بلوچستان، جو قدرتی وسائل اور ثقافتی ورثے سے مالامال ایک تاریخی خطہ ہے، گزشتہ 77 برسوں سے ایک خاموش المیے کا شکار ہے۔ پاکستان اور اس کی فوجی اسٹیبلشمنٹ، جو خود کو ریاست کا محافظ کہتی ہے، درحقیقت بلوچ سرزمین پر جبر، تشدد اور نسل کشی کی ایک نہ ختم ہونے والی داستان رقم کر رہی ہے۔ ان سات دہائیوں میں معصوم بچوں، بوڑھوں، اور بے گناہ عورتوں پر ظلم و ستم کے وہ پہاڑ توڑے گئے جن کی نظیر تاریخ میں کم ہی ملتی ہے۔
بلوچستان کے پہاڑ، صحرا اور سمندر اپنی خامشی میں ہزاروں چیخیں سمیٹے ہوئے ہیں۔ وہ چیخیں جو ان ماؤں کی ہیں جن کے بیٹے جبری گمشدگی کا شکار بنے۔ وہ آہیں ان بہنوں کی ہیں جن کے بھائیوں کی لاشیں ویرانوں میں پھینکی گئیں۔ وہ درد ان بزرگوں کا ہے جنہوں نے اپنی نسلوں کو ظلم کی چکی میں پِستے دیکھا۔ اور وہ صبر ان نوجوانوں کا ہے جنہوں نے آزادی کی اُمید میں بھوک، پیاس، گرمی، سردی اور ہر مشکل کا سامنا کیا اور سفرِ آزادی کو بدستور جاری رکھا ہے۔
ریاست پاکستان نے چین جیسے عالمی طاقت کے ساتھ مل کر بلوچستان کے قیمتی وسائل کو بے دردی سے لوٹ رہا ہے لیکن بلوچ قوم کے زخموں پر کبھی مرہم نہ رکھا۔ سی پیک ہو یا ریکوڈک، ہر منصوبہ صرف وسائل کی لوٹ مار کا ذریعہ بنا ہے جبکہ بلوچستان کے باسی محرومی، غربت اور ظلم کا شکار ہوتے رہے۔
لیکن اب وہ وقت گزر چکا ہے جب خوف ریاست کا سب سے بڑا ہتھیار تھا۔ آج بلوچ قوم اس جبر کے خلاف سینہ سپر ہو چکی ہے۔ وہ نفرت، جو اس ریاست کے مظالم سے بلوچ دلوں میں پیدا ہوئی، اب مزاحمت کا آتش فشاں اور لاوا بن چکی ہے۔ یہ نفرت اب فقط جذباتی ردِعمل نہیں بلکہ ایک باشعور اور صبر آزما تحریک کی صورت میں اُبھر چکی ہے۔
اب وقت آچکا ہے کہ ہم سب متحد ہو کر اپنے حقوق کا وہ حساب لیں جو 77 سالوں سے ہم سے چھینا گیا ہے۔ وہ حساب جو ہمارے نوجوانوں کی قربانیوں، ہماری ماں بہنوں کی صبروتحمل، اور ہمارے بزرگوں کی دعاؤں کا قرض ہے۔ اب وقت آچکا ہے کہ ہم اُس بلوچستان کو، جسے ہم سے جبر اور دھوکے سے چھینا گیا، ایک مرتبہ پھر آزاد کریں، آزاد دیکھیں اور آزاد رکھیں۔
بلوچستان کی آزادی صرف ایک سیاسی مطالبہ نہیں، یہ ایک قوم کی اجتماعی خواہش ہے — وہ خواہش جو اب ایک ناقابلِ تسخیر ارادے میں ڈھل چکی ہے۔ یہ ارادہ ایک دن ضرور ظالموں کو جھکنے پر مجبور کرے گا۔