مڈل ایسٹ کی بدلتی ہوئی صورت حال، بلوچستان کے بارے خلیجی عوام کی دوٹوک موقف اور ہماری ناقص پالیساں !! تحریر آرچن بلوچ مڈل ایسٹ میں ایران کی ناجائزمداخلت نے خلیجی ممالک کیلئے سیکیورٹی کے خدشات کو سو گنا بڑھا دیا ہے۔ ایران کی اس ننگی جارحیت کے خلاف سعودی کیمپ کے تمام دوست ممالک بشمول امریکہ، اسرائیل، متحدہ عرب امارات مصر اردن ،بحرین فرانس اور برطانیہ وغیرہ صف بندیوں میں مصروف ہیں، اسی طرح نیوکلیئر ڈیل کے خاتمہ کے بعد عالمی میڈیا میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ اسرائیل اپنا دفاعی تیاری مکمل کرلے، کیونکہ ایران نے دھمکی دی ہے وہ یکطرفہ طورپر یورنیم افزودگی کی طرف جائے گی۔ ایران کے خلاف منصوبہ بندیوں میں اس بار بلوچ فیکٹر فیصلہ کن کردار کی اہمیت کا اس امر سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ خلیجی ممالک میں بلوچستان اور بلوچ تاریخ کے بارے متواتر بحث ومباحث بڑی شد ومد سے جاری ہے، اور یہ سارے معلومات سوشل میڈیا کے زریعے عام عوام کو دستیاب ہیں۔ خلیجی ممالک کی میڈیا میں غیرسرکاری سابقہ عہدہ داروں کے بیانات کو اس خطے کی جیو پالیٹکس کے تناظر میں پڑھاجائے تو بین السطور یہ بات سجمھ میں آئیگی کہ خلیجی ممالک بلوچستان کی وحدت اورآزادی کی حمایت کرنے کیلئے تیار ہیں۔ خلیجی ممالک پاکستان اور ایران دونوں کو غاصب قوت سمجھتے ہیں۔ ڈاکٹر یوسف محمد العلوی، بحرینی مورخ کہتے ہیں کہ ایران کے زیر تسلط ھرمز ایک بلوچ ملک رہا ہے، اسکے زیراثر علاقے اور حاکمیت کے حدود و اربع ساحل عرب خلیج کے مشرق و مغرب سے لیکر ظفار، بحرین ، القطیف اور الاحساء رہے ہیں، اور 400 سال سے زیادہ عرصے تک اس پر بلوچوں کی حکمرانی رہی ہے۔ اسی حوالے سے ھورمزگان کے بارے مزید معلومات کیلئے متحدہ عرب امارات کی ریاست شارجہ کے حاکم ڈاکٹر شیخ سلطان بن محمد القاسمی کے لیکچرز یوٹیوب پر بھی دستیاب ہیں۔ متحدہ عرب امارات کی پولیس سابقہ قائم عام جناب ضاحی خلفان نے کھل کر بلوچستان کی آزادی کی بات کی اور تمام عرب ملکوں کو کہا کہ وہ اپنے ملکوں میں بلوچستان کے سفارت خانے کھولنے دیں۔ ابھی چند دنوں پہلے ٹویٹر پر بلوچستان کی یک وحدتی جغرافیائی حیثیت کا اعتراف کرتے ہوئے یونیورسٹی پروفیسر، اقتصادی و تزویراتی تجزیہ کار اور سعودی عرب آرمی کی سابقہ کمانڈر بریگیڈیرجنرل ڈاکٹر علی التواتی القرشی نے دنیا میں معروف سوشل میڈیا کی ٹوئیٹر میں لکھا ہے کہ بلوچستان ایک آزاد وحدت والا ملک تھا جس کا اپنا ایک حاکم تھا پاکستان نے بلوچوں کو دھوکہ دیکر اس پر حملہ کرتے ہوئے اسے قبضہ کیا، وہاں بلوچوں کی دیار میں تباہی مچادی لوگوں کا قتل عام کیا۔ اسی طرح ایران نے بھی شمال کی طرف سے اس پر حملہ آور ہوکر ایک حصے پر قابض ہوگیا۔ پاکستان اور ایران کو بلوچستان سے نکلنا چاہیے کیونکہ بلوچ سرزمین ان کا حصہ نہیں ہے۔ بلوچ مظلوم ہیں۔ بلوچوں کو یہ حق ملنا چاہیے کہ وہ اپنے ملک کا حاکم خود بنیں۔ ایک اور ٹویٹ میں بریگیڈئیر جنرل ڈاکٹرعلی القرشی لکھتے ہیں کہ میں بلوچوں کا ساتھ ہوں، مجھے یقین ہے کہ وہ لوگ جو بلوچوں کے قومیت کو نفی کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں وہ یہ چاہتے ہیں کہ بلوچوں کا اپنے سرزمیں پر کوئی حق نہیں، وہ جہاں سے آئے ہیں وہاں واپس چلے جائیں۔ ہم نے اس طرح کئی جگہوں پر دیکھا ہے۔ آپ بلوچ ایک قوم ہو، آپ لوگوں کا اپنا ایک الگ زبان ہے،ایک الگ کلچر اور تہذیب ہے۔۔ ہمارے دلوں میں آپ لوگوں کیلئے عزت اور تکریم ہے۔ بریگیڈئیر جنرل ڈاکٹر علی چین پاکستان اور ایران کے منصوبوں کے بارے اپنے ٹویٹ اکاؤنٹ میں مزید لکھتے ہیں کہ پاکستان چین کی مدد سے بلوچوں کی قیمت پر مضبوط ہو ہورہا ہے اور اسی طرح ایران بھی انڈیا کی مدد سے بلوچ وسائل کی قیمت پر تقویت پا رہا ہے۔۔ ڈاکٹر بریگیڈئیر جنرل علی کا مزید کہنا ہے کہ پاکستان کے زیر تسلط گوادر اور ایران کے زیر تسلط چابہار دونوں ہی بلوچستان میں ہیں اور بلوچوں کی ملکیت ہیں۔ بلکل اسی طرح اس مقبوضہ ملک بلوچستان میں جہاں پر پاکستان اور ایران دونوں کی قبضہ گیریت جاری ہے، وہاں اس سرزمین کے اہل باشندوں بلوچوں کی کوئی عوامی رائے وجود نہیں رکھتا۔ ان کو کوئی سننے والا نہیں۔ امریکی صدر مسٹر ٹرمپ کی جرات مندانہ پالیسیوں کی بدولت مشرق وسط میں امریکی اور روسی دائرہ اثر sphere of influence تصادم کے بجائے مفاہمت کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ رپورٹوں کے مطابق امریکہ شام میں روس کو رعایت دینے کیلئے تیار ہوچکا ہے، جبکہ ایران کے بارے روس امریکی پالیسی کو قبول کرنے تیار ہوچکا ہے۔ ھلسنکی سربراہی ملاقات میں ٹرمپ اور پوٹن کے ملاقات سے پہلے سعودی عرب کیمپ کے تمام عرب ممالک روس گئے اور وہاں روسی حکمرانوں کو باور کراچکے ہیں کہ مشرق وسطی کی جیوپالٹکس میں روس کی کردار مسلمہ ہے۔ لیکن شام، عراق ،لبنان، یمن اور خلیجی ممالک میں ایران کے مداخلت کو روکنے کی تمام اقدامات کی حمایت کریں۔ ہم نے دیکھ لیا کہ جب پوٹن اور ٹرمپ کی ملاقات ہوئی تو ان دونوں ملکوں کے درمیان ان تین بڑے اختلافات کے بارے ایک بھی لفظ سامنے نہیں آیا۔ یعنی یوکرین پر روسی حملہ اور کریمیا پر قبضہ، شام میں بشارالاسد رجیم کی حمایت اور امریکہ صدارتی الیکشنوں میں انتخابی نتائج پر اثرانداز ہونا۔ دوسرے طرف امریکی لکھاری جناب لارنس سیلن نے باوثوق زرائع سے یہ لکھا ہے کہ چائنا کے کہنے پر پاکستان اور ایران ایک ہی صف پر آکر کھڑے ہوئے ہیں۔ پچھلے دنوں ایران کی آرمی کمانڈر میجر جنرل محمد باغیری کی پاکستان میں غیرمتوقع پانچ روزہ دورہ نے خطے کی فوجی صف بندیوں کو واضع کر دیا ہے کہ کون کہاں کھڑا ہے ؟ پاکستان اور ایران کے دونوں فوجی سربراہاں کا یہ ملاقات چاہے پینے اور گپ شپ لگانے کیلئے نہیں بلکہ دونوں فوجوں کے درمیان سیکیورٹی معائدہ اور تعاون پر ہوا ہیں۔ آئی ایس پی آر کی اس بیان میں واضع کیا گیا ہے جس میں پاکستانی جنرل قمرباجوا نے اس خطے کی امن اور سلامتی کیلئے دونوں ملکوں کے درمیان ملٹری ٹو ملٹری تعاون پر زور دیا تھا۔ آج ہی یروشلم پوسٹ نے روسی اخباری زرائع سے تہران میں موجود روسی سفیر حوالے خبر دی ہے کہ روس کو اس بات کا خدشہ ہے کہ اسرائیل اور ایران کے درمیان جنگی تصادم نہ ہوجائے۔ آثرات و قرائن سے یہ پتہ لگ رہا ہے کہ ہمارے ازلی دشمن ایران پر جنگ کے سائے منڈلا رہے ہیں۔ ایران کے خلاف جنگ کا جنگی منصوبہ دفتر اسرائیل میں کھل چکا ہے۔ بدقسمتی کہیے یا کچھ اور پاکستانی سیاست کے رنگ میں ڈھلی ہمارے ہاں موجودہ پارٹی بازی کی سیاست کی بنیاد پر قومی آزادی کی نعرے کو لیکر ہم لوکل طرز کی سیاست اور پالیسیاں بناتے آرہے ہیں۔ یہ بھول گئے کہ جغرافیائی لحاظ سے بلوچستان کا تعلق مشرق وسطی سے بھی ہے اور مشرق وسطی کی جیوپالٹکس کے منظرنامے میں ہمارا نہ کوئی نمائندگی ہے اور نہ ہی کوئی ایسا کردار و پروگرام اور نہ ہی متفقہ قومی پالیسی ترتیب دینے کی سوچھ رکھتے ہیں۔ سنگت حیربیارمری نے بارہا بلوچستان کی کل وحدت کے نعرے کو لیکر بلوچ قومی تحریک کو اس خطے کی جیوپالیٹکس کے ساتھ نتھی کرنے اور دوٹوک موقف ہمیشہ عوام کے سامنے رکھا ہے۔ لیکن اسے ہمیشہ بلا وجہ کارنر کرنے اور یک و تنہا کرنے کی کوششیں غیروں کی طرف سے نہیں بلکہ خود ہم خیال آزادی پسندوں کی طرف سے ہوئی ہیں۔ سنگت حیربیارمری نے جب سعودی عربیہ کی معتدل اور اعتدال پسندی کی طرف گامزن ہونے کی پالیسی کو سراہا تو ڈاکٹر اللہ نظر صاحب نے ٹانگ کینچھتے ہوئے کہا خبردار، میں تھماری اس بیان کا سختی سے مزمت کرتا ہوں۔