کسی بھی سیاسی یا مسلح آزادی پسند تنظیم کی ترجمان اسی تنظیم کی مجموعی “شناخت” کی مانند ہوتی ہے۔جب کسی موضوع وقت ،حالات واقعات پر کسی قسم کے سیاسی سرگرمی،مزاحمتی کاروائی، مقامی ،عالمی سیاسی تبدیلیوں،تنظیمی مسئلوں بابت اور حکمت عملی پر کسی بھی تنظیم کی مرکزی ترجمان کی پالیسی بیان آجائے وہ پالیسی بیان اس وقت متنازعہ یا غیر متنازعہ ہواوراس سے جڑے باقاعدہ کارکن،عہدیدار اور مرکزی قیادت وہ سب کچھ دیکھتے ہوئے عظیم تر قومی مفاد اور تنظیمی ساکھ کی نقصان و فائدہ کا ادراک ہوتے ہوئے بھی خاموش ہوجائے تو عوام اچھا یا برا دیکھ کر یہ سوچھنے میں حق بجانب ہوگا کہ اس تنظیم کی مجموعی باڈی کا یہی دانستہ سوچ و حکمت عملی ہی ہوگا ۔ جس میں اچھے، برے لائق ،نالائق سنجیدہ،غیرسنجیدہ حتی کہ مرکزی سطح کے زمہداروں کا حال و زہنی سطح میں یکسانیت ہوگا۔کسی بھی سیاسی تنظیم کیلئے ان کی تنظیمی جہد کے دوران سرانجام دینے والے کاروائیوں سیاسی سرگرمیوں کو اپنے عوام اور خارجی دنیا تک پہنچانے کا اہم زریعہ ان کا مرکزی میڈیا ترجمان ہوتا ہے۔تاکہ وہ اپنے طے شدہ پروگرام یا اس مخصوص معروضی مسئلے کو عوام اور بیرونی دنیا تک کامیابی کے ساتھ پہنچا کر اپنے تنظیمی پروگرام کی راست گوئی کے ساتھ درست تشہیر کرکے عوام کو اعتماد میں لےکر تنظیمی پالیسی اورقومی مفاد کا دفاع کرکےعوام کو اس قومی پروگرام میں اعتماد کے ساتھ لے چلے ۔موجودہ دور میں بلوچستان کے سیاسی حالات سے عوام کو باخبر رکھنا کسی بھی تنظیم کیلئے سب سے اہم زمہداری اور مشکل ٹاسک ہوتا ہے۔ دنیا کے کسی بھی حصے میں ہونے والے تبدیلی کی اصل وسیع طاقت عوام کے پاس ہی ہوتی ہیں۔لیکن اس طاقت کو اس صورت میں کسی بھی قسم کے سیاسی تبدیلی کیلئے بہتر انداز سے کام میں لایا جاسکتا یے جب عوام کو اصل صورتحال سے باخبر رکھ کر ان کے ساتھ سنجیدہ رویہ اپنا کر راست گوئی کے ساتھ انھیں اعتماد میں لے کر باخبر رکھا جائے اور ان کی اعتماد کو جھوٹ نہ بول کر کسی بھی وقت متزلزل نہ کیا جائے۔ وگرنہ اس عوامی رشتے اور اعتماد کو غیر سنجدیدگی کی صورت میں تعلق قائم رکھنا مشکل یا ناممکن بن سکتاہے۔
اب ہم آتے ہے اصل موضوع کی جانب بلوچ سیاسی ومزاحمتی عمل میں برسراےپیکار مزاحمتی تنظیم بی ایل ایف کی حالیہ سرنڈرشدہ سابقہ ساتھی “جگو” کی قتل جس میں بی ایل ایف کے مرکزی ترجمان نے جلدبازی میں ایک تیر سے دو شکار ناکام طریقے سے کیھلنے کی کوشش کی۔اس عمل سے عوام کے اندر انھوں نے ماضی قریب کی طرح اپنی اصلیت کو مزید واضع کردی۔بغیر تحقیق اس واقع کی اسکورنگ کی خاطر قبولیت اور کسی آزادی پسند سنگت سے زاتی بغض کی بناء پر فورابدنیتی سے اس کی کردار کشی شروع کی گئی۔جس کے فوری بعد میں ایک دوسرے مسلح آزادی پسند تنظیم کی مرکزی ترجمان نے اس کاروائی کو قبول کرکے یہ کہا کہ یہ کاروائی ان کی اپنی تھی نہ کہ بی ایل ایف کی ۔ جسے دروغ گوئی اوربغیر تحقیق سے بی ایل ایف کے مرکزی ترجمان گہرام صاحب نے اپنے نام سے قبول کیا تھا۔بی ایل ایف کے سوشل میڈیا بیانات ہمدردوں اور کارکنوں کی اکثر اس بات کے دعویدار رہی ہیں کہ ان کا تنظیمی ساخت اور پالیسیز سائنسی بنیادوں پر استوار ہے۔جو کہ مکمل انقلابی،جمہوری وغیرہ کے اصولوں پر مبنی ہے۔جبکہ حقیقت میں ایسا کچھ دکھائی نہیں دے رہا۔اگر باقی کو چھوڑ کر صرف حالیہ “جگو”واقع کے رونما ہونے کے بعد یہ لوگ تحقیق کرتے یا کم ازکم انتظار و صبر سے کام لیتے اس میں انھیں پوائنٹ اسکورنگ کے علاوہ کس بات کی جلدی تھی جو وہ عوام اور بیرونی دنیا سے جھوٹ بولنے کے مرتکب ہوئے؟اور ساتھ ہی ساتھ کچھ افرادنے اپنی زاتی بغض کیلئےتنظیمی ترجمان کو استعمال کیا۔اس واقع کو دیکھ کر کسی مخلص سیاسی کارکن کے زہن میں یہ سوال ضرور پیدا ہوگا کہ اس جیسے واقع کی قبولیت میں دروغ گوئی اور ایک آزادی پسند شخصیت کی خوامخواہ میں کیوں کردار کشی کی گئی؟اس وقت وہ اپنے اس تنظیم جو کہ بلوچستان کی آزادی کے دعویدار ہے جس میں بے شمار مخلص مگر بے اختیار کارکنوں کی محنت،لگن،خلوص،اورشہیدوں کی بے لوث قربانی شامل ہوگی ایسے کارکن اپنے تنظیمی ترجمان کی یوں بے دھڑک غلط استعمال پر آخر کیوں مجرمانہ خاموشی اختیار کیئے ہوئے ہیں۔؟ان کی خاموشی یا بے بسی چہ معنی داری؟
دوسرے آزادی پسند سیاسی کارکن اور بیرونی دنیا بشمول میڈیا سے جڑے کارکن ایسے کارکنوں کی خاموشی کو کیا سمجھے۔؟مجرمانہ خاموشی یا بے بسی؟اگر مجرمانہ خاموشی تو ان کی اس قومی آزادی کی جدوجہد میں قومی عمل کو کیوں ایسا رخ دیا گیا جس میں ان کاواک واختیار نہ ہونے کے برابراگرہے بس تو ان کا اداراجاتی وجمہوری فیصلے ،سائنسی بنیاد وغیرہ کا یہ عالم توبہ صد توبہ ۔! ان مخلص مگر بے بس کارکنوں کی محنت و جہد کو ایک مخصوص لابی نے تنظیم کو مکمل طور پر یرغمال بنایا ہوگا۔جس کیلئے لازم ہے کہ ایسے کارکن ان لوگوں کو ایسے غلط فیصلوں پر تنبیع کرکے لگام دے وگرنہ مشکلات کے زیادہ ہونے پر اپنے جمہوری فیصلے کی پاسداری کرتے ہوئے ایسے احمقانہ فیصلے جس سے قوم دشمنی واضع ہوان پرباہر میڈیا اور درون خانہ سیاسی نشستوں میں ہم خیال دوستوں کو ساتھ ملا کر ان بے لگام بلوچ دشمن عمل اعمال کرنے والی قوتوں پر دباو کو مسلسل بڑھانا چائیے۔تب ہی آگے چل کر یہ ممکن ہوسکے گا کہ ان کی تنظیم دشمنی کو کسی طرح سے لگام دیا جائے ۔وگرنہ یہ اشتر بے مہار مجموعی قومی مفاد اور سیاسی ماحول کو پراگندہ کرنے کی موجب بن سکتے ہیں۔ بی ایل اےجیسی زمہدار آزادی پسند تنظیم جو کہ دعوہ سے ہٹ کر عملا شروع سے لے کر آج تک سنجیدگی کے ساتھ اپنے کارکنوں ،ہمدردوں، قوم اور بیرونی دنیا سے سنجیدہ انداز میں راست گوئی وزمہداری سے رابطے میں رہا ہے خالی خولی دعووں سے ہٹ کر عملا یہی اس قومی آزادی پسند تنظیم کی قابل اے فخر بنیاد رہی ہے۔جس پر پوری میڈیا اور بلوچ قوم کا بھروسہ قائم و دائم ہیں۔اور اس بھروسے کی سنجیدہ رشتے کی معیار کو آج تک عملا بی ایل اے کی سنجیدہ ،مخلص،باصلاحیت بے لوث مرکزی قیادت نے اس کی قومی لاج رکھ کر اس قومی امانت یعنی “مرکزی ترجمان” میں خیانت نہیں کی ہے۔قومی امانت اس لحاظ سے جس کے زریعے سے آپ پوری قوم سے مخاطب ہے۔ قومی آزادی اور شہیدوں کے خون کے وسیلے ہر شخص کا بھروسہ یہی ترجمان ہوا کرتا ہے ۔اسی کی توسط سے کوئی بلوچ غیربلوچ اگر دشمن کے ساتھ شامل ہوکر بلوچ دشمنی کے گناہ کا مرتکب پایا جاتا ہیں ۔تو اسے بڑی تحقیق اور محتاط فیصلے کے بعد اسے گرفتار کرکے تحقیق یاسزا دےکربدنام زمانہ مخبر یا قومی غدار کے لقب سے نوازا جاتا ہے۔اور اگر کئی کسی محاز پہ وطن کا حقیقی گمنام فرزند دشمن سے لڑتے ہوئے شہید ہوتا ہے تو بھی اس کی ماضی میں تنظیم کے اندر اول شمولیت، کارکردگی،محنت،خلوص،قربانی اورقومی جہد میں شامل پوری دورانیہ جہاں تک ممکن ہو تنظیمی حکمت عملی کے تحت اس واقعہ کی اصل صورتحال کومناسب وقت پر قوم کے سامنے مبالغہ آرائی اور دروغ گوئی سے پاک مرکزی بیان کی صورت میں قوم و دنیا کے سامنے لایا جاتا ہے۔ ایسے قومی کردار کی ایمانداری اور شہادت خصوصاپوری قوم عموما دنیا کی نظریں اس مرکزی ترجمان کے بیان کی منتظر رہتی ہے۔یوں سمجھ لیجئے کہ اس مرکزی ترجمان کی حیثیت غیرمتنازعہ اور مکمل بھروسہ والی “پیغام بر” جیسا ہوتا ہیں۔ اب اس بھروسہ والی معیاروسیاسی اقدار کی بی ایل ایف کے مرکزی ترجمان” گہرام صاحب “اور سنگر نیوزمیڈیا نے ایسی دھجیاں اڑا دی کہ اس سے پوری قوم کے تمام سنجیدہ آزادی پسند کارکن انگشت بدنداں رہ گئے۔جیسے حال ہی میں سرنڈر شدہ جگو کی قتل کی دوسرے تنظیم کے کارکنوں کے ہاتھوں ہونے والے واقع کو جلدبازی دروغ گوئی سے سینہ تان کر میڈیا میں دھوکہ سے قبول کرکے صرف اپنی اسکورنگ کو زیادہ کرنے اور دوسرے قوم دوست کی کردار کشی کرنا ایک پھتر سے دوشکار کرنے کی بھونڈی سی ناکام چال ثابت ہوئی۔کیونکہ اس کے کچھ لمحے بعد ایک دوسرے آزادی پسند تنظیم بلوچ ریپبلکن آرمی نے اس واقع کو قبول کرتے ہوئے گہرام کے غلط بیانی کی سرزنش کی اور قوم کو سچ بتایا۔ اخلاق اور قومی آزادی کا تقاضہ یہ تھا کہ گہرام اپنی غلطی کا اقرار کرکےاسطرح سے معزرت بھی کرسکتا تھا کہ اس واقع کی قبولیت ہمارے غلط فہمی کا نتیجہ تھا۔جس سے مشکلات زیادہ نہیں بڑھ سکتے تھے لیکن کون ہے ؟ جو گہرام صاحب کےمنفی انا و ضد اور اسےاپنے بارے غلط فہمی سے نکال کرکس طرح سے اسے سمجھائے ؟جو اپنے کو اعلی علامہ سے کم ماننے کو تیار نہیں۔اس بیان کے بعد دوبارہ سیاسی غلطی کا مرتکب ہوکر گہرام صاحب نے ایک بار پھر اپنے کارکنوں،ہمدردوں کی دعووں کو عملا غلط ثابت کردیا کہ ادارہ جاتی فیصلے،جمہوری رائے شماری،دوطرفہ علمی،سیاسی بحث ومباحثہ ایک طرف رکھ کر صرف ایک یا دو اشخاص کی رائے کو ادارہ جاتی فیصلہ ظاہر کرکے میڈیا میں فورا یہ بیان داغ دینا کہ وہ بلوچ ریپبلکن آرمی سے اشتراکی عمل کے سیاسی پروسیس کو ردعمل کے طور پرفورا معطل کردیتے ہیں۔جیسے اتحاد یا اشتراک ان کی قومی زمہداری نہیں بلکہ یہ قوم پر ایک احسان کی مانند ہیں۔ان کے اس مسلسل غلطی پہ غلطی سے انھیں کوئی دوسرا سنجیدہ کارکن یا زمہدار کیوں سوال نہیں کرتا؟یہ اس لیئے کہ دوسروں کو فردی ،سرداری فیصلوں کے طعنہ دینے کے برعکس یہ لوگ خود میں شخصی، غیر جمہوری و زبردستی سب دوستوں کو نظر انداز کرکے اپنی نادانی وکم فہمی سےتنظیم دشمنی کے مرتکب ہورہے ہے۔ سب نے نوٹ کیا ہوگا کہ کبھی معمولی کرایہ کے قاتل کو مار کر اس کا تعلق عالمی میڈیا نہیں بلکہ یہ خود یعنی جناب گہرام اور بلوچ دشمن جیسے سنگر میڈیا کی غیرزمہدارانہ رپورٹنگ خوامخواہ ایسے اشخاص کا تعلق داعش سے جوڑنے کی ناکام کوشش کرتے ہے۔جو کہ جگ ہنسائی کے علاوہ کچھ بھی نہیں ۔کوئی ان سے سوال کرے کہ میڈیا میں قومی جہد کے متعلق کیوں دروغ گوئی سے کام لیا جارہا ہے ؟۔مزید یہ کہ سنگر نیوز میڈیا آزادی پسند مدرآرگنائزیشن بی ایل اے و بلوچ رہنماء کی دانستہ منظم منصوبہ بندی کے ساتھ کھلم کھلا کردار کشی کررہا ہے۔دشمن کا ایک خاص مہرہ جنگریز مری کی وکالت کرتے ہوئے بلوچ رہنما خاص کر واجہ حیربیار مری کی کردار کشی کررہا ہے۔افسوز صد افسوز ایسے مخلص سیاسی کارکن اورعوام کی بھروسہ کاانتہائی بھونڈے مزاق سے قومی معاملات میں قوم کے ساتھ مسلسل دروغ بیانی،اور غیرسنجیدگی سے کام لے کر آزادی کے سفر کو دانستہ طور پر ایسے لوگ میدان کو خالی دیکھ کر مشکل بناکر عوام کو مایوس کیاجارہا ہے۔ایسےافراد کی حوصلہ شکنی کرکے انھیں روکنا ان کی قومی وتنظیمی فرائض میں شامل ہے۔جس سے وہ کسی طورپر بری الزمہ نہیں ہوسکتے۔ایسے مخلص سیاسی کارکن قومی آزادی کیلئے ظالم اور بڑی دشمن ریاست سے مقابلہ تو دلیری کے ساتھ کرسکتے ہیں۔لیکن کیا وجہ ہے کہ وہ کہ اپنی تنظیم کو ایسے ردانقلابی کچھ مخصوص افراد کے ہاتھوں یرغمال ہونے سے نہیں بچاسکتے؟
ایسے مخلص سیاسی کارکن یہ یادرکھے ک ایسے بدبخت آزادی دشمن افراد ان کی محنت،خلوص کی عمل کو ضائع کرنے کے مرتکب ہوکر قوم دشمنی کی مجرم ثابت ہورہے ہے۔جسے روکنا سب کی قومی زمہداریوں میں شامل ہیں۔ایسے افراد کی گردن کو آزادی پسند نوجوان بے رحمی سے پکڑ کر قوم کے سامنے ان کو جواب دہ بنا کر آزاد بلوچستان کی تحریک کو منزل مقصود کی جانب کامیابی کے ساتھ جاری سفر کو مدد دے۔