تحریر: حفیظ حسن آبادی
طویل افغان جنگ لاکھوں انسانوں کو نگلنے اور لاکھوں لوگوں کو خانمان برباد کرنے کے بعد بھی کسی طرح بند ہونے کا نام نہیں لے رہا اور نہ ہی دور دور تک اس بات کے امکانات نظر آتے ہیں کہ افغانوں کے دشمن اور دہشتگردی کو ذریعہ معاش بنانے والے ممالک ایسی کسی مثبت تبدیلی کوکسی نتیجے تک پہنچنے دیں گے۔ جہاں تک حالیہ امریکہ طالبان کے ساتھ جن مذاکرات کی مبینہ کوششوں کا تعلق ہے اُنھیں ہم اپنے سابقہ کئی مضامین میں امریکہ کی خوش فہمی اور خود فریبانہ بے حاصل قرار دے چکے ہیں کیونکہ امریکہ طالبان مذاکرات پاکستان کی سناریو اور پاکستانی خواہشات پر امریکہ و اتحادیوں کاوقت ضائع کرکے اُن کو مزید کمزور کرنے کی نیت سے ہورہے ہیں۔ بلکہ ان میں دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ سلسلہ تہہ در تہہ سازشوں کا ایسا جال ہے جسمیں بیک وقت امریکہ اور اسکے اتحادی،روس اورچین یکساں دھوکے میں رکھے گئے ہیں اور سب کے اختلافات کا فائدہ اُٹھا کر اُنھیں پاکستانی مفادات کی خاطرافغان اکھاڑے میں اُتارنے کا اہتمام ہوا ہے۔
پاکستان نے سوویت یونین کے خلاف امریکہ کا اتحادی بن کر افغانستانمیں دہشتگردی پھیلانے سے اربوں ڈالر حاصل کئے جسے بعدازاں طویل مدتی منصوبے کے تحت باقاعدہ انڈسٹرلائزکرکے ریاست کی سیاست کا حصہ بنایاگیا۔ سوویت انخلا کے بعد میں طالبان کی مختصر حکومت (1996 / 2001) کے بعد عالمی دہشتگردی اور القاعدہ کے خاتمہ کے نام پر پھرپاکستان امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو ماموں بناتا رہا جس کا سلسلہ تا حال کسی نہ کسی شکل میں موجود ہے اور اُس وقت تک موجود رہے گا جب تک امریکہ پاکستان کو دھوکہ باز اور دہشتگردوں کا مددگار کہنے باوجود اُسے اپنا اتحادی کہتا رہے گا۔
گوکہ پاکستان میں بن لادن،ملاعمر اور ملا اخترمنصور کی موجودگی اور وہاں اُنکی ہلاکتوں کے بعد پاکستان اور امریکہ کے تعلقات پہلے جیسے نہیں رہے پاکستان کے کئی فنڈز روکے گئے اورپاکستان ایف اے ٹی ایف کے خاکسترفہرست میں جاکرسیاہ فہرست میں شامل ہونے کے خطرے سے دوچار ہوگیا۔ایسے میں اُس کے ساتھ اس دلدل سے نکلنے کے دو راستے تھے پہلا دہشتگردوں کی پشت پناہی ترک کرکے فسادیوں کے کارخانے بند کرنا دوسرا اپنی سازشیں برقرار رکھنے نئی چالیں چلنا۔حسب توقع پاکستان نے اپنی سمت درست کرنے کی بجائے سازشوں میں جدت لانے پر توجہ مرکوز کرکے امریکہ کیساتھ چین اور روس کو بھی دھوکہ دینے کا فیصلہ کرکے ہر ایک کیلئے چندمسائل لیکر اُن کے حل میں اپنی جھوٹی خدمات پیش کیں۔
امریکہ کوطالبان سے مذاکرات کا اہتمام اور اسکے نتیجے میں افغان جنگ سے امریکہ کے باعزت نکلنے کا راستہ دلانے مدد کا وعدہ کیا،سی پیک میں چین کیلئے مشکلات پیدا کرکے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کیلئے راستہ ہموار کرنے کی یقین دہانی کی،طالبان کی مدد سے داعش کو سینٹرل ایشااورروس کی طرف دھکیل کر طویل مدد کیلئے روس کو خطے میں اثر و رسوخ بڑھانے سے روکنے اور افغانستان میں امریکہ کے مفادات کے تحفظ کی گارنٹی کی یقین دہانی کرائی۔ جبکہ چین کو خطے سے امریکہ کے انخلا اور افغانستان سے ہندوستان کے کردار کو محدود کرواکے اُس کی جگہ چین کیلئے اسٹرٹیجی اور سیاسی اثرو رسوخ بڑھانے ماحول ساز گار بنانے کے ساتھ چینی ایغور مسلمانوں کا دیگردہشتگردگروپس کیساتھ گٹھ جوڑ توڑنے کالالچ دیا ٹھیک اِسی طرح روس کو امریکہ کو خطے سے نکالنے کے ساتھ ساتھ داعش کی سینٹرل ایشیا اور پھر روس کی طرف پیشقدمی سے روکنے کے ساتھ پاکستان میں وسیع پیمانے پر سرمایہ کاری کیلئے رعایتیں اور موافق ماحول فراہم کرنے کا سبزباغ دکھایا۔
ان تمام جھوٹے وعدوں کامقصد اس کے سوا کچھ نہیں تھا کہ پاکستان کوسیاسی اور اقتصادی طور پرقلیل مدتی ہی سہی سانس لینے کا موقع فراہم کیا جائے کیونکہ وہ داخلی طور پر بدترین سیاسی و اقتصادی مسائل کا شکار ہوچکا تھا جب کہ بیرونی طور پر افغان مسئلے کو لیکرامریکہ سمیت دنیا اُسکی” کوششوں “اور نیت پر بجا شک کرکے اُسے ناقابل اعتبار،دہشتگردوں کا معاون ریاست کہکر فاصلہ رکھ رہاتھا۔یہ تنہائی اور مسلسل دباؤ موجودہ اقتصادی دیوالیہ پن کے عالم میں ناقابل براشت تھا۔
عین اس وقت ان سازشی کوششوں کے نتیجے میں امریکی آشیرباد سے وقتی طور پرآئی ایم ایف، سعودی عرب و متحدہ عرب امارات کی طرف سے پاکستان کوقرض ملے اور ایف اے ٹی ایف میں اُسے خاکستر فہرست سے فہرست سیاہ میں جاہ گزیں ہونے سے تاریخ پہ تاریخ دلواکر روکے رکھا گیا۔دوسری طرف روس اور چین بھی طالبان مذاکرات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے رہے مگر بہت جلد اُن پر بھی یہ عیاں ہوگیاکہ یہ ملک کسی کے ساتھ بھی تعلقات استوار کرنے سنجیدہ نہیں امریکہ پر واضح ہوگیا کہ پاکستان کے حمایت یافتہ طالبان پاکستان کی طرح قابل اعتبار نہیں بلکہ افغانستان کے مجموعی صورتحال میں بہتری لانے کے قابل بھی نہیں جو خود اندر سے ٹکڑوں میں تقسیم ہیں اور ان پر ایران سمیت کئی دوسرے ممالک بھی اثر ورسوخ رکھتے ہیں اور اگراس ضمن میں سب کو اعتماد میں نہیں لیاجاسکا اورکوئی قدم اُٹھایا گیا تو صورتحال پہلے سے بدتر ہوسکتی ہے۔روس نے بھی محسوس کیا کہ ایک طرف ہمیں طالبان کی مدد سے داعش کوافغانستان میں روکنے کا کہا جارہا جبکہ دوسری طرف پاکستان کی سربراہی میں داعش کے جنگجو افغانستان کے شمال میں بڑی تعداد میں جمع کئے جا رہے ہیں اور پاکستان افغان بارڈر پر داعش سمیت لشکر طیبہ،جیش محمد وغیرہ سب نہ صر ف کیمپ لگائے بیٹھے ہیں بلکہ اُنکی آمد و رفت میں پاکستان کی طرف سے آسانیاں پیدا کی جارہی ہیں اس پر سوا یہ کہ پاکستان میں ہزاروں مدارس میں اب بھی ان دہشتگرد گروپس کیلئے ہر جمعہ کو باقاعدہ چندہ اکھٹا کیا جاتا ہے۔ روس کااس معاملے کو از حد سنجیدہ لینا اس لئے بھی بجا ہے کہ وہ امریکہ کی طرح یہاں سے ہزاروں کلومیٹر دور نہیں۔چین نے بھی سی پیک کے کام میں سست روی اور اُسکے فنڈزکی غیر متعلقہ شعبوں میں منتقلی کو پاکستان کی نیت میں کھوٹ کی طرح محسوس کیا۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے امریکہ کے کہنے پر پاکستان کی مدد کی مگر پاکستان ایران کے معاملے میں اپنا توازن برقرار نہیں رکھ سکا۔پاکستان نے سعودی عرب میں اپنے فوجی حرم کی حفاظت کے نام پر یمن جنگ کیلئے بھیج دیئے مگر وہ جنگی قیدی بن کر ایران کے حمایت یافتہ حوثیوں کے ہتھے چڑھ گئے جنکی رہائی کیلئے وزیراعظم اور آرمی چیف دونوں تہران میں منت سماجت کرنے گئے مگر ایران نے کوئی مدد نہیں کی۔سعودی عرب کھل کر حمایت نہ کرنے سے ناراض اور ایران پیٹھ پیچھے اس کے خلاف جنگ کا حصہ بننے سے برہم نتیجے میں اب یہ ملک پہلے سے بدتر تنہا اور پہلے سے کہیں زیادہ داخلی انتشار کا شکارہے مگر بدقسمتی سے عالمی قوتیں اب بھی اس ملک بارے درست فیصلہ کرنے سے قاصر ہیں۔ اگر وہ کسی درست نتیجے پر پہنچ کر صحیح فیصلہ کرکے اس ریجن کو بحرانوں سے نکالنا چاہتے ہیں تواُنہیں ہنگامی بنیادوں پرچارا قدامات اُٹھانے ہوں گے پہلے پاکستان کو ایف اے ٹی ایف کے سیاہ فہرست میں جانے سے روکنے کی کوئی سفارش کی غلطی نہ کرے دوسرا ہندوستان پاکستان کے زیر قبضہ کشمیر کو اپنے ساتھ شامل کرکے یہ مسلہ ہمیشہ کیلئے حل کرے۔ تیسرا افغانستان میں پاکستان کی مدد سے دہشتگردانہ کاروائیوں کی درست دستاویزی تشکیل پرتوجہ ہومثال کیلئے اتنا کہنا کافی ہے کہ پاکستان نے ہندوستان کا ایک جاسوس گلبوشن پکڑ کر اس کو حد تک اچھالا کہ بات عالمی عدالت انصاف تک پہنچ گئی جبکہ افغانستان میں روزانہ کی بنیاد پر درجنوں جاسوس،دہشتگرد پکڑے،مارے یا زخمی کئے جاتے ہیں مگر اس کے لئے پاکستان بجاطور پر جوابدہ نہیں ٹھہرا یا جاسکا۔ہمیں یقین ہے کہ اگر افغانستان میں درست سمت میں چند سوالوں کو لیکرثبوتوں کیساتھ دستاویز مرتب ہوں تو پاکستان ہمیشہ کیلئے ایف اے ٹی ایف کی سیاہ فہرست میں براجماں رہے گا یا اپنی ریاستی دہشتگرد انہ پالیسیاں ہمیشہ کیلئے ترک کرنے پر مجبور ہو گا چوتھا خطے اور عالمی قوتیں بلوچ تحریک آزادی اور پشتونوں کی بیداری تحریک کی کھل کر ہرلحاظ سے مدد کیلئے آگے بڑھیں۔ موجودہ حالات میں بلوچ اور پشتونوں کیلئے اتنا کہنا ناکافی ہے کہ اُنکے ساتھ ظلم ہورہا ہے یاپاکستان اُنکی نسل کُشی کامرتکب ہورہا ہے اور اس ہمدردی کی بنیاد پر کوئی رسمی بیان جاری کرے یا چندہ نما مدد کرے بلکہ یہ سوچ کر اُن کی بھرپور،ہمہ جہت اور مستقل بنیادوں پر مدد کی جائے کہ یہ ہی وہی قوتیں ہیں جو دنیا کو دہشتگردی کاسرغنہ پاکستان کی سازشوں سے نجات دلانے میں ہراول دستے کا کام دیں گے اور یہی وہ قوتیں ہیں جو پورے خطے میں امن و ترقی کا ضامن ہوسکتی ہیں۔ (ختم شُد)
Get Outlook for iOS