نظریہ کے بعد کسی بھی تنظیم کی مستحکم و مضبوط ہونے کا ضامن اس تنظیم کے اندر نظم و ضبط ہی ہوتا ہے۔کوئی بھی سیاسی سماجی یا ادبی ادارہ جس میں نظم و ضبط نہیں ہوگی ۔ وہ تنظیم و ادارہ برائے نام ہی ادارہ کہلائے گا۔ کیونکہ نظم و ضبط سے ہی ادارے کی حیثیت و ساخت برقرار رہ سکتی ہے۔ کسی بھی تنظیم کا نظریہ جتنا بھی مضبوط ہو جتنا بھی پختہ ہو۔ اگر اسمیں ڈسپلن کا فقدان رہا تو وہ تنظیم کہلانے کے لائق نہیں رہے گا۔ اسی وجہ سے نظریہ کی پختگی کے ساتھ ساتھ نظم و ضبط ہی اس تنظیم کے بقاء کا ضامن ہوتا ہے۔ اگر نظریہ جتنا بھی پختہ ہو مستحکم ہو اگر اس تنظیم میں ڈسپلن نہ رہا تو نظریہ کے ساتھ تنظیم بھی غیر مستحکم و منشتر ہو گا۔ اسی تناظر میں بلوچ مسلح تنظیموں کے ڈسپلن کے حوالے سے ان پر باریک بینی سے دیکھا جائے تو ہمیں بہت سے ایسے شواہد ملیں گے جو موجودہ حالات تک سیاسی صورتحال کو پہنچانے کے ذمہ دار قرار دیے جاسکتے ہیں۔اب ان تنظیموں کے حوالے سے انکے ابتدائی عوامل پر نظر دوڑائیں گے کہ تنظیمی حوالے سے ان میں کس حد تک نظم و ضبط کا فقدان تھا۔ ویسے کوئی بھی تنظیم پہلے دن سے مکمل طور پر غلطیوں سے پاک نہیں ہو سکتا۔ لیکن غلطیوں کی اصلاح کے ساتھ ساتھ وقت و حالات کے ساتھ نئے نئے قوانین متعارف کرنا اور لاگو کرنا لازمی امر ٹھہرتا ہے اگر غلطیوں پر روایتی انداز میں سوچا گیا اور ان کا حل روایتی انداز سے نکالنے کی کوشش کی گئی تو حالات مزید بگڑ کر اس تنظیم کی ساکھ کو متاثر کرتے ہیں اورعوامی سطح پر اس تنظیم سے اعتماد اٹھ جاتا ہے ۔احتساب کا عمل کسی بھی تنظیم میں بنیادی اہمیت رکھتا ہے اور کسی بھی سپاہی یا رہبر کے کردار و عمل کو اس تنظیم کے ڈسپلن و نظریے پرفوقیت حاصل ہونے کے بجائے نظریہ و ڈسپلن کو اہمیت دی جائے تو احتسابی عمل سے غلطیوں میں کمی آسکتی ہے ۔ سوچ سمجھ کر کسی بھی کام کے حوالے سے سنجیدگی کے ساتھ ہی کوہی صحیح لائحہ عمل مرتب کرنا ہی اس تنظیم و نظریہ کی بقاء کی ضمانت دے سکے گا۔ بلوچ نظریہ آزادی کے توسط سے بلوچ معاشرے میں پہلے مزاحمتی تنظیم بی ایل اے ہی کو قرار دیا جا سکتا ہے۔ کیونکہ ماضی کے بعد جب پورا بلوچ سیاست وفاقی سیاست کے نرغے میں تھا۔ ہر طرف پارلیمانی سیاست کا چرچہ و شوشا تھا۔ اور قومی حق خودارادیت کے مبہم نعرے کے ساتھ جدوجہد کے تما م ذرائع کو استعمال کرکے پارلیمنٹ کے لیے جو راستہ ہموار کیا گیا تھا تمام سیاسی ورکرماضی کی سیاسی ناکامیوں کے بعد جدوجہد کے تمام ذرائع سے استفادہ کرنے کی ناکام کوشش کررہے تھے۔ جولوگ مکمل آزادی کے حامی تھے۔ وہ بھی انہی پارلیمنٹ زدہ پارٹیوں میں اپنے کمزور اعصاب کے ساتھ جدوجہد کررہے تھے۔ کسی کے وہم و گمان میں نہ تھا کہ پھر سے آزادی حاصل کرنے کے لیے مزاحمتی جد وجہد کا کوئی بھی راستہ اختیار کرسکتا ہے۔ لیکن نواب خیر بخش مری کی سٹڈ ی سرکلز سے کچھ نوجوان تربیت لے چکے تھے اور حیر بیار مری کی سرکردگی میں پہلی بار مزاحمتی حوالے سے سوچنے و بلوچ وطن کی آزادی کے لیے نئے راستے ڈھونڈ رہے تھے اور انھوں نے ہی مزاحمتی حوالے سے کافی سوچ بچار کے بعد ایک مزاحمتی تنظیم کی بنیاد رکھی ۔ماضی کے تجربوں کو سامنے رکھتے ہوئے منظم انداز میں تنظیم کے قیام اور آنے والے سخت حالات سے نمٹنے کے لیے تنظیمی ڈھانچے کو ابتدا ء سے ہی مخفی رکھا اور تنظیم کے اندرسیاسی تربیت کے ساتھ ساتھ ڈسپلن کو انتہائی سخت رکھا گیا کیونکہ ماضی کے تنظیمی ڈھانچے اور ڈسپلن کے نقصانات سے بخوبی واقفیت رکھنے کے ساتھ نئے تنظیم کا قیام و متوقع حالات سے نمٹنے کے لیے تنظیمی ڈھانچہ سمیت تما م سپاہیوں کی سیاسی تربیت کو اولین ترجیحات میں رکھا گیا اور تنظیم غیر محسوسانہ انداز میں 1996 سے لیکر 2001 تک مخفیانہ طریقے سے تنظیم کاری اور تنظیم کے لیے معاشی ذرائع پیدا کرنے کی کوششیں کرتا رہا۔ابھی تک وسائل کی پورا وری و تنظیم کے دیگر چھوٹے اداروں کی تشکیل مکمل نہیں ہوئی تھی اوربلوچستان کے تمام علاقوں تک بی ایل اے کی رسائی نہیں ہوئی تھی کہ ریاست نے جسٹس نواز مری کے قتل کا بہانہ بنا کران تما م افراد کو گرفتار کرلیا۔ جو کہ اس جدوجہد میں پیش پیش تھے۔ نبی داد مری ‘نورا مری و قبیل سے لیکر اسلم بلوچ و شہید غفار لانگوتک سب گرفتار کرلیے گئے اور انھیں جسٹس نواز مری کے قتل کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا۔ اور ان سے تفتیش افغانستان میں جلا وطنی کے حوالے سے کی گئی تھی اور جسٹس نواز مری کے قتل کا بہانہ بنا کر ریاست سوچ آزادی کو مکمل طور ختم کرنے کی کوشش میں رہا کہ جو لوگ آزادی کے جنگ کا حصہ رہے تھے انھیں مکمل طور ریاست کا تابعدار بنانے کی کوشش کی جائے اور نواب خیر بخش مری سمیت مری قبیلے سے تعلق رکھنے والے بہت سے افراد جو کہ ریاستی مشینری کا حصہ نہ بنے بلکہ ان کے دلوں میں آزادی کی جہد کا ولولہ زندہ رہا اسی بنا پر جسٹس نواز مری کے قتل کا ڈرامہ رچا کر نواب خیر بخش مری کو گرفتار کیا گیا اورحتی الامکان یہ کوشش کی گئی کہ کسی نہ کسی طریقے سے نواب خیر بخش مری کو پارلیمانی سیاست کی طرف لے جا سکیں لیکن ریاست خاطر خواہ نتائج برآمد نہ کرسکا تو سب کو ضمانت پر رہا کیا گیا۔ نواب کی گرفتار ی کے بعد حالات نے کروٹ لی۔ اور تنظیمی حوالے سے مسلح مزاحمتی کاروائیاں شروع کی گئی۔ اس طرح مزاحمتی جدوجہد کے مسلح کاروائیوں کا آغاز ہوگیا۔ آغاز سے لیکر آج تک بی ایل اے بحثیت مزاحمتی تنظیم ڈسپلن کے حوالے سے کھبی بھی مصلحت کا شکار نہ ہوا بلکہ ہر سپاہی سے لیکر کمانڈر تک سب کو تنظیم نے ایک ہی نظر سے دیکھا اور سخت سے سخت حالات میں نظریہ و ڈسپلن پر مصلحت سے گریز کرتا رہا اور ہر مسئلے کو مرکزیت کے تحت حل کرنے کی کوشش کرتا رہا۔ اور تنظیمی ڈھانچہ بھی مخفی رکھا گیا۔ کسی بھی ذمہ دار شخص کے اختیارات کا تعین ان کے سامنے ظاہر نہیں کیا گیاسوائے مرکزی لوگوں کے جو کسی بھی مسئلے سے ہر ذمہ دار کیمپ کمانڈ سے صلح مشورہ کرتے رہے اور انھی کے صلح و مشورے سے مسائل کے حل اور نئی پالیسی مرتب کرتے رہے ۔اس وقت اس سوچ کو مدنظر رکھا گیا تھاکہ اگر کسی کے سامنے اسکے اختیارات کو واضح کرکے پیش کیا جاتا ہے تو پھر ان اختیارات کا استعمال ناگزیر طور پر ناجائز بھی ہوتا ہے ۔ تمام ذمہ دار ایک ساتھ چلتے ہوئے باہمی صلح و مشورے سے آگے بڑھتے رہے اور ماضی کے اثرات لیے ان لوگوں کے کردار و عمل کو ہر کام کے حوالے سے مدنظر رکھا گیا۔ نیت ‘خلوص‘بے غرض ‘جذبہ قربانی‘بے لوث جہد‘ذمہ دارانہ سوچ سمیت معاملہ فہمی کو مدنظر رکھ کر ان لوگوں کو ذمہ داریاں دی گئی اور ہر وقت ان پر نظر رکھی گئی کہ وہ اپنے کام کے حوالے سے کتنے سنجیدہ و ذمہ دار ہیں۔ اس طرح مرکز ہر ذمہ دار پر نظر رکھ رہی تھی۔ اسی سوچ کی وجہ سے تنظیم میں ڈسپلن سے لیکر فکر و نظر یہ تک ہر قول و فعل کو پرکھنے کے بعد کسی کے ذمہ داریاں بڑھائی گئی یا کم کیے گئے اور اس سارے عمل میں تمام کیمپ کمانڈ و دیگر افراد جو ان سے کام کے حوالے سے منسلک تھے ۔ ہر عمل کے حوالے سے مرکز سے معلومات شیئر کرتے رہے۔ اسی وجہ سے مرکز کو فیصلہ کرنے میں آسانی ہوتی رہی۔ اسی وجہ سے گروپ بندی سے لیکر من پسندی جیسے ناسور تنظیم میں پنپ نہیں سکے۔اس طرح تنظیم کسی بھی مسئلے پر مصلحت پسندی کا شکار نہ ہوا بلکہ ہر مسئلے کے حل کو قومی مفاد و تنظیمی قوانین و اصولوں کے تحت دیکھا گیالیکن یہ بھی ضروری نہیں‘ کہ کوئی تنظیم غلطیوں سے پاک ہو بلکہ ہر تنظیم غلطیوں سے سیکھ کر ہی مزید غلطیوں کے لیے دروازے بند کرسکتی ہے۔ بی ایل اے ایک مزاحمتی تنظیم ہے اور انسان کے مزاج و طبیعت و سوچ کا بھروسہ نہیں رہتا کیونکہ انسان کے ذہن میں چھپے پوشیدہ خیالات کو کوئی سائیکلوجیکل ڈاکٹر بھی نہیں جان سکتا۔ جب تک وہ اپنے علاج و تحلیل نفسی کے حوالے سے راضی نہ ہو، یہ انسانی فطرت ہے کہ اس میں شوق اختیار‘لالچ‘بدنیتی‘بدعملی و بد فعلی‘حسد جیسے سماجی بداعمالیاں موجود ہوتی ہیں اور اپنی انسانی فطرت کی وجہ سے ان افعال سے پاک ہونا ہی اسے عظیم کام و عظمت کے درجے تک پہنچا سکتا ہے بصورت دیگر وہ لالچ ‘شوق اختیار‘حسد بد نیتی و بدفعلی کی وجہ سے بہت سے ایسے کام کرسکتا ہے جو کہ مجموعی حوالے سے تحریک و تنظیم کے لیے نقصان دہ ثابت ہو نگے۔ اسی طرح انھی انسانی افعال و اعمال کے بدولت ہر تنظیم و ادارے میں ایسے افراد کی کمی نہیں اور ایسے افراد ہر ادارہ و ہر قوم میں موجود ہوتے ہیں۔ اسی وجہ سے دنیا کی تاریخ ایسے کرداروں سے بھری پڑی ہے اور انھی کرداروں کی وجہ سے بہت سے ادارے ٹوٹتے ہیں اور تحریکیں ناکامی کا شکار ہوتے ہیں۔ بی ایل اے بھی انسانوں کا ایک مجمع یا گروپ ہے اور ظاھر ہے اسمیں ایسے لوگوں کی کمی نہیں تھی، ایسے لوگوں کو مضبوط ڈسپلن ہی پابند بنا سکتا ہے اور انکے کردار و عمل کو سیدھے راستے پر لا سکتا ہے کیونکہ فطرتاً بہت کم ہی لوگ ایسے سماجی بداعمالیوں سے پاک ہونگے اور مضبوط تنظیمی ڈسپلن و مضبوط سوچ ہی لوگوں کے منشتر خیالات کو خط مستقیم پر لے جا سکتا ہے۔ کسی بھی ادارے میں صرف قومیت کے جذبے کو مدنظر رکھ کر انھیں آزاد نہیں کیا جاسکتا بلکہ ان کے معاشی معاشرتی ضرورتوں کو بھی مدنظر رکھا جاتا ہے کیونکہ آزادی کا مطلب ہی اپنے لیئے من پسند پابندی کے قوانین ہیں اور یہ قوانین کوئی تنظیم اپنے سپاہیوں سمیت اپنے تنظیم سے منسلک ہر فرد پر لاگو کرتا ہے اور اسی ڈسپلن کی بدولت ہی وہ جدوجہد کو نتیجہ خیز بنا سکتی ہے۔اگر دنیا کے تمام افواج کو دیکھ لیں تو اس میں کم ہی لوگ وطن پرستی کے نام پر بھرتی ہوتے ہیں بلکہ زیادہ تر لوگ ذریعہ معاش کی وجہ سے و بعض شوق سے و بعض فوجی طبعیت کی وجہ سے و بعض ایڈوینچر سمجھ کر بھرتی ہوتے ہیں لیکن ان مختلف خیال لوگوں کو صرف ڈسپلن ہی پابند بنا سکتا ہے اور انھیں ہر قربانی کے لیے تیار کرتا ہے اور ڈسپلن ہی انھیں مرنے مارنے پر آمادہ کرتا ہے۔کوئی فوجی اپنے شوق سے مرنے کے لیے تیار نہیں ہوتا بلکہ ڈسپلن اسے مجبور کرتا ہے اور وہ ڈسپلن کے تحت ہی مرنے مارنے سے نہیں کتراتا اور ناممکن کو ممکن بنا دیتا ہے۔ دنیا کے کسی بھی فوج کے سارے سپاہی وطن پرستی کے تحت بھرتی نہیں ہوتے بلکہ وہ پروفشنل ہوتے ہیں اور انھیں پروفیشنل ہی ڈسپلن بنا تا ہے اور یہ ڈسپلن ہی ہے جو کسی بھی ادارے میں غلطیوں سے لیکر ہر برے عمل کی روک تھام کرتا ہے اورانھیں احتساب کے عمل سے گزارتا ہے، لیکن آزادی کی تحریکوں میں صورتحال کچھ مختلف ہوتی ہے‘کیونکہ ان تحریکوں میں لوگ صرف وطن پرست ہو کر ہی جدوجہد کا حصہ بنتے ہیں اور ایک تنظیم میں سبھی سپاہی ایک ہی خیال کے لوگ نہیں ہوتے بلکہ مختلف خیالات رکھنے والے یہ لوگ ایک نظریہ کے تحت ایک ساتھ ہوتے ہیں اور ان میں بھی حسد‘بدنیتی جیسے برائیاں ہوتی ہیں، ان برائیوں کو ختم تو نہیں کیا جاسکتا لیکن انہیں ضرور کنڑول کیا جاسکتا ہے ۔ آپ مضبوط ڈسپلن کے تحت ہی ان مختلف الخیال لوگوں کو ایک ساتھ جوڑ سکتے ہیں اور انسانی فطرت کے منفی خیالات کو پنپنے سے روک سکتے ہیں۔ بلوچ لبریشن آرمی ایک وطن پرست قومی مزاحمتی تنظیم کی حیثیت سے اکیسوی صد ی میں بلوچ مزاحمتی جہد کے ٹوٹے ہوئے تسلسل کو برقرار رکھتا ہے تو تنظیم میں مختلف خیالات کے لوگ ایک نظریے کے تحت جمع ہو جاتے ہیں اور رفتہ رفتہ وہ برے انسانی اعمال جو کہ انکی فطرت کا حصہ ہے وہ اعمال و قت و حالات کے ساتھ سامنے آتے ہیں۔لیکن اگر بروقت انکی روک تھام نہ کی گئی تو گروپ بندی تقسیم در تقسیم و تنظیم کے اندر بدنظمی کی فضا قائم ہو جاتی ہے اور اگر ایک کمانڈر یا ذمہ دار کہ کسی بھی وجہ سے تنظیمی ڈسپلن کی خلاف ورزی کرتا ہے اور اسے اس لالچ پر معاف کیا جاتا ہے کہ وہ ایک مضبوط گروپ کی حیثیت سے تنظیم میں اپنا کردار ادا کررہا ہے اور اسے اس خوف سے احتساب کے عمل سے نہیں گزارا جاتا کہ اس کا احتساب کرنے سے وہ تنظیم کو چھوڑ سکتا ہے تو یہاں سے تنظیم کی موت کی بیماری سر اٹھاتی ہے کیونکہ ایک مصلحت تمام تنظیمی قوانین کو تہہ و بالا کردیتا ہے اور پھر ہر سپاہی و ذمہ دار کے لیے راستے کھل جاتے ہیں اور یہ عمل ایک روایت بن جاتی ہے۔اس بابت بلوچ لبریشن آرمی کسی بھی حوالے سے ازل سے مصلحت کا شکار نہ رہی۔ اور تسلسل کے ساتھ احتساب کا عمل ہر سطح پر جاری رکھا۔ سبزل بڈانی مری 1973 سے قومی جدوجہد سے منسلک رہا تھا اور تحریک آزادی کی ناکامی کے بعد جب 1996 میں تحریک کی دوبارہ بنیاد رکھی گئی تو موجودہ تحریک میں ماضی کے تحارک کی قبائلی حالات کو مکمل طور پر مدنظر رکھ کر تحریک کو سائنسی خطوط پر رکھنے کی کوشش کی گئی تھی۔ قبائلی اثر رسوخ و قبائلی حیثیت سے زیادہ ہر فرد کے کردار و عمل کو دیکھا گیا۔ سبزل بڈانی ایک تجربہ کا ر جہد کار تھے اور موجودہ تحریک میں ایک ذمہ دار کی حیثیت سے اپنا کردا ر اداکر رہے تھے، تنظیمی امور پر سبزل مری ہمیشہ سے روایتی رہا اور عسکری کام کو بھی روایتی نقطہ نظر سے دیکھتا رہا جس پر ایک دو دفعہ اس پر سوال بھی اٹھے تھے لیکن اسکے بعد بھی وہ ماضی کے تنظیمی اصولوں کو مدنظر رکھ کر فیصلے لیتا رہاتھا جبکہ موجودہ حالات کے تقاضے کچھ اور تھے اور وہ روایتی طرزو طریقے کے تحت اپنی قبائلی حیثیت کو سامنے رکھ کر تنظیمی اصولوں کو دیکھتا رہااور خود پر سوال اٹھنے اور جواب دینے کو اپنی توہین سمجھتا رہا ۔ وہ یہی سمجھتا رہا کہ ایک تجربہ کار کمانڈ کی حیثیت سے کسی سپاہی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ سوال اٹھائے اور تنظیمی امور پر جب تنظیم کی جانب سے اسے دیگر کے سامنے جوابدہی کے لیے کہا گیا تو اس پر وہ ناراض ہوگیا تھا کہ میں تو تجربہ کار ہوں اور اس جونئیر کو میں جوابدہ نہیں اور اسی طرح کے ایک دو اور عسکری مسئلے بھی سامنے آئے تھے جس پر سبزل مری نے روایتی بن کر تنظیمی اصولوں کو توڑنے کی کوشش کی تھی جس پر اسے سخت تاکید کی گئی لیکن وہ اپنے روایتی سوچ کو چھوڑنے پر راضی نہ ہوا اور تنظیم اپنے اصولوں پر ڈٹا رہا۔ اس طرح ناڑی مراد جسکے سپرد تنظیمی عسکری وسائل کو سنبھالنے کی ذمہ داری تھی ، وہ عرصہ دراز سے یہ کام سرانجام دے رہا تھا لیکن اس کے حوالے سے اکثر شکایتوں کی سلسلہ اس بنیاد پر رہا تھا کہ وہ تنظیمی وسائل کو کسی دوسرے کیمپ پہنچانے یا دینے میں اکثر پس و پیش سے کام لیتا ہے اور اکثر عسکری کاموں میں سستی کا مظاھرہ کرتا ہے اور وسائل دس من مٹی تلے دبا کر کسی ضرورت مند کیمپ کو دینے پر راضی نہیں ہوتا ۔بار بار کہنے پر وہ بہانہ بنا کر اپنی گلو خلاصی کی کوشش کرتا رہا اور دیگر سپاہیوں کی بھی اکثر اسکے کام کے حوالے سے شکایتوں کا سلسلہ جاری تھا۔ جب ذمہ دار اشخاص انہیں کسی کیمپ کو وسائل فراہم کرنے کے حوالے سے کہتے تو وہ پس و پیش سے کام لے کر ٹال مٹول کرتا رہتا تھا۔ جس پر اسے کئی بار تاکید کی جاچکی تھی۔ ناڑی مراد جو ہزار خان رامکانی کا قریبی دوست رہاتھا اور موجودہ حالات میں ہزار خان رامکانی کے گھر میں پناہ لینے سے اس کے اس مضبوط رشتے کی تصدیق بھی ہو گئی ۔ ناڑی مراد میں بد نیتی اور حسد جیسے کمزور فعل ازل سے موجود تھے جبکہ وقت حاضر میں تحریک میں ایسے کمزور لوگوں کے لیے حالات سخت سے سخت ہوتے جارہے تھے اور جنگ کی شدت میں بھی اضافہ ہورہاتھا ، شہری گوریلا جنگ میں بھی تیزی آچکی تھی اور دیگر باصلاحیت نوجوان جو عسکری و سیاسی سماجی حوالے سے زیادہ باشعور تھے ناڑی مراد کے ان کمزوریوں پر انہیں سمجھانے کی کوشش کرتے رہے لیکن وہ اپنے ماضی کے تجربے کو بنیاد بنا کر کسی بھی یا کسی مثبت صلح و مشورہ کو اہمیت نہیں دیتے تھے کیونکہ ان کے خون میں روایتی طرزطریقہ کار دوڑ رہی تھی اور اسے بار بار تنظیمی حوالے سے تاکید کی گئی تھی لیکن وہ اپنے تجربے کے گھمنڈ میں نظم و ضبط کو اپنی مرضی کے تابع بنانے کی کوشش میں لگا رہا۔ جس پر اسے تنظیمی حوالے سے جوابدہ ہونا پڑا۔ اس جوابدہی کو وہ اپنی توہین سمجھ کر ان منفی اعمال کو مزید تواتر کے ساتھ دہراتا رہا جس پر اس کے دائرہ اختیار میں کمی کی گئی ، لیکن وہ تنظیمی وسائل جو اس کے سپر د تھے وہ انہیں اپنی ملکیت سمجھ بیٹھا اور وسائل کو تنظیم کے حوالے سے انکاری ہو گیا۔ قادر مری جو کہ 1973ء سے قومی تحریک سے جڑا ہوا تھا اور موجودہ تحریک کی بنیاد رکھنے میں شامل رہاتھااور اپنی ذمہ داریاں نبھا رہا تھا کے ذمہ قومی عسکری وسائل کی حفاظت و شہری لوگوں کی ٹریننگ کی ذمہ دار ی سپر د تھی۔ قادر مری بھی ناڑی مراد کی طرح مرکز کی جانب سے کسی کو وسائل دینے پر کوتاہی برتتا رہا ، وہ وسائل پر مامو ر اپنے اختیارات کا رعب و دبدبہ ظاہر کرتا اور ضرورت مند کیمپوں کو وسائل دینے میں پس و پیش سے کام لیتا رہا قادر مری بھی ناڑی مراد کی طرح موجودہ حالات سے ناواقف تھا اور ماضی و موجودہ حالات میں فرق سے نابلد نظر آتا تھا اور تنظیمی اصول جو کہ ماضی میں قبائلی اثر و رسوخ کی بنیاد پر بنتا اور ٹوٹتا وہ ان حالات میں بھی اسی سوچ کے تحت کام کر رہا تھا اسے بار بار مرکز کی جانب سے ہدایت دی گئی تھی جس پر وہ پابند نہیں رہااسے موقع دیا گیا تاکہ وہ اپنی کمزوریوں کا ادراک کر سکے کہ وہ مرکز کی مرکزیت کو سمجھ کر اپنے رویوں میں تبدیلی لائے۔ قادر مری عسکری حوالے سے دس سال تک کوئی خاص کار کردگی بھی نہیں دکھا سکا بلکہ وہ ہمیشہ سے کیمپ میں ہی رہے تھے اور اسے کسی کاروائی کے حوالے سے کہا جاتا وہ ہر بار موسم کا بہانہ آڑے لا کر ٹال دیتا، ان کوتاہیوں کا سلسلہ دس سال تک محیط ہے ۔ ان دس سالوں میں انہوں نے ایسا کوئی خاص کارنامہ سر انجام نہیں دیا اس بنا پر مرکزی قیادت نے اختیارات کو قادر مری کے بدلے کاہان شفٹ کردیئے۔ قادر مری پر یہ ناگوار گزری لیکن اسکے رویوں میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ، تنظیمی کاموں کے بدلے وہ قبائلی مزاج کے ساتھ بگٹی قبیلے سے تعلقات بڑھانے میں جٹھا رہا۔ اسے اس وقت بی آر اے کی مدد کرنے کے لیے جو ذمہ داریاں دی گئی تھی۔ وہ تنظیم کے بجائے اسے قبائلی انداز میں کرتا رہا اور بگٹی قبیلے سے تعلقات بڑھانے اور اپنی قبائلی اثر و رسوخ کو بڑھانے کی کوشش میں لگا رہا۔ اس پر تنظیم نے اسے سخت تاکید کی تھی کہ وہ روایتی انداز میں سوچنے کی بجائے انقلابی حوالے سے اور تنظیم کے پالیسیوں کو مدنظر رکھ کر سوچے اور تنظیمی پالیسیوں کے تحت کام کرے لیکن وہ ہر بارروگردانی کرتا رہا۔ تنظیم نے اسے تاکید کی تھی کہ بی آراے کے ساتھ رشتہ علاقائی و قبائلی نہیں بلکہ ایک قومی تنظیم کی حیثیت سے ہے اس سے ہم ایک قومی تنظیم کی حیثیت سے رشتہ استوار کرچکے ہیں لہٰذا قبائلی مزاج و قبائلی رویے تحریک کے لیے نقصان دہ ثابت ہونگے لیکن قادر مری اپنے روایتی قبائلی انداز کے ساتھ چلتے ہوئے بی ایل اے کے کیمپ کو مکمل بی آراے کا کیمپ بناد یا۔ نا رازداری کا خیال رکھا گیا اور نا ہی تنظیمی اصولوں کا بلکہ وہ روایتی انداز میں تما م مسائل کو دیکھتا رہا۔اسی طرح تنظیم نے ایک پھر اس پر بعض مسئلوں کے حوالے سے پابندی عائد کردی لیکن پھر بھی وہ اپنے رویوں میں تبدیلی لانے پر راضی نا ہوا۔ اسی طرح انہوں نے اپنے 1973 کے واقعات کو قلمبند کردیا اس کتاب کے چھپنے کے بعد ہی تنظیم کو اس کے اس عمل کا پتہ چلا کیونکہ اس وقت کتاب میں بہت سے ایسے ناموں کو ظاہر کیا گیا تھا جو کہ ریاستی نظر میں نہیں آئے تھے اور کتاب میں بہت زیادہ قیاس آرائی کی گئی تھی اور یہ کتاب بھی تنظیم سے صلح مشورہ کے بجائے اپنے مرضی سے چھاپی گئی تھی۔ اس پر تنظیم نے اس کے تسلسل کے ساتھ غلطیوں پر چھوٹے چھوٹے پابندیاں لگا تا رہا ۔ تاکہ اسے احساس دیا جا سکے اور جو لوگ اس کے ساتھ کیمپ میں موجود تھے بہت سے اختلاف رکھ کر دیگر کیمپوں کو روانہ ہوئے اور قادرمری اپنے رشتہ داروں کے ساتھ کیمپ میں رہا۔ کلاتی بی ایل اے کا ایک ساتھی تھا اور اس کا بھائی شہید بالاچ کے ساتھ کام کر رہا تھا جب ڈیرہ بگٹی پرریاستی آپریشن شروع ہوا اور نواب اکبر خان بگٹی شہید تراتانی کے مقام پر قیام پزیر تھے تو شہید بالاچ اور دیگر ذمہ داروں کے صلاح و مشورے سے بی ایل اے کے بہت سے سپاہی ڈیرہ بگٹی کی جانب راونہ کیے گئے تھے ۔ ان سپاہیوں میں سے ایک کلاتی کا بھائی شاہ گل بھی تھا۔ جب یہ لو گ میدان جنگ کے قریب پہنچے تو شاہ گل نے میدان جنگ میں جانے کی بجائے میدان جنگ سے بھاگنے کو ترجیح دی، جو کہ عسکری قوانین و تنظیمی قوانین کے خلاف تھا اور بلوچ رسم و رواج کے تحت بھی یہ فعل بزدلانہ فعل تھا شاہ گل بغیر کوئی مضبوط وجہ بتائے دیگر ساتھیوں کو چھوڑ کر اپنے گھر چلا گیا تھا۔ دیگر سپاہیوں اور ذمہ داروں کی منت سماجت پر بھی وہ نہ رکا اور یہ کہتا ہوا میدان جنگ چھوڑ کر چلا گیا کہ میں نواب بگٹی کے لیے اپنے آپ کو قربان نہیں کرسکتا۔ شاہ گل کے اس عمل پر بی ایل اے نے سزا کے طور اس سے ناطہ توڑ دیا اور اس سے تنظیمی رابطے منقطع کیے گئے۔ ایک شخص جو کہ میدان جنگ میں تنظیم اور اپنے ساتھیوں کو دھوکہ دے سکتا ہے تو اسکا کوئی بھروسہ نہیں۔ وہ کسی وقت بھی کوئی بھی عمل کر سکتا ہے۔ شاہ گل سے تنظیمی ناطہ توڑنے پر کلاتی نے بھی یہ کہہ کر روایتی و قبائلی انداز میں اپنے بھائی کی پیروی کو ترجیح دی کہ میں اپنے بھائی کو اکیلے نہیں چھوڑ سکتا۔ کلاتی پر اس سے پہلے علاقے میں کچھ ایسے الزامات بھی لگ چکے تھے کہ وہ علاقے میں چوری و اختیارات کا ناجائز استعمال کررہا ہے اس پر اسے سزا بھی دی گئی تھی۔اس طرح کلاتی نے اپنے بھائی کو تنظیم سے فارغ کرنے پر اپنے بھائی بندی کو ترجیح دی اور اپنے بھائی کی طرف داری کی جس پر بی ایل اے نے اس سے بھی ناطہ توڑ دیا۔اگر ان لوگوں کے حوالے سے کسی بھی صورت مصلحت پسندی کا مظاھرہ کیا جاتا تو صورتحال یکسر مختلف ہوتی ، وقتی فائدے ضرور ہوتے لیکن لمبے عرصے کے لیے یہ نقصان کا سبب بنتے ۔ناڑی مراد قادری مری سبزل بڈانی جیسے لوگ وقت و حالات کے ساتھ خود کو تبدیل نہیں کر سکے بلکہ جس تجربے سے وہ خود گذرے تھے اسی کو بنیاد بنا کر ہر عمل کا پیمانہ اسی کو بناتے رہے اور سیاسی دنیا سے دور رہنے کی وجہ سے نئے سوچ و نئے خیالات کو ہضم نہ کرسکے بلکہ اسی قبائلی طرز جہد کو آگے بڑھانے کی کوشش کرتے رہے ۔ 1970 سے لیکر 2008 تک دو نوجوان نسل تیار ہوچکے تھے اور مختلف سوچیں پرورش پاچکے تھے ، جس سے ایک جنریش گیپ آچکا تھا نوجوان نسل پرانے خیالات سے باغی تھے اور بزرگ نئے خیالات کو قبول کرنے سے انکاری رہے لیکن حقیقت ہی اصل حقیقت ہوتی ہے اور دنیا بھی وقت کے ساتھ بدلتا ہے اور پالیسیاں و سوچیں وقت و حالات کے ساتھ بدلتے رہتے ہیں اگر ان میں جمود آگیا تو وہ تباہی کے دہانے پر پہنچاتے ہیں اور اگر انہیں زبردستی زندہ رکھنے کی کوشش کی گئی تو صورتحال ٹکراو کی صورت میں ہوگا اس طرح نئے و پرانے خیالات کے بیچ ایک فاصلہ پیدا ہو گیا اور پرانے خیالات کے بجائے نئے خیالات تشکیل پاتے رہے اور پرانے خیالات نئے خیالات کے زیر اثر ہو کر دب جاتے ہیں لیکن یہ سلسلہ صرف بزرگوں کے ساتھ نہیں ہوتا بلکہ نوجوانوں میں بھی انھی خیالات کے لوگ ہوتے ہیں اور اسی انداز میں سوچتے ہیں جو کہ نصف صدی پہلے بزرگ سوچتے تھے ۔اسی طرح مہران مری بھی بی ایل اے کا حصہ تھے ، حیر بیار مری کی لندن میں گرفتاری کے بعد تنظیمی امور کی بہت سی ذمہ داریاں اسکے کاندھوں پر آگئے اور وہ بھی اپنے فرائض سر انجام دے رہا تھا۔ مالی حوالے سے مہران نے تمام وسائل کو دیگر تنظیمی ذمہ داروں سے رابطہ اور صلح مشورے کی بجائے اپنے من پسند افراد سے تعلقات کو وسعت دینے کیلئے استعمال کرتا رہا اور تنظیمی مالی وسائل کو بے دریغ خرچ کرتا رہا۔ حساب کتاب کے حوالے سے بھی بی ایل اے کے دیگر اداروں سے رابطے کے بغیر سب کچھ انجام دیتا رہا، جس کی وجہ سے اس کے دور میں بی ایل اے کمزور رہا اور تنظیم بحرانی کیفیت میں چلا گیا اور عسکری وسائل کو مہران مری نے ان ناعاقبت اندیش لوگوں کے سپرد کردیا جو اس سے پہلے بی ایل اے کے سزاء یافتہ اشخاص تھے۔ انہوں نے بی ایل اے کے دیگر ذمہ داروں سے رابطہ منقطع کردیا۔ حیر بیار مری کے رہائی کے بعد مہران مری سے پوچھ گچھ کی گئی اور ان سے دو سال کے دورانیے کے مالی و عسکری وسائل کا حساب کتاب مانگا گیا۔ انھوں نے جو حساب دیا وہ غیر تسلی بخش تھا ، جب اس سے واپس حساب مانگا گیا اور کچھ اخراجات کی وضاحت مانگی گئی تو وہ اس پر انکاری ہوگیا ۔ جس کی وجہ سے بی ایل اے اسے سزاء دینے پر غور و غوض کر نے لگا ،بی ایل اے ابھی تک حتمی فیصلے پر نہیں پہنچ سکا تھاکہ یوبی اے کا قیام عمل میں لایا گیا۔ اس طرح تمام سزاء یافتہ و احتساب زدہ اشخاص نے اکھٹے ہو کر نئے متحدہ تنظیم کی بنیاد رکھ دی اور بی ایل اے کے سزا یافتہ افراد کا یہ ٹولہ نئے تنظیم کے ساتھ متعارف ہوا۔ آج یہی مذکورہ بالا اشخاص یو بی اے کے والی و وارث ہیں۔ یہ تمام افراد تنظیمی ڈسپلن کی وجہ سے اپنے غلط افعال و اعمال کی وجہ سے سزاء یافتہ قرار پائے گئے تھے ،اگر اس سوچ کو دیکھیں جس پر بی ایل اے بحیثیت قومی تنظیم مصلحت پسند ی کا شکار نہ ہوا اور قومی مفادات و تنظیمی اصولوں پر ڈٹا رہا اور تنظیم کے تمام ساتھیوں کو ایک ہی نظر سے دیکھتا رہا ظاھر کرتے ہیں کہ بی ایل اے نے بحیثیت مزاحمتی تنظیم کسی بھی مسئلے پر مصلحت نہ کی اور ہر سطح کے ذمہ داراں کو غلطی کی سزا دی، اسے جزاء و سزا کے عمل سے گزارااور ڈسپلن کی سختی سے پابند بنانے کی کوشش کی۔ یہی وجہ ہے کہ مسلح تنظیموں میں بی ایل اے واحد مضبوط تنظیم کی حیثیت سے متعارف ہوئی ہے۔لیکن پھر بھی بی ایل اے کو ایک مکمل نظم و ضبط کا پابند ادارہ نہیں کہا جاسکتا۔ کیونکہ قومی آزادی کی اس تحریک میں اسے اور بھی مزید سخت فیصلے کرنے ہونگے۔اور اپنے ڈسپلن کو مزید مضبوط و منظم بنانے کی ضرورت ہے۔بی آر اے بحثیت مزاحمتی تنظیم جس وقت متعارف ہوئی۔ اس وقت قبائلی سوچ کے ساتھ لوگ اس تنظیم سے وابستہ ہو گئے اور ان کی وابستگی اس وقت جذبات کی وجہ سے تھی لیکن بی آر اے نے قبائلی سوچ کے تحت اپنے ذمہ داروں کا چناؤ کیا۔ جو قبیلے کے نامی گرامی لوگ تھے انہیں ذمہ دار بنایا گیا۔جس کی مثال بنگان بگٹی سے عالی و وڈیرہ پیرو تک کا سفر ہے۔ اسی طرح بگٹی قبیلے کے تمام شاخوں کے سربراہاں کو ذمہ دار بنایا گیااور ہر قبیلے کا شاخ اپنی مرضی کے مطابق اپنے کمان کی سلکیشن کے ساتھ ساتھ اپنے سپاہی و جگہ کا سلیکشن کرتا تھا جو کہ روایتی طرز طریقہ تھا۔ اسی بنا ء پر کہ کچھ ہی عرصے بعد نصف کے قریب قبائلی شخصیات سرکار سے جا ملے ۔ بی آر اے میں کسی کی غلطی پر جزاء و سزاکی کوئی حد مقرر نہیں تھا۔ بی آر اے کے نوشکی کیمپ میں جہاں پر حاجی بگٹی نامی بگٹی قبیلے کا ایک شخص کمانڈر مقرر تھااس کے حوالے سے علاقے کے لوگوں کی بار بار شکایت کی گئی تھی کہ وہ علاقے میں عورتوں کو تنگ کرنے جیسے منفی اعمال میں ملوث پایا گیا ہے اور لوگوں کی بار بار شکایت پر بی ایل اے نے بحثیت قومی تنظیم اپنی ذمہ دار ی کو نبھاتا رہا اور بی آر اے کے مرکزی قیادت کو اس بارے میں آگاہ کرتا رہا یہاں تک کہ مکران کیمپ کے کمانڈ گلزار امام کو اطلاع دی گئی جس پر گلزار امام و حاجی کے مابین کچھ جھگڑا بھی ہوا تھا لیکن حاجی پر بی آر اے نے کوئی ایکشن نہیں لیا بلکہ وہ اسی طرح ہر روز پہاڑی علاقے میں لوگوں کے گھروں میں کام کے بہانے جاکر مہمان بنتا اور وہ بلوچی معیار کے تحت اس کی خدمت کرتے لیکن وہ ان کے لیے وبال جان بن کر ہر روز ان کے گھر پہنچ جاتا۔ لوگ اس کے ان رویوں کی بار بار شکایت کرتے اور بی ایل اے کی قیادت حاجی بگٹی کے ان رویوں پر بی آر اے کی قیادت کو کہتا رہا لیکن بی آراے کی قیادت اس پر دو سال تک خاموش رہی۔ پھر بالآخر جب خود علاقے کے لوگوں نے اسے ایک بے ہودہ حرکت کرتے ہوئے پکڑلیا اور اس پر سیاہ کاری کا الزام لگا اور علاقائی معتبرین نے اسے بی آر اے کے حوالے کیا تو پھر بعد میں مجبوراً بی آراے نے اسکے خلاف ایکشن لیا اور اسے گرفتارکرلیا۔ اسی طرح بی آر اے کے ایک اور ذمہ دار رحیمو بگٹی نے وڈیرہ پیرو بگٹی کی بیٹی کو گھر سے بھگا کر شادی کی جس پر بی آر اے کے اندر بہت سے اختلافات پیدا ہوئے لیکن پھر بھی براہمدغ بگٹی نے اس پر خاموشی اختیار کی کیونکہ وڈیرہ پیرو براہمدغ بگٹی کو چھوڑ کر طلال بگٹی کے ساتھ چلا گیا تھا اس پر بی آر اے نے قبائلی رسم و رواج کے تحت کوئی قدم نہیں اٹھایا اور نہ ہی اس مسلئے کے حل کرنے کی کوئی کوشش کی اور نہ ہی بروقت اپنے سپاہیوں و ذمہ داروں کی غلطی پر انھی سزا دی اور نہ ہی احتساب کے عمل سے گذارا اور اسی وجہ سے بی آراے ہر واقع میں مصلحت کر کے اپنے ڈسپلن کو مزید بگاڑتا رہا۔ مستونگ میں آزادی پسند تنظیموں کے ایک ہمدرد کو بی آر اے نے قتل کیا اور اس واقعے کی ذمہ داری قبول کرلی جس پر بی آر پی سے تعلق رکھنے والے بہت سے سیاسی کارکنوں نے اس مسئلے پر احتجاج کیا اور تنظیم سے مستعفی ہوئے۔ اسی طرح مکران میں بی آراے کی ڈسپلن کی حالت اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ سپاہی اپنی مرضی سے چوری ڈکیتی جیسے واردات میں ملوث پائے گئے ہیں اور پنچگور میں تریاق و کرسٹل سے بھر ے تین گاڑیوں کو لوٹ کر لے گئے تھے اس واقعے میں ایک کاروباری شخص مارا گیا تھا، تریاق لوٹنے کے بعد بی آراے کے سپاہی آپس میں گھتم گھتا ہو گئے اور ایک دوسرے پر بندوقیں تان لیں ہر ایک تریاق میں اپنا حصہ بڑھانے کی بات کر رہا تھا۔ ایک دفعہ جب پنجگور میں شہید سعید نے اپنے دوستوں کے ساتھ جب روڈ و پل کا کام بند کروایاجس میں بی آراے کا ایک سپاہی بھی شہید ہو اتھا تو کچھ ہی عرصے بعد گلزار امام نے 30لاکھ روپے لیکر بی ایل ایف کے ہمراہ اس روڈ پر کام کی اجازت دے دی ۔اسی طرح گلزار امام کے بھائی سے لیکر بہت سے بی آر اے کے ممبر جو کہ ریاستی کارندے بن چکے ہیں یا پہلے سے ہی تھے، گلزار سمیت بی آراے ان کے حوالے سے کوئی ایکشن نہیں لیتا۔ مقبول شمبے زئی جو کہ ایک ریاستی دلال ہے جو پنچگور میں بی آراے و بی ایل ایف کے زیر کنٹرول علاقے میں سر عام گشت کرتا پھر رہا ہے اس کو مارنے کے حوالے سے بی آر اے کے ایک سپاہی نے کہا کہ گلزار امام کو اس بارے میں ہم نے بہت کہا لیکن اس نے کہا ہے کہ اگر میں بی آر اے کی جانب سے مقبول کو ما ر دوں تو اسکے قتل پر میرے لیے خاندانی مسئلے پیدا ہونگے خاندانی مسئلے کو بنیاد بنا کر ایک غدار کو زندہ چھوڑنا مزید سرمچاروں کی شہادت کے دروازے کھولنا ہے ۔ حال ہی میں شہید اصغر کا واقعہ پیش آیا ہے ، شہید اصغر بی آر اے ،بی ایل ایف اور بی ایل اے سب کے ہمدرد کے طور کام کرتا تھا اور بی آرپی کا پنچگور زون کا صدر بھی تھا۔ پچھلے سال لیویز سے اسلحہ لوٹنے پر دو ڈاکو مارے گئے اور زہیر نامی ایک ڈاکو زخمی بھی ہواتھا جس پر بی آراے کے اس وقت کے کمانڈ ساربان نے لیویز والوں کو دھمکی دی کہ یہ لوگ ہمارے تنظیم کے تھے آپ نے انہیں مارا ہے اسکا انجام آپکو بھگتنا ہوگا۔ جب زہیر کی جیل سے رہائی ہوئی تو انہوں نے ڈکیتی کے دوران قتل ہونے والے دونوں شخص کے قتل کا ذمہ اصغر پر ڈال کر اسے قتل کردیا ، اس واردات میں بی آر اے کا ایک اور ذمہ دار شخص بھی زہیر کے ساتھ تھا۔ اس کاروائی کی پلاننگ بی آر اے کے کیمپ میں کی گئی تھی۔ دو سال کے بعد اسلحہ لوٹنے والے دو ڈاکو جو مارے گئے تھے انھیں بی آر اے نے اپنے بیان میں کہ وہ ہمارے تنظیم کے شہید ہیں اور تنظیمی حکمت عملی کے تحت اس وقت ان کو ظاہر نہیں کیا گیا ساتھ میں اصغر کو بی آر پی نے شہید قرار دے دیا لیکن اسکے قاتلوں کو اپنے کیمپ میں بٹھایا ہوا ہے۔ ایسے بہت سے ویل و واقعات ہیں جو کہ تسلسل کے ساتھ ہورہے ہیں ان پر بی آراے مکمل خاموش ہے چوری ڈکیتی سے لیکر آئل ٹینکروں کو لوٹنا دکانداروں سے زبردستی پیسے لینا تسلسل کے ساتھ ہو رہے ہیں اور علاقے کے لوگوں نے مرکزی قیادت تک اس کا پیغام پہنچایا ہے۔ لیکن ہر بار خاموشی ہی مقدر ہے۔ یہ بی آراے کی ڈسپلن کی حالت ہے۔ بی ایل ایف کی حالت یہ ہے کہ سیف الدین نامی مخبر جس کے ہاتھ بلوچ نوجوانوں کے خون سے رنگے ہیں اسے ڈاکٹر اللہ نظر معاف کردیتا ہے دنیا کی تاریخ میں پہلی بار یہ سننے کو ملا ہے کہ کسی تنظیم نے کسی غدار کو معاف کر دیا ہے حالانکہ غدار کو معاف کرنا یا نہ کرنا قومی نقصان و فائدے کو دیکھ کر فیصلہ کیا جا سکتا ہے لیکن یہاں ڈاکٹر نے سیف الدین کو اس بنیاد پر معاف کیا تھا کہ اس نے معافی مانگنے کے ساتھ ڈاکٹر اللہ نظر کی مالی معاونت کی تھی ۔ بی ایل ایف کی حالت مکران میں کچھ ایسی ہے کہ مکران میں آئے روز کسی نہ کسی معصوم کو اپنے خاندانی دشمنی کے بنیاد پر مخبر قرار دے کر مار دیتے ہیں اور وسائل پیداکرنے کے لیے چوری ڈکیتی کو تنظیمی پالیسی قرار دیا گیا ہے۔بی ایل ایف نے تین چار سال سے تریاق لوٹنے پر اپنے سپاہیوں کو مامور کیا ہوا ہے ۔ دوسری طرف دیکھیں تو بی ایل ایف کی آواران قیادت و کیچ قیادت کی پالیسیاں تک یکساں نہیں۔ اندرونی طور پر ان مسئلوں پر آپس میں اختلافات رکھتے ہیں۔ بی ایل ایف کے سردو نامی سپاہی نے دو معصوم بلوچوں کو خاندانی دشمنی کی بنیاد پر قتل کردیا تھا، جس کے بنا پر اسے بی ایل ایف نے تنظیم سے نکال دیا ، لیکن کچھ ہی دنوں کے بعد وہ واپس تنظیم میں واپس پرانے پوزیشن پر لے لیا گیا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بی ایل ایف کی قیادت اپنے وسائل پیدا کرنیوالے سپاہیوں کے ہاتھوں بلیک میل ہوچکا ہے۔ بی ایل ایف میں ڈسپلن نام کی کوئی چیز ہی نہیں رہی ہے اور بی ایل ایف میں سب سے بڑا مسئلہ اسکی پالیسیوں کا ہے بی این پی عوامی سے لیکر بی این پی مینگل و علی حیدر محمدحسنی کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ علی حیدر محمد حسنی جو کہ نورامری کی مخبری کا ذمہ دار ہے۔ بی ایل ایف کے اس سے قریبی تعلقات ہیں۔ بی ایل ایف مزید اس سے تعلقات کو مضبوط کر رہی ہے۔ بی ایل ایف کا اپنوں کے لیے علحیدہ پالیسی ہے اور عوام کے لیے علیحدہ۔ ڈاکٹر اللہ نظر کے بھائی اور اختر ندیم کا چچا جو موجودہ پاکستان کی آزادی کے دن ایف سی کیمپ میں جاکر پاکستان کی آزادی کے پروگرام میں شرکت کرتا ہے اور ساتھ میں دشمن اسے مزید ذمہ داریاں دیتا ہے۔ اس پر بی ایل ایف خاموش ہے۔ کیونکہ گلزار امام کی طرح اسے بھی خاندانی جنگ کے خوف سے مارا نہیں جارہا۔ بی ایل ایف کے سپاہی اپنے مرضی سے پنجگور اور تربت کے نواحی علاقے میں چوری ڈکیتی کرتے پکڑے گئے ہیں اور حال ہی میں بلیدہ کا واقعہ پیش آیا، جہاں پر بی ایل ایف نے وسائل پیدا کرنے کے لیے علاقائی پیڑول انبار پر حملہ کرکے پیسے لوٹ لیے اور پھر راستے میں دوران جنگ انکا ایک سپاہی مارا گیا اور دیگر حملہ آوروں سے دو مارے گئے جس میں بی ایل ایف کے لوگ پکڑے گئے بعد میں علاقے کے لوگوں نے بی ایل ایف کے خوف سے انھیں چھوڑ دیا اور یعقوب بالگتری جو کہ ماضی میں بی ایل ایف کا ساتھی رہا تھا اور اب ایک ہمدرد بن چکا تھا اور بی ایل ایف کو مالی مدد و کمک کر رہا تھا اسے کام کے بہانے بلا کر قتل کیا گیا، ان کے آپسی رشتے کی آڈیو ریکارڈنگ بھی آچکی ہے۔ اس طرح کے واقعات مکران میں روز کا معمول بن چکے ہیں۔ ہر سپاہی کی پالیسی مرکز سے علیحدہ ہے اور جو لوگ ان سے انھی مسئلوں پر اختلافات رکھتے ہیں تو انھیں جان کی دھمکی دی جاتی ہے ۔ اسی بنا پر حلیم دشتی و کچکول بہار کو شہید کیا گیااور قمبر قاضی کی شہادت بھی کچھ ایسے ہی حالات کی نشاندہی کر رہا ہے۔ بی ایل ایف ان دونوں کے قتل کی وجوہات و انکے قاتلوں سے بخوبی واقف ہے اور اپنے بیان میں اس کا اظہار کر چکا ہے لیکن قریبا ڈیڈھ سال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے ا س حوالے سے کوئی ایکشن نہیں لیا گیا۔بی ایل ایف کے سپاہی اپنے چوری و ڈکیتی کو مرکز کی پالیسی کہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ مرکز ہمیں مجبور کرتی ہے کہ وسائل پیدا کرنے کے لیے چوری ڈکیتی و لوٹ مار کریں لیکن مرکز اس سے انکاری ہے۔ اسطرح اگر یہ انکے مرکز کی پالیسی ہے تو بی ایل ایف آزادی پسند تنظیم کہلانے کے لائق نہیں ،اگر یہ انکے مرکز کی پالیسی نہیں تو اس تنظیم کو تنظیم کہنا گناہ تصور ہوگا کیونکہ اس میں ڈسپلن نام کی کوئی چیز ہی باقی نہیں رہی ہے۔ چوری ڈکیتی کے آج تک کے تمام واقعات جو عوامی سطح پر ہوئے ہیں ان میں سے بی ایل ایف نے آج تک اپنے ایک سپاہی کو بھی سزا نہیں دی ہے۔ نال میں لیویز سے اسلحہ لشکر بلوچستان چھین لیتی ہے اور وہی اسلحہ بی ایل ایف کو فروخت کرتی ہے، اسطرح قومی تحریک کاروبار کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ بی ایل ایف، بی آراے اور لشکر بلوچستان نے منشیات کے جتنی بھی گاڈیاں چھینی ہیں وہ تمام کے تمام تریاق و کرسٹل بلوچستان میں سستے داموں فروخت کی ہے، لیکن دوسری طرف تریاق کا کاروبار کرنے والوں کے گھروں پر حملہ کرنا بھی ان کا معمول بنا ہوا ہے ۔ دونوں کاروبار کے عمل سے گزر رہے ہیں، ایک کاروباری شخص جو صرف کاروبار کررہا ہوتا ہے اسے تریاق بیچنے اور اسکا کاروبار کرنے سے روکنے کے لیے اس پرحملے کیے جاتے ہیں۔ جب کہ بی ایل ایف بی آراے اور لشکر بلوچستان وہی تریاق لوٹ کر خود بیچ دیتے ہیں اور دوسری طرف تریا ق کا کاروبار کرنے والوں پر حملے کرتے ہیں اگر یہی حملے خود پر کرے تو یہ انصاف ہوگا بی ایل ایف نے قومی تحریک کے لیے وسائل پیدا کرنے کے نام پر چوری ڈکیتی اور منشیات کے کاروبار کو وسائل پیدا کرنے کا نام دیا ہوا ہے۔ کچھ ہی سالوں کی جہد کے بعد تنظیمی ڈسپلن کی حالت یہ ہے تو تحریک کی وسعت کے ساتھ ان تنظیموں کی حالت پھر کیا ہوگی۔ اب اگراپنے اندر تبدیلی پیدا نہیں کرسکے تو یہ عین ممکن ہے کہ کچھ وقت کے بعد یہ تنظیمیں منشتر ہو جائیں گے ،اور ہر ایک گروہ اپنے علیحدہ شناخت کا اعلان کردے گا اور ہر تنظیم مختلف ٹولوں کی صورت میں نئے نئے تنظیم کی صورت میں ظاہر ہونگے۔ عوامی سطح پر عوامی حمایت بھی انہی حرکات کی وجہ سے کم ہوچکی ہے۔ کسی بھی تنظیم میں فکر کے بعد بنیادی عنصر اسکے ڈسپلن کا ہوتا ہے، اگر کسی ملک میں ڈسپلن نہ ہو تو وہ منشتر ہو گا اور اسمیں انارکی پھیلنے کا خطرہ ہوگا۔ یہ تو کسی آزاد ملک کی صورتحال ہوگی۔ لیکن ایک محکوم قوم کے آزادی کے تنظیمیں جس میں ڈسپلن نہ ہوگی تو پھر کچھ عرصے کے بعد چور ی و ڈکیتی و ریاستی کارندے بن کر عوام کا جینا حرام کر دینگے۔وطن پرستی کے نام پر اکھٹے ہونے والے افراد کو تربیت کے ساتھ انہیں پابند ڈسپلن ہی بنا دیتا ہے جس کی وجہ سے مرکزیت کے دائرے کے تحت وہ اپنا کام سر انجام دیتے ہیں۔ جب تنظیم میں ڈسپلن کا فقدان ہوگا تو رفتہ رفتہ یہ کمزور ڈسپلن بھی ختم ہو گا اور ادارے کا نام نشان تک نہیں رہے گا اور ہر ٹولہ اپنے مرضی کے مطابق جو چاہے کرے گا۔ اور پھر ایک ٹولے کا ہمدرد دوسرے کا دشمن قرار دیا جائے گا جس طرح موجودہ حالات میں تمام مزاحمتی تنظیموں میں بی ایل اے کا غدار بی این ایم کا ممبر و ہمدر د نکلتا ہے۔ آج یہ مسائل تنظیموں کے حوالے سے نظر آتے ہیں اور کچھ عرصے کے بعد ٹولوں میں نظر آئیں گے کیونکہ سیاسی پختگی کی بجائے تعداد بڑھانے کے چکر میں بی آراے اور بی ایل ایف نے ہر ایک کو بھرتی کرلیا اور غلطیوں پر مصلحت کرکے دیگر سپاہیوں کو راستے دیا گیا۔ اسی بنا پر آج انکے اندر کے مجموعی حالت کنڑول سے باہر ہے اور دوستی و سنگتی و منت سماجت کے تحت اپنے سپاہیوں کو روکنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جب ایک سپاہی پر دباؤ ڈالا جاتا ہے تو جواب میں وہ دوسرے سپاہی کے ساتھ نرم رویہ کو جواز بنا کر اپنے لیے راستہ ہموار کرتا ہے۔ اسطرح ڈ سپلن کے فقدان کی وجہ سے مرکزی پالیسیاں بھی متاثر ہوئی ہیں، اب مرکز ی پالیسی بھی ہر علاقے کے حوالے سے تبدیل ہیں اور یہی وجہ ہے کہ مرکزیت نہیں رہی اور چوری ڈکیتی لوٹ مار اور سماجی برائی جیسے حرکات آزادی پسندوں میں سراٹھا چکی ہیں، یہ سلسلہ دن بدن ابتر صورتحال اختیار کرتا جا رہا ہے۔ ان مسئلوں پر تمام مزاحتمی تنظیموں کو سنجیدگی کے ساتھ سوچنے کی ضرورت ہے کیونکہ اگر اپنے ڈسپلن اور پالیسیوں پر نظر ثانی نہیں کی گئی اور اپنے غلط اعمال و حرکات کو جواز دینے کی کوشش کی گئی تو اس سے مزید حالات خراب ہوتے جائیں گے اور ہر غلط عمل کو جواز دینے کی کوشش کی جائے گی ، جس سے ایک منفی سوچ جنم لے گی، اسطرح ایک تسلسل کے ساتھ یہ اعمال ہوتے رہیں گے لیکن ان کے عوض نہ رہے گی تنظیم اور نہ رہے گی تحریک، صرف انارکی و افراتفری میں سب ایک دوسرے کو مارتے رہیں گے۔