تحریر ۔ علی بزدار
ھمگام آرٹیکلز
2004 کے بعد کے بلوچستان کو اگر تاریخی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو شاہد ہی کوئی دن مہینہ ایسا گزرا ہو کہ جس میں کوئی بڑا سانحہ نہ ہوا ہو۔ کہ جس میں معصوموں کا خون نہ بہایا گیا ہو۔ یہاں ہر دن ہر سال ہر مہینہ سانحات سے بھرے ہوئے ہیں وہ سانحہ چاہے نواب اکبرخان کی شہادت کا ہو، توتک کے اجتماعی قبریں ہوں، نواجوں کے اجتماعی مسخ شدہ لاشیں ہوں، سانحہ مستونک 2018 ہو، آٹھ اگست کے سانحہ وکلا ہو، شہدا ئےزیارت کی سانحہ ہو، یا پھر 2023 کے مستونگ میں میلاد جلوس پہ حملہ ہو، ایسے بے شمار واقعات جو شاہد مجھے جیسے کمزور انسان کی یاد میں نہ آسکیں یا پھر انکے بارے میں علم نہ ہو، لیکن بلوچستان ہمیشہ جلتا رہا اور وہ جلانے والے کھبی بھی مقامی نہیں تھے ۔ جس نے بھی جلایا باہر سے آکے مادر وطن کی سینہ کو چاک کرگیا۔
افسوس کی بات یہ ہے ان میں سے آج تک ایک بھی نہیں پکڑا گیا سب نامعلوم ہیں کیوں؟ یہ بڑا موضوع ہے جس پہ میں تو کیا شاہد ایک قابل انسان بھی بولنے سے پہلے ہزار بار سوچے گا کہ اسکو کیا کہنا چاہیے۔ لہٰذا میرا جو اصل موضوع ہے وہ ہے ”سانحہ مستوگ“ جو کہ حالیہ دنوں میں پیش آیا۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ نہ یہ بلوچستان کا پہلا سانحہ ہے اور نہ شاہد آخری ہو!
معلوم نہیں ابھی کتنے اور معصوموں کے خون سے ان درندوں کا پیاس بجھے گا۔ کتنے بچوں کو یتیم کرنے پر انکو سکون ملے گا کتنے عورتوں کو بیوہ کرنے سے انکا مقصد حاصل ہوگا؟ کتنے بہنوں کو چیختی ہوئی سڑکوں پہ دیکھ کر یہ مسکرائیں گے؟ کچھ معلوم نہیں کیونکہ یہاں جو کچھ بھی ہورہا ہے وہ سب نامعلوم ہی ہے۔
سال کے 12 مہینوں میں ایک ماہ ربیع الاول کا بھی ہوتا ہے ۔جس میں سنی فقہ سے عقیدہ رکھنے والے تمام لوگ 12 ربیع الاول یعنی عید میلاد النبی ﷺ کی تیاریوں میں لگ جاتے ہیں، اور انکے اندر ایک مذہبی جنونیت بیدار ہوتا ہے اور بےتابی سے اس دن کا انتظار کرتے ہیں۔ اسی طرح اس سال بھی یعنی 2023 کے ستمبر کے مہینے میں ربیع االاول کا چاند نظر آگیا ۔ملک کے تمام شہروں میں رویتی طورپر لوگوں نے تیاریاں شروع کردی ہیں، تو ہمارے ہاں بلوچستان میں بھی مُلاؤں کی زیر نگرانی میں میلاد النبیﷺ کے تیاریاں شروع کروا دی گئی ہیں، ظاہر سی بات ہے مذہب کا خوف بھی ہے اور نشہ بھی لوگ جزباتی ہو جاتے ہیں اور زیادہ سے زیادہ عمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ ان کے گناہوں کی بخشش ہوسکے ۔ تو مستونگ کا بھی یہی ھ
حال تھا صبح سویرے تمام لوگ اپنے اپنے گھروں سے تیار ہوکے نئے کپڑے پہنے جلسہ گاہ کی طرف گامزن ہوئے۔ جہاں سے انھوں نے جلوس کی شکل میں نکل کر جانا تھا ۔
یہ تقریباََ صبح 9 بجے کا وقت تھا کہ لوگ کافی تعداد میں وہاں پہنچ چکے تھے۔ اور مولوی صاحب لوگوں کو اسپیکر پہ پُرامن رہنے اور جلوس کی ترتیب بیان کررہے تھے ۔ اور پورا شہر نبیﷺ کے نام کے نعروں سے گونج رہا تھا۔ سب لوگ باآواز بلند ہوکر لبیک یا رسول اللہﷺ کا نعرہ لگا رہے تھے کہ اتنے میں اچانک آس پاس کے لوگوں کو ایک زور دار دھماکے کی آوز سنائی دیا ۔ اور پھر شہر یک دم خاموش ہوگیا معلوم نہیں کیا ہوا؟ کسی کو کچھ پتہ نہیں چل رہا تھا۔ سب یہی سوچ رہے تھے کہ شاہد دھماکہ ہوا ۔کیسا دھماکہ بم دھماکہ کس نے کیا؟ کچھ پتہ نہیں،
بس تمام شہر آہ و زاری کرتا ہوا جلسہ چوک تک پہنچا! دیکھتے ہی دیکھتے پورا شہر خون ہی خون ہوگیا۔ زخمیوں کی چیخ و پکار دل کو چیر رہے تھے کوئی سننے والا نہیں تھا سب کو اپنے پیاروں کی تلاش تھی۔ بس یہی سمجھ لیجیے پورا مستونگ جل رہا تھا کس نے جلایا کیسے جلایا یہ معلوم نہیں ؟۔ بس انہیں کیا معلوم تھا کہ جلوس میں شامل ہونے سے انکی لاشیں واپس گھر کو آئیں گئے ۔انہیں کیا پتہ تھا کہ آج ھم لوٹ کے نہیں آئیں گۓ ہماری ھڈیاں میت کے شکل میں آئیں گے۔انہیں کیا پتہ تھا کہ ہماری میت کی پہچان انگلی میں پہنی انگوٹے سے ھوگی ۔
سب کے گھر والے انتظار میں تھے کہ ہمارے پیارے واپس لوٹ کے ہمیں دن بھر کے محفل کا ذکر سنائیں گے ، خدا کی محبوبﷺ کے فرمان بتائیں گئے۔ لیکن انہیں کیا پتہ تھا کہ ہمارے اپنے لاشوں کی شکل میں واپس آئیں گے پتہ نہیں کتنے گھروں کو برباد کردیا گیا ہے؟ ۔کتنے ماں انتظار میں تھے اور کتنے بہن اسی سہارے بیھٹی تھیں؟ کہ ہمارے بھائی لوٹ آئیں گے ۔انہیں کیا معلوم تھا کہ وہ ہمیشہ کیلئے ان سے بچھڑنے جارہے ہیں ۔ شاہد وہ اس دن انھیں گھر سے نلکنے ہی دیتے ۔ لیکن بلوچستان کے بدبخت نوجوانوں اپنے گھروں میں بھی محفوظ نہیں وہاں سے بھی انکو سادہ کپڑوں ملبوس لوگ اٹھا کے ہمیشہ کیلئے غائب کر دیتے ہیں ۔ بس مستونگ کا پورا شہر تین دن تک جلتا رہا پھر کوٸی آگ بجانے والا نہیں پہنچا ۔یہ کسی جنگلی جڑی بوٹیوں کی آگ نہیں تھی ۔بلکہ یہ شہیدوں کے کپڑے اور جوتے جل رہے تھے پورا بلوچستان اس صدمے سے لرز أٹھا اور تین دن تک حکومت نے سوگ کا علان کیا۔ سوگ کا اعلان کرنے والے بھی وہی ہیں جنہوں نے ہمارے گھروں میں ماتم لیا ہے۔
کیا سوگ منانے سے کسی کے پیارے لوٹ آئیں گئے بلوچستان میں کبھی کسی سانحہ کیلئے تحقیق کی ضرورت نہیں بس کسی سوشل میڈیا کے پیج پہ کہیں سے کسی کمرے کے کونے سے بیٹھ کر قبول کرو لوگوں مطمئن کر دو کہ جی پولیس چانچ پڑتال کررہی ہے، سب سے بڑا مزاق اس وقت لگتا جب پرچہ کسی نامعلوم کے نام کٹ گیا ہو اور جانچ پڑتال پولیس مقامی لوگوں سے کررہا ہو ۔ کچھ نہیں ہوتا یہاں لیکن جب عوامی دباؤ زور پکڑتی ہے کہ مجرم کا پتہ لگاٶ ۔ تو کسی نشہ آور شخص کو یا پھر پہلے سے کسی لاپتہ شخص کو زندان سے نکال کر گولیوں سے چلنی کردیا جاتا اور خبر چلتی ہے کہ جی فلانے واقع کا ماسٹر مائنڈ پولیس مقابلہ میں مارا گیا، پھر اس پولیس والے کے عہدہ کی ترقی ہوتا ہے اور واجہ چار سٹار لگا کر پورا سروس ان معصوموں کے خون سے لت کُرسی پہ برجمان گزارتا ہے۔