یقین کریں میں ان جلسوں کا فائدہ جاننے کیلئے سب سے زیادہ بیتاب انسان ہوں ، میں یہ بات سمجھنے سے مکمل قاصر ہوں کہ اگر جلسوں کا مقصد عوامی قوت کا اظہار ہوتا ہے تو پھر ہم 500 ، 1000 لوگوں سے کس قوت کا اظہار کررہے ہوتے ہیں؟ اگر ان کا مقصد تحریک یا موبلائزیشن ہے تو پھر دور دراز علاقوں سے لوگوں کو گھسیٹ گھسیٹ کر لاکر بٹھانے اور انکی تصویر کھینچنے کی کیا ضرورت ، اور انکو جمع کرنے کیلئے بی ایل ایف کے بندوق برداروں کی کیوں ضرورت پڑتی ہے لوگ خود کیوں جمع نہیں ہوتے ؟ یہ تو پھر ” موبلائزیشن ” نہیں ” کمرشلائزیشن ” ہوگیا ۔ اگر ان جلسوں کا مقصد شعورِ آزادی پھیلانا و تربیت ہے تو پھر مجھے سمجھ نہیں آتا کہ اس شعور کو بار بار اور پھر ایک بار صرف ان علاقوں میں ہی کیوں پھیلایا جاتا ہے جن علاقوں میں پہلے سے ہی جنگ چھِڑی ہوئ ہے اور لوگوں کو وہی روایتی بھَڑک بازیاں ازبر یاد ہوچکی ہیں۔ اگر ان جلسوں کا مقصد عوامی حمایت حاصل کرنا ہے تو پھر مجھے سمجھ نہیں آتا کہ جن لوگوں کو روزانہ کبھی منشیات کے نام پر ، کبھی مخبر کے نام پر ، کبھی پِیش کاٹنے کے نام پر ، کبھی ڈامبر کے ٹرک چلانے کے نام پر ، کبھی کسی بندوق بردار کا راستہ کاٹنے کے نام پر روز بیگناہ قتل کیا جاتا ہے انہی لوگوں کو گھسیٹ کر ایک جگہ بٹھاکر اور چار گرما گرم تقریریں کرکے انکی حمایت کیسے حاصل کی جاسکتی ہے ؟ میں جلسے جلوس کے وجود کا ہرگز مخالف نہیں ، یہ سیاسی عمل ہوتے ہیں اور مختلف اوقات میں مختلف طریقوں سے کبھی کبھار انکی ضرورت بھی پڑتی ہے لیکن میں یہ ضرور جاننا چاہتا ہوں کہ ہمارے ان جلسے جلوسوں کا حاصل حصول ابتک کیا نکلا ہے؟ ابتک انکا ماحصل مجھے صرف یہی نظر آتا ہے کہ اگلے چند ہی دنوں میں اسی جگہ دشمنوں کے ہیلی کاپٹروں کی گونج سنائ دیتی ہے اور کئ گھر جلتے ہیں اور ایک مذمتی بیان آتا ہے ، اور بقول ایک دوست کے آج تک ان جلسوں سے لوگ کبھی اتنا منظم و متحرک نظر نہیں آسکے کہ اپنا دفاع تک کرسکیں ، اور ان سینکڑوں جلسوں کے بعد آج تک کبھی لوگ ہمیں اتنا منظم و متحرک نظر نہیں آئے کہ ایک دو درجن کے تعداد میں ہی کبھی کہیں خود جمع ہوں ، اسکی وجہ صرف یہ ہے کہ ہماری توجہ ذہنوں میں ایک روایتی خاکہ لیئے محض جلسوں تک ہے کیونکہ یہ سب سے آسان عمل بمعہ سستی شہرت ، مفت کا تقریر ، چار زندہ باد کے نعروں ، اخباروں میں نام و فوٹو سے مزین ہوتا ہے لیکن حقیقی معنوں میں کسی جلسے کے عمل تک پہنچنے کیلئے جو طویل محنت طلب عمل ہوتا ہے اس سے کسے سروکار ، دنیا جلسے جلوس ضرور کرتا رہا ہے لیکن ہر جگہ یہ کسی طویل سیاسی عمل و مہم ( عوامی اعتماد ، ذہن سازی ، تربیت ، ایک نقطے پر ارتکاز ،فرداً فرداً رابطہ ، لٹریچر ، نظریے کی تشریح و تاویل ، عمل سے خود کو دشمن سے بہتر ثابت کرنا وغیرہٰ) کا نقطہ عروج ہوتا ہے لیکن ہمارے ہاں یہ نقطہ آغاز بن چکا ہے اور باقی کا طویل سیاسی عمل پورا کرنے کیلئے ہم ایک جلسے کے بعد لوگوں سے امید لگاتے ہیں اسی لیئے آج تک یہ جلسے کبھی تین چار گھنٹے کے اجتماع سے آگے اپنی اوقات نہیں بڑھاسکے ۔ اسکے باوجود ہمارے سیاسی شعور اور قومی پروگرام کی حد کسی جلسے تک ہی قید نظر آتی ہے اور ہر قومی مسئلے و پیچیدگی کا جواب ہمارے پاس جلسہ ہی ہوتا ہے ، ویسے بے ادبی معاف اس صورتحال سے ایک واقعہ یاد آگیا کہ روس میں کچھ سائنسدان کتوں کے حسیات پر کوئ تجربہ کررہے تھے ، انہوں نے ایک کتے کو کسی کمرے میں بند کردیا اور جب بھی اسے کھانا دیا جاتا تھا تو کھانے سے پہلے گھنٹی بجائ جاتی پھر کھانا رکھا جاتا ، کھانا دیکھ کر کتے کے منہ سے رال ٹپکنا شروع ہوجاتا ، یہی سلسلہ کچھ وقت چلایا گیا اس کے بعد آخر میں کتے کو اتنی عادت ہوگئ تھی کہ کھانا رکھا جاتا یا نہیں لیکن جیسے ہی گھنٹی بجائ جاتی تو اسکے منہ سے رال ٹپکنا شروع ہوجاتا ، اب ہماری مثال ایسی ہوگئ ہے کہ ضرورت ہو یا نا ہو لیکن جب کسی بھی قومی پیچیدگی ، مسئلہ ، تقاضہ یا ضرورت کی گھنٹی بجتی ہے ہم کسی جلسے کی صورت میں ہی رال ٹپکاتے ہیں کیونکہ اب یہ فطرت کا حصہ بن چکا ہے ۔ چلو اس بحث کو ایک پَل کیلئے نظر انداز کرکے کسی کونے میں رکھ دیتے ہیں کہ قومی تحریک کے اس موڑ پر جلسوں کی ضرورت ہے یا نہیں ہے ، کتنی ہے یا کب ہے اور فرض کرنے کیلئے مان لیتے ہیں کہ بحثیتِ قوم ہمارے درد کا درمان یہ جلسے ہیں ، پھر یہاں ایک سوال اٹھتا ہے کہ قومی شعور ،موبلائزیشن اور عوامی قوت کے اظہار کے دعوے کے ساتھ ہونے والے جلسوں کا دائرہ گومازی ، ڈنڈار ، جھاو اور پروم سے باہر سر کیوں نہیں نکالتا ؟ اگر واقعی قومی تشکیل و تحریک کیلئے ان جلسوں کی ضرورت ہے تو پھر قوم تو بہت بڑی ہے مگر کیوں چار سالوں سے بیسیوں چھوٹے موٹے جلسے محض چار پانچ دیہاتوں کی حد تک محدود ہیں ؟ قومی نمائیندگی کے دعویداروں کے قومی شعوری کاوشوں سے آج پورا جھالاوان ، ساراوان ، خاران ، کچھی و بولان ، ڈیرہ بگٹی و کاہان ، کوہ سلیمان اور لسبیلہ کیوں فیضیاب نہیں ہورہا ؟ حقیقت یہ ہے کہ ڈاکٹر اللہ نظر کی باجگزاری میں اب عملاً بی این ایف ختم ہوچکا ہے ، بی این ایم کا پارٹی کہلوانا صرف ایک بھونڈا مزاق ہے یہ محض بی ایل ایف کے کے علاقائ کمانڈروں کا جتھہ ہے جو اخباروں میں سیاسی بیانات دیتے ہیں جیسے کہ گذشتہ دن زامران مری کو ضرورت پڑی تو یو بی او بن گیا ، ایسے پارٹیوں کی خصوصیت ہی یہی ہوتی ہے کہ انکے عظیم ، انقلابی اور عوامی بننے میں ایک کاغذ اور ایک قلم کی ہی ضرورت پڑتی ہے اور جہاں تک بی ایس او آزاد کا تعلق ہے تو وہ ایک فوٹو اسٹوڈیو اور ایک عرضی نویس سے زیادہ کی حیثیت اب نہیں رکھتا ، یہ جلسے جلوس نا عوامی قوت کا اظہار ہیں ، نا موبلائزیشن اور نا ہی شعوری تربیت بلکہ انکی حیثیت ایک دھوکے سے زیادہ نہیں ، بی این ایم ہو یا بی ایس او یہ کسی گروہ کی میراث نہیں ، یہ ٹوٹے پھوٹے یا جس بھی حالت میں تھے لیکن اجتماعی قومی ادارے تھے ، لیکن ان اداروں کے گلے میں جس طرح رسی باندھ کر ڈاکٹر اللہ نظر صاحب نے اپنے چوکھٹ سے باندھ دیا اس سے انکی اجتماعی حیثیت ختم ہوگئ اور یہ محض ایک شخص یا گروہ کے تشہیری مہرے بن گئے ، جہاں قوم اور دنیا کو بیوقوف بنانے کیلئے جمہوری و سیاسی کا لالی لگاکر ان تنظیموں کو کٹھ پتلیوں کی طرح ، جلسوں ، جلوسوں اور بیانوں کی صورت میں نچایا جاتا ہے جن کی ڈوریں ڈاکٹر اللہ نظر صاحب و بی ایل ایف پر مسلط ایک مخصوص گروہ کے ہاتھوں میں ہیں ۔ جب مقاصد قومی نہیں رہتی ہیں تو پھر قومی ہونے کے ہزاروں دعوے کرنے کے باوجود انکا قومی روح قبض ہوجاتا ہے ، اب ان پارٹیوں کی حیثیت ایک مردہ جسم کی سی ہے اور ان جلسوں کی حیثیت کسی مردہ جسم کی بدبو چھپانے کیلئے اس پر عطر کی چھڑکاو سے زیادہ نہیں ہے ، اور ایسا بھی نہیں کہ پانچ سو یا ایک ہزار لوگوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح گھسیٹ کر جمع کرنے میں بی این ایم و بی ایس او کا کوئ کردار ہے ، بلکہ یہ بھی بی ایل ایف کے ان کلاشیوں و سکیلوں کے سائے تلے ممکن ہوتے ہیں جن سے آگ دشمن سے زیادہ اپنوں کی طرف اگلتی ہے ۔ تبھی گذشتہ چار سالوں کے تمام جلسے صرف ان علاقوں تک محدود ہیں جہاں سے بی ایل ایف کے کیمپ چند فرلانگ کے فاصلے پر ہیں اور باقی پورے بلوچستان جس طرح بی ایل ایف غائب ہے اسی طرح یہ ڈمی پارٹیاں و انکے جلسے و دعوے بھی غائب ہیں ۔ اگر کبھی مکران کے ان مخصوص علاقوں سے انہوں نے کبھی زور لگا کر قدم نکالا بھی ہے تو وہ پاکستانی پنجابی سوشلسٹوں کے تعاون کے بعد محض کراچی پریس کلب تک ہی موقوف رہی ہے ۔ ایم کیو ایم اور بی این ایف کے جلسوں میں آج واحد فرق محض تعداد کا ہے ، باقی مقصد و طریقہ کار ایک ہی ہیں یعنی دونوں کہیں زبردستی ، کہیں دھمکی ، کہیں منت وسماجت سے لوگوں کو خاص طور پر عورتوں اور بچوں کو گھسیٹ کر جمع کرتے ہیں دونوں کا مقصد ایک دھوکہ دہانہ طاقت کا اظہار ہوتا ہے بس فرق یہ ہے کہ ایم کیو ایم واقعی جمع کرپاتا ہے لیکن بی این ایف یہ سب حربے آزمانے کے باوجود بھی 500 ، 1000سے زائد جمع نہیں کرپاتا ، اور یقین کریں ہمارے تنظیموں و پارٹیوں پر مسلط یہ گروہ کبھی ایم کیو ایم طرز کے ایسے جلسوں سے باز نہیں آئے گی چاہے جتنے بھی ناکام جلسے کریں کیوں یہی وہ واحد کام ہے جو انہیں آتا ہے ، یہ ناکام جلسوں کے کامیاب کھلاڑی ہیں ۔