تحریر ۔ نذر بلوچ قلندرانی

پڑھا تھا، سنا تھا کہ مکافات عمل اٹل ہے، جو بوؤ گے وہی کاٹو گے، یہی دنیا کا اصول ہے، زبان کا دیا گیا زخم تلوار سے زیادہ گہرا ہوتا ہے، انسان کا آج کا عمل، کل کی فصل کا بیج ہوتا ہے، لیکن ہم انسان عروج پر اس سنہرے اصول کو بھول جاتے ہیں، اور بعد میں شرم و رسوائی کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا، زیادہ دور نہیں جاتے، بس پانچ سال پیچھے جاتے ہیں جب سابق صوبائی وزیر کے ایماء پر کوہلو شہر میں تجاوزات کے نام پر آپریشن ہوتا ہے جہاں سینکڑوں کی تعداد میں ریڑھی بانوں کے کھوکھے گر دئے جاتے ہیں اور انہیں روزگار سے بےدخل کرکے شہر کو ماڈل سٹی بنانے کے ڈھونگ رچایا جاتا ہے،

ہر طرف نوکریوں کی خریدوفروخت، میرٹ کی بدترین پامالی، سکیموں کے بندر بانٹ، آفسران اور سرکاری ملازمین پر انتقامی کارروائی کرکے تقرر و تبادلے کیے ہیں ان سب کے بیچ گونجتی آوازوں کی کیا حشر ہوتی اس کا تصورِ شاید میں نہیں کر سکوں، پہلی تو ہمیں سرکاری کورٹر سے بےدخل کرکے اہل صحافت سے اپنے بغض دکھایا گیا اس کے علاؤہ ہمیں تشدد، گالم گلوج، سنگین نتائج کے دھمکیاں، سڑکوں اور زمینوں پر چلنے پھرنے پر بھی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا ہے آخر میں کوہلو کے واحد پبلک لائبریری کو قبضہ کرکے علم دشمنی کا بھی ثبوت دیا گیا،

چلوں زیادہ دور نہیں جاتے ایک ماہ پہلے کی بات کرتے ہیں جب بلوچ یکجہتی کمیٹی کا قافلہ بلوچ نسل کشی کیخلاف کوہلو آیا تھا جہاں ہزاروں کی تعداد میں لوگوں نے شرکت کرکے لاپتہ افراد کے لواحقین کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کی جوں ہی یہ قافلہ کوہلو سے فارغ ہوکر اپنی منزل کی جانب اسلام آباد رواں دواں ہوتا ہے تو اسٹبلشمنٹ نے اپنے خاص بندوں کے ذریعے لاپتہ افراد کیخلاف کوہلو میں ایک ریلی نکالی ہے، مزے کی بات یہ کہ اس ریلی میں سابق صوبائی وزیر بھی شامل تھا جو گزشتہ روز انتخابات میں شکست کے بعد ایف سی کمانڈنٹ اور کرنل سمیت دیگر ریاستی اداروں کو ننگی گالیاں دے رہی تھی،

کہتے ہیں نہ کہ جو فصل بوؤ گے وہی کاٹو گے ان سب جھنجھٹوں میں میرا خیال سابق صوبائی وزیر میر نصیب اللہ مری کے اُس تقریر پر جا روکی جب اسٹبلشمنٹ کے کہنے پر وہ درد و کرب میں مبتلا لاپتہ افراد کے لواحقین کو دہشت گرد ٹولہ کہہ کر اپنا نمبر بڑھنے کی کوشش کرتا ہے، یقیناً آج معاشرے اخلاقی زوال کا شکار ہے اپنے مفاد کے آگے کسی کو کسی کا درد و کرب نظر نہیں آتا جو کل تک اسٹبلشمنٹ کا گنگا رہا تھا وہ آج اسٹبلشمنٹ کے رویوں پر رو رہے ہیں اور عین ممکن ہے جو آج اسٹبلشمنٹ کے کیے پر شادیانا بجا رہے ہیں انہیں بھی کل مکافات عمل کا سامنا کرنا پڑیں،

ان سب میں یہ چیز واضح ہوتی ہے کہ جب کوئی عہدہ ملے تو خدارا ایسے دوسروں کے لئے باعث زحمت مت بنائیں کیونکہ عہدہ جاتے دیر نہیں لگتی بازی کبھی بھی پلٹ سکتی ہے عروج کسی بھی لمحے زوال میں تبدیل ہوسکتا ہے مگر بدقسمتی سے انسان جب عروج پر ہو تو یہ باتیں اُس سے اکثر فراموش ہو جاتی ہیں اور وہ فاش غلطیاں کرتا ہے جس کا انجام شدید ہوتا ہے جو بعد میں اسے ہی بھگتنا پڑتا ہے،،