*ہمگام تحقیقی رپورٹ*
حال ہی میں ایران کے زیر قبضہ بلوچستان میں 9 پاکستانی شہریوں کے قتل کے واقعہ کا پاکستانی میڈیا پر کافی چرچا ہے ۔
پاکستانی میڈیا نے دعویٰ کیا ہے 3 مسلح افراد نے دن دہاڑے بوقت 2 بجے ایک گیراج میں گھس کر 9 پنجابی مزدوروں کو قتل کر دیا ۔میڈیا نے مذکورہ قتل کے واقعہ کا مورد بی ایل اے کو ٹھہرایا اور الزام لگایا کہ اس نے ایران میں کام کرنے والے مزدوروں کو بے رحمی سے قتل کیا ہے ۔
ایران کی جانب سے حکومت پاکستان کو یہ باور کرایا گیا ہے کہ واقعہ کے تمام محرکات سامنے لائے جائیں گے اور اس سلسلے میں مکمل شواہد اکھٹے کیے جارہے ہیں۔
مذکورہ واقعہ میں ملک اظہر،محمد شعیب،محمد آصف،محمد اکمل،محمد ابوبکر،شہریار،محمد بشیر،محمد زبیر اورمحمد شہزاد نامی 9 افراد ہلاک جبکہ محمد اصغر،اشفاق اور عثمان نامی تین افراد زخمی ہوگئے جنہیں جبڑے، چہرے، کمر اور پیٹ میں گولیاں لگی ہیں جو اب رازی سراوان ہسپتال میں زیر علاج ہیں، جن میں سے ایک کی حالت تشویشناک بتائی جارہی ہے اور یہ سب کے سب لسانی طور پر پنجابی ہیں اور پاکستانی صوبہ پنجاب کے رہائشی ہیں۔
واقعہ 27 جنوری کوسراوان کے شہر سیرکان کے ایک قصبے بمپشت میں پیش آیا جو بلوچ اکثریتی علاقہ ہے جہاں کی آبادی نا ہونے کے برابر ہے اور اس کے باسی نہایت ہی تنگ دست اور غریب ہیں۔ مقتولین کا اسی علاقے گاڑیوں کی مرمت کا ایک گیراج تھا۔
ہمگام نیوز نے مذکورہ واقعہ کے اصل محرکات جاننے کیلئے اپنی وساطت سے تحقیقات کی اور یہ قلعی کھل گئی کہ ہلاک اور زخمی ہونے والوں کا تعلق پاکستانی آرمی سے ہے اور وہ نہ صرف باقاعدہ آئی ایس آئی اور ایم آئی کے عہدیدار اور سپاہی ہیں بلکہ وہ مخبری سمیت بلوچ نسل کشی کیلئے تشکیل دیے گیے ریاستی ڈیتھ اسکواڈ کے سہولت کار کے طور پر بھی کام کرتے تھے ۔ جبکہ علاقائی ذرائع کے مطابق کئی ان لوگوں نے علاقے کے عوام کو لالچ دینے کی کوشش کی ہے ہمیں بلوچ آزادی پسندوں ا
ور سرمچاروں کے بارے میں بتا دیں ، لیکن ا
وہ کوشش میں ناکام رہے ۔
عسکری ماہرین یہ بات بخوبی جانتے ہیں کہ اس طرح کے مخبر و سہولت کار وں کو ادارے سے جڑے کسی قسم کی کوئی آفیشل دستاویز فراہم نہیں کیجاتی اور وہ اپنی تہیں روپوش رکھ کام کرتے ہیں۔
علاقائی ذرائع نے مزید یہ انکشافات کیے کہ مقتولین مزدور نہیں بلکہ پاکستانی فوج کا ایک دستہ تھا۔ جو یہاں مزدوری کے آڑھ میں آزادی پسند بلوچوں کی مخبری کرتے تھے اور انہوں نے کئی ڈیتھ سکواڈ کے گروپ بھی بنائے ہوئے تھے جنہیں لالچ دے کر بلوچ نسل کشی کا کام لیتے تھے ۔
مقامی افراد دنے عویٰ کیا ہے کہ ایرانی مقبوضہ بلوچستان کے بلوچ آبادی والے کئی علاقوں میں ان کے کئی ایسے یونٹ موجود ہیں جو ڈیتھ سکواڈ چلاتے ہیں اور پاکستانی مقبوضہ بلوچستان سے نقل مکانی کرکے رہائش پذیربلوچوں کی نشان دہی کرنا اور ان کے بارے میں معلومات اکٹھا کرنا پھر ان کو ٹارگٹ کرنا جیسے ٹاسک پر کام کرتے ہیں ۔
واضع رہے کہ ایرانی بلوچستان میں ایسے متعدد واقعات رونما ہوئے ہیں جہاں مشرقی بلوچستان سے آئے ہوئے درجنوں افراد کو ٹارگٹ کلنگ اور جبری گمشدہ کرکے قتل کیا گیا ہے ۔یہ وہی لوگ تھے جو پاکستانی مقبوضہ بلوچستان میں آئے روز فوجی آپریشن ، جبری گمشدگیوں اور روزگار ومعاش کے ذرائعوں پرقدغن کی صورت میں خاندان کے ساتھ نقل مکانی کرکے جعلی بارڈر کے دوسری جانب ایرانی مقبوضہ بلوچستان میں منتقل ہوگئے تھے جہاں وہ اپنے ہی وطن میں مہاجرین جیسی زندگی گزار نے پر مجبورتھے۔
کہا جارہا ہے کہ ماضی میں ایرانی مقبوضہ بلوچستان میں درجنوں افراد کے قتل میں مذکورہ افراد برائے راست ملوث تھے جنہیں اب حکومت پاکستان میڈیا میں مزدور ظاہر کرکے اپنی عوام میں بلوچوں سے نفرت میں اضافہ اور لسانی مسئلے کے طور پرپیش کرکے عوامی ہمدردی سمیٹنے کی کوشش کر رہی ہے ۔
علاقائی ذرائع بضد ہیں کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی اپنا ملک چھوڑ کر ایک ایسی جگہ پر کاروبار کے نام پہ ڈیرے ڈالے جہاں کے لوگ خود بھوک اور افلاس کی زندگی گزار رہے ہوں ؟۔
ان کہا ہے کہ آٹو موبائل میکنیکل گیراجوں پر اگر کام کرنے والوں کی اوسط دیکھی جائے تو مشکل سے ایک گیراج میں 5 کے قریب مزدور ہوتے ہیں لیکن یہاں تو تقریباً 16 مزدور سے بھی زیادہ موجود تھے اور محض نام کا گیراج ہے یہاں کام صفر ہے ۔ کہا جاتا ہے وہ جن علاقے میں اپنا گیراج چلا رہے تھے وہاں کا ماحول دسویں صدی کا پس منظر پیش کر رہا ہے مزدوری اور کارخانے تو دور کی بات ہے ۔
وہ مزید دعویٰ کرتے ہیں کہ جب ان پر حملہ ہوتا ہے تو کام میں مصروف ہونے کے بجائے یہ تمام کمرے میں تاش و لڈو کھیل رہے ہوتے ہیں ۔ایک باہر اور ایک واشروم میں موجود ہونے کی وجہ سے حملے کی زد سے بچ جاتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ جس علاقے میں قتل کایہ واقعہ پیش آیا وہاں کوئی کمپنی نہیں اور نہ ہی سرکاری و عوامی موٹر بائیک یا گاڑیوں کی استعمال کی بڑی تعدادموجود ہے جس کی وجہ سے کاروبار ہو ۔
مقامی لوگ دعویٰ کرتے ہیں کہ مقتولین نا مزدور تھے اور نہ ہی مظلوم تھے بلکہ یہ پاکستانی فوج اور آئی ایس آئی کے رکن تھے جو یہاں پہ بیٹھ کر ڈیتھ اسکواڈ کے گروپ کو آپریٹ کر رہے تھے ، جن کے کارندے بلوچ آزادی پسند وں کی نشان دہی اور مخبری کرتے تھے۔
پاکستانی میڈیا ماضی میں بھی مشرقی بلوچستان(پاکستانی مقبوضہ بلوچستان )میں بلوچ مسلح تنظیموں کے حملوں میں غیر مقامی افراد کی ہلاکتوں پر انہیں بطور مزدور پیش کرتا رہا ہے اوراب یہی عمل مغربی بلوچستان(ایرانی مقبوضہ بلوچستان ) میں ہلاک ہونے والے افراد کے لئے دہرائی جارہی ہے جسے اگرچہ پاکستانی عوام تسلیم کرتی ہے لیکن مسلح تنظیمیں اپنی کارروائیوں میں ہلاک ہونے والے افراد کی شناخت اپنے آفیشل چیلنز پر جاری کرتے ہیں جن سے پاکستانی عسکری اسٹیبلشمنٹ کی دعوئوں کی قلعی کھل جاتی ہے لیکن مین اسٹریم میڈیا پر مکمل کنٹرول ہونے کی وجہ سے وہ اپنی جھوٹی چورن بیچنے میں کامیاب رہتی ہے ۔
پاکستان کے زیر قبضہ بلوچستان میں بلوچ مسلح تنظیموں کے حملوں میں ہلاک ہونے والے افراد کے سوشل میڈیا پر ایسے کئی ویڈیوز،ادارے کی شناخت کارڈ اور فوجی افسران کے ساتھ تصاویر بطور ثبوت موجود ہیں جو مزدور، دکانداراور ریاستی ڈیتھ اسکواڈ ارکان کی روپ میں اپنی ڈیوٹی سرانجام دے رہے تھے۔
مغربی بلوچستان میں ہلاک ہونے والے افراد کی لاشیں تاہم پاکستان کے حوالے نہیں کیئے گئے لیکن ان کے اہلخانہ کی جانب سے مقتدرہ حلقوں کو شدید تنقید کا سامناہے اور پنجاب میں لاشوں کی واپسی کیلئے ناکام حکومتی اقدامات کیخلاف احتجاجی مطاہرے بھی ہوئے۔