گزشتہ دو دہائیوں سے مقبوضہ بلوچستان میں قابض ایرانی آرمی ، پولیس ،ایجنسیاں اور دیگر فورسز و اداروں کے ہاتھوں نہ صرف بلوچوں کی نسل کشی میں تیزی آئی ہے بلکہ اب ایران نے بلوچوں کو پھانسی دینے کے علاوہ ان کے گھروں کی زبردستی مسماری کا سلسلہ جاری کر رکھا ہے ۔ آئے دن رپورٹس موصول ہوتے ہیں کہ مقبوضہ بلوچستان کے فلاں فلاں علاقوں میں ایرانی میونسپلٹی ، پولیس اور دیگر اداروں نے فوج کی مدد سے رات کے وقت حملہ کرکے بلوچ کو گدانوں کو مسمار کرکے تباہ کر دیا ہے۔
اسی سلسلے میں منگل 8 اپریل کی صبح، زاہدان میونسپلٹی کے اہلکاروں نے قابض ایرانی فوجی دستوں کے ساتھ مل کر، 14 پہلوانی کشاورز اسٹریٹ پر واقع “محمود ابولی” نامی بلوچ شہری “محمود ابولی” کے گھر کو مسمار کر دی ہے۔
صورتحال سے واقف ذرائع کے مطابق: “اہلکاروں نے صبح 5 بجے کے قریب محمود ابوعلی کے گھر پر چھاپہ مارا اور بغیر کسی پیشگی اطلاع کے، اس کا سامان پھینک دیا اور اس کے گھر کو مکمل طور پر تباہ کر دیا۔”
اس شہری کے رشتہ داروں میں سے ایک نے ذرائع کے ساتھ انٹرویو میں کہا: “محمود نے اپنا گھر محنت مزدوری اور قرضوں سے بنایا تھا۔” بغیر کسی پیشگی انتباہ کے، وہ صبح سویرے آئے اور سب کچھ زمین بوس کر دیا۔
باخبر ذرائع نے اس کارروائی کے طریقہ کار پر احتجاج کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا ہے: “اگر مکانات کی مسماری قانونی اور اجازت نامے کے ساتھ تھی، تو اسے دیگر کسی سرکاری افسر کی موجودگی کے بغیر اندھیرے اور صبح کے وقت کیوں کیا گیا؟” “مقامیوں کو اپنے دفاع یا اپنا سامان منتقل کرنے کا موقع کیوں نہیں ملا؟”
اس سے پہلے 30 مارچ کی صبح چابہار شہر کی میونسپلٹی کے اہلکاروں نے اسی طرح ایرانی آرمی اہکاروں کے ساتھ چابہار شہر کے ایک حصے رمین گاؤں میں ہوت آباد کے علاقے پر چھاپہ مارا اور اجازت نامے یا قانونی نوٹس فراہم کیے بغیر ایک بلوچ شہری “محمد امین ہوت” کے گھر کو مسمار کر دیا۔
ذرائع کے مطابق: “یہ مسماری صبح 3 بجے کے قریب پولیس اور آرمی کی متعدد گاڑیوں کی موجودگی کے ساتھ شروع ہوئی اور اس وقت ہوئی جب زیر بحث مکان ابھی زیر تعمیر تھا۔” “اہلکاروں نے بغیر کسی عدالتی حکم کے اور بغیر کسی پیشگی اطلاع یا اپنے دفاع کا موقع فراہم کیے اس عمارت کو مکمل طور پر گرا دیا۔
ذرائع نے زور دیا ہے: “کوئی مسمار کرنے کا حکم جاری نہیں کیا گیا ہے، اور یہاں تک کہ رہائشیوں یا جائیداد کے مالک کے رشتہ داروں کو بھی آئندہ کارروائی سے آگاہ نہیں کیا گیا ہے۔” “اچانک تباہی، خاص طور پر رات کے اندھیرے میں، نے علاقے کے رہائشیوں اور لوگوں کو صرف صدمہ اور نفسیاتی نقصان پہنچایا ہے۔”
یہ اقدامات پچھلے سالوں میں چابہار کے پسماندہ علاقوں میں سرکاری اجازت کے بغیر بلوچ بلوچوں کے گھروں کو مسمار کرنے کی بارہا رپورٹس کے باوجود اٹھائے جا رہے ہیں، جس کی وجہ سے بڑے پیمانے پر مظاہرے ہوئے ہیں۔
حالیہ برسوں میں بلوچوں کے گھروں کی تباہی اور حکومتی اور عسکری اداروں بشمول ہاؤسنگ فاؤنڈیشن کی جانب سے ان کی زمینوں پر قبضے کے واقعات میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ یہ اقدامات “مکران کوسٹل ڈویلپمنٹ” نامی منصوبے کے مطابق کیے جا رہے ہیں، جسے بلوچستان کے لوگوں میں “مکران کوسٹل سیزور پلان” کے نام سے جانا جاتا ہے۔
تقریباً ایک ہفتہ قبل ایرانی مقبوضہ بلوچستان کے علاقے زھک میونسپلٹی نے، گورگیج محلے میں موجود، ایک گلی میں راستہ بنانے کے لیے دو محروم خاندانوں کے مکانات کے کچھ حصے کو مسمار کرنے کر دی۔ یہ کارروائی مکینوں کے لیے مناسب متبادل فراہم کیے بغیر کی گئی اور آج تک میونسپلٹی کی جانب سے ان گھروں کے بیت الخلاء اور دیواروں کی تعمیر نو کے وعدے پورے نہیں ہوئے۔
متاثرہ خاندانوں میں سے ایک 70 کی دہائی کی ایک بوڑھی عورت ہے جس کا نام “بزرگ گورگیج” ہے، جو اکیلی رہتی ہے اور اپنا گھر تباہ ہونے کے بعد باتھ روم تک رسائی سے محروم ہے۔
دوسرے خاندان میں دو نوعمر جڑواں بہن بھائی شامل ہیں جن کا نام “امید گورگیج” اور “سید گورگیج” ہے، دونوں کی عمر تقریباً 16 سال ہے، ولد عزیز کے بچے ہیں, جنہوں نے بچپن میں اپنے والدین کو کھو دیا تھا۔
موجودہ ذرائع کا کہنا ہے کہ: “یہ دونوں نوجوان ایک سادہ گھر میں رہتے ہیں، اور ان کے دیگر دو بھائی نشے کی لت کی وجہ سے اچھی حالت میں نہیں ہیں۔”
مسماری کو ایک ہفتہ گزرنے کے باوجود نہ صرف تعمیر نو کے وعدے پورے نہیں ہوئے بلکہ یہ دونوں خاندان مشکل حالات میں زندگی گزار رہے ہیں اور بنیادی سہولیات کی کمی کا شکار ہیں۔ حکام سے ان کی بار بار کی اپیلیں بھی بے نتیجہ رہی ہیں۔
میونسپلٹی کی طرف سے ان رہائشیوں کے ذریعہ معاش اور انسانی حالات کا خیال کئے بغیر اس اقدام سے مقامی باشندوں میں تشویش اور بے اطمینانی پھیل گئی ہے۔
اسی طرح 31 مارچ کی صبح چابہار ہاؤسنگ فاؤنڈیشن کی اہلکاروں نے قابض ایرانی فورسز کی مدد سے چابہار شہر کے نواح میں ہوت آباد کے علاقے پر چھاپہ مارا اور حملہ کرکے ایک بلوچ خاتون کے گھر کو تباہ کر دیا ۔
میڈیا کے مطابق یہ کارروائی عدالتی حکم کے بغیر کی گئی اور ایسی حالت میں کی گئی جب خاتون اس گھر میں اپنے دو چھوٹے بچوں کے ساتھ رہتی تھی اور بڑی مشکلوں اور مالی قرضوں سے یہ گھر بنایا تھا ۔ ہاؤسنگ فاؤنڈیشن کے اہلکاروں نے اس کے پڑوسی کے گھر کی دیوار تک گرا دی اور ان کے خلاف مقدمہ درج کرنے کی دھمکی بھی دی۔
رپورٹ کے مطابق ہاؤسنگ فاؤنڈیشن کے تقریباً پندرہ سے بیس اہلکار رات تقریباً ڈھائی بجے دو سلور پیوجوٹ گاڑیوں اور ایک تھائی ہائی لکس میں ہوت آباد کے علاقے میں داخل ہوئے، جب کہ انہوں نے اپنے چہرے کو کپڑے اور ماسک سے ڈھانپے ہوئے تھے۔
یہ اہلکار بلوچ خاتون کے گھر میں گھس گئیں، اسے بجلی کے جھٹکے اور کالی مرچ کے اسپرے سے ڈرایا اور باہر گھسیٹنے کے بعد گھر کو تباہ کرنے کے لیے آگے بڑھ کر اسے مسمار کردیا ۔
اس گھر کی انہدام اس وقت ہوئی جب اس کا مالک بھاری قرضوں کے باوجود اپنے بچوں کو چھت فراہم کرنے کے لیے گھر تیار کرنے میں کامیاب ہو گیا تھا۔ اہلکاروں کی جانب سے اس خاتون کو جسمانی اور نفسیاتی دھمکیوں سے علاقہ مکینوں میں عدم تحفظ اور خوف کی فضاء پیدا ہو گئی ہے۔
ذرائع ابلاغ میں آمدہ اطلاع کے مطابق اسی روز 31 مارچ کو قابض ایرانی میونسپلٹی کے اہلکاروں نے ایرانی فوج ، پولیس اور دیگر اداروں کے ساتھ مل کر زاہدان کے علاقے شیرآباد میں کشاورز سٹریٹ کے آخر میں امامت سٹریٹ پر کئی فوجی گاڑیوں اور ذاتی اور ادارہ جاتی گاڑیوں کے ساتھ حملہ کرکے بلوچوں 8 گھروں اور دیگر رہائشی مکانات کو بغیر کسی جنگی عدالتی حکم کے مسمار کر دیا۔
دستیاب ذرائع کے مطاب صبح تقریباً 5:00 بجے کے وقت ہوا جو کہ مکان مکین برسوں سے انپے گھروں میں رہائش پذیر تھے۔
ذرائع نے مزید کہا: “فوج اور میونسپلٹی کے اہلکاروں نے بغیر کسی عدالتی حکم یا پیشگی انتباہ کے ان گھروں کو مسمار کر دیا ہے، جو خواتین اور بچوں سمیت بڑے خاندانوں کے گھر تھے۔”
واضح رہے کہ بلوچوں کے گھروں کو تباہ کرنے اور ان کی زمینیں ضبط کرنے کے بعد قابض ایران انہیں غیر مقامی اور حکومت کے قریبی افراد کے حوالے کرنے کی کوشش میں ہے۔ حالیہ مہینوں میں زاہدان شہر میں بلوچ شہریوں سے چھینے گئے 10,000 پلاٹ سرکاری اداروں کے ملازمین کے حوالے کیے گئے۔
“قومی زمینوں” اور “زمینوں پر قبضے” کے بہانے سرکاری اداروں نے مختلف علاقوں خصوصاً زاہدان اور چابہار میں رہائشی مکانات کو تباہ کرنے کے بعد بلوچ شہریوں کی آبائی زمینوں پر قبضہ کر لیا اور مقبوضہ بلوچستان میں “آبادیاتی ڈھانچہ کو تبدیل کرنے” کے لیے انہیں ان کے زیر کفالت افراد کے حوالے کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔
قابل غور بات یہ ہے کہ حالیہ برسوں میں سیاسی اور سیکورٹی مقاصد کے لیے اور ایرانی حکومتی اور عسکری حکام کے حکم پر بلوچ آبائی گھروں کو تباہ کرنے کے حوالے سے متعدد رپورٹس اور دستاویزات شائع ہوئی ہیں جس سے ان علاقوں کے مکینوں کے لیے شدید مشکلات کا سامنا ہے۔