(ہمگام کالم ) پاکستانی حکمرانوں کی جانب سے بارہا اخباری بیانات اور ٹی وی پروگرامز میں یہ تاثر دیا جاچکا ہے کہ بلوچ انسرجنسی اپنی آخری سانسیں لے رہا ہے( یہ اور بات ہے کہ وہ اپنی ناکامی چھپانے کیلئے جانبدار پاکستانی الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا کوبحیثیت پروپیگنڈا ٹول استعمال کر رہے ہیں )اس بات کا اظہار کٹھ پتلی حکومت بار بار کر چکی ہے کہ ننانوے فیصد آزادی پسندوں کا صفایا کیا جا چکا ہے. اور اسی بات کو جواز بنا کر نام نہاد پاکستانی الیکشن کی تیاریاں اپنی زوروں سے جاری ہیں. پارلیمانی گماشتہ پارٹیاں اپنے شخصی مفادات کی خاطر سادہ لوح بلوچ عوام کو گمراہ کر کے غلامی کی دلدل میں دھکیلنے کیلئے مختلف حربے استعمال میں لا رہے ہیں اور آنے والے عام انتخابات کو کامیاب بنانے کیلئے اپنی ایڑی چوٹی کا زور لگایا جا رہا ہے کیونکہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ گزشتہ انتخابات کا تلخ تجربہ دیکھ چکی ہیں جہاں چند ایک انتخابی امیدوار چند سو ووٹ لیکر زبردستی اسے جتوا کر عوام پر مسلط کیا گیا . گزشتہ پانچ سالوں میں اقتدار میں موجود وزراء نے ماسوائے کرپشن،مسخ شدہ لاشوں اور آپریشن کے علاوہ بلوچ عوام کو کچھ بھی نہیں دے سکا۔ اور اس ناکامی کو چھپانے کیلئے اب کی بار کچھ نئے انداز سے انتخابات کا ڈھنڈورا پیٹا جا رہا ہے. بدنام زمانہ پاکستانی خفیہ ادارے سرنڈر شدہ بھگوڑوں کی زور بازو سے عام بلوچ عوام کو دھمکیوں کی زور سے آنے والے انتخابات کیلئے تیار کر رہی ہے. مقبوضہ بلوچستان سے رپورٹ ہوا ہے کہ سرنڈر شدہ لوگ اور ریاستی ڈیتھ اسکواڈ سرکاری سرپرستی میں علاقہ مکینوں کو زبردستی علاقے خالی کراکر فوجی کیمپوں کے قرب و جوار میں زبردستی آباد کرا رہے ہیں اور اغواء نما گرفتاریوں اور آپریشن کو بلوچستان بھر میں وسعت دیا جا رہا ہے. جن پارلیمانی پارٹیوں کو بدنام زمانہ پاکستانی خفیہ ایجنسیوں کی حمایت اور معاونت حاصل ہے انکا پلڑا کچھ زیادہ ہی باری ہے. کیونکہ اس عسکری ملک میں گزشتہ ستر سالوں سے ہمیشہ ان معلوم نا معلوم ہاتھوں کی سربراہی میں نام نہاد انتخابات کا انعقاد ہوتا رہا ہیں. اور انتخابی امیدواروں کو انکی خوش نودی حاصل کیے بغیر اسمبلی ہال کے نزدیک گزرنے کی بھی اجازت نہیں دی جاتی. گزشتہ سات دہائیوں سے یہ لوگ ایجنسیوں کو خوش رکھ کر اقتدار کے مزے لوٹ رہے ہیں. حال ہی میں یہ اعتراف خود پاکستانی فریم ورک میں رہنے والے سابقہ صوبائی وزیر ظفر اللہ جمالی نے کیا تھا کہ پاکستانی فوج کی مرضی و منشاء کے بغیر کوئی بھی انتخابات میں کامیابی حاصل نہیں کر سکتا. یہاں سے اب اس بات میں کوئی دو رائے نہیں رہا کہ انتخابی امیدوار پاکستانی خفیہ ایجنسیوں کے ہاتھوں ننگے بدن ناچ رہے ہیں اور پاکستانی استحصالی نظام کو توانائی دینے میں انکا بنیادی کردار رہا ہے. اس ریاست میں گزشتہ ستر سالوں سے نام نہاد الیکشن کے نام پر سیاسی رشوت و اپنے من پسند افراد کو اقتدار کے خوب مزے چھکایا جا چکا ہیں. اور اس بار بھی کچھ ویسا ہی کھیل کھیلا جارہا ہے مگر مہرے کچھ الگ طریقے سے میدان میں اتارے جا رہے ہیں کیونکہ گزشتہ پاکستانی انتخابی کھیل کو مقبوضہ بلوچستان میں بری طرح سے ناکامی کا سامنا کرنا پڑا . سابقہ انتخابات میں ان لوگوں کو انتخابی ٹکٹ جاری کیا گیا تھا جو بلوچ سماج میں پہلے سے ہی ناقابل قبول قرار دیے جا چکے تھے مگر اس بار جان محمد دشتی جیسے ادیب میدان میں اتار دیئے گئے ہیں. بلوچ اور بلوچی زبان کو زندہ رکھنے میں جان محمد دشتی کا کردار کسی بھی زی الشعور بلوچ سے پوشیدہ نہیں ہے ان کے ادبی خدمات اپنی جگہ لیکن اس فسادی انتخابات میں حصہ لینا واجہ جان محمد دشتی کی تاریخی غلطی ہوگی اس پارلیمنٹ کی حیثیت کا ذکر واجہ جان محمد دشتی خود بہت سے لوگوں کے سامنے کر چکے ہیں مگر جان محمد دشتی کا خود اس اسمبلی کا حصہ بننے کی تیاریاں انکی تضاد بیانی کا منہ بولتا ثبوت ہے اور قوم کو بھی اس بات کا ادراک ہونا چاہیے کہ کل کو اسی اسمبلی کی مخالفت کرنے والا آج اسی کا حصہ بننے جا رہا ہے. تو حقائق سمجھنے میں قوم کو زیادہ مشکلات درپیش نہیں ہونگے الیکشن کے نزدیک آتے ہی پاکستانی فوجی جارحیت کو بلوچستان بھر میں وسعت دینے کیلئے تیاری کی جارہی ہے بلوچ چادروچاردیواری کی پامالی روز کا معمول بن چکا ہے. آئے روز بلوچ عورتوں کی اغواء نما گرفتاریوں کا نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہو گیا ہے ۔ اطلاعات کے مطابق پابند سلاسل بلوچ خواتین کو ریاستی درندہ صفت ایجنسیوں کی طرف سے جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا ہے. ان حالات میں ریاستی اسمبلیوں میں بیٹھنے کا خواب دیکھنا پارلیمانی بلوچوں کے بلوچیت پر ایک عجب سوالیہ نشان نہیں ہے؟ قوم حالات جنگ میں ہے بلوچ خواتین سمیت بچے بوڑھے نوجوان کسی بھی طبقے سے تعلق رکھنے والا شخص ریاستی درندگی سے محفوظ نہیں ہیں اور ان حالات میں اسمبلی و وزارات کے خواب دیکھنا بلوچ شہداء اور اسیر دوستوں کے ساتھ ایک سنگین دھوکہ ہے. بلوچ سیاسی اور عسکری قیادت نے گزشتہ پارلیمانی انتخابات کو ناکامی کی نہج تک پہنچانے میں بھرپور کردار ادا کیا تھا گزشتہ الیکشن کا ٹرن آؤٹ مقبوضہ بلوچستان میں تصور سے بھی زیادہ کم رہا ہے گزشتہ انتخابات کی طرح آنے والی انتخابات بھی بلوچ تحریک کے حق میں ایک آزمائش تصور ہوگا لہذا آزادی پسند قوتوں کو منظم حکمت عملی سے ریاستی الیکشن کو ناکام کرنا ہوگا ۔اس بار کی حالات گزشتہ الیکشن سے سراسر مختلف ہیں. ایک طرف ریاستی اداروں کی جانب سے قوم کو دباؤ دیکر ان کی طاقت کو منتشر کیا جا رہا ہے تو دوسری جانب چند آزادی پسند سیاسی اور مسلح تنظیموں کی جانب سے اپنی بھرپور قوت دشمن ریاست کے بجائے اپنے قوم پر استعمال کیا جارہا ہے جسکی وجہ سے قوم اب کی بار ایک سنگین تذبذب کی کیفیت سے گزر رہی ہے. اسی لیے ایماندار اور مخلص سنگتوں کو چاہیے کہ گزشتہ غلطیوں کا ادراک کرکے اپنی پوری قوت ریاستی انتخابات کو ناکام کرنے میں خرچ کریں. غیور بلوچ عوام کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے قومی شہداء کے مقدس خون کا لاج رکھ کر گزشتہ الیکشن کی طرح آنے والے استحصالی الیکشن کا بھی بائیکاٹ کریں اور اپنا ووٹ آزاد اور خوشحال بلوچستان کے حق میں دیں.