوگئے، یہ ایک حقیقی انقلابی کا اصل جوہر ہے کہ دشمن کو اسکی خبر نہ ہو، دشمن کو خبر نہ ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ وہ کہاں ہے، کتنا قوت رکھتا ہے اسکی حکمت عملی و جنگی طریقے کیا ہیں وہ کب اور کہاں حملہ کرے گا اور اسکےساتھ کتنے لوگ ہیں، یہ تو دور کی بات ہے بلکہ ایک چھاپہ مار جنگجو کی کامیابی اسی میں پنہاں ہے کہ وہ دشمن سے پنہاں رہے، مطلب دشمن کو اسکی چھاپہ مار جنگجو ہونے کی خبر بھی نہ ہو، اگر وہ دشمن کے سامنے سے گزرجائے تو دشمن کو یہ معلوم نہ ہو کہ میرے سامنے کون گزرا، قادر مری دوران جنگ دوبدو لڑائی میں زخمی ہوئے اور اس کے بعد انہوں نے یہ فیصلہ کرلیا کہ خود کو مشن پر فدا کرکےساتھیوں کو محفوظ رستہ فراہم کیا جائے سو وہ اسکے بعد دشمن سے لڑتے رہے، کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ انسان کتنا جلد باز اور سرعت پسند واقع ہوا اس میں برداشت کی قوت ناپید ہوتی جاتی ہے مگر جب نظر گمھا کر اس طرف دیکھتا ہوں تو خود کو ملامت محسوس کرتا ہوں، ان استقامت کے راہوں کے چمکتے چراغوں کو جب دیکھتا ہوں تو یقین ہو چلتا ہے کہ ہاں انسان بہت کچھ کرسکتا ہے وہ بہت کچھ سہہ سکتا ہے بشرطیکہ وہ اپنے انسانیت کی معراج کو پاسکے، جنگ اور جنگ کی ہولناکیوں کو خاطر میں لائے بغیر ایسے کتنے بلوچ نوجوان ہیں جو کہ آج بلوچ قومی بیانیے میں استعارہ کی جگہ پاچکے ہیں، کوئی اگر انکا نام لے لے تو زہن میں استقامت اور جہد مسلسل کی تصورات گردش کرنے لگ جاتی ہیں، جب پاکستانی قبضہ گیروں سے مدبھیڑ ہوئی تو اس لاغر بدن نوجوان نے اپنی اسی استقامت کو برقرار رکھتے ہوئے سب ساتھیوں کو بحفاظت نکالتے ہوئے مسلسل 2 گھنٹوں تک لڑتے رہے، دشمن بھی ضرور سوچتا ہوگا کیسے لوگ ہیں نہ پیچھے کوئی کمک، نہ کسی امداد کا امکان، نہ ہی کوئی بہتر جنگی و عسکری سازوسامان موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر لڑنے والے یہ لوگ دیوانے ہی تو ہیں، موت ایک حقیقت ہے اس سے فرار ممکن نہیں لیکن موت کا انتخاب کرنا ہر انسان کے نصیب میں کہاں ہوتا ہے، ایسے بہت ہی کم لوگ ہیں جنکو دوران جد و جہد یہ موقع نصیب ہوتا ہے کہ وہ اپنے لیئے موت کے وقت او مقام کا خود ہی تعین کریں۔
نیوکاہان میں آنکھیں کھولنے والے اس جری و بہادر قوم کے سپوت اسی خانوادے سے تعلق رکھتے ہیں جہاں پیدائش کے بعد بچے کے کانوں میں آزادی کی نظریے کا کنکھار گونجتا ہے، چونکہ تنگدستی اور ریاستی جبر کی پالیسیاں ایسی تھیں اور گھر کی معاشی ابتر حالات کی وجہ سے قادر مری کوئی باقاعدہ نصابی تعلیم حاصل نہ کرپائے مگر اسکے بعد عملی زندگی میں جو سیکھا اور اسی سیکھ اور شعور کو استعمال کرکے جو جلا قومی تحریک کو بخشا وہ اپنی مثال آپ ہے، اس خانوادے میں زمانہ طفلی سے ہی انکا یہ تربیت شروع ہوجاتی ہے کہ دشمن سے لڑنا ہے، کمزور ہو، مادی و مالی طاقت نہیں ہو، تنگدستی واری و لنگڑی ہو، لیکن لڑو، اپنے بازؤوں کے سہارے لڑو، خون کو ایندھن بناکر جیو اور دشمن پر جتنا اور جہاں سے ہوسکے ضرب لگاتے جاؤ یعنی جب تک سانسوں کی روانی برقرار ہے چین کی ننید نہیں سونا، اسی تربیت کے نتیجے میں قادر مری عرف لاغری نے سن بلوغت ہی میں تحریک کے کارزار میں قدم رکھ دیئے اور اسی تربیت کا لاج رکھتے ہوئے کبھی سستایا نہیں، کبھی رکے نہیں کبھی تھکاوٹ کا اظہار نہیں کیا کبھی زندگی کی بے سروسامانی کا گلہ نہیں کیا کیوںکہ اسے معلوم تھا کہ موت سے بغلگیر ہونے کے بعد سرزمین کی بانہوں میں سو کر پھر تا ابد آرام ہی آرام ہے لیکن جو لمحے اس زندگی میں عطا ہوئے ہیں ان میں سے کوئی ایک لمحہ دشمن سے بے خبر ہوکر نہ گزنے پائے یہی کامیابی کی ضامن ہے اور یہی سوچ و نظریہ قوموں کو غلامی کی تاریک پاتال سے نکال کر انہیں آزادی کی صبح نو کا دیدار کراتی ہے، چھاپہ مار جنگوں کی اصول پرستیوں کا ایک بنیادی نقطہ یہی ہے کہ دشمن کے زہن سے اوجھل رہو، جہاں تک ممکن ہو اپنی قوت پر نہ اتراو بلکہ ایک عام انسان بن کر جیو اور جب موقع ملے تو قہر بن کر دشمن پر برس پڑو، جب بھی موقع ملا اپنے عرف کی طرح لاغر بدن اس نوجوان نے دشمن کو ہمیشہ وہ کاری ضرب لگائے جو دشمن برسوں تک یاد رکھے گا، یقینا ایک چھاپہ مار ساتھی کا جسمانی حوالے سے بچھڑ جانا نقصان ہے، اس سے پیدا ہونے والی خلا کو پر کرنے میں کافی وقت بھی لگے گا اور پھر قادر مری جیسے منجھے ہوئے اور دیرینہ و نظریاتی ساتھیوں کا بچھڑجانا تو قیامت ہے مگر یہ لہو کا سودا ہے اس میں موت کا انتخاب بسا اوقات ناگزیر بن جاتی ہے تو اس سے بہتر کہ ایک ہی معرکے میں کوئی 4 یا 5 ساتھی شہید ہوجائیں تو ایک کا اپنے آپکو رضاکارانہ قربان کرنا تحریک کی آبیاری کا سبب ہے، خون بہا کر خون کو بچانے کا نظریہ ہی ہے جو انسان کو اکساتا ہے کہ وہ خود کی جان کو قربان گاہ میں رکھکر اپنے ساتھیوں کو اشارے دے کہ نکل جاو میں یہاں دشمن کے سامنے چٹان بن کر کھڑا ہوا ہوں، تحریکوں میں موت اور زندگی اگر سانجھی نہ ہوں تو وہ تحریک کبھی کامیاب نہیں ہوسکتی یہی سانجھی موت و زیست ہے کہ انسان اپنے زندگی کو اپنے ساتھیوں میں بانٹ کر خود دشمن کے سامنے سینہ پسر بن جاتا ہے، بلوچ تحریک میں ایسے کئی سپوت گزرے ہیں اور ایسے کئی ابھی تلک موجود ہیں جو ابھی تک میدان کارزار میں دشمن سے برسرِپیکار ہیں قادر مری عرف لاغر انہی جری نوجوانوں کی فہرست میں شامل ایک بلوچ سپوت ہیں کہ جس پر قوم بعد از ہزار سال نازاں رہے گی۔
چونکہ بلوچستان معدنی وسائل سے مالا مال ہے اور اسی وسائل اور گرم پانیوں کی رسائی کی جنگ میں بلوچ پچھلے کئی سو سالوں سے خاک و خون میں لتاڑے جارہے ہیں سو اب پاکستان اپنی بڑھتی ہوئی آبادی اور معیشت کوسہارے دینے کی خاطر بلوچ سرزمین کی وسائل کا بے دردی سے لوٹ مار کررہا ہے، سوئی کی گیس فیلڈ ہو یا سندک و ریکوڑک جیسے منصوبے گوادر کی ترقی و سہانے خوابوں کے بہانے بلوچ آبادیوں کی انتقال ہو یا پھر سی پیک جیسی تباہ کن ترقیاتی پالیسی پاکستان ہمیشہ سے بلوچ سرزمین سے برآمد ہونے والے وسائل کی لوٹ مار میں کوئی کسر چھوڑنا نہیں چاہتا سوئی میں تو خیر اپنوں کی بلا سے گیس نکال کر پاکستان نے اپنی معیشت کو بہت حد تک سہارا دے دیا مگر مری علاقے ہی وہ علاقے تھے جہاں کہ سردار کہیں، قبائلی معتبرین کہیں یا عام عوام کو ملنے والی سیاسی و شعوری تربیت کہیں انہوں نے کبھی بھی اپنے مادر وطن کے بطن میں موجود وسائل کا نہ صرف سودا نہیں کیا بلکہ جو غاصب و آمر قوتیں ایسا کرنا چاہتے تھے انہیں بزور شمشیر روکے رکھا اور یہی جنگ ہے اختیار و اقتدار کا جو آج بھی جاری ہے جسے قادر مری جیسے باہمت نوجوان بالکل عین چھاپہ مار جنگ و سیاسی اصولوں کے مطابق اپنے لہو سے پروان چڑھا رہے ہیں، کچھ دن پہلے بلوچ لشکر نے اسی ایریا میں قدرتی وسائل تلاشنے والی کمپنی کے کارندوں پر حملہ کردیا اور اسکے بعد یہ خونیں جارحیت کا آغاز کیا گیا اس سے معلوم پڑتا ہے کہ وسائل کی لوٹ مار کی معاشی اہمیت پاکستان کے لیئے کتنا ہے، یہی وہ لوگ ہیں جہنوں نے اپنی پھٹے پرانے پوشاک، بوسیدہ جوتوں اور آصیب زدہ زندگی کو نیا اور بہتر کرنے کے لیئےبلوچ قومی حق ملکیت کے بدلے کوئی روئلٹی نہیں لی بلکہ وہ انہی وسائل کے اجتماعی مالک بن جانے کے اختیار کے لیئے لمحہ بہ لمحہ دشمن سے نبرد آزما رہے ہیں، وگرنہ بلوچستان میں روئلٹی اور پیسے لے کر کس طرح بلوچ مڈی کا سودا کیا گیا وہ ہمارے سامنے ہے لیکن اس وسیع و عریض سرزمین پر پھیلے ہوئی ان قدرتی وسائل کو ایک قبائل تو نہیں روک سکتا تھا مگر ایک راستہ دکھاکر دوسروں کی منافقت اور لالچ کا پردہ ضرور پاش کیا گیا کہ کس طرح وڈھ میں پہاڈوں کے اندر موجود قیمتی پتھر بیچے گئے کس طرح ڈیرہ بگٹی میں سوئی فیلڈ کو بیچھا گیا اور اسکے علاوہ سندک و ریکوڈک سمیت گوادر کی مثالیں موجود ہیں مگر مری قبیلے نے کبھی بھی بلوچ قومی مڈی کو سودا بازی کا نظر نہ ہونے دیا بلکہ اپنہ لہو دیکر انہوں نے ان اجتماعی قومی مڈی کا ہمیشہ دفاع کیا ہے، ایوب خٓن کے دور میں دریافت ہونے والے اس کثیر قومی معدنی سرمایے کو لوٹنے کی پاکستان کی طرف سے مسلسل کوششیں جاری ہیں اور بلوچ نوجوان اپنا خون بہا کر اس استحصالی منصوبے کے سامنے دیوار بن چکے ہیں، یہ خون اسی طرح بہتا رہے گا جب تک کہ بلوچ اجتماعی حق حاکمیت و اختیار کو مکمل طور پر تسلیم نہیں کیا جاتا، قادر مری عرف لاغری جیسے نڈر و جری نوجوان شاید کئی دنوں تک بھوکے سوتے ہوں مگر دشمن کے لیئے یہی بھوک کے ہاتھوں پلتے جری جوان بدترین و خوفناک ترین خواب ثابت ہوتے رہیں گے۔
گو کہ آج بلوچ قومی قوت کچھ اپنے ہی مہربانوں کی وجہ سے انتشاری کیفیت کا شکار ہے مگر انفرادی حوالے سے جب اس طرح کے نوجوان بغیر کسی طمع و لالچ کے سالہا سال بے نام و نشاں ہوکر صرف اپنی مقصدیت کے خاطر لڑ کر امر ہوجاتے ہیں تو یقین مانیئے کہ بلوچ قومی تحریک کو ہزارہا نشب و فراز و شکست و ریخت کے باوجود کامیاب ہونے سے کوئی طاقت نہیں روک سکتی، جو مایوسی پھیلانے والے ہیں وہ ہر دم چلاتے اور شور مچاتے جاتے ہیں جو امیدوں کے محور ہیں وہ خاموشی سے اپنا کام کرتے چلے جاتے ہیں اور جب وہ اپنے حصے کی زمہ داریاں نبھا کر اس دار فانی سے چلے جاتے ہیں تو پھر انکی کاوشیں انکا خلوص اور قوم کے حوالے انکی گراں قدر خدمات بہ آواز بلند قوم کو یہ نوید دیتے ہیں کہ ہم جیسے اور کئی ابھی تک محاز سمبھالے ہوئے ہیں سو ناامیدیوں کے وادیوں سے نکل جاؤ اور قوم کا دست و بازو بن جاؤ، سو قادر مری عرف لاغری کا تاحیات خاموشی و رازداری آج ببانگ دہل امیدوں کی نوید بن کر کانوں میں رس گھول رہی ہے۔