رپورٹ: آرچن بلوچ
زاھدان (ھمگام رپورٹ) ایران کی پارلیمنٹ اور عدلیہ اس قانون کا جائزہ لے رہے ہیں جس کے تحت خواتین کو سر پر اسکارف پہننا ضرورت ہے، جس نے ملک میں دو ماہ سے زائد عرصے تک خونی مظاہروں کو جنم دیا، سرکاری وکیل نے بتایا کہ قانون میں ترمیم کا مقصد مظاہرین کو خاموش کرنا ہے۔ 22 سالہ کرد خاتون مہسا امینی کی پولیس کے ہاتھوں موت کے بعد ایران میں ایک منظم احتجاجی تحریک چل رہے جسے دنیا بہت نزدیک سے دیکھ رہی ہے۔ یاد رہے مہسا امینی کو16 ستمبر میں ایران کی “اخلاقی پولیس” نے لباس کوڈ کی خلاف ورزی کرنے پر گرفتار کیا تھا بعد ازاں پولیس کے حراست میں ٹارچر کی وجہ سے کوما میں چلی گئیں اور پھر تین دن کے بعد اس کی شھادت واقع ہوگئی۔ مبصرین کا خیال ہے کہ ایرانی حکام، جو مظاہرین کو دبانے میں ناکام ہوچکی ہے، نے حجاب کے قانون پر نظرثانی کرکے انہیں خاموش کرنے کا فیصلہ کیا ہے،ایران میں یہ اپنی نوعیت کی پہلی پسپائی ہے جہاں اس رجیم کو سیکولر قوتوں کے سامنے جو آزادی کا مطالبہ کرتے ہیں، پسپائی اختیار کرنا پڑ رہا ہے۔ لیکن مبصرین کا مزید کہنا ہے یہ ایک وقتی پسپائی ہے ایرانی رجیم ایک چال چل رہے ہیں۔ ایرانی اٹارنی جنرل محمد جعفر منتظری نے کہا، پارلیمنٹ اور عدلیہ اس مسئلے پر کام کر رہے ہیں۔ اس بات کا تعین کیا جائے گا کہ آیا قانون میں ترمیم کی ضرورت ہے یا نہیں۔ بدھ کے روزجائزہ لینے کے انچارج ادارے نے پارلیمنٹ کی ثقافتی کمیٹی سے ملاقات کی ہے اور سرکاری وکیل نے کہا ہے کہ نتائج ایک یا دو ہفتے کے اندر جاری کیے جائیں گے۔