تحریر :حفیظ حسن آبادی
( دو شیروں کو آپس میں مت لڑائیں کہ گیدڑ آپ پر راج کریں.)
پختون خواہ میپ کے سربراہ محمود خان اچکزئی صاحب آپ سیاسی طور پر بلندیوں پر جانا چاہتے ہیں تو جائیں اور ضرور جائیں کیونکہ آپ ایک بہت ہی زحمت کش قوم کی سربراہی کا دعویٰ کرتے ہیں مگر ان کامیابیوں کیلئے بلوچوں کو کچل کر جانے کی ضد دانشمندانہ نہیں . کیونکہ اگر آپ پنجابی کی مدد سے ایک “سیال”(بلوچ) کو کچل کر جائیں گے تو آگے آپ کو بلندی نہیں بلکہ بدترین پستی ملے گی اور جسکی خوشنودی کیلئے آپ بلوچ کو کچل کر گزریں گے تب وہ آپ کو گلے نہیں لگائے گا بلکہ عین بلوچ کی طرح یا اس سے بھی بدتریں طرز پر کچل دے گا.
بلوچوں اور پشتونوں کا آپس میں کوئی مسئلہ ہے ہی نہیں یہ آپ لوگ(بلوچ اور پشتون قوم پرستی کا نام لینے والے سیاست دان ) ہی ہیں جو ہر پانچ سال بعد جب الیکشن قریب آتے ہیں بلوچ پشتون دشمنی کی چنگاری سلگا کے اُس کو ہوا دیتے ہیں.
آپ اکثر الگ صوبہ اور بلوچستان کی تقسیم کی بات کرتے ہیں لیکن آپ کو اس سے پہلے یہ بتانا ہوگا کہ آپ انگریزوں اور افغانستان کے حکمرانوں کے درمیان مجموعی معاہدوں کو کس نظر سے دیکھتے ہیں خاص کر معاہدہ گندمک (1879/1880)اور مسٹر مورٹیمر ڈیورنڈ کے 1893 کے برٹش راج اور افغان امیر کے درمیان سرحدی حد بندی کے معاہدے پر کیا رائے رکھتے ہیں؟
آسان لفظوں میں سوال ہو تو استفسار ہے کہ آپ ڈیورنڈ لائن کو مانتے ہیں کہ نہیں؟ کیوں کہ اگر آپ اس فرضی خط کو مانتے ہیں تو آپ کو بلوچستان کے تقسیم کی بات نہیں کرنی چاہیے کیونکہ اس خط کے دو اہم فریق بلوچ اور افغان (افغانستان) اس انگریزی حدبندی کو تسلیم نہیں کرتے یہاں تک کہ شہید ڈاکٹر نجیب اللہ نے موت کو گلے لگایا مگر اس ڈیورنڈ لائن کو قبول نہیں کیا اس سے پہلے اور بعد میں آنے والے کسی افغان حاکم نے اسے قبول نہیں کیا. آپ کو جس(افغانستان) سے الگ کیا گیا تھا وہ یہ تقسیم نہیں مانتا اور جس(بلوچستان) کے ساتھ آپ کو ملایا گیا ہے وہ بھی اس انگریزی کتروبرید کو نہیں مانتا تو پھر آپ کس تاریخی بنیاد پر ایسا مطالبہ رکھتے ہیں. اگر آپ اس فرضی خط کو نہیں مانتے تو کم از کم بلوچ اور افغان (افغانستان) دونوں آپکی اس موقف کی تائید و حمایت کرتے ہیں اس صورت میں بھی بات یہاں آکر رکتی ہے کہ پہلے یہ مسئلہ حل ہو بعد میں آپ جو درمیان میں ہیں آپ کا مقدمہ پیش ہو گا. جہاں تک بلوچ قیادت کی بات ہے انھوں نے کبھی بھی پشتونوں کو اپنے ساتھ جبراً رکھنے یا نہ رکھنے کی بات نہیں کی ہے بلکہ حیربیار مری نے کئی بار اس سوال کے جواب میں کہ “اگر بلوچستان آزاد ہو گیا تو وہاں پشتونوں کا کیا ہوگا؟” تو انھوں نے انتہائی شفاف انداز میں کہا ہے کہ “پشتون اپنے زمین پر رہ رہے ہیں ہم اپنی زمین پر.
پشتونوں کو انگریز نے اپنی تقسیم کرو اور حکومت کرو پالیسی کے تحت افغانستان سے جدا کر کے ہمارے ساتھ ملایا ہے اسی طرح بلوچ علاقوں کو ایران و افغانستان کے ساتھ شامل کیا ہے .
بلوچستان کے آزادی کے بعد پشتونوں کو ہماری طرف سے مکمّل آزادی ہوگی وہ ہمارے ساتھ رہنا چاہیں ہمیں کوئی اعتراض نہیں وہ ہمارے ساتھ بخوشی رہ سکتے ہیں اگر وہ اپنے تاریخی وطن افغانستان کے ساتھ جانا چاہتے ہیں ہم انھیں نہیں روکیں گے وہ خیبر پشتون خواہ و دیگر پشتونوں کے ساتھ رہنے کا فیصلہ کریں گے یا بالکل آزاد رہنا چاہتے ہیں ہم اُن کے ہر فیصلے کو قدر کی نگاہ سے دیکھیں گے ہماری طرف سے انکی راہ میں کوئی امر مانع نہیں”.
جہاں تک افغانستان کی بات ہے وہ اپنے فیصلے کے مختار ہیں اگر وہ آپ کو واپس اپنے ساتھ ملاتے ہیں یا آپ کو کسی ریفرنڈم کا حق دیتے ہیں کہ نہیں اس پر کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا.
جہاں تک برٹش بلوچستان کی بات ہے کہ جس کا ذکر آپ اکثر چھیڑتے رہتے ہیں یہاں بھی آپ کو تاریخی طور پر کچھ نہیں حاصل ہونے والا کیونکہ 1876 کو انگریز نے کوئٹہ، نصیر آباد، نوشکی بولان، جیکب آباد
خان آف قلات سے 99 سال کے لئے لیز پر لیا بعد میں سبی کے بلوچ نشین علاقے بلوچوں کے حاکم خان قلات سے لیکر متذکرہ علاقوں کے ساتھ شامل کیا جبکہ ژوب، پشین اور سبی کا انتظامی حصہ بننے والے لورالائی، ہرنائی اور بارکھان کے علاقے افغانستان کے شاہ سے لیز پر لئے. 1887 کو برٹش بلوچستان کی تشکیل کا عمل شروع ہوا مگر اس میں 1899 تک نئے علاقے شامل کیے جاتے رہے . افغانستان کے امیر اور خان قلات کے علاوہ انگریز نے سنجرانی، مری اور بگٹی سربراہان سے معاہدات کئے جن کے نتیجے میں چاغی کا مغربی حصہ اور مری بگٹی کے علاقے برٹش بلوچستان میں شامل کئے گئے اس سب میں انگریزوں کی ریشہ دوانیاں اور افغان اور بلوچ حاکموں کی بے بسی نظر آتی ہے جو وہ نہ چاہتے ہوئے بھی اپنے اپنے وطن کو قوم سمیت انگریز کے ہاتھوں ٹکڑوں میں تقسیم ہوتا دیکھتے رہے جس بولان پر آپ حق جتانے کی بات کرتے ہیں اس کا معاہدہ بھی انگریز خان قلات سے کرتا ہے اور اسے ہر سال لیز کی رقم ادا کرتا رہا ہے. انگریز نے سازش کے تحت بلوچ اور افغان قوتوں کو کمزور کرنے اور اپنا اثر و رسوخ بڑھانے برٹش بلوچستان (برٹش جنوبی پشتونخوا نہیں) بنایا.
یہاں یہ کہنے کی ہرگز ضرورت کہ آپ کتنے الجھ گئے ہیں کہ افغانستان جہاں سے آپ کو الگ کیا گیا تھا آپ واپس وہاں جانا نہیں چاہتے(یہ بات یقینی کہ اگر افغانستان امیر ہوگیا تو آپ کا ارادہ بدل سکتا ہے) اور بلوچستان جس کے ساتھ آپ کو ملایا گیا ہے آپ یہاں بلوچوں کے ساتھ رہنا نہیں چاہتے روز آپ کی طرف سے نئی دھمکی آمیز بیان آتی ہے.
آپ نے الگ ہونا ہے اور اگر باقی پشتون بھی آپکی اس سوچ کے حامی ہیں تو جی بسم اللہ جو زمین آپ کو افغانستان کا بازو کاٹ کر انگریز نے عطا کی ہے اُسے صوبہ نہیں بلکہ آزاد ریاست بنائیے بلوچ قوم کو کوئی اعتراض نہیں لیکن توسیع پسندی سے کام لیکر انگریز کی سازش کو جواز اور اپنی دلیل کی بنیاد نہ بنائیے کیونکہ برٹش بلوچستان جس مقصد کیلئے بنایا گیا تھا اس کا ذکر اوپر ہوچکا. دوسری اور تیسری افغان برٹش جنگ(1878، 1880/1919)میں برٹش بلوچستان کے مرکز کوئٹہ میں انگریزوں کے بنائے ہوئے چھاونی کے کردار سے تاریخ کا ہر طالب علم واقف ہے. آپ کیسے افغان سیاستدان (لیڈر نہیں) ہیں جو اپنی قوم کے زیر کرنے کے انگریزی سازش و منافقت کو پھر سے بلوچوں اور افغانوں کو تقسیم کرنے کی صورت میں دیکھنا چاہتے ہیں؟.
پشتونوں اور بلوچوں کا ایک دشمن ہے جس نے انھیں غلام و دست نگر بنایا ہے مگر آپ بلوچوں کے ساتھ ملکر راہ نجات تلاش کرنے کے بجائے اس کی ٹانگ کھینچ کر دشمن کی خوشنودی کیلئے دو مظلوم و مجبور اقوام کو آپس میں دست و گریبان کرنے کی راہ ہموار کرنے کا رویہ اپنائے ہوئے ہیں.
کیا عجیب منطق ہے کہ آپ اس سے برابری اور حق مانگتے ہیں کہ جس کو خود برابری کے بجائے اپنے بچوں کی گمشدگیاں اور حقوق کے بجائے مسخ شدہ لاشیں مل رہی ہیں اور جس کی نازنین بیٹیاں اپنے پیاروں کی بازیابی کیلئے در در کی ٹھوکریں کھا رہی ہیں.
بلوچ اس وقت اپنی مکمل آزادی کیلئے جس دلیری سے لڑ رہا اور قربانی دے رہا ہے بحیثیت ہمسایہ آپ کیلئے بہتر ہوتا کہ آپ اسکی مدد کرتے مگر آپ مدد کے بجائے اس کے آزادی کی جنگ کو پاکستانی پارلیمانی نلکا نالی کے حصول کے نام پر فنڈز کی خوردبرد، اقربہ پروری و موقع پرستی کی سیاست سے گڈمڈ کرکے زیادتی کررہے ہیں. آپ کے مسلسل نفرت انگیز بیانات سے ایسے لگتا ہے کہ اگر آپ کو طاقت ملے تو آپ یہودی لیڈر نتن یایو کی طرح قہر بن کر سب سے پہلے بولان کو فتح کر کے بلوچ کی نسل کو ہی مٹا دیں گے مگر یاد رکھنا ممکن ہے کہ آپ نتن یایو بن بھی جائیں مگر بولان غزہ نہیں.
حرف آخر : بلوچ پشتون کیساتھ اور یقیناً پشتون بلوچ کیساتھ امن و آشتی کیساتھ رہنا چاہتے ہیں بلوچ مستقبل میں پشتون علاقوں سے گزر کر سینٹرل ایشیا تک بلا خوف تجارت کرنے اور اپنے وطن کو خوشحال کرنے کی متمنی ہے اور پشتون جو آج گوادر، پسنی میں دیگر سرگرمیوں سمیت ماہی گیری کے کام سے بھی منسلک ہے اور لکپاس سے اُتر کر تفتان اور حب چوکی تک رخشان سے لیکر جھلاوان و مکران تک بلوچوں کے درمیان رہ کر اطمنان سے روزی روٹی کما رہا ہے نہیں چاہتا ہے کہ کوئی اُسے نفرت کی نگاہ سے دیکھے یا اسکی معمول کی زندگی میں رکاوٹیں پیدا ہوں .
یہ جو آپ کر رہے ہیں اس سے آپ جیسے ووٹ مانگنے والے بلوچ و پشتون سیاستدانوں کا کچھ نہیں بگڑے گا اگر بگڑے گا تو اُن مظلوم بلوچ و پشتونوں کا جو آپ لوگوں کے غیر زمہ دارانہ بیانات سے دست و گریبان ہوں گے. وہ طبقہ متاثر ہو گا جن کے نام پر آپ چند بلوچ و چند پشتون پاکستانی پارلیمان میں نام نہاد قوم پرستی کے نام پرحقوق لینے کے بجائے باقی سب کچھ کرتے ہو …..”