ـــــــ تحریر: سلام سنجرـــ موجودہ دور میں عالم گیریت کے سبب یہ دنیا ایک چھوٹا سا گاؤں بن چکا ہے اس کی سب سے بڑی وجہ سائنس و ٹیکنالوجی کی ترقی ہے پرانے زمانے میں لوگ ایک دوسرے کو اپنے پیغامات ارسال کرنے کے لیئے تیز رفتار گھوڑوں کے ذریعے اپنے قاصد ایک شہر سے دوسرے شہر روانہ کر دیتے تھے لیکن دور جدید میں صرف ایک کلک پر آپ اپنا یہ کام سکینڈوں میں کرسکتے ہیں اسی لیئے گھر میں بیٹھے بیٹھے کوئ ذی شعور انسان دنیا کے تمام نشیب و فراز سے واقفیت حاصل کر سکتا ہے ـ سائنس و ٹیکنالوجی کی وجہ سے نہ صرف آپ دنیا کی گہما گہمی سے واقف ہوسکتے ہیں بلکہ گھر میں بیٹھے کوئی بھی شخص دنیا کے تمام قوموں اور ریاستوں کے بارے میں معلومات گوگل کے ذریعے حاصل کرسکتا ہے ـ بلوچ قوم دنیا میں ایک زندہ قوم ہے ہزاروں سال سے لے کر آج تک جتنے بھی غیر اقوام بلوچستان میں آئے بلوچستان پر قبضہ کرکے بلوچستان کی دولت لوٹ کر چلے گئے ہر حملہ آور قوم نے بلوچستان اور بلوچ قوم کی نفسیات اور جغرافیہ اور کلچر پر اپنے اثر چھوڑ گئے اور اپنے اپنے مفادات کے تحت بلوچ اور بلوچستان کے بارے میں کچھ نا کچھ لکھتے رہے ـ جتنے بھی لکھے تاریخ کے پَنوں پر صرف اپنے مفادات اس میں شامل کرتے گئے لیکن آج تک کسی بھی غیر اقوام نے ایسا کچھ بھی نہیں لکھا جو کہ دنیا کو بلوچ اور بلوچستان، ثقافت، قومی روایات، جغرافیہ، مذہب، سیاست، قومی وقار، بہادری میارجلی، مہمان نوازی، زبان و ادب سمیت زندگی کے تمام گوشوں کے بارے میں معلومات ہو ـ جدید دور میں اس سائنس و ٹیکنالوجی کے تیز رفتاری میں ہر قوم و سماج اور ریاست اپنے پرانے اور جدید زمانے کے تمام لوازمات زندگی لکھ کر نہ صرف کتابوں کی شکل میں لا چکا بلکہ انٹرنیٹ پر تمام مواد بھی رکھ چکا ہے ـ بحیثیت بلوچ قوم ہماری تاریخ اور وجود اس دنیا میں نئی نہیں ہے یہ ہزاروں سالوں پر مشتمل ہے ہم کون ہیں کیسے وجود میں آئے ہیں ؟ ان سوالات کا جواب کہاں ملے گا؟ کسی کو معلوم نہیں ـ لیکن افسوس یہ ہے کہ دوسروں کو چھوڑ دیجیئے ہم خود ہم اپنے بارے میں کم جانتے ہیں تو پھر اغیار کا گلہ کیسے کریں ـ جب ہم نے اکیسویں صدی میں بلوچستان کی تحریک آزادی کی سیاست میں پہلی بار قدم رکھا تو ہر طرف زندہ باد مردہ باد کے نعروں کے علاوہ اگر ہمیں جو چیز سب سے زیادہ سکھایا گیا تھا وہ تھا سوشلزم، کمیونزم اور کم و بیش بیش نیشنلزم، جب کہ بلوچ، بلوچستان کیا ہے ان کے بارے میں ایک فیصد بھی نہیں سکھایا گیا ـ ساری دنیا کو چھوڑ دو ہماری موجودہ بلوچ نسل اپنے آباواجداد کے بارے بہت ہی کم جانتی ہے ـ میں اگر کسی بھی بلوچ نوجوان سے یہ سوال کروں کہ نپولین کون تھا؟ تو وہ نپولین کی پوری تاریخ میرے سامنے رکھے گا، مگر اسی نواجوان سے سوال کروں کہ نصیر خان نوری کون تھا تو وہ ایک بار حیران ہو کر مجھ سے سوال کرے گا کہ یہ کون ہے؟ اسی طرح ہمارے تاریخی ہیروز، شاعر، عشقی داستان، رزمیہ حالات و واقعات کے بارے میں ہمارے بلوچ کو خود معلوم نہیں تو یہ سوال اٹھتا ہے دنیا کیسے اور کیوں جانے گی کہ ہم یعنی بلوچ کون ہیں اور کہاں سے تعلق رکھتے ہیں ـ موجودہ دور میں اگر آپ کسی بھی قوم اور ملک کے بارے میں کسی بھی قومی تحریک کے بارے جاننا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے فوراً انٹرنیٹ پر جائیں گے ـ انٹرنیٹ ایک ایسا ذریعہ ہے جہاں آپ سمندر کی طرح خود کو موجوں کے حوالے کریں گے یعنی اس مقام پر آپ کو وہ سب کچھ ملے گا جس کی آپ تلاش کر رہے ہیں ـ تو کیوں نہ ہم بلوچ دنیا کو اپنے بارے میں وہ حقیقت بتائیں جو کہ ہماری مادر وطن سے پیوستہ ہیں جو کہ سچ اور حقیقت پر مبنی ہیں ـ ہم کون ہیں اور کس طرح کے بودباش رکھتے ہیں؟ ان تمام چیزوں کو انٹرنیٹ پر رکھنا لازمی ہے ـ ہماری تاریخ، ثقافت، قومی اقدار، مہمان نوازی، جغرافیہ، زراعت اور زرعی نظام، عام و خاص لوگوں کی زندگی، دوسری قوموں کے ساتھ جدید و قدیم سفارتکاری، پاکستان اور ایران کا بلوچستان پر ناجائز قبضہ، برطانیہ کا بلوچستان کی تقسیم اور بعد میں حکومت کرنا سب شامل ہیں ـ اس کے علاوہ بلوچستان کے ان تمام شخصیات کی احوال زندگی جنہوں نے بلوچستان پر اپنی سروں کی قربانیاں دی ہیں، وہ تمام شاعر و ادیب جنہوں نے بلوچی زبان و ادب کے لیئے انتھک محنت کرکے بلوچستان کی ادب کو ایک اعلی و ارفع مقام بخشا ہے، ھانی و شیھ مرید کی داستان کیا ہے؟ چاکر اعظم اور گوھرام کون ہیں؟ انہوں نے کیوں اور کس وجہ سے آپس میں جنگیں لڑی ہیں، جوانسال بگٹی سے لے کر سدو مری کی شہادت تک وہ سب تمام حالات و واقعات انٹرنیٹ پر قلم بند کرنے ہونگے جو کہ کوئی غیر بلوچ نہیں کر سکتا اور ان تمام تاریخی اور جدید دور کے جھوٹ کا پردہ فاش کرنا ہوگا جو کہ غیر اقوام نے بلوچ و بلوچستان کے لیئے گڑے ہیں ـ اور ان کے علاوہ بلوچی کشیدہ کاری، بلوچی خوراک، بلوچستان کے زراعت، شہروں اور بازاروں کے نام، پہاڑوں اور سمندروں، دریاؤں کے نام، بلوچ بچوں کے بلوچی نام، درختوں، پرندوں، جانورں، پودوں سمیت ہر وہ تمام چیزوں کے نام بذریعہ انٹرنیٹ یا گوگل میں لانا ہر بلوچ کا قومی فرض ہے جن کے بارے میں دنیا کم جانتی ہے کچھ نہیں جانتی اور ہماری بلوچ نسل نہیں جانتی ـ تحریر سلام سنجر