انسان فطرتاً رومانیت اور تصور پرست ہوتا ہے۔مادی دنیا کے ساتھ ساتھ اس کی اپنی ایک خیالی اور تصوراتی دنیا بھی ہوتی ہے کہ جہان وہ بڑے بڑے محل تعمیر کرتا ہے ،سماج سے لے کرمذہب و سیاسی نظام تک سب کا ایک خاکہ ہوتا ہے سب چیزیں اس حقیقی دنیا کی بہ نسبت زیادہ سہل ،منظم اور باقاعدہ ہوتی ہیں انسانی زندگی کے اختتام تک اس تصوراتی دنیا کی تشکیل اور تخریب شعور میں جاری رہتی ہے۔افلاطون سے لے کر ایک عامیانہ ذہن تک سب کی ایک یو ٹوپیا ہوتی ہے مگر اس کے بر عکس حقیقی مادی دنیامیں بغیر تغیرات کے اسبابی علم اور قوانیں فطرت سے ہم آہنگ عمل کے کوئی پتہ بھی اپنی جگہ سے نہیں ہلتا ،چیزیں اس ترتیب سے تب ہی تشکیل پاتی ہیں جب عمل کے ساتھ قوانین قدرت کا صحیح علم ہو ورنہ بغیر ان کے کوئی بھی تغیر و تبدیلی محض وقتی حادثہ ہی قرار پائے گر چہ وہ بھی بلا سبب نہیں ہوگی۔یہ بات درست ہے کہ مادی دنیا کی تعمیر و تشکیل تصوراتی دنیا کے خاکہ پہ ہوتا ہے مگر جب تصور اور ٹھوس وجود کی بات ہو تو دونوں کے پیمانے بالکل الگ ہیں دونوں کیلئے کلیتاً دو مختلف میدان و عمل کی ضرورت ہے ۔جہان تک بات تصورات کی ہے وہاں تشکیلی خاکہ میں سائنسی انداز فکر بروئے کار لایا جاسکتا ہے مگر وہاں نہ مادے کا وجود ہوتا ہے نہ ساخت کا نہ سماجی ترتیب کااسی طرح جب آپ کسی تصور کے نتیجے میں ایک خاکہ تشکیل دیتے ہیں اس کے مادی وجود کیلئے مادہ ،سماج،اور قوانین قدرت سے ہم آہنگ علم اور بعد از اں عمل لازمی ہوتی ہے اور تشکیل کے بعد تصور اور خاکہ اپنی وجود کھو دیتا ہے ۔ا س کی جگہ ایک نیا خاکہ لے لیتا ہے۔تصوریت پرستی دو قسم کی ہوتی ایک روایتی اور تقلیدی جبکہ دوسری حقیقت پسندی یا سائنسی آپ کا سوچنے کا انداز اور تصوراتی فکر کس زاویے پہ ہے آپ کا تشکیلی و ترتیبی عمل اور اس سے حاصل نتائج بھی اسی معیار پہ ہونگے یہ ممکن نہیں کہ آپ کا انداز فکر و تصور روایتی ہے اور آپ ایک سماج یا کہ علم و ساخت کی تشکیل سائنسی بنیادوں پہ کرسکیں۔ اسی طرح اگر آپ سیاست دان ہیں یا کہ دانشور تو سماجی و سیاسی مدو جزر کو بھی اپنی اسی زاویے سے دیکھیں جو کہ آپ تصوریت اور فکر کی بنیا د ہے۔میرے لئے میر محمد علی تالپور نہایت ہی قابل اخترام بزرگ ہیں مگر جناب کا شروعاتی عمل و فکر کو لے کر موجودہ تصور قومی جہد تک سرا سر روایاتی بنیادوں پہ استوار ہے اس لئے وہ بلوچ قومی جہد کی تشکیل و ترتیب خالصتاً روایتی اور پدرانہ بنیادوں پہ چاہتے ہیں اور اس میں بھی مادی و سماجی سے زیادہ تصوراتی دنیا میں۔وہ ستر کی دہائی میں بلوچ جہد کا حصہ کس قومی شعور کے تخت بنا اور اس کیلئے ان کے ذہن میں کونسا فکری خاکہ تھا اور وہ کس حد تک مادی و سماجی لہٰذ سے قابل عمل تھا اس بارے میں یقیناً اپنی فکر کو حقیقت پسندانہ انداز سے نہیں کھنگالا ہوگا ور نہ وہ آج اس رومانیت کا شکار نہیں ہوتھا جو وہ اپنی جوانی میں تھا۔دانشورنہ ذمہ داری اور قومی خدمت یہی تھی کہ اس وقت جہد کے بنیادی اسباب ،اس کے پیچھے فکری خاکہ، لیڈرز کے عمومی اعمال، ناکامی کے اسباب اور ذمہ داروں کا تعین کرتے تاکہ موجودہ جہد میں اس کو بطور نمونہ اپنایا جاتھا مگر فکر ساخت آج بھی اسی روایتی خطوط پہ مستحکم ہے اس لئے آج بھی بغیر ان عوامل کی فکری و شعوری تشریح کے مخض اس قومی جہد کی بھیڑ میں ایک سفید پوش بزرگ ہیں کہ جہاں رومانیت اور شخصی احترام کاسرور غالب ہے۔انسانی لا شعور کے تین محرکات اسے لکھنے پہ اکساتے ہیں ۔پہلا جب انسان بیرونی عوامل اور اندونی کیفیتیں اسے گٹھن کا شکار کرتی ہیں تو وہ لاشعوری طور پہ قلم اٹھا کر اپنا بوجھ ہلکا کرتاہے اس میں نہ سماجیاتی اصلاح کا مقصد اصل مدعا ہوتا ہے نہ انسانی فکری جہتیں۔دوسری محرک انسان جب اپنے گرد پیش کے منفی مثبت اعمال اور رویوں کا تجزیہ کرتا ہے اور اصل محرکات کا تعین کر کے اپنے سماج کو بغیرکسی مصلحت کے ان کے مثبت پہلوؤں سے آشکار کرتا ہے وہ پہلے اپنے شعور میں مثبت اور منفی کی شناخت کرکے ان کو الگ کرتا ہے اور پھر سماج کو ان سے آشنا کرنے کی جہد کرتا ہے۔لیکن اس میں کاملیت کیلئے اپنی ذات اور ذاتی مفادات کی مکمل بیخ کنی لازمی ہے ورنہ پھر خیالات خیر و شر کی آمیزیش قرار پائیں گی۔تیسرا محرک انسانی جبلت میں چھپی اس کی انا و خود نمائی ہے۔اس کیفیت میں جب کوئی قلم اٹھاتا ہے تو اس کا مقصد خیر و شر تقسیم نہیں بلکہ اپنے علم کی بڑائی کا اظہار اور مروجہ سماجی سوچ کے پہلو بہ پہلو ذاتی تعریف و توصیف مقصو ہوتا ہے۔اس میں لکھنے والے کا اپنا تو مقصد حاصل ہوتا ہے مگر اس کا سماج پہ کوئی مثبت اثر نہیں پڑتا ہے۔ایسے غلامانہ سماج میں تبدیلی کیسے آ سکتی ہے کہ جہاں دانشور قلم کاروں کا تعلق اس تیسری قسم سے ہوں یا محض رومانیت کے شکار ہو ں اور سماجی و سیاسی پیچیدگیوں کو تعلق داروں کی عینک سے دیکھنے کے عادی ہوکرعوامی رویوں اور سماجی انارکی کو سمجھنے سے قاصر ہوں ،تخریب و تشکیل میں فرق کرنا بھول گئے ہوں۔بلوچ جہد میں آپسی اختلافات محض تصورات کی بنیاد پہ نہیں کہ سماجی سیاسی ڈھانچہ کن خطوط پہ استوار ہو جیسا کہ تاثر دیا جا رہا ہے اور نہ ہی ان کی نشاندہی ،حل اور ذمہ داروں کے تعین کیلئے کسی علمی و سیاسی تشریح کی ضروت ہے بلکہ یہ ٹھوس حقیقی عمومی نوعیت کے ہیں جو کہ ہماری روایتی سوچ اور اس پہ روایتی عمل کی وجہ سے ہمارے اپنے سماج میں وقوع پزیر ہورہے ہیں۔بقول بیکن سب سے پہلے ہمیں اپنے تصوراتی بتوں کو توڑ نا ہو گا اپنی فکر کو خالص بنانا ہو گا پھر حقیقت پسندانہ سائنسی سوچ اپنا کر ہم چیزوں کی درست نشاندہی کر سکتے ہیں مگر یہاں ہمارا حال یہ ہے کہ اندرونی قومی مسئلوں میں بطور دانشور و رہشون پہلے اپنا تعلق داری قبلہ کا انتخاب کرتے ہیں اس کے بعد اپنے علم و دانش کو بروئے کار لا کے دلیل و منطق ڈھونڈ ڈھونڈ کر اس کو سچا ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ دانشورانہ سیاسی اور نظریاتی رشتے محض ذاتی تعلق داری اور شخصی عزت و احترام تک محدود ہیں۔کہنے کو ہم بڑے جہد کار ،ادیب و شاعراور دانشور ہیں مگر جہاں ہماری جھوٹی تعریف نہ ہو ہمیں ہماری اوقات سے بڑھ کر جی و جاں نہ کیا جائے وہاں ہمار ا علم و قوم پرستی جواب دے جاتی ہے اگر کسی عمل سے لاکھ قوم کا بھلا ہو مگر اسکے کرنے والوں سے یاری دوستی نہ ہو تو اس عمل کی کبھی بھی تائید نہیں کریں گے۔آپ کی نظر میں(شاید بہت سے اور لوگوں کی بھی) ڈاکٹر اللہ نظر بہت بڑے لیڈر ہیں چلیں آپ کی یہ بات مان لیتے ہیں لیکن سب سے پہلے ہمیں ڈاکٹر صاحب کے رول کا تعین کرنا ہوگا کہ کس حیثیت سے۔اس وقت ڈاکٹر کیا ہیں اور اس کا رول کیا ہے اس کو سمجھنا ہو گا ۔ڈاکٹر پچھلے ایک دہائی سے بی ایل ایف کے کمانڈر ہیں انہوں نے ذاتی طور پر شاہد ایک بھی کارروائی نہیں کی ہو گی مگر بی ایل ایف کارروائیوں کا وہی ذمہ دار ہے اور اس کا رول پڑیکٹیکلی ایک کمانڈر کا ہے ۔اخلاقی حوالے سے اس کا کوئی سیاسی رول نہیں بنتا نہ ہی وہ سیاسی پارٹیوں کی کامیابیوں ناکامیوں کے ذمہ دار ہیں۔اب اگر بی ایل ایف ایک مثالی ، کامیاب و ذمہ دار ادارہ ہے تو اس کا کریڈٹ ڈاکٹر صاحب کو جاتا ہے وہ واقعی قومی لیڈر اور انقلابی کہلانے کے حقدار ہیں اگر بی ایل ایف ایک مثالی قومی ادارے کے بجائے اپنی موجودہ حالت میں ایک بے اصول گینگ ہے تو اس کا کون ذمہ دار ہے آج اگر مکران و آواران بی ایل ایف کے سرمچاروں اور مولک گینگ والوں میں کوئی فرق نہیں تو اس کا ذمہ دار کون ہے۔اس کیلئے آپ کو اور واجہ ماما قدیر کو روایتی پدرانہ پنت و نصیحت کے بجائے ایک بار ان علاقوں کا دورہ کرنا چاہئے یہ کوئی خلائی معاملا ت نہیں بلکہ بلوچ سماج ان سے جھونج رہاہے۔شہیدقمبر کے باپ قاضی سے ملو،شہید اصغر کی ماں سے ملواور ایسے بیشمار ہیں تب جا کہ شاید آپ کو معاملات اور مسئلوں کی کچھ شد بد ہو ۔آپ اتحاد اور قومی اداروں کی بات کرتے ہیں شہید غلام محمد کی پارٹی کو کس نے توڑا؟؟کس نے اسے ایک قومی پارٹی کے بجائے ایک درباری گروہ بنایا ؟؟بی ایس او کو کس نے قومی تنظیم سے تین کا ٹولہ بنایا؟؟بی ایل ایف آج کیوں جھوٹ پہ گزارا کر رہاہے؟؟یہ سب انقلابی اعمال ہیں۔یہ سب جاری و ساری رہنے چاہئیں آخر کب تک ہم اپنے جوانوں کو منافقت و جھوٹ بھینٹ چڑھاتے رہیں۔اگر کوئی لیڈر اور ہیرو بنا ہے تو اپنے ادارے کی کار کردگی کی بدولت مگر یہاں تو گنگا الٹی بہہ رہی ہے ادارے تباہ و بدنام علاقائی لوگ نالاں مگر لیڈر قومی ہیرو ۔اسی لئے تو کہتے ہیں کہ دور کے ڈھول سہانے۔