شال (ہمگام نیوز ) منظور پشتین نے کل اپنے ایک بیان میں تربت دھرنے میں اظہار یکجہتی کیلئے روانگی کے حوالے سے بتایا تھا اور آج جب چمن میں جاری دھرنے سے نکل کر وہ تربت کیلئے روانہ ہوئے تو ان کے کافلے پر ایف سی کے اہلکاروں نے فائرنگ کی جس سے کچھ مظاہرین کے زخمی ہونے کے بھی اطلاعات ہیں جن کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔
ایک طرف ریاست لوگوں کو غیر قانونی طور پر جبری گمشدگی کا نشانہ بناکر فیک انکاؤنٹر میں انہیں نشانہ بناتی ہے ان کے ساتھ غیر انسانی سلوک روا رکھتی ہے اور جب یہی مظلوم لوگ ریاستی دہشتگردی اور ظلم کے خلاف آواز بلند کرتے ہیں تو انہیں بھی نشانہ بنایا جاتا ہے۔
ریاست بلوچستان میں جہاں ہر طرح کی غیر قانونی سرگرمیوں میں شامل ہے وہی وہ لوگوں کو چھپ کروانے اور آوازوں کو دبانے کی بھی کوششوں میں مصروف عمل ہے۔ منظور پشتین کو اس لیے نشانہ بنانا کہ وہ کیچ میں اپنے پیاروں کی بازیابی اور ریاستی دہشتگردی کے خلاف جاری دھرنے میں شرکت نہ کریں اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ ریاست بلوچستان کو بطور کالونی چلانا چاہتی ہے جہاں عوام کے کوئی بھی حقوق محفوظ نہ ہو۔
کیچ دھرنے میں شرکت کیلئے آنے والے منظور پشتین پر حملہ کرکے ریاست بلوچستان پر فوجی کنٹرول چاہتی ہے اور دوسری جانب وہ بلوچوں کو پاکستان کے دیگر مظلوم اقوام سے مکمل طور پر الگ کرنا چاہتا ہے۔ اس طرح کے اقدامات سے ریاست ایک طرف اپنی آئین کو پاؤن تلے روند رہی ہے تو دوسری جانب یہاں پر اپنے مزموم عزائم کی عکاسی کر رہی ہے۔ ریاست کو سمجھنا چاہیے کہ بزور طاقت اور بندوق کے نوق سے آپ کسی کو بھی ان کے حقوق سے محروم نہیں رکھ سکتے ہیں۔
منظور پشتین کے کافلے پر حملے کی نہ صرف مذمت کرتے ہیں بلکہ پاکستان اور بلخصوص دنیا بھر کے میڈیا سے اپیل کرتے ہیں کہ بلوچستان کو نظرانداز کرنے کی صورت میں ریاست یہاں ایک مکمل نسل کشی کا مرتکب ہو رہی ہے اور میڈیا کی خاموشی ریاست کو اس نسل کشی کو جاری رکھنے کا مکمل جواز فراہم کر رہی ہے اور اگر یہ خاموشی جاری رہی تو بلوچستان میں مزید حالات خراب ہو سکتے ہیں اس لیے ہم دنیا بھر کے انسان دوست افراد اور عالمی میڈیا سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ بلوچستان میں جاری اس نسل کشی اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے خلاف ہماری آواز بنیں تاکہ دنیا کو بلوچستان کے حالات کے حوالے سے آگاہی دی جا سکیں۔