زمینوں پہ کام کرنے والا بوڑھا قمیصہ روتا ہوا ہمارے پاس آیا اور کہنے لگا کہ میرا جوان بیٹا آج صبح دودھ پہنچانے کسی کے گھر گیا تھا واپسی پر اُسے پاکستانی فوج اُٹھا کر لے گئی وہ بے قصور ہے اُسے سیاست سے کوئی سروکار نہیں اور وہ تعلیم یافتہ بھی نہیں ہے بلکہ وہ مزدور ہے میرے ساتھ کھیتوں میں کام کر کے وہ مویشیوں کا خیال رکھتا ہے میں نے کچھ نہیں بولا علی بخش کا جوان بیٹا اپنی دکان میں روزگار کر رہا تھا اُسے بھی خاکی وردی والے لے اُڑے اُسکا باپ بھی بہت رو رہا تھا میں کچھ نہیں بولا ،مختار کالج کی چھٹیاں گزارنے اور عید منانے اپنے آبائی گاؤں آرہا تھا کہ گھر پہنچنے سے پہلے وہ ہمیشہ کے لئے لاپتہ ہوگیا ۔اُسکا گھر بھی ماتم کدہ بن گیا ،جمعے کی نماز سے فارغ ہوکر عبداللہ جب مسجد سے باہر نکلا تو خاکی وردی والے اسکی آنکھوں پہ سیاہ پٹی باندھ کر اُسے لے گئے ۔ اُسکی ماں روز فوجی کیمپ کے سامنے جاکر واویلا کرتی ہے روتی ہے چیختی ہے چِلاتی ہے بلکتی ہے ۔میں نے کچھ نہیں کہنا کیونکہ کسی کو بھی کچھ نہیں کہنا ہے ڈاکٹر اغواہوئے ،انجینئر کو گولی مار دی گئی، پروفیسر کے گھر میں گولیوں سے چھلنی اسکی لاش ملی،بوڑھے بچے جوان مرد عورت سب اغواء ہو رہے ہیں مارے جارہے ہیں سب چُپ ہیں شاعر ،دانشور، پریس سب خاموش ہیں تو میں کیوں بولوں ؟ بلوچستان کے تمام علاقے ہر گھر گاؤں کے گاؤں سرکاری فوج کی طرف سے جلائے جارہے ہیں مسمار کئے جارہے ہیں کوئی کچھ نہیں کہتا، پھرمیں بھی خاموش ہوں ،کیونکہ مسجد کا مُلا جمعے کے خطبے میں اسرئیل کا تذکرہ ضرور کرتا ہے پانچ سو سال پہلے مذہبی جنگوں کا ذکر زور شور سے کرتا ہے مگر اپنے آس پاس کے ہونے والی مظالم پہ چُپ کا روزہ رکھا ہے کسی بھی واقع کو زبان پہ لانا گناہِ کبیرہ تصور کرتا ہے ۔ علاقے کا پارلیمانی لیڈر دو ہزار سال پہلے کے ہونے والے مظالم پر بحث کرتا ہے مگرآج کی تاریخ پہ نہ بولنے کی سوگند کھاچکا ہے تو میں کیوں بولوں ؟؟میرے تو ہمسائے کا گھر جلا ہے میرے علاقے کے لوگوں کے گھروں کو راکٹ سے داغاگیاہے ان سے مجھے کیا غرض؟؟ منیر بادینی نے اپنے ناول،،،چُپی ءَ ھچ نامے نہ بیت،،میں کہا تھا کہ خاموشی بھی جُرم ہے اور اسکی سزا موت ہے ھاھاھاھا ۔۔۔یہ کہاں کا قانون ہے کہ خاموشی بھی جُرم ہے ہمیں تو سکھایا گیا تھا کہ خاموشی عبادت ہے ،دانشور بھی چُپ شاعر بھی چُپ لیڈر بھی چُپ ،تو مجھے کیوں کچھ کہنا چاہیئے ….میرے لئے جرم باقی لوگوں کے لئے عبادت۔۔۔۔۔؟بہتر یہی ہے کہ میں بھی عبادت میں رہوں تاکہ میری بھی آخرت خوار نہ ہو۔ میں کیوں اپنی زندگی کو مشکل میں ڈالوں مجھے کیا غرض قمیصہ کے جوان بیٹے سے؟جسطرح مسجد کے پیش امام کوپروفیسر کے قتل سے زیادہ اسرائیلی مسلمان اہم دکھتے ہیں تو میں کیوں اپنے اردگرد کو اپنے لئے خطرآلود بنا ڈالوں ،اس لئے مجھے کچھ نہیں کہنا ہے جتنے لوگ اغواء ہوں جتنے سر کٹیں جتنی بمبارمنٹ ہوجائے مجھے تو اپنی ٹوپی بچائے رکھنا ہے یہ بات بھی مسجد کے مولوی نے سکھائی تھی۔ پھر سینیٹر حضور بخش نے اپنے جلسے میں خوب کہا تھا کہ سنگ سر کہاں لڑا ئی جا سکتی ہیں ،،اس لئے مجھے کچھ نہیں کہنا ہے کیونکہ میں ایک ایسے سماج میں رہتا ہوں کہ سب نے منافقت کا لباس پہنا ہے ۔مذہبی لوگوں نے قرانی آیات کے اپنے مقاصد کے تحت تراجم کیئے ہیں ۔دانشوروں نے فلسفے کو نیا لباس پہنایا ہے اور لکھنے والوں نے لفظوں کے معنی بدل دیئے ہیں۔منیر بادینی تو شاید پاگل ہے دانشوروں کی خاموشی کو جُرم قرار دیتا ہے ظُلم کے خلاف چُپ رہنے اور مظالم کو دیکھ کے خاموش رہنے والے کو مولوی صاحب نے عبادت کے خانے میں رکھا ہے تو میں اکیلا کیوں گناہ گار بن جاؤں ،یہ کہاں کی دانشمندی ہے؟؟اس لئے میرا بھی خاموش رہنا میرے لئے اور میری زندگی کے لئے بہتر ہے۔اسی لئے میں نے کچھ نہیں کہنا ہے اگر میں کچھ کہتا تو ضرور کھیتوں میں کام کرنے والے قمیصہ کو یہ بول دیتا کہ بھلا تمہارے بیٹے کو سیاست سے کوئی سروکار نہ ہو اسکا تعلیم یافتہ یا اَن پڑھ ہونا کوئی معنی نہیں رکھتا مگر وہ اس سرزمین کا وارث ہے اس مٹی سے جنما ہوا بلوچ ہے دشمن نام لیکر اپنے دل کی ہوس پوری نہیں کرتا ان کے لئے بلوچ ہونا کافی ہے اگر میں کچھ کہتا تو جمعے کے دن مسجد میں خطاب کرنے والے مولوی کے کانوں میں یہ بات ضرور ڈال دیتا کہ اپنے اردگرد کے مظالم سے آنکھیں چُرانا،یا لب چوری کرنا تمام مذاہب میں حرام ہے،اور ظلم کے خلاف چُپ رہنا یا خاموش رہنا ظلم کرنے کے مترادف ہے، یہ اسلامی قوانین کے اہم ترین قوانین میں سے ایک ہے ۔۔۔مگر مجھے کیا غرض مولوی اور اسکے خطبات سے؟ کیونکہ مجھے کچھ کہنا ہی نہیں ہے ، مختار کے ابو کو کس نے کہا تھا کہ اپنے بیٹے کو کالج میں پڑھاؤ ،عبداللہ کو اتنی عقل نہیں کہ نماز پڑھنے کے لئے مسجد میں میں کیوں گیا ، نہ وہ دکان میں ہوتا، نہ وہ کالج میں پڑھتا نہ ہی وہ نماز گھر میں پڑھتا اور ناہی ان کے والدین انکو پیدا کرتے ، تب یہ اغواء ہوتے ؟؟؟ہر گز نہیں پروفیسر کو کس نے کہا کہ گھر میں رہو اس وقت؟؟؟ مفت میں فوج کو بدنام کرنے کرے والی باتین ہیں اپنا قصور نہیں دیکھتے ۔۔ان حالات میں بھلا میں کیا بول سکتا ہوں ؟اس لئے میں نے بھی فیصلہ کیا ہے کہ میں نے کچھ نہیں بولنا ہے فرض کریں اگر میں آنکھ بند کر کے بول بھی دیتا تو یہ ضرور بولتا کہ کہ دشمن ایک غیر انسانی فوج ہے جو ہمیشہ جنگی قوانین کی توہین کر کے جنگ لڑتی ہے، انسانی حقوق کی رواداری کے خلاف غیر انسانی حرکتوں سے اپنے اندر کی آگ کو ٹھنڈک بخشتی ہے،ہر بلوچ مجرم ہے، اس میں عمر نسل یا جنس کی کوئی قید نہیں ،جب کوئی دشمن نسل کشی پہ اُتر آئے تو اسکے لئے ہر فارمولا اور غیر انسانی عمل درست لگتا ہے وہ بلوچ سے لڑ رہا ہے بلوچ کی نسل کشی پہ تُلا ہو ہے ،ہر ہتھیار استعمال کرنے میں کبھی پس وپیش نہیں کرتا،کیونکہ اسے بلوچ کی نہیں بلوچستان کی ضرورت ہے۔مگر میں کیوں ایسے معاملات میں کچھ کہوں؟اس لئے مجھے کچھ نہیں کہنا ہے۔ ووٹ مانگنے والے پارلیمانی لیڈر نے کیا خوب کہا تھا کہ جب سر مچار فوجیوں پر حملہ کرتے ہیں تو پھر فوج عوام پہ اپنا غصہ اتارتی ہے گھروں کو مسمار کرتی ہے بچوں اور عورتوں کا قتل ہو جاتا ہے ۔۔بجا فرمایا ہے جناب نے کیونکہ ہماری عورتیں سرمچاروں کی ہی ماں بہنیں ہیں اور بچے بھی انھی کے بھائی اور بچے ہیں اسمیں فوج کا کیا قصور؟ ابھی آپ خود اندازہ کر لیں کہ میں اس پارلیمانی لیڈر کے جواب میں کیا کہتا؟ اور میں کیوں کچھ کہوں ؟اگر مجھے کچھ کہنا ہوتا تو میں اس لیڈر کے کان پکڑ کر اسے سات سالہ بچے کی لاش کے پاس لے جاتا اور دکھاتا کہ اس بچے کے گھر میں نو انسانوں کی موت ہوئی ہے اور وہ بھی ٹکڑے ٹکڑے ہوئے ہیں اور یہ سات سالہ بچی بھی بارود کی آگ میں پوری طرح جل کر مری ہے صرف ایک تیرہ سالہ لڑکی اپاہج بن کر زندہ بچ گئی ہے اسے اب تم گولی مار کر ہلاک کر دو کیونکہ اب یہ چلنے پھرنے کے قابل نہیں رہی اور اسے سہارہ دینے کے لئے اس کے خاندان میں کوئی زندہ بچا ہی نہیں۔اب یہ کس طرح کی اذیتوں میں اپنی زندگی گزاریگی تم سو جنم لیکر بھی اندازہ نہیں کر پاؤگے کہ اب یہ کس طرح کی مشکلات میں زندگی بسر کرنے کو جارہی ہے ۔مگر میں نے کچھ نہیں کہا کیونکہ مجھے کچھ نہیں کہنا ہے ۔ اگر چاہتا تو جلسے میں کھڑے جناب سے مائیک چھین کر اپنے لوگوں سے یہ ضرور کہتا کہ اب کسی بھی بلوچ کے پاس جنگ نہ کرنے کا کوئی آپشن نہیں رہا ہے ایسا نہیں ہے کہ تم جنگ نہیں کروگے تو زندہ بچ جاؤگے ، زندہ رہنا ہے تو جنگ لڑنی ہوگی، میں دو ٹوک الفاظ میں ضرور کہتا کہ بلوچ کے وجود کی جنگ ہے، لڑوگے نہیں تو صفحہ ہستی سے مٹ جاؤگے۔ پارلیمنٹ کے عاشق فکری ہیجڑوں کے ذہن میں یہ بات بڑی آسانی سے ڈال دیتے ہیں کہ سرمچار ہماری قومی جنگ لڑ رہے ہیں بی ایل اے ،ہماری قومی آرمی ہے ،وہ تم لوگوں کی طرح پانچ سال کی آسائش،ائیر کنڈیشن والی گاڑی اور نوٹ برسانے والی کرسی کے لئے نہیں لڑ رہے ہیں وہ اپنے دھرتی کی ننگ و ناموس کے لئے لڑ رہے ہیں ۔دنیا کے ہر بلوچ کے لئے لڑ رہے ہیں جو دنیا کے کسی بھی خطے میں پیدا ہوئے ہوں اور ان تمام بلوچ کے لئے لڑ رہے ہیں جو ابھی تک پیدا نہیں ہوئے ہیں۔جو آنے والے لاکھوں کروڑوں سالوں میں دنیا میں آنے والے ہیں ۔بلکہ ہر بلوچ کی سلامتی کے لیے لڑ رہے ہیں ،ٹارچر سِیلوں میں کٹے جارہے ہیں ،ڈرل مشینوں سے انکے جسموں پرسوراخ کئے جارہے ہیں ،زندہ جلائے جارہے ہیں ،گولیوں سے چھلنی جسموں کو برداشت کر تے ہوے مرتے جارہے ہیں ،لڑتے جارہے ہیں۔بِنا کسی ڈیمانڈ کے ،بغیر کسی خواہش کے ،بھوک اور پیاس کی شدت ،گرمی اور سردی، بارش اور طوفان میں اذیتیں سہہ کر اپنے بلوچ قوم کی ننگ وناموس کے لئے لڑ رہے ہیں ۔پہاڑوں میں پڑے ہیں یا جیل خانوں میں ،مگر باہمت ہیں حوصلہ مند ہیں ۔کوئی لرزش، کوئی خوف انکے چہروں سے عیاں نہیں کیونکہ وہ سچائی اور حق کے لیے اپنا فرض نبھا رہے ہیں اس مٹی کی تشنگی کو اپنا لہو دیکر سیراب کر رہے ہیں۔ آزادی کے سپاہی ہیں اور یہ جنگ اب فیصلہ کن جنگ ہوگی ،لڑوگے تو ہمیشہ کے لئے اپنی دھرتی پہ اپنے نام کے ساتھ دنیا کی تاریخ میں زندہ رہوگے،نہیں لڑوگے تو اسی طرح مارے جاؤگے اُٹھائے جاؤگے ۔کیونکہ کوئی بھی بلوچ چاہے وہ کسی بھی شعبے سے منسلک ہو جس عمر کا ہے وہ جنگ کا حصہ بن چکا ہے ۔۔ مگر میں ان باتوں کا ذکر کیوں کرتا؟ اس لئے میں نے کچھ نہیں بولا کیونکہ مجھے کچھ نہیں کہنا ہے میں نے یہ بھی نہیں بولا کہ جنگ قومی ہو یا مذ ہبی،ہر جنگ میں جنگی سپاہیوں کو اپنے قوم سے اپنے لوگوں سے حوصلہ درکار ہوتاہے، ہمت افزائی کی ضرورت ہوتی ہے،دادو تحسین کی خواہش ہوتی ہے ۔وہ اپنے جان کی بازی لگا کے طوفانی سرد،گرم جسمانی اذیتوں کو خود سہتے ہیں،ان حالات میں صرف ایک مورل سپورٹ ہی اُنھیں چارج کرسکتاہے ،زندہ رکھ سکتا ہے ،اور تونائی بخش سکتا ہے ۔ انڈیا اور پاکستان کی جنگ میں پاکستانی سرکار نے جنگ جیتنے کا اعزاز کیوں حمید اختر اور نور جہاں کو دیا؟کیا وہ بندوق لیکر مورچوں میں تھے یا جنگی جہازوں سے بمباری کر رہے تھے ،بلکہ وہ اپنے جنگی سپاہیوں کو داد تحسین پیش کر رہے تھے ،گیت ،سنگیت میں انکے حوصلے بڑھارے تھے۔ حمید اختر ریڈیو چینل میں انکا ساتھ دے رہا تھا ،مگر ان باتوں کو کون سمجھے؟ اسی لئے میں نے کچھ کہنے سے کچھ بھی نہ کہنے کو اپنی صحت کے لئے بہتر سمجھا او کچھ نہیں کہا،اگر مجھے بولنا ہوتا تو میں اُن لوگوں کو ضرور بول دیتا کہ کہ اس محاورے کو بھی غلط استعمال کر رہے ہو کہ سنگ سرلڑی نہیں جاسکتی،یہ سچ ہے کہ سنگ سر لڑائی نہیں جا سکتی ہیں مگر کیس کو اُلٹا کر کے پیش کر کے خود کو بری الذمہ قرار دینے کا آسان طریقہ ہے ۔خوانخوا دشمن فوج کو سنگدل بنا کے پیش کر رہے ہو ، در اصل قوم اور عوام سب سے بڑی طاقت ہوتے ہیں، ریاستوں کو اُلٹ پلٹ کر دینے کی قوت رکھتے ہیں اس لیے یہاں سنگ تو قوم کو ہونا چاہیئے ،مگر انکے سامنے چپ رہنا میں نے دانشمندی سمجھا اور چُپ رہا۔۔ سوچ رہا تھاکہ شاعروں ،گلوکاروں،کسانوں،مزدوروں،ملاؤں،تاجروں،طالب علموں اور زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے بلوچ لوگوں سے کہوں کہ ہماری قومی آرمی ہماری بقاء کی جنگ لڑ رہی ہے اور قوم کے ہر فرد کی اخلاقی اور قومی ذمہ داری ہے کہ انکی سپورٹ کرے ، زندگی کو تمام آسائشوں سے محروم کر کے ،محض قومی جزبے کے تحت کسی ایسے دشمن سے اپنی قومی آادی کی جنگ لڑ رہے ہیں کہ جو جنگی قوانین سے نابلد انسانی تقدس سے محروم ایک وحشی دشمن فوج ہے ،جنگی قیدیوں کے ساتھ غیر انسانی رویہ سے ظلم کرنا ،اور معصوم بچوں کو اپنی طاقت سے کچلنا ،انسانی حقوق کو پاؤں تلے روندنا اسکا شیوہ ہے۔ ہمارے لوگوں کو درندگی کے ساتھ شہید کرنا اور اُنھیں مختلف کربناک اذیتوں سے دو چار کر کے اپنے من کو سکون دینا اسکی فطرت میں شامل ہے ،پھر بھی ہمارے سرمچار بڑی دیدہ دلیری سے بنا خوف کے اسکا مقابلہ کر رہے ہیں،قومی جزبے سے سرشار، بنا خوف کے اپنی آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں وطن کی خاتر مر رہے ہیں۔ اپنی مٹی، اپنی دھرتی کی خاطر ہر قسم کی مشکلات اور اذیتون کا سامنا کر رہے ہیں اور یہ جنگ ہر گلی کوچوں میں رقص پنہاں ہے ۔یہ ہر بلوچ کی جنگ ہے جسے ملکر لڑنا ہے ۔ہر کسی کو اس جنگ میں اپنا اپنا کردار نبھانا ہوگا ،یہ آگاہی ہوگی تب ذمہ داریاں جاگ جائیں گی کیونکہ ذمہ دار قومیں کبھی شکست نہیں کھاتیں مگر مجھے کچھ نہیں کہنا تھا سو میں نے کچھ بھی نہیں کہا۔۔بقول فیض احمد فیض ۔۔ اُن سے جو کہنے گئے تھے فیض جان صدقہ کئے اَن کہی ہی رہ گئی وہ بات سب باتوں کے بعد