دوشنبه, سپتمبر 30, 2024
Homeآرٹیکلزمسکراتا ہوا چہرہ اب ہم میں نہ رہا

مسکراتا ہوا چہرہ اب ہم میں نہ رہا

تحریر: راہم بلوچ

ہمگام آرٹیکل

اس فانی دنیا میں روز ہزاروں بلکیں لاکھوں انسان پیدا ہوجاتے ہیں اور مر جاتے ہیں۔ ہر شخص اپنی لکھی ہوئ زندگی گزار کر چلے جاتے ہیں۔ کچھ لوگ عیش وعشرت والی زندگی گزارتے ہیں اور کچھ لوگ غربت وافلاس والی زندگی بسر کرتے ہیں اور پھر اس دنیا سے جانے کے بعد کچھ ہی دنوں میں مٹی میں ملیا میٹ ہو کر ان کا نام نشان تک مٹ جاتا ہے اور کہیں کسی کی موضوع بحث نہیں بنے رہتے ہیں نہ ہی عام لوگوں کی اور نہ ہی تاریخ کی اوراک میں۔

 لیکن کچھ لوگ کے کام، جزبہ،صلاحیتیں اور کردار مورخ کی قلم کو مجبور کردیتے ہیں کہ انہیں تاریخی اوراک میں جگہ دیا جائے۔میں جس شخص کے بارے میں کچھ لکھنے کی کوشش کر رہا ہوں پتا نہیں کچھ لکھ پاوں گا یا نہیں میں نہ لکھاری ہو کہ اس کی شخصیت کو اپنے الفاظ کے ذریعے اجاگر کر سکو اور نہ ہی شاعر ہو کہ اشعار سے اس کی کردار کو لوگوں کے سامنے لا سکو ۔ لیکن جس قبیل اس کا تعلق ہے وہ ایک کھلی کتاب کی مانند ہوتے ہیں میری لفاظی کی محتاج نہیں ہیں ۔

وہ مسکراتے ہوئے چہرے کہ ساتھ ایک بامرد، باصلاحیت حوصلہ مَنْد اور بلند و بالا منزلوں کے مسافر تھا ۔ وہ اپنی وطن کی آجوئ کی آس اپنی دل میں لیئے پہاڑوں کو اپنا مسکن بنا چکا تھا ۔ وہ اپنی قوم کلیئے ایک نڈر ، بہادر ، نہ جھکنے ولا جنگجو اور لیڈر تھا۔ لیکن اپنی ان صلاحیتوں کی وجہ سے وہ ہمشہ دشمن کی نشانے پر رہا اور دشمن پر خوف طاری کردیا تھا ۔ دشمن اس کو ہر طرح کی چال میں پھنسانے کے حربے استعمال کرتا رہا کبھی سرنڈر کے نام پر مختلف مراعات و سہولیات دینے کی آفر کرتا تو کبھی اپنی بربریت پہ اتر تھا خاندان سے جڑے لوگوں کو ٹارچر کرکے ان کو ڈرانے کی ناکام ہتھکنڈے استعمال کرتا ۔لیکن دشمن کو پتا نہیں تھا وہ مُلا ابراھیم تھا وہ بلوچ کاز سے جڑے ایک نڈر سرمچار تھا وہ بلوچ وطن کی آجوئ کی نظریہ سے لیس ایک بہادر بلوچ تھا۔ شائد قابض فوج ملا کی شخصیت سے ناواقف تھا ۔

ملا; سب کچھ پس پشت ڈال کر اپنی کاز سے منسلک رہا۔ ابراھیم; وطن کی آجوئ کی امید اپنی آنکھوں میں لیئے بھوک ،پیاس اور دشمن کے پیدا کردہ ہر مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے اپنی منزل (آجوئ) کے راستے پر بامرد مجاہد کی طرح ڈھٹا رہا اور کبھی مُڑ کر بزدلوں کی طرح پیچھے نہیں دیکھا۔

لیکن اب وہ مسکراتا ہوا چہرہ ہم میں نہ رہا۔ ملا; آپ کی موت کے خبر نے آپ کے لوگوں کو تھوڑ کہ رکھ دیا جب میں نے آپ موت کی نیوز پڑھی تو پاوں کے نیچے سے زمین نکل گیا کبھی سوچا نہیں تھا ملا ;آپ بھی ہمیں اسطرح چھوڑ کر چلا جائے گا۔ ملا ; آپ کی موت کی خبر دوستوں پر بجلی کی طرح گری اور سب کو اپنے آنکھوں اور کانوں پر یقین نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا پڑھ رہے ہیں اور کیا سن رہے ہیں ۔

ھاں ایک جگہ خوشی کی سماں تھی وہاں جہاں آپ کی خوف اور دہشت طاری تھا۔ وہاں جہاں اپ کی نام سنتے ہی ان کو ہوش اڑ جاتا تھا ۔ وہاں جہاں آپ کی نام سے ان کو موت واقع ہوجاتا۔

انہوں نے آپ کو ہر طرح سے زیر کرنے کی کوشش کرتےرہے لیکن آپ ان کی پہنچ میں نہیں آئے۔وہ خاران شہر میں ہر بلوچ کو پکڑتے اور کہتے آساہ کہاں ہے؟ آپ کی تصوریںں شائع کرکے آپ کی سر کی قیمت 40 لاکھ رکھ کر آپ کو ختم کرنے کی کوشش کرتے رہے لیکن وہ کچھ نہ کرسکے۔ اورآپ کی خوف نے ان کی نیندیں حرام کر رکھی تھی۔ تو اس دن ان کے ہاں جشن تھا ایسے جیسے ان کی سر سے موت ٹل چکی ہو لیکن وہ یہ بھول گئے تھے کہ ابھی تک اس قوم کے جانثار اور آساہ کے ہمسفر اور بہت سارے ہیں اور وہ اس وقت تک ان کلیئے موت کا باعث بنیں گے جب تک مادر وطن کو ان قابض درندوں سے پاک نہیں کریں گے۔

 لیکن ملا; ایک طرف درد تھا، غم تھا، قیامت تھا، کربلا جیسی سخت دن کا منظر تھا،سوگ کا سماں تھا، کچھ ہی دیر کلیئے نا امیدی تھی۔اور وہ تھے آپ کے ہم فکر ساتھی آپ کی قوم کی مائیں بہنیں۔ ملا; مجھے اس بات کا غم نہیں کہ آپ کے بعد آپ کا بندوق کون اٹھائے مجھے پتا ہے آپ نے بہت سارے اپنے جیسے پیدا کیئے ہیں اور وہ آجوئ تک آپ کی بندوق اٹھائینگے لیکن مجھے درد اس بات کی ہے اب کبھی آپ کی مسکراتے ہوئے چہرہ کا دیدار نہ ہوگا۔

ملا; آپ سے ملے ہوئے نو سے دس سال ہوگئے تھے ہر وقت سوچتا تھا ایک دن ملا سے ملاقات ہوگی خوب گپ شپ ہوگی اور تم اپنی نرم لہجے سے پرانی یادوں کو تازہ کروگے کبھی تم آوگے اور پہلے کی طرح ہم سب سے مل لو گے اور ہمیں اپنی جنگی کہانیاں سناؤں گے اور قہقہوں سے مجلس کا مزہ دو بالا کرو گے ۔ ملا ; آپ نے ہمیں چھوڑ کر اچھا نہیں کیا اب ہم خواب بھی نہیں دیکھ سکتے ہیں کبھی سوچ بھی آپ کے بارے میں نہیں سکتے ہیں کہ آپ آؤگے۔

لیکن یہ بات بھی درست ہےآپ زندہ ہو دلوں میں زندہ ہو لوگوں کی سوچوں میں زندہ ہو۔ ملا; آپ اس دنیا سے چلے نہیں گئے۔ آپ امر ہوگئے ہمشہ کلیئے زندہ رہوگے ۔ رہتی دنیا تک ہم آپ کی بہادری، شجاعت اور دلیری کی قصے سناتے رہنگے ہمارے بعد آنے والے نسلیں بھی آپ کی قربانیوں کو نہیں بھول پائیں گے ۔۔

رخصت اَف اوار اُن ملا۔

یہ بھی پڑھیں

فیچرز