کسی بھی شخص کی تضحیک یا کسی بھی شخص پر تشدد کلاسیکی لبرل ازم کی منفی رجحانات کے ذمرے میں آتے ہیں۔جس میں انسان تمام مذہبی، سماجی ، تہذیبی اور آفاقی اقدار کو بھول کر صرف اناپرستی کو ترجیح دیتا ہے اور جہاں اْس کا نفس جو چاہے وہی کرتا ہے۔ جس کے باعث سماج میں انتشار کا خدشہ ہوسکتا ہے۔ کیونکہ نہ کوئی اپنے قائد یا خود اپنی تضحیک کے حق میں ہے نہ کوئی اپنی برادری یا خود اپنے اوپر تشدد کے حق میں ہے۔ گزشتہ دنوں فرانس میں آزادیِ اظہار کے نام پر پیغمبرِ اسلام کے کارٹون شائع کئے گئے اور پیغمبرِ اسلام کے پیروکاروں نے اْس کے ردِ عمل میں فرانس میں جاکر دہشت گردی کی اور اْس اخبار کے دفتر پر حملہ کردیا جس کے باعث کئی لوگ اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ یہ دونوں واقعات ایک دوسرے سے تسلسل رکھتے ہیں اور دونوں واقعات کلاسیکی لبرل ازم کی منفی رجحانات کی مثالیں ہیں۔ اسی واقعے پر ایم کیوایم کے قائدِ تحریک الطاف حسین نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ اگر کارٹون بنانے کا سلسلہ نہ رْکا اور ان کے ردِ عمل میں قتل و غارت گری نہ رْکی توصلیبی جنگ چھڑ سکتی ہے۔ اس سے تیسری صلیبی جنگ چھڑے یا نہ چھڑے مگر پاکستان میں کیا ہوگا ہم اس کا تجزیہ کریں گے۔ فرض کریں اگر یورپ میں کچھ انتہا پسند عیسائیوں نے کچھ ایشیائی نڑاد یورپی مسلمان ماردئیے تو عرب دنیا میں کوئی آواز نہیں اْٹھے گی۔ ایران، بنگلہ دیش، افغانستان اْسے یورپ کا اندرونی سماجی معاملہ قرار دے کر اْس پر خاموشی اختیار کرلیں گے۔ ترکی کچھ اس طرح کا ردِ عمل ظاہرکرے گا کہ ہم ترک ہیں دنیا ہمیں عرب نہ سمجھے،بس! یورپ اْن انتہاپسندوں کو گرفتار کرکے وہاں کی قانون کے مطابق کھڑی سزا دی گا۔ پاکستان میں اس کو اسلام پر حملہ قرار دے کر اسمبلی میں قرار داد منظور کرائی جائے گی، شاہراہ دستور پر پارلیمنٹرینز واک کریں گے۔ میڈیا میں بحث و مباحثہ ہوگا۔ مساجدوں میں تقاریریں ہوں گی۔شاہراہوں پر نعرے بازی اور شورو غل ہوگا۔مذہبی اور جہادی جماعتیں ملک بھر میں جلوس نکالیں گے۔ اس کا زور پنجاب، سرحد اور سندھ میں زیادہ ہوگا۔ انہیں بدلہ لینے کے لیے کوئی یورپی عیسائی نہیں ملے گا یہ غریب پنجابی عیسائیوں اورغریب پاکستانی اہلِ تشیع، اسماعیلی اور سندھی ہندوؤں کو تشدد کا نشانہ بنائیں گے۔ اْن کے چرچ اور مندروں کو آگ لگائیں گے۔ اس مدہوشی کے عالم میں پاکستانیوں کے ہاتھوں شہروں اور بازاروں میں آگ لگائی جائے گی۔ لوگوں کی بسوں اور گاڈیوں کو بے دریغ نذرآتش کیا جائے گا۔ اس صلیبی جنگ میں تقریباً پانچ سو کے قریب غریب پنجابی عیسائی مارے جائیں گے۔ ہزار کے قریب بے گھر ہوں گے جن کے گھروں کو آگ لگائی جائے گی۔ سو کے قریب سندھی ہندو مارے جائیں گے دوسو بے گھر ہوں گے اْن کے گھروں کو آگ لگائی جائے گی۔ سو کے قریب اہلِ تشیع اور اسماعیلی مارے جائیں گے اور اْن کی بیس کے قریب عبادت گاہوں کو نذرآتش کیا جائے گا۔ دس چرچ نذر آتش ہوں گے اور سات مندر نذرآتش ہوں گے۔ اسی کشمکش میں چور ایک لاکھ کے قریب دوکانوں کا صفایا کردیں گے۔ اس صلیبی جنگ میں پاکستان میں بسنے والے دیسی سوشلسٹ تمام آفاقی اقدار کو پامال کرکے اپنی دیسیت پر اتر کر مذہبی، جہادی اور پاکستانی سیاسی جماعتوں کے شانہ بشانہ مغرب کی جدید صنعتی اور مشینی تہذیب کے خلاف یورپی سرمایہ داری کے نام پرجنگ کریں گے اور اْن کے حدف فیکٹریاں اور مشینریاں ہوں گے تاکہ اْن کو تباہ کرکے مستقبل کے مزدور کے لیے روزگار کے وافر مواقع پیدا کیاجاسکے۔ کیونکہ اْن کا عقیدہ کارل مارکس کے اس قول پر قائم ہے کہ جدید مشینوں کی دریافت نے روایتی مزدور سے روزی روٹی چھینا ہے اور اْس کو فیکٹری مالکان نہایت کم اجرت عطاکرتے ہیں۔ جدید مشینوں کی دریافت سے پہلے تمام کام مزدور کرتاتھا اور سماج میں روزگار کی شرح زیادہ تھی۔ اب ایک مشین سو مزدوروں کا کام کرتاہے۔اس وجہ سے روایتی مزدور کو کام نہیں ملتا اورسماج میں بیروزگاری کی شرح بڑھ گئی ہے،اس کی بنیادی وجہ جدید مشینی دریافت ہے۔غالباً فیصل آباد یا کراچی کے سائیٹ کے علاقے میں دیسی سوشلسٹوں کا ایک راہنما کسی فیکٹری میں مشینوں کی توڑ پھوڑ کے وقت مشین کی زد میں آکر دم توڑ دے گا۔ تو اس پر باقی سوشلسٹ مغربی سرمایہ داری اور جدید صنعتی تہذیب سے اپنی نفرت میں مزید شدت لاکرجذباتی ہوں گے اور بیس فیکٹریوں کوآگ لگاکر اپنی مشین دشمنی کا ثبوت دے کر غریب مزدوروں سے ہمدردی جتائیں گے۔ یوں مدہوشی کے عالم میں پاکستانی اپنے ہی ملک کے لوگوں کو جان و مال کا بھاری نقصان دے کراس صلیبی جنگ میں اپنا کردار ادا کریں گے۔ کسی کی گرفتاری عمل میں نہیں لائی جائے گی۔ سب کو مغرب کی اسلام دشمنی اور جدید صنعتی تہذیب کی مخالفت اور اسلام کے دفاع پر شاباش دی جائے گی۔ پھرمختلف ٹی وی ٹالک شوز منعقد ہوں گے، آفاقیت اور انسانی اقدار سے واقفیت رکھنے والے وڑنری لبرلز اور سیکولرز اس کی مذمت کریں گے اور پاکستانی سماج میں رواداری کی روایت کو برقرار رکھنے پر زور دیں گے۔ انتہا پسند سیاسی جماعتیں، دیسی سوشلسٹ، مذہبی اور جہادی جماعتیں انہیں اسلام دشمن اور مغربی ایجنٹ کہہ کر اس بڑے پاکستانی سانحہ سے خود کو بری الذّمہ قرار دیں گے۔ عالمی انسانی حقوق کی تنظیمیں اس سانحہ کی شدید مزید کریں گے اور ذمہ داروں کو گرفتار کرنے اور سزا دینے کا مطالبہ کریں گے۔یورپی یونین کے تھینک ٹینک دنیا کے سامنے اس کی شدید مذمت کریں گے اور دل میں خوش ہوکر کہیں گے کہ کہا تھا ناں کہ نفسیاتی جنگ کرو پلان کامیاب ہوجائے گا۔ یوں دنیا بھر سے اس سانحے کی مذمت کی جائے گی۔ پاکستان میں اقلیتوں کی ریلیاں نکلیں گی اور انتہا پسندوں کی گرفتاری اور سزا دینے کا مطالبہ کیاجائے گا۔ پھر اسمبلی میں قرار داد پاس ہوں گے اور انہیں مغرب کا نہیں بلکہ پاکستان کا اپنا نقصان قرار دیا جائے گا۔ پاکستانی سرکار اقلیتیوں کے نقصان کا ازالہ کرنے کے لیے سروے کرے گا۔ تقریباً سات سو ارب کے نقصان کا تخمینہ لگایا جائے گا۔ اْن کو پورا کرنے کے لیے عوام پر ٹیکسز کے مزید بوجھ ڈالے جائیں گے اور اقلیتیوں کے نقصان کے ازالے کی بجائے یہ پیسے حکمرانوں کی جیب میں جائیں گے پھر ہر طرف خاموشی ہوگی اور کسی دوسرے بڑے سانحہ کے لیے لوگ پھرانتظار میں رہیں