بلوچستان کے ضلع کیچ کا تحصیل ‘مند’جو کہ بلوچستان کے دوسرے سب سے بڑے شہر تربت سے سو میل دور ایران سے متصل گولڈ اسمڈھ لائن کے قریب واقع ہے.
سندھ اور پنجاب کے زیادہ تر لوگ مند کو مند بلو کے نام سے پہچانتے ہیں کیونکہ پہلے ایران کے لئے سفر کا یہ ایک آسان راستہ ہوا کرتا تھا. مند کچھ قصبوں پر مشتمل ایک چھوٹا سا شہر ہے جس میں کم و بیش بارہ قصبے ہیں جن میں بلو، سورو، گواک، تلمب، لبلان، بلوچ آباد، جلال آباد وغیرہ شامل ہیں.
مند کی کل آبادی لگ بھگ پچاس ہزار نفوس پر مشتمل ہے جن میں 95 فیصد وہاں کے مقامی لوگ اور 5 فیصد بلوچوں کے مری قبیلے اور براہوی بولنے والے بلوچ آباد ہیں. مند ایرانی مقبوضہ بلوچستان سے متصل ہے اور مصنوعی سرحد کے قریب ہونے کی وجہ سے ایک تجارتی علاقہ ہوا کرتا تھا. وہاں اور اردگرد کے علاقوں کے زیادہ تر لوگ بارڈر کے اس طرف کے لوگوں سے (یعنی ایرانی مقبوضہ بلوچستان کے لوگ) تجارتی و معاشرتی تعلق رکھتے ہیں.
مند کے لوگوں کا ایرانی مقبوضہ بلوچستان کے لوگوں سے سماجی اور تجارتی تعلقات رکھنا اور اس سے دونوں اطراف کے بلوچ عوام کی خوشحالی کی طرف گامزن ہونا…. بلوچ قوم کے دونوں اطراف کے دشمن ایران اور پاکستان کو یہ صدیوں سے جاری تعلقات گوارا نہ گزرے اور انہوں نے بلوچوں کی سماجی اور تجارتی تعلقات پر پابندی لگا کر بارڈر بند کرادیا.
اس کے بعد مند کے لوگوں کا گزر بسر بہت مشکل سے ہونے لگا.ان سب مشکلات کے بعد بھی پاکستان کو چین نا آیا اور پاکستان نے مند کے لوگوں پر اور بھی زیادہ ظلم کرنا شروع کر دیے، جیسے کہ مند کے داخلی اور خارجی راستوں پر چیک پوسٹ قائم کرنا. کوئی شخص اگر تربت سے تجارت کرتا ہے تو اس سے بھتہ لینا یا اس شخص کی ساری جمع پونجی ضبط کرنا اور مسافر بسوں ٹرکوں کو لوٹنا.
پھر وہاں کے فورسز نے ایک بابو ڈکیت نامی شخص کو جنم دیا جس نے آگے چل کر چوروں کا ایک پورا مسلح لشکر منظم کیا، جس نے بعد میں آزادی سے جڑے لوگوں کو نقصان پہنچایا اور عام عوام کو بھی لوٹنا شروع کیا. یہ سب ہونے کے ساتھ ساتھ فورسز نے مند کے بہت سارے علاقوں کو گھیرے میں لینا شروع کیا اور لوگوں کے گھروں پر قبضہ کر کے لوٹ مار بھی کی. وہاں انٹرنیٹ کی سہولت بھی بند کردی گئی تاکہ ان لوگوں کی آواز دنیا تک پہنچ نہ سکے. مند کے لوگوں کو نقصان پہنچانے کے لیے پاکستان نے اپنے ہر وہ وسائل بروئے کار لائے اور ہر وہ ممکن اقدامات اٹھائے جس سے مند کے لوگوں کی زندگی بد سے بدتر ہوتی چلی گئی.
مند میں اسکول اور کالجز کی کوئی اچھی سہولت نہیں، جس کی وجہ سے وہاں کے نوجوان نسل تعلیم حاصل کرنے کے لیے بلوچستان کے شہر کوئٹہ اور تربت یا پھر سندھ کے شہر کراچی کا رخ کرتے ہیں. مند میں کوئی اچھی سڑک بھی موجود نہیں. بیس سال پہلے جب زبیدہ جلال پاکستان کی وزیر تعلیم بنی تو تب انہوں نے اپنے ہی سہولت کے لیے ایک ون وے روڑ تعمیر کروایا. اب وہی سڑک ایک خستہ حالت ہوگئی ہے اور جگہ جگہ ٹوٹ پھوٹ جانے کی وجہ سے مختلف حادثات کی وجہ بن گئی ہے۔ مند کی نام نہاد نمائیندہ زبیدہ جلال جس فوج اور آئی ایس آئی کی نمائیندہ ہے جس کی وجہ سے اس کو ہدایات فوجی کیمپ سے موصول ہوتے ہیں جو عوامی مفادات کے مطابق ہرگز نہیں ہوسکتے۔
مند میں کوئی ایسا بڑا ہسپتال بھی موجود نہیں جو وہاں کے مقامی لوگوں کے علاج و معالجے کے کام آسکے. وہاں کے لوگ کسی بھی بیماری کی صورت میں وہاں سے سو کلومیٹر دور تربت شہر جاتے ہیں اور ان کو اس راستے میں قائم درجنوں چیک پوسٹوں سے بھی گزرنا پڑتا ہے، اور ہر چیک پوسٹ پر ان مریضوں سے طرح طرح کے سوالات پوچھے جاتے ہیں جس سے ان لوگوں کے وقت کا ضیاء ہوتا ہے، اور کبھی کبھی تو وقت کے ضیاء کی وجہ سے کئی مریضوں نے اپنی قیمتی زندگیاں راستے میں ہی گنوا دی ہیں.
پورے مکران میں مند کے لوگ بلوچستان کی آزادی کی جدوجہد میں ہمیشہ ایک ہراول دستے کا کردار ادا کیا ہے۔ مند وہ سرزمین ہے جس نے بی این ایم کے بانی رہنماء غلام محمد بلوچ جیسا نڈر،مخلص اور غیرت مند فرزند پیدا کیا۔ اس کے علاوہ شہید شیر محمد بلوچ، شہید دل وش بلوچ، شہید عبدالمالک بلوچ اور شہید آصف بلوچ بھی اسی سرزمین کی پرورش پانے والے عظیم فرزند تھے جنہوں نے بلوچ قومی آزادی کی راہ میں اپنی قیمتی جانوں کا نزرانہ پیش کیا۔ پاکستان کی طرف سے بلوچستان میں کہیں بھی، کوئی بھی، اور کسی بھی طرح کا واقعہ نمودار ہوتا ہے تو مند کے باشعور عوام اپنے دوسرے بھائیوں کے ساتھ سراپا احتجاج ہوکر سڑکوں پر نکل کر احتجاج کرتے دکھائی دیتے ہیں. مند کی سرزمین نے بلوچی لبزانک سے بھی جُڑے بہت ہی نامور شخصیات پیداکیں جن میں ملا فاضل اور ملا قاسم سر فہرست ہیں۔ شہید فدا بلوچ بھی مند ہی میں پیدا ہونے والے ایک فرزند تھے جو بعد میں نقل مکانی کر کے تربت چلے گئے تھے. ان کے علاوہ اور بھی نامور بلوچ شخصیات اور شہداء ہیں جو آج ہمارے بیچ جسمانی طور موجود نہیں رہے لیکن پورے قوم کی دلوں میں زندہ ہیں.
مند پیدا ہونا والا بلوچستان کا عظیم فرزند غلام محمد بلوچ جن کو رہتی دنیا تک یاد رکھا جائے گا۔ وہ ایک ایسا بہادر قوم دوست انسان تھا جس نے نہتے ہوکر فوج کے سامنے کھڑے ہوکر ان کو للکارا. ایک مرتبہ مند میں جب پاکستانی فورسز نے ایک جلوس پر حملہ کیا تو شہید کے سبھی ساتھی پیچھے ہٹنے پر مجبور ہوئے، لیکن شہید پیچھے نہ ہٹے بلکہ مسلسل آگے بڑھ کر فورسز کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کیا. اس طرح کے بہت سارے کارنامے وہ اپنی زندگی میں سر انجام دیتے رہے. یہ چیزیں دیکھ کر قابض پاکستانی ریاست بوکھلاہٹ کا شکار ہوگئی کہ اگر غلام محمد کو نہ روکا گیا تو یہ بندہ آگے چل کر اور بھی طاقتور ہوجائے گا. پھر وہی ہوا جو ہر قومی آزادی کی تحریک کے لیڈر کے ساتھ ہوتا ہے۔
شہید غلام محمد سمیت شیر محمد اور لالا منیر کی مسخ شدہ لاشیں تربت سے دس کلومیٹر دور مرگاپ نامی علاقے کے ایک جنگل سے ملی. اس واقعے کے بعد مند میں تو یوں سمجھ لو کہ قیامت صغرا سا چھا گیا تھا، لوگ اپنے گھروں سے نکلے اور احتجاج کرتے رہے۔
پورا بلوچستان سوگ میں ڈوب گیا تھا. پھر مند میں ان کی یاد میں جلسے منعقد ہوئے جس میں شرکت کیلئے بلوچستان کے سبھی شہروں سے بسوں اور گاڑیوں میں سوار ہزاروں لوگ مند پہنچنے لگے. غلام محمد جو مند کے علاقے سورو سے تعلق رکھتے تھے اسی بنیاد پر جلسے کے لیے سورو کے بوائز اسکول کو چنا گیا کیونکہ باہر سے آنے والے ہزاروں لوگوں کے لیے جگہ کا انتظام اور ان کے لیے سہولت فراہم کرنے کے لیے رقبے کے لحاظ سے سب سے بہتر جگہ تھی. اتفاق سے یہ اسکول مند کے مرکزی فوجی کیمپ کے بالکل سامنے تھا. ہزاروں کی تعداد میں لوگوں کی وجہ سے فوجی اس وقت تو کچھ نہ کر سکے البتہ کچھ عرصے بعد اس اسکول کو بھی نہ بخشا گیا، اس پر بھی قبضہ کر کے فوجی کیمپ میں شامل کردیا گیا. اب وہاں کے مقامی نوجوان تربت جیسے شہروں میں پڑھنے جاتے ہیں یا اپنی تعلیم کو ہمیشہ کیلئے خیر باد کہنے پر مجبور ہیں.
چیئرمین غلام محمد کی شہادت کے بعد کوئی دوسرا غلام محمد پیدا نہ ہو، اسی ڈر سے پاکستانی فورسز نے مند میں فوجی جارحیت کا سلسلہ اور بھی تیز کر دیا، رات کی تاریکی میں راکٹ فائر کرنا اور دن میں لوگوں کے گھروں میں گھسنا. گھروں سے بیش بہا قیمتی ساز و سامان لوٹ کر جانا. بچوں اور بزرگوں پہ تشدد کرنا، مردوں کو اٹھا کر لے جانا. مال مویشیوں کو جان سے مارنا اور گھروں کو آگ لگانے جیسے کارنامے انجام دینا شروع کر دئیے جو تاحال اُسی رفتار اور تیزی سے جاری ہیں تاکہ لوگ خوفزدہ رہ کر قومی تحریک آزادی سے دور رہیں۔
حال ہی میں ایسے واقعات پھر سامنے آئے آج کل کے دنوں میں پھر سے پاکستانی فورسز کی جانب سے جارحیت شروع ہوچکی ہے جو کئی دنوں سے جاری ہے اور ختم ہونے کا نام بھی نہیں لے رہا. مند کے بہت سے علاقوں میں یہ مظالم آج بھی جاری ہیں جس میں سے جلال آباد کے معزز شہری حاجی تاج محمد اور حاجی شکور نامی شخص کے گھروں کو گھیرے میں لے کر انہی لوگوں کو اپنے گھروں سے باہر نکال کر گھروں پر قبضہ کرنا اور سارے گھر کے سامان فوجی کیمپ منتقل کر دینا، اسی طرح مند کے علاقے کواک میں بھی یہی عمل دہراتے ہوئے معزز شہری صالح محمد اور لشکران نامی شخص کے گھروں پر قبضے اور لوٹ مار کی وارداتوں کی اطلاعات ہیں.
ایسے واقعات تو پورے بلوچستان میں آئے دن ہوتے رہتے ہیں یہ تو صرف وہاں کے مقامی لوگ ہی بہتر جانتے ہیں اور باہر والے بہت کم ہی لوگ ان واقعات سے آگاہ ہوتے ہیں. دوسرے لوگوں تک ان پر گزرے واقعات کی اطلاع بہت کم ہی پہنچتی ہے. اس کی سب سے بڑی وجہ وہاں پر میڈیا پر لگی پابندی اور اس جدید دور میں انٹرنیٹ کی سہولت کو ختم کر دینا ہے تاکہ بلوچستان کے عوام کی آواز باہر نہ نکل سکے. لیکن میں دل کی گہرائیوں سے شکرگزار ہوں ان سب لوگوں کا جو ان مشکل حالات میں بھی اپنے لوگوں پر ہونے والے پاکستانی ظلم کو دنیا تک پہنچانے میں کوشاں رہتے ہیں.
ایسے بھی بہت سے لوگ ہوں گے جن پر ڈھائے گئے مظالم کا کسی کو پتہ بھی نہیں چلتا. اور کیا پتا ہم اس وقت دنیا کے کس کونے میں بیٹھ کر یہ پڑھ رہے ہیں اور وہاں اس وقت کسی اور بلوچ کے گھر میں فوجی گھس گئے ہوں اور کیا پتا کل کسی اور کے گھر کی باری آئے!