میرے بھائی سیف اللہ رودینی، جس کی جبری گمشدگی نے ہماری زندگیوں پر ایک سیاہ پردہ ڈال دیا ہے۔ یہ درد کا سفر میرے دل کے ہر کونے میں بسا ہوا ہے، اور اسے صرف وہی جان اور محسوس کرسکتے ہیں جو اپنے پیاروں کو کھو چکے ہیں۔ میں ہر لمحہ اس کی یاد میں آنکھیں نم کرتی ہوں، سوچتے ہوئے کہ وہ کہاں ہے، کیسا ہے، اور کیا وہ ہمیں یاد کرتا ہے؟ یہ سوالات میری زندگی کے ہر پہلو کو گھیر لیتے ہیں۔
بہنیں اپنے بھائی کی محبت اور رہنمائی کو کبھی فراموش نہیں کر سکتیں۔ سیف اللہ ہمیشہ ہمارے لئے ایک سہارا رہے ہیں۔ ان کی مسکراہٹ اور پیار بھری باتیں ہمارے دلوں میں ایک خزانہ ہیں، مگر اب یہ سب کچھ کھو جانے کا درد ایک مستقل حقیقت بن چکا ہے۔ ہم انصاف کی راہ دیکھ رہے ہیں، دل میں امید کی ایک شمع روشن ہے کہ ایک دن وہ واپس آئیں گے۔ ان کے بغیر زندگی کا ہر لمحہ ایک چیلنج ہے، ایک خلاء ہے جو کبھی بھر نہیں سکتا۔
میرے بھائی سیف اللہ کو 22 نومبر 2013 کو جبری گمشدگی کا نشانہ بنایا گیا، جب وہ سوراب سے خضدار ڈیوٹی پر جا رہے تھے۔ وہ پولیس میں ملازم تھے، ایک فرض شناس انسان جو ہمیشہ دوسروں کی حفاظت کے لئے تیار رہتے تھے۔ ان کی گمشدگی کے بعد، ہمارے والدین بھی اس درد کی شدت کو برداشت نہیں کر سکے اور دنیا سے رخصت ہو گئے۔ ان کا غم ہم پر بوجھ بن کر رہ گیا ہے، اور گھر میں آج بھی غم کے بادل چھائے ہوئے ہیں۔
میرے والد 2015 میں اپنے بیٹے کو ایک بار دیکھنے کی آرزو دل میں لیے اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ میری والدہ بھی اسی درد کے ساتھ جی رہی تھیں، اور 2018 میں وہ بھی اسی خواہش کے ساتھ ہمیں انسانیت سے عاری، اس دنیا کی بے رحم موجوں میں تنہا چھوڑ کر چلی گئیں۔ اب میں اکیلی اپنے بھائی کی بازیابی کے لیے لڑ رہی ہوں۔
مجھے بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کمیشن میں، عدالتوں میں اور جی آئی ٹیز میں ہماری جس طرح تذلیل کی جاتی ہے، وہ ذہنی کوفت کا باعث بنتی ہے۔ کبھی کبھی میں سوچتی ہوں کہ میرے بھائی جبری گمشدگی کا شکار ہوکر کسی چھوٹی، اندھیری کمرے میں اذیت سہہ رہے ہوں گے، جبکہ ہم بھی اس بڑے جیل میں اجتماعی سزا کاٹ رہے ہیں، جہاں ہماری آوازوں کو دبایا جاتا ہے۔
یہ درد اور غم میرے دل میں ایک گہرے سوراخ کی مانند ہے، جسے اب بھرنا ناممکن لگتا ہے۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ، میرے دل میں امید ایک ریت کی مانند پناہ گاہ ہے، مگر جب میں اپنے والدین کی یادوں میں کھو جاتی ہوں تو یہ امید بھی دھندلا جاتی ہے۔ زندگی کی یہ بے رحمی، یہ تنہائی، اور میرے بھائی کی گمشدگی کا دکھ، ایک عذاب کی مانند ہے جو کبھی ختم نہیں ہوتی۔ میری کوشش ہے کہ میں اس درد کو کم کروں اور اپنے بھائی کو واپس لانے کی جدوجہد میں ناکام نہ ہوں، لیکن کبھی کبھی محسوس ہوتا ہے کہ یہ جدوجہد بھی ایک بے معنی جنگ ہے۔
ان لمحوں میں، جب اندھیروں میں امید کا کوئی چراغ نظر نہیں آتی، میں صرف اپنے والدین کی دعاؤں کا سہارا لیتی ہوں، اور دل میں عہد کرتی ہوں کہ میں اپنی کوششوں کو جاری رکھوں گی، چاہے حالات کتنے ہی مشکل کیوں نہ ہوں۔
ہم بہنیں اور بھائی اب درد، اذیت اور بے یقینی کی کیفیت میں زندگی گزار رہے ہیں۔ سیف اللہ کی گمشدگی کے بعد پولیس نے ہمیں مزید مشکلات میں دھکیلا۔ انہیں نوکری سے معطل کیا گیا، اور تنخواہ روک دی گئی۔ کئی سال تک ان کی گمشدگی کی ایف آئی آر تک درج نہیں کی گئی۔
در در کی ٹھوکریں کھانے کے بعد، 8 سال بعد کمیشن کے حکم پر 2021 میں میرے بھائی کی جبری گمشدگی کی ایف آئی آر درج کی گئی، اور یہ بھی محض خانہ پوری کے لیے۔ یہاں انصاف کے تقاضے یہ ہیں کہ اپنے کسی پیارے کی زندہ جبری گمشدگی کی ایف آئی آر درج کروانے کے لیے انسان کو اذیتوں سے گزرنا پڑتا ہے، لڑنا پڑتا ہے اور ٹھوکریں کھانی پڑتی ہیں۔ یہ سب دیکھ کر مجھے یوں محسوس ہوتی ہے کہ یہاں بلوچ کو انسان ہی نہیں سمجھا جاتا، بلکہ ہمیں حقیر اور غیر اہم سمجھا جاتا ہے۔ یہ احساس دل کو بہت غمگین کر دیتا ہے، لیکن ریاست کے یہ رویے مزاحمت کے لیے بھی اکساتے ہیں۔
یہ سب ہمارے دلوں میں ایک اندھیرا ہے، جو ہر لمحہ ہمیں جینے کا حق چھین رہا ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ دنیا ہماری کہانی سنے، ہماری درد کو محسوس کرے۔ انصاف کی یہ جنگ ہماری زندگی کا مقصد بن گئی ہے، اور ہم امید کرتے ہیں کہ ایک دن سیف اللہ کی مسکراہٹ دوبارہ ہمارے گھروں کی رونق بنے گی۔ ہم اپنے بھائی کی گمشدگی کی کہانی کو کبھی ختم نہیں ہونے دیں گے، کیونکہ یہ صرف ہماری کہانی نہیں، بلکہ ہر اس خاندان کی کہانی ہے جس نے اپنے پیاروں کو کھویا ہے۔
سیف اللہ، تمہاری یادیں ہمیشہ ہمارے دلوں میں زندہ رہیں گی، اور ہم کبھی ہار نہیں مانیں گے۔ ہم تمہاری واپسی کی امید کے ساتھ جئیں گے، اور تمہیں تلاش کرتے رہیں گے۔