کچھ مہینوں پہلے میں نے بی این ایم اور بی ایل ایف “ کی یارباشی اور انکی غیر منطقی ایران دوستی کے سراب “ کے حوالے سے جب لکھا تو ایک دوست کے توسط سے پیغام دیا گیا کہ اسطرح کے میڈیا ٹرائل سے ہم اور ہمارے دوستوں کو انتہائی شدید خطرات لاحق ہوسکتے ہیں، بہرحال نظریات خطرات پر فوقیت رکھتا ہیں یاکہ نظریات کو رہن کرکے یا گروی رکھ کر اجان کی امان پانا برتر ہے یہ نہ صرف الگ بحث بلکہ آج کا موضوع بحث بھی نہیں ہے۔
بلوچ لوک کہاوتوں اور کہانیوں میں جہاں بہت ساری باتیں محاورے اور معقولے مشہور اور زبان زدِ عام ہیں وہیں یہ کہاوت بھی مشہور اور پتے کی کہاوت ہے چونکہ بلوچ آدرش اور اصول کا گرویدہ تھا، ہے اور قوی امید ہے کہ رہے گا سو بلوچ کہتے ہیں کہ “ دُزی مہ کن بگائی، ہرچی کنے روا انت “ اب بگائی کے کیا لفظی تشریح اور معنی و مطالب بنتے ہیں اسکا فیصلہ قارئین خود کریں، اور اسکا فیصلہ بھی قارئین ہی کریں گے کہ پندرہ سالہ بلوچ دختر “ ماہو “ کی عصمت دری کرنے والی اور لاکھوں کی تعداد میں بلوچ فرزندوں کو شہید کرنے والی ایرانی ریاست “ بلوچ قوم “ کا خیر خواہ و مددگار کیسے بن سکتی ہے، اب دُزی اور بگائی کے تناظر میں کہی گئی بلوچوں کی لوک کہاوت کو آپ خود اپنے ہی ذہنی استعداد و صلاحیت کے توسط سے سمجھئیے اور بوجھئیے گا۔
اسکی موضوعی تشریح یا فیس ویلیو کی بنیاد پر پہ یقینا یہ “ بگائی “ کا محاورہ نہیں کہا گیا ہے بلکہ ایک ایسا عمل جس سے ناقابل برداشت اور اجتماعی نقصان یا نسل در نسل نقصان کا احتمال ہو، معروضی حساب سے یہ زیادہ تر قیاس کے قریب ہے۔ بلوچ قوم اور قومی بقاء کی شعوری ادراک رکھنے والا ہمارے رہنماؤں نے انتہا کی کسمپرسی کی عالم میں اس تحریک کو شروع کیا تھا اور اس قومی جہد آزادی کو شروع کرنے کی بنیادی وجوہات میں سے ایک وجہ حد سے زیادہ بڑھتی ہوئی وہ تشویش تھی کہ جو بلوچ قومی سوال کو گمراہ کررہی تھی، چاہے وہ پارلیمانی طرز سیاست کی بنیاد پر ہوتی رہی، انسانی حقوق و ساحل و وسائل پر اختیارات کی نقطے پر ہو یا پھر ایک نئی عمرانی معاہدے اور وسیع تر اختیارات کی حصول بات پر ہوتی رہی ہو، محسوس یہی ہوا تھا کہ آہستہ آہستہ پاکستانی فوج اور اسکی خفیہ و زیریں ادارے بلوچ سماج کے مروجہ طرز سیاست اور طرز فکر کو اتنا پراگندہ کرچکے ہیں کہ لوگ اب بلوچ اور پاکستانیت میں فرق کرنے سے قاصر نظر آتے ہیں اور اسی اثناء میں چین کی مدد سے گوادر کے گہرے سمندر میں بندرگاہ بنانے کی منصوبوں اور نواز شریف اور ازاں بعد مشرف کی طرف سے بروئے کار لائی گئی نوآبادکاری کا ایرانی طرز کا منصوبہ جہاں آہستہ آہستہ لیکن بتدریج پنجاب کی پنجابی مزدور اور ہاری اور کراچی و حیدرآباد میں بسے سی پی اور یوپی کے مہاجرین کو بڑی تعداد میں آباد کرنا تھا، ( الطاف حسین کا جابرانہ رویہ، فوج اور آئی ایس آئی خاصکر پرویز مشرف کی ہالیسیوں کے نفاذ میں بی ٹیم کا کردار ادا کرنا اور ازاں بعد اسی فوج اور ایجنسیوں کے ہاتھوں کٹ کھانا اور مظلومیت کا آنسو بہانا ہرگز زیربحث نہیں) اس آبادکاری سے کئی ایک مزموم عزائم کا تکمیل مقصود تھا، بلوچوں کی اقلیت میں تبدیلی، بلوچ سرزمین پر فوج کے ہمنوا و ہمدرد پنجابی و مہاجرین کی کثیر تعداد میں موجودگی اور بوقت ضرورت استعمال، انتظامی امور و بیوروکریسی سے مکمل طور پر بلوچ کا دیس نکالا کرنا، اور چین کی مدد سے یہاں فوجی بیسز کا قیام اور معاشی کاریڈور کی کامیاب تکمیل سمیت بلوچ قوم کے اندر موجود آزادی اور خود اختیاری کی سوچ اور فکر کو مکمل طور پر ختم کرنا تاکہ آنے والے وقتوں میں بلوچ خود اپنے آپ اپنی ثقافت طرز معاشرت زند و گزران سمیت اپنی زمین سے وابستگی کی تمام بنیادوں کو تیاگ کر غیر شعوری طور پر، یا پاکستانی پیدا کردہ بیگانگی کی وجہ سے یا پھر پاکستانی گھیراؤ اور اپنی مجبوریوں کی بنیاد پر خود کو مکمل پاکستانی نہ صرف سمجھے بلکہ اسکو اعلانیہ طور پر قبول بھی کرے۔ آزادی کب ملے گی، کتنی نسلوں کی بلی دینی پڑے گی کتنے سر قربان ہونگے کتنی سہاگنوں کی مانگیں ویران ہونگی اس بارے کوئی واضح اور مقررہ وقت نہیں تھا، بس ایک امید تھی ایک آس تھا قربانیاں دینے کا شعوری فیصلہ تھا اور اس آزادی کی جہد کے الاؤ کو روشن کرتے ہوئے بے دریغ قربانیوں اور انتھک مشقتوں کے ذریعے اسکو آگے لے کرجانا تھا، انسانی حقوق کی ضمانت یقینا بلوچ کو چاہئے تھا، ساحل و وسائل پر ختیار بھی لازمی تھی، خود مختاری بھی ضروری تھی، لیکن اسکو پاکستانی و ایرانی بندوبست اور آئین کے تناظر میں یا نئی عمرانی معاہدوں جیسی ڈھکوسلوں کی بنیادوں پر نہیں بلکہ خالص آزاد بلوچ قوم اور خودمختار فیصلہ سازی میں آزاد قوم کی روشنی میں دیکھا گیا، یعنی کہ انسانی حقوق ساحل و وسائل پر دسترس اور سماجی برابری سمیت جد و جہد کے تمامتر عناصر لازمی ضرور ہیں لیکن ان سب میں آزادی کی جد و جہد کو اولین مقام حاصل ہو، اور بلوچ قوم شعوری طور پر ہر شئے اور بلوچ سماج کے اندر موجود ہر جدلیات اور تضاد کو پاکستانی و ایرانی غلامی کی بنیاد پر دیکھے پرکھے اور اسکی جزئیات سمیت باریکیوں کو فکری و شعوری طور پر سمجھ سکے۔ اگر بلوچ تحریک آزادی کی حالیہ ابھار کی جزئیات کو سمجھا اور پرکھا جائے تو اس میں جو بنیادی کچھ چیزیں سامنے آجاتی ہیں اس میں ایک اہم نقطہ بلوچ قومی سوال کو نہ صرف زندہ رکھنا تھا بلکہ قومی سوال کو اجتماعی حوالے سے قومی بیگانیگی سے محفوظ رکھتے ہوئے اسے نسلوں تک منتقل کرنا تھا تاکہ بلوچستان کی جد و جہد آزادی کی طوالت کو فکری و شعوری حوالے سے برداشت کیا جاسکے، گروہی و پارٹی مفادات کی بنیاد پر دشمن کے سامنے سربسجود ہونے کی امکان کو روکا جاسکے، یہ کام سیاسی شعور کا معراج ہی کرسکتی تھی مگر اس شعوری عمل کو پرگندہ کرکے اسکی راہوں کو مسدود کیا گیا۔
بلوچ گمشدہ افراد کے بارے متفرق اعداد و شمار کی موجودگی بھی یارباشوں کی انہی سیاسی خرمستیوں کے وجہ سے ہی ہے، کوئی کہتا ہے پچاس سے ساٹھ ہزار بلوچ لاپتہ ہیں کوئی کہتا ہے تیس سے پینتیس ہزار ہیں کوئی کچھ اور کہتا ہے، اسکی بنیادی وجہ یہی ہے کہ ان یارباشوں نے ہرجگہ دخل اندازی ( دست مانجنی ) کی اپنی پرانی رویوں کو کبھی ترک کیا ہی نہیں اور بلوچ سماج و سیاست سے وابستہ ہر ادارہ اور ہر تنظیم اور ہر سطح کو ایک “ ہفتو “ کی طرح مفلوج، نیم توام کرکے چھوڑ دیا جو اب اپنی زمہ داریاں ادا کرنے سے قاصر ہے دوہزار دس گیارہ کی خون آشام دورانیئے میں بی ایس او آزاد سے منسلک ہونے کی بنیاد پر اپنی ساتھیوں کی روز دسیوں کے تعداد میں اغوا و شہادت کو بنیاد بناکر میں از خود یقینا یہ رائے قائم کرسکتا ہوں کہ بلوچ گمشدہ افراد کی تعداد کم از کم تیس سے پینتیس ہزار کے درمیان ضرور ہوگی، شہید رضا جہانگیر کراچی میں میرے پاس آئے دوہزار بارہ کو ہونے والی بی ایس او آزاد کی کونسل سیشن کے حوالے سے ایک پوسٹر کا خاکہ انکے لیپ ٹاپ میں تھا جو کہ کونسل سیشن کے لئیے ڈیزائن ہونا تھا، ایک طرف گمشدہ بلوچ سیاسی اسیران کی تصاویر تھیں تو دوسری طرف شہداء کی، کونسل سیشن بوجوہ سیکیورٹی خطرات بارہا ملتوی ہوتی رہی لہذا مجھے اچھی طرح سے یاد ہے کچھ پانچ چھ مہینے کے عرصے میں پاکستان نے اتنے بلوچ سیاسی کارکناں کی لاشیں پھینکیں کہ ہمیں پوسٹر پر موجود ستر سے اسی فیصدی گمشدہ افراد کی تصاویر کو شہداء والی سائیڈ پر منتقل کرنا پڑا ( البتہ اس کونسل سیشن کی متنازعہ حیثیت یہاں زیربحث نہیں) اور شہادتیں اسکے سوا ہیں، سو اتنی بے دریغ و بے پناہ قربانیوں کا حاصل آگے جاکر پاکستانی پارلیمنٹ کے لیئے نرم گوشہ پیدا کرنا تھا؟ ایرانی قبضہ گیریت کو جواز فراہم کرنا تھا؟ مقبوضہ بلوچستان کو ایران یا پاکستان کا سرزمین کہنا تھا؟ ایرانی قبضہ گیر ریاست کو اتحادی یا مددگار ہمسایہ سمجھنا تھا؟ یہ ایک سوال ہے جو میں آج ہر بلوچ آزادی پسند سیاسی کارکن سے پوچھنا چاہتا ہوں، اسے غور و فکر کی دعوت دیتا ہوں، دلیلوں کی بنیاد پر اور زمینی حقائق پر مبنی تلخ سچائیوں کے حوالے سے قائل کرنے اور قائل ہونے کی دعوت دیتا ہوں۔ پروفیسر صبا دشتیاری کا اپنی ایک تقریر میں کہتا کہ پاکستانی تعلیمی نظام انسان ( بلوچوں ) کو ناکارہ کردیتی ہے، کیونکہ اس نظام تعلیم کے ذریعے پاکستانیت اور پاکستانی ہونے کی فکر و نظر کو ابھارا جاتا ہے، سو بلوچ قومی سوال سے جڑت ہی بلوچ قومی نجات کا واحد ضامن سمجھا اور مانا گیا، اور اس قومی سوال کو بار بار بلوچ قوم کے ذہنوں میں بٹھانے اور اسے اسکی اہمیت و ضرورت پر زور دینے اور بالآخر ہربلوچ کو شعوری و فکری طور پر بلوچیت کے فکر و نظر سے پیوستہ کرنے کی اس جد و جہد میں سروں کی بے دریغ قربانیوں ور پاکستانی و ایرانی عقوبت خانوں میں دہائیوں غیر انسانی تشدد سہتے پینتیس ہزارسے زائد بلوچ سیاسی کارکنان کی گمشدگی کے بعد بھی کوئی آکر پاکستانی پارلیمنٹ اور پارلیمنٹ پرستوں کی مدح سرائی کرتا ہے اور پارلمینٹ پرستوں کی حقوق کی جد و جہد کو خوش آئند قرار دیتا ہے اور ایرانی ریاست سے یارانہ قائم کرنے کی وکالت کرتا ہے اور اس وکالت کو کسی کا سنگر بدلنے نام دیتا ہے جو مضحکہ خیزیت کی آخری حد ہے کیونکہ پاکستانی پارلیمان اور پارلیمانی پارٹیاں بلوچ قومی سوال برائے آزادی کو متنازع بنانے اور پاکستانی قبضے کو جواز بخشنے کی بنیاد ہیں اور یارباشوں کی یہ وکالت بلوچ قومی قومی سوال کے گرد گھومتی لہو کی رنگوں سے مزین تحریکی عمل سے سراسر اور نری انحراف ہے اس میں کوئی حجت اور لیت و لعل کرنے کی کوئی ضرورت پیش بھی نہیں آتی کہ جی ہم بھی بلوچ قوم کے لئیے قربانیاں دے رہے ہیں یا تکالیف سہہ رہے، یہی دراصل گروہی سیاست کے سب سے بڑے جبہ دار اور بلوچ قومی سوال برائے آزادی کو پراگندہ کرنے کی بنیادی زمہ داران میں سے ہیں، کیونکہ قومی سوال برائے آزادی کی حجم یا حدود کبھی قبضہ گیروں کی قومیت یا نام نہاد کھینچی ہوئی سرحدی لکیروں تک محدود تھی ہی نہیں، ” بلوچ قومی آزادی ” یا ” بلوچ قومی سوال ” جیسی اصطلاحات اجتماعی قوم کے لیئے از خود ایک اظہاریہ ہے، اب چاہے وہ ایران کے زیر تسلط ہے، پاکستان کے یا کل ممکن ہے چائنا آکر قبضہ جمالے یا کوئی اور طاقت، بلوچ اجتماعی اظہاریے کو مشرق و مغرب یا شمال و جنوب کہنا دراصل بلوچ قومی سوال برائے آزادی سے انحراف کی بنیادی قدم ہے۔ بلوچ جد و جہد آزادی ہی باقی دیگر زیلی سرگرمیوں کا چھتری ہے، انسانی حقوق کی دگرگوں صورتحال بنیادی طور پر بلوچ جد و جہد آزادی ہی کی نتیجے میں وجود میں آئی، آغاعبدالکریم سے لیکر نواب نوروز سے آج تک کی تحریکی تسلسل نے پاکستان کو مجبور کردیا ہے کہ وہ بلوچ سیاسی میدان کو کھلا نہ چھوڑے بلکہ وہاں جبر و استبدادی رویوں سمیت داخلی و خارجی انتشار اور لاٹھی اور گاجر جیسی پالیسیوں کی مدد سے بلوچ کو تحریک آزادی کو کسی بھی طرح جڑ نہ پکڑنے دے دوسری طرف ایران چونکہ کچھ بیس سال پہلے بلوچ سرزمین کے ایک حصے پر قبضہ جما چکے تھے تو بہ نسبت پاکستان ایرانی قبضہ گیر کے لئیے یہ امر آسان رہا کہ وہ بلوچ مزاحمتی جزبوں کو شعور کی دہلیز تک پہنچنے سے پہلے طاقت سے روند ڈالیں اور ہوا بھی یہی، ایک نقطہ یہی ہے کہ ایرانی قبضے سے سبق سیکھ کر پاکستانی قبضے تک ان بیس سالوں میں بلوچستان کے مشرقی حصے میں پاکستانی عزائم کو اس طرح آرام سے پایہ تکمیل تک پہنچنے نہیں دیا گیا، نحیف و ناتواں ہی سہی مگر مزاحمتی فکر و نظر کا الاؤ تسلسل کے ساتھ روشن رہا ایرانی زیر قبضہ بلوچستان میں اسی بنیاد پر قوم پرستانہ سیاسی رجحانات کا جنم تیزی سے نہ ہوسکا کیونکہ ایرانی ریاست نے قبضے کے ساتھ ہی بلوچستان کے اندر آبادکاریوں سمیت زبان و ثقافت و اقدار پر قدغنیں لگانی شروع کیں اور اسکے خلاف بلوچ قوم کو پوری طور پر سنبھلنے کا موقع نہ مل سکا، لیکن ہر تحریکی ابھار و ادوار میں بلوچ رہنماؤں کی طرف سے متحدہ بلوچستان اور بلوچ سرزمین بحیثیت ایک اکائی کے اشارے اور باتیں کی جاتی رہی ہیں، بلکہ یہ ایک اجتماعی قومی زمہ واری تھی کہ بلوچ جہاں بھی ہوں انکو ایک ہی لٹ میں پرونا ہے تاکہ قبضہ گیروں کی پیداکردہ تقسیم کے باوجود بلوچ قوم میں قومی اجتماعیت کی فکر ٹوٹنے نہ پائے، لیکن یارباشوں نے خود اپنی سیاسی بیوقوفیوں سے ایران و پاکستان کا کام آسان کردیا۔
:غالب کہتے ہیں کہ
” یہ فتنہ آدمی کی خانہ ویرانی کو کیا کم ہے ہوئے تم دوست جس کے اُس کا دشمن آسمان کیوں ہو “
غالب کی اس شعر کے مصداق اب یارباش خود کو اور خود کی گروہ کو سب سے بہتر بلوچ دوست، قوم دوست سمجھتے اور مانتے ہیں اوراسکا پرچار بھی کرتے ہیں، اسی لیئے آزادی پسند سیاسی حلقوں کی خانہ ویرانی دیدنی ہے اور قومی بنیادوں پر انتشار اور بے یقینی کی کیفیت انتہا تک پنچ چکی ہے۔اور ایسے میں کوئی بھی منہ اٹھا کر بلوچ سرزمین کی بکھری ہوئی حصوں کو ایرانی سرزمین کا نام دے دے تو تنقید و تشکیک کے در وا ہونا فطری امر ہے، یعنی یارباش اب دونوں اطراف سے نرم گوشے کی حصول کے لئیے پہلے تو ایرانی مقبوضہ بلوچستان سے کامل دستبردار ہوچکے ہیں اور اب وہ انسانی حقوق و بلوچ عورتوں کی گرفتاری کے بنیاد پر پاکستانی پارلیمانی پارٹیوں کی علی العلان حمایت کررہے ہیں اور وہ اس چیز کو سنگر بدلنے سے تعبیر کررہے ہیں۔ ہائے بدنصیبی۔
ایرانی ریاست کہ جسکی ایرانی شناخت آج سے محض ایک صدی پرانی ہے وہ کیسے بلوچستان، اھواز، ترکمن اور کرد اقوام پر مشتمل زمین پر جائز حکمران بن گئی یہ جواز از خود بے معنی اور مبنی برمبالغہ ہے کہ ایران صدیوں سے اس جغرافیائی خطے پر موجود رہی، ماضی اور آج کی مستند بلوچ رہنماؤں کے فکر و نظر پر مبنی خیالات کا جائزہ لیاجائے تو دیکھیئے انہوں نے کبھی ان غیرفطری سرحدوں ( گولڈ اسمتھ، اور ڈیورنڈ لائن ) کی بندوبست کے تناظر میں بلوچ تحریکی عمل کو نہیں دیکھا بلکہ بلوچ جد و جہد کی بیانیے کا فکری و نظری پیمانہ ہمیشہ ایک بلوچ اکائی پر مشتمل رہا ہے، جس کے لئیے زیادہ “ نوری نصیر خان “ کی قائم کردہ انتظامی سرحدوں کے اندر پھیلی ہوئی بلوچ سرزمین کی بات کی جاتی رہی ہے جو ڈیرہ جات سے لے کر زاھدان اور اس سے بھی آگے کرمان کے مغربی کنارے تک پھیلی رہی اب یارباش اپنی گروہی مفادات و ذاتی اور ڈیڑھ انچ مسجد جیسی سطحی سوچ کو بچانے اور پروان چڑھانے کے لئیے ایرانی مقبوضہ بلوچستان سے نہ صرف دست برداری کی بات کرتے ہیں بلکہ بسا اوقات وہ بلوچ ہمسایہ اور ممکنہ دوست ممالک جیسے انڈیا، خیلجی ریاستوں کی طرح ایران سے امداد کی اپیل بھی کرتے دیکھے جاسکتے ہیں اور سیاسی اخلاقیات کی پستی کا عالم یہ ہے کہ یہی لوگ آج سے بارہ پندرہ سال پہلے خود اپنے ہی زبان و قلم سے بلوچ قوم پر ایرانی ریاستی جبر و استبداد کو کوستے اور بلوچستان کی مقبوضہ صورتحال پر برملا لکھتے اور بولتے رہے ہیں۔ سیاسی عمل کے دوران تنقید و تشکیک دو ایسے عوامل ہیں جو سفر کی طوالت کو قابل برداشت اور ناقابل تسخیر بناتے ہیں تنقید اور تشکیک سے جنم لیتے سوچ و فکر تحریکی راہوں کو بہتر ہموار بناتی ہے اس سے نہ تحریکی عمل کو زک پہنچتی ہے اور نہ ہی منزل تک پہنچنے میں دشواریاں بڑھ جاتی بلکہ شفافیت بڑھ جاتی ہے اور کالی بھیڑیوں کے بھیس میں چھپے دوست نما دشمنوں کی پہچان آسان ہوجاتی ہے، ایرانی ریاست بلوچ قوم پر قابض ہے، پاکستان و ایران بیک وقت اپنی فروعی اور سطحی اختلافات بھول کر بلوچ کے خلاف پہلے بھی ایک محاذ پر لڑ چکے ہیں ویسے اب بھی کیا جارہا ہے شمسر اور پنجگور کے خطے میں نام نہاد سرحد کے دونوں جانب ایرانی بمبارڈمنٹ سے شہید ہونے والے بلوچ فرزند تھے اور پھر پاکستانی جوابی حملے میں شہادت پانے والے بھی بلوچ تھے، “ یک چمے سریمگ ءُ یکے ھاک “ کے مصداق تمہارے گروہ سے تعلق رکھتے لوگوں کی موت شہادت اور دوسری طرف ایرانی حملے سے شہادت پانے والے بلوچ کہلانے کے حقدار بھی نہیں، اور پھر ایک طرف کی مزاحمتی عمل کو آزادی کے لئیے جد و جہد سمجھنا اور دوسری طرف ہونے والی جد و جہد کو مذہبی، منشیات فروشی اور پراکسی کہنے کے ساتھ ایرانی مقبوضہ بلوچستان کو ایران کی سرزمین کہنا، ایران سے امداد کا طلبگار رہتے ہوئے ہزاروں کی تعداد میں شہید بلوچوں کی لہو کو بھول جانا اور ماہو جیسی بلوچ لڑکیوں کی عصمت دری کو خاطر میں نہ لانا اور محض اپنے ہی گروہی اور پارٹی مفادات کو مقدم سمجھنا بلوچ قومی تحریک آزادی سے سراسر انحراف ہے اور یہ انحراف اب تشکیک سے گزر کر یقین کی حد تک پہنچ چکا ہے جہاں اس گروہ کے کرتا دھرتا ایک طرف بلوچ مقبوضہ ایرانی سرزمین کو ایرانی ریاست کا حصہ مان چکے ہیں اور دوسری طرف وہ پاکستان کے خلاف جنگ میں ایران سے مدد کے خواستگار ہیں۔ سرفراز بگٹی پاکستان سے مدد مانگتا ہے اور پاکستانی مقبوضہ بلوچستان کو پاکستانی ریاست کا دائمی حصہ تصور کرتا ہے۔
دوسری جانب یہ منحرف گروہ ایرانی مقبوضہ بلوچستان سے دست بردار ہوچکی ہے اور مقبوضہ بلوچستان کو ایرانی ریاست کا حصہ مانتی ہے اور ایران سے مدد کی درخواست بھی کرتی ہے۔
انحراف اور کاسہ لیسی سمیت بلوچ دشمنی کے بابت ان دونوں کے درمیان فرق تلاش کرکے مجھے ضرور سمجھائیے گا۔