پچھلے سال کی طرح اس سال میں انجیرہ جلسے میں اپنے کچھ مصروفیات کی وجہ سے شرکت نہ کر سکا تاکہ آپ لوگوں کو آنکھوں دیکھا حال سنا سکوں. لیکن میرے ایک دوست کی زبانی اور اپنے چند قیاسات آپ کو بہم پہنچانے کا زمہ داری ادا کرنا چاہوں گا.

گزشتہ سالوں کی نسبت اس سال پروٹوکول میں مزید اضافہ دیکھا گیا. اس کی وجہ ثناء اللہ کی قربانی نہیں تھی اور نہ ہی اس لیے کہ وہ وزیر اعلیٰ ہے بلکہ اس پروٹوکول فوج، ایف سی اور پولیس کی بھاری نفری کی موجودگی کی وجہ یہ تھی کہ ثناء اللہ نے پنجابی کی خدمت کی ایک نئی مثال قائم کردی تھی. میڈیا اور اخباری بیانات سے لے کر بنفس نفیس بولان آپریشن میں حصہ لے کر اپنے باپ دودا خان اول کی یاد تازہ کردی ہے. یہی وہ وجہ ہے پنجابی کے منظور نظر ہے ورنہ اس سے پہلے شفیق مینگل بھی پنجابی کا ایک چہیتا ہوا کرتا تھا. وہ پنجاب کی دلالی میں اپنا ثانی نہیں رکھتا تھا. لیکن جب ثناء اللہ نے پنجابی کو اس بات پر باور کرایا کہ میں بھی دودا خان کا بیٹا ہوں آقا آپ صرف آزما کر دیکھیں اگر آپ کی فرمائش پر پورا نہیں اترا آپ کے ہاتھ میری گردن جہاں پناہ. بقول دوست کے کل انجیرہ میں جب جلسے میں شرکت کرنے لوگ پہنچ گیے تو اللہ کی پناہ ھر طرف سے آرمی ایف سی پولیس لیویز اور ثناءللہ کے بندوق برداروں نے نزدیکی پہاڑوں پر بندوق لیے موجود تھے. ہر آنے جانے والے پر کڑی نظر رکھی ہوئی تھی. تھوڑی دیر بعد ایک ہیلی کاپٹر نمودار ھوا جس میں شاید ثناءللہ سدرن کمانڈ عامر ریاض، آئی جی ایف سی اور باقی کٹپتلی وزرا آئے. تھوڑی دیر بعد جلسہ شروع ہوا. سب نے باتیں کی وزیر داخلہ سرفرازبگٹی نے اپنے تقریر میں وہی پرانی بھڑک بازی دوہراتے ہوئے کہا کہ شھدا زھری کو مارنے والے میرک بلوچ کو ہم نے مار دیا ہے آپ سب کو مبارک ھو. اس نے ھیربیار کے خلاف بھی لب کشائی کی اور دل ہی دل میں خوش نظر آیا. سرفراز بگٹی نے کہا کہ زیب سکندر نے پاکستان کے جھنڈے کو سربلند رکھنے کے لیے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا بالکل اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کیونکہ ان کی تاریخ یہی بتاتی ہے کہ انہوں نے ہمیشہ پنجابی کی خدمت گزاری کی ہے اور آئندہ بھی یہی کرتے رہیں گے. جرنل عامر ریاض نے کہا کہ یہ فوج آپ کی ہے ہم ہر جگہ پر آپ کے ساتھ ہیں. لیکن اسے ہنجیرہ تک آتے ہوئے بھی اپنی فوج کی ضرورت پڑی. اس نے یہ بھی کہا کہ ہم نے غریب عوام کو ان دہشت گردوں سے بچایا ہے. لیکن حقیقت جاننے کے لیے آپ کو دور جانے کی ضرورت نہیں صرف چار دن پیچھے پلٹ کر دیکھیں آپ کو جوہان نرمک کے پاوال خون سے لت پت نظر آئیں گے. یہ وہ عام غریب عوام ہے جنھیں انھوں نے دہشتگردوں سے بچانے کی کوشش میں کاٹ ڈالا اور رات کے اندھیرے میں ایدھی والوں کی مدد سے بائی پاس کے قبرستان میں دفن کر دیا. پورے بلوچستان کے کونے کونے میں روز گولیوں سے چھلنی لاشیں اس بات کا پتہ دیتی ہیں کہ تم نے کیا گل کھلائے. سدرن کمانڈ نے کہا دہشت گردوں کو موقع دیتے ہیں کہ وہ آئیں اور قومی دھارے میں شامل ہو جائیں. لیکن اپنی تاریخ بھول گیا کہ بنگلہ دیش میں اس نے کتنی بڑی تعداد میں ہتھیار ڈال دیئے تھے. تمھاری خدمت صرف اتنا عرض ہے کہ جو بندوق وطن کے لیے کسی خاص مقصد و نظریہ کے تحت اٹھائی جاتی وہ تمھاری طرح پھر پھینکی نہیں جاتی. آخر میں جب سردار ثناءاللہ آیا تو پھر وہی بھڑک بازی وہی ڈائیلاگ بازی ایک چیز میں نے ثناءللہ کے چہرے پر دیکھا کہ وہ آج تک 16 اپریل 2013 کے بی ایل اے کے دھماکے کے خوف سے باھر نہیں نکل سکا ہے یہ وہی ثناللہ تھا جب لوگوں کے بچوں کو مرواتا جب وہ غریب لوگ اپنے بچوں کے لیے رحم کی بھیک مانگتے تو ثنااللہ انھیں بڑے غرور کے ساتھ دھتکارتا بڑے بوڑھوں کی پگڑی اچھالتا انھیں بے عزت کرتا کل کے جلسہ میں ثناءاللہ کو بار بار روتے دیکھا بات کرتے ہوئے اس کے زبان کو لرزتے سنا بیٹے کی قبر پر لرزتے قدموں کو بھی ثناءاللہ کے دیکھا ثناءاللہ نے اپنے تقرہر میں جرنل عامر کو مخاطب کرتے ہوئے اس کی توجہ جلسے میں موجود لوگوں کی طرف مبذول کرتے ہوئے کہا جرنل صاحب یہ سب آپ کے مفت تنخوا کے سپاہی ہیں. ابھی یہ بات سب کے کانوں میں گونج رہی تھی کہ وہاں دوسری طرف یہی مفت خور خیرات کے چاول پر لڑ پڑے. ایک مجاہد نے گھما کے پلیٹ دوسرے مفت خور کے منہ پر لگا دیا جس کی وجہ سے وہ اپنے ایک عدد دانت سے ہاتھ دھو بیٹھا. اس مارا ماری کو دیکھ کر کچھ سفید پوش مگر سرداروں کے تھالی چٹ اپنا راستہ ناپنے لگے کہ بخیر خوشی نکلنے میں ہی عافیت ہے. جلسے سے خطاب کے دوران ثناءاللہ نے کہا ہم نے فارس اور انگریز سے جنگ لڑ کر بلوچستان کو پنجابی کے لیے بچائے رکھا. پہلی بات یہ کہ آپ کے افغانستان سے ہجرت کرکے بلوچستان آنے سے بھی پہلے بلوچ اس سرزمین کے مالک تھے اور پھر بھی وہی مالک رہیں گے. دوسری بات انگریز سے آپ کے جن اوصاف نے جنگ لڑی آج تم ان کے مخالف کیمپ میں کھڑے ہو. تمھارا یہ کہنا کہ زہری کا ہر بچہ آج میرا بچہ ہے. اس خوش فہمی سے نکلنے کی کوشش کریں کیونکہ اسی زہری کے نوجوان آج بھی پہاڑوں میں تمھارے اور تمھارے آقا کے خلاف جنگ کر رہے ہیں. بلوچستان پر قربان ہو رہے ہیں. دور کی مت سوچیں زرا باہیں طرف پلٹ کر دیکھیں تو آپ کو ہنجیرہ کے شہدا، شھید یاسین کی قبر نظر آئے گی. یہ وہ لوگ ہیں جو تمھارے گھر کے پہلو میں تمھاری حاکمیت کو قبول نہیں کرتے تھے. تم جس فاؤنڈیشن کی بات کر رہے انجیرہ کے باسیوں کے کھنڈرات تمھاری ہمدردی کا منہ بولتا ثبوت ہیں. تمھارے یہ تنخواہ خور سپاہی کاہنی قبیلے کے گھروں کے گاڈر تک چوری کیے. تم نے جو قربانیاں دی ہے وہ تمھیں مبارک ہو زہری کے نوجوان آج بھی تمھارے چوروں پر تھوکتے ہیں. تمھارا یہ کہنا کہ آج زہری کا بچہ بچہ زیب سکندر بن گیا ہے ایسا نہیں ہے. کوئی اپنے نام کے ساتھ چور ڈاکو دلال کا لاحقہ لگا کر اپنے باپ دادا کا نام خراب کرنا نہیں چاہتا. آپ کے غم میں کوئی شریک نہیں بلکہ غم اس بات کا ہے کہ بقول ثناء اللہ آج زیب سکندر لاکھوں کی تعداد میں موجود ہیں. اصل غم اس بات کا ہے کہ ان لاکھوں چوروں کے ہوتے ہوئے ہم پر سکون کیسے رہ پائیں گے. ہم ہنجیرہ سے کیسے گزر سکیں گے. ہماری جان مال کیسے محفوظ رہ سکیں گے. جلسے سے خطاب کرتے ہوئے شاہوانی نواب محمد خان نے بھی اپنی تنخواہ حلال کرتے ہوئے کہا کہ بندوق کی نوک سے کوئی نہیں ڈرتا لیکن انسان کتنی جلدی بھولتا ہے کہ جب الیکشن ہو رہے تھے اور تم ورک کرنے بھی نہیں جاتے تھے. اسلم بیزنجو اور کمال خان بنگلزئی کی باتوں پر تو کسی نے توجہ ہی نہیں دی کہ کیا کہہ رہے ہیں البتہ اسلم کی ایک بات میرے کانوں سے ٹکرائی کہ بی ایل اے والوں نے مجھے کہا کہ آپ ہمارے ساتھ آجاؤ تم کو لندن میں ایک گھر دیں گے. تھوڑی سی ہنسی آئی کہ کیسا جھوٹ ہے وہ جو اپنا گھر بار لٹا کر پہاڑوں میں در بدر ہیں وہ کیسے اسے ایک محل کا آفر پیش کرینگے.