یہ ایک عام غلط فہمی ہے کہ پورا فلسطین اسرائیل کے خلاف جنگ میں مصروف ہے، حالانکہ فلسطینی اتھارٹی (PA) محمود عباس کے سرابراہی میں جو مغربی کنارے پر حکومت کرتی ہے، اسرائیل کے ساتھ مسلح جنگ میں ملوث نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مغربی کنارے میں فلسطینی اتھارٹی ایک زیادہ سفارتی اور مذاکراتی راستہ اختیار کرتی ہے۔ PA اسرائیل کے ساتھ سیکیورٹی تعاون میں شامل ہے اور دو ریاستی حل کے لیے بین الاقوامی سطح پر مذاکرات کی کوشش کرتی ہے۔ اس کے برعکس، حماس جو غزہ کی پٹی پر حکومت کرتی ہے، اسرائیل کے ساتھ مسلح جنگ اور مزاحمت میں سرگرم ہے۔ حماس اور فلسطینی اتھارٹی کے درمیان بنیادی نظریاتی اور حکمت عملی کے اختلافات ہیں۔ فلسطینی اتھارٹی اسرائیل کے ساتھ بات چیت اور بین الاقوامی سفارتکاری کو ترجیح دیتی ہے، جب کہ حماس عسکری کارروائیوں اور مزاحمت پر زور دیتی ہے۔ اس غلط فہمی کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ عام طور پر فلسطینیوں کی اسرائیل کے خلاف جدوجہد کو ایک ہی اکائی کے طور پر دیکھا جاتا ہے، جب کہ حقیقت میں فلسطینی دھڑوں میں گہری تقسیم موجود ہے، خاص طور پر حماس اور فتح (جو PA کی قیادت کرتی ہے) کے درمیان۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ فلسطینی سیاست اور مختلف دھڑوں کی حکمت عملیوں کو الگ الگ سمجھا جائے۔
*فتح (Fatah):* یہ فلسطین کی قدیم ترین اور سب سے بڑی سیاسی جماعت ہے، جو 1959 میں یاسر عرفات نے قائم کی تھی۔ یہ جماعت فلسطینی اتھارٹی (PA) کی قیادت کرتی ہے اور مغربی کنارے میں حکومت چلاتی ہے۔ فتح کی پالیسی زیادہ معتدل اور سفارتی ہے، اور یہ اسرائیل کے ساتھ امن مذاکرات میں شریک رہی ہے۔
*حماس (Hamas):* حماس ایک اسلامی سیاسی اور عسکری تنظیم ہے، جس کا قیام 1987 میں ہوا۔ حماس غزہ کی پٹی پر حکومت کرتی ہے اور اسرائیل کے ساتھ جنگی رویہ رکھتی ہے۔ حماس اسرائیل کے وجود کو تسلیم نہیں کرتی اور اس کے ساتھ براہ راست مذاکرات سے انکار کرتی ہے۔
*عوامی محاذ برائے آزادی فلسطین (PFLP):* یہ بائیں بازو کی ایک سیکولر مارکسسٹ تنظیم ہے، جس کا قیام 1967 میں ہوا۔ PFLP اسرائیل کے خلاف مسلح جدوجہد کی حمایت کرتی ہے اور فلسطینی مزاحمتی تحریک کا ایک حصہ ہے۔یہ تنظیم فلسطینی اتھارٹی اور فتح کی پالیسیوں سے اختلاف کرتی ہے۔
*اسلامی جہاد (Islamic Jihad):* اسلامی جہاد ایک عسکری گروہ ہے جو اسرائیل کے خلاف مسلح جدوجہد پر یقین رکھتا ہے۔اس تنظیم کا حماس سے قریبی تعلق ہے لیکن یہ سیاسی مذاکرات کے بجائے عسکری کارروائیوں پر زور دیتی ہے۔
*ڈیموکریٹک فرنٹ برائے آزادی فلسطین (DFLP):* یہ بھی ایک بائیں بازو کی جماعت ہے جو فلسطینیوں کے حقوق اور اسرائیل کے خلاف مزاحمت کی حمایت کرتی ہے۔ ایک غیر عسکری اور سفارتی طریقہ اپناتی ہے، لیکن کبھی کبھار عسکری کارروائیاں بھی کرتی ہے۔
یہ جماعتیں اور دھڑے فلسطین کے اندر مختلف نظریات، حکمت عملیوں، اور پالیسیوں کے ذریعے فلسطینیوں کی نمائندگی کرتے ہیں، اور ان کے درمیان آپس میں بھی اختلافات پائے جاتے ہیں، خاص طور پر حماس اور فتح کے درمیان۔
فلسطین مشرق وسطیٰ کا ایک جغرافیائی علاقہ ہے جس کی تاریخ بہت پیچیدہ ہے۔ اس میں بنیادی طور پر مغربی کنارے (West Bank)، غزہ پٹی (Gaza Strip)، اور اسرائیل کے کچھ حصے شامل ہیں۔
فلسطین کے حوالے سے جدید سیاسی مسئلہ اسرائیل اور فلسطین کے تنازعے سے جڑا ہے، جو 20ویں صدی میں شدت اختیار کر گیا، خصوصاً 1948 میں اسرائیل کے قیام کے بعد جب بہت سے فلسطینیوں کو بے گھر ہونا پڑا، جس کے نتیجے میں جنگیں ہوئیں اور زمین اور خودمختاری پر جاری تنازعات پیدا ہوئے۔
فلسطین کا کل رقبہ تقریباً 27,000 مربع کلومیٹر ہے، جس میں مغربی کنارہ (West Bank) اور غزہ کی پٹی (Gaza Strip) شامل ہیں۔ مغربی کنارہ کا رقبہ تقریباً 5,655 مربع کلومیٹر ہے جبکہ غزہ کی پٹی کا رقبہ تقریباً 365 مربع کلومیٹر ہے۔ فلسطین کی کل آبادی تقریباً 5.3 ملین ہے (2023 کے اندازے کے مطابق)، جو درج ذیل علاقوں میں تقسیم ہے، مغربی کنارہ تقریباً 3.2 ملین افراد، جبکہ غزہ کی پٹی تقریباً 2.1 ملین افراد۔ یہ آبادی فلسطینی عوام پر مشتمل ہے، جو اسرائیل اور فلسطینی علاقوں کے تنازعے میں براہِ راست متاثر ہوتے ہیں، اور ان علاقوں میں زندگی کے حالات غزہ اور مغربی کنارے میں کافی مختلف ہیں۔
غزہ پٹی یہ حماس کے زیرِ انتظام ہے، جو ایک اسلامی عسکری تنظیم ہے، اور اکثر تشدد کا مرکز بنتا ہے ۔غزہ کی پٹی (Gaza Strip) کی حکومت حماس کے پاس ہے، جو ایک اسلامی عسکری اور سیاسی تنظیم ہے۔ حماس 2007 سے غزہ پر کنٹرول رکھتی ہے، جب اس نے فتح سے اقتدار چھینا تھا۔ حماس اسرائیل کے خلاف مسلح جدوجہد پر یقین رکھتی ہے اور اسے زیادہ جنگی رویہ اپنانے والی تنظیم سمجھا جاتا ہے۔
مغربی کنارہ (West Bank) کی حکومت فلسطینی اتھارٹی (PA) کے زیرِ انتظام ہے، جس کی قیادت فتح پارٹی کرتی ہے۔ فتح ایک زیادہ معتدل اور سفارتی جماعت ہے، اور مغربی کنارے میں فلسطینی اتھارٹی اسرائیل کے ساتھ محدود تعاون اور بین الاقوامی مذاکرات میں شریک ہوتی ہے۔ عرب دنیا فلسطین کی حمایت کے معاملے پر دو بڑے کیمپوں میں منقسم ہے، جن میں سے ایک کیمپ ایران کی حمایت کرتا ہے اور دوسرا سعودی عرب کے ساتھ کھڑا ہے۔
*ایران کا کیمپ:* ایران فلسطینی تنظیم حماس اور حزب اللہ جیسی عسکری تنظیموں کی حمایت کرتا ہے، جو اسرائیل کے خلاف مسلح مزاحمت پر زور دیتی ہیں۔ قطر اور شام جیسے ممالک بھی ایران کے قریب سمجھے جاتے ہیں اور حماس کی مالی اور سیاسی حمایت میں شامل ہیں۔ مغربی دنیا ایرانی کیمپ کو سپورٹ نہیں کرتی۔
*سعودی عرب کا کیمپ:* سعودی عرب اور اس کے اتحادی، جیسے مصر، اردن، اور متحدہ عرب امارات، زیادہ تر فلسطینی اتھارٹی (PA) کی حمایت کرتے ہیں، جو مغربی کنارے میں حکومت کرتی ہے اور اسرائیل کے ساتھ سفارتی مذاکرات کو ترجیح دیتی ہے۔ یہ ممالک فلسطین کے مسئلے کے حل کے لیے دو ریاستی حل کی حمایت کرتے ہیں اور زیادہ تر اعتدال پسند پالیسیوں پر عمل کرتے ہیں۔ اس کیمپ کو مغربی دنیا کی خاصی سپورٹ حاصل ہے۔ یہ تقسیم عرب دنیا میں فلسطینیوں کے مسئلے پر مختلف حکمت عملیوں اور نقطہ نظر کو ظاہر کرتی ہے، جہاں کچھ ممالک عسکری مزاحمت کی حمایت کرتے ہیں، جبکہ دیگر سفارتی اور مذاکراتی حل کی کوششوں میں شریک ہیں۔
*مغربی کنارے میں بڑی جنگ کیوں نہیں؟*
اگرچہ مغربی کنارے میں فلسطینیوں اور اسرائیلی آبادکاروں یا فوج کے درمیان جھڑپیں اور تناؤ رہا ہے، لیکن یہاں غزہ کی نسبت بڑی جنگ کم ہوئی ہے۔ اس کے کئی عوامل ہیں،فلسطینی اتھارٹی کا کنٹرول مغربی کنارے میں فلسطینی اتھارٹی کا کنٹرول ہے، جس کی قیادت فتح پارٹی کرتی ہے۔ اس کا حماس کے مقابلے میں زیادہ سفارتی طریقہ کار ہے، اور اسرائیل کے ساتھ کچھ سیکیورٹی معاملات میں تعاون کرتی ہے تاکہ علاقے میں استحکام برقرار رکھا جا سکے، اگرچہ یہ تعاون فلسطینیوں میں متنازع کا باعث بنا ہواہے۔
اسرائیل مغربی کنارے میں بڑی فوجی موجودگی رکھتا ہے، جس میں چیک پوائنٹس اور گشت شامل ہیں، جو بڑی جنگ کو روکتے ہیں، اگرچہ اس کی وجہ سے تناؤ اور کبھی کبھار تشدد بھی ہوتا ہے۔
فلسطینی اتھارٹی بین الاقوامی حمایت اور سفارتی میں زیادہ سرگرم ہے اور اسرائیل کے ساتھ بات چیت کرتی ہے، جبکہ حماس زیادہ عسکریت پسند ہے۔ امریکہ، اقوام متحدہ اور یورپی ممالک کی امن کے لیے بین الاقوامی کوششوں نے بھی مغربی کنارے میں بڑی جنگ کو روکنے میں مدد کی ہے۔
مغربی کنارے میں غزہ کے مقابلے میں کم تنازع ہوتا ہے، جس کی وجہ فلسطینی اتھارٹی کی حکومت، اسرائیلی فوج کی موجودگی، اور بین الاقوامی سفارتی مداخلت ہے۔ حماس اور حزب اللہ کے کئی اہم رہنما اسرائیلی حملوں میں مارے جا چکے ہیں، خاص طور پر حماس نے زیادہ نمایاں رہنما کھوئے ہیں۔
*فلسطین کے حوالے موجودہ سیاسی صورت حال*
سابق فلسطینی وزیر، سفيان أبو زايد نے اپنے تازہ بیان میں کہا کہ فلسطینی قوم نسل کشی کا سامنا کر رہی ہے اور “7 اکتوبر” کے بعد کوئی بھی دھڑا اسی طرح کام جاری نہیں رکھ سکتا جیسے پہلے تھا۔ فتح اور حماس نے قاہرہ میں غزہ کی انتظامی کمیٹی کے قیام پر بات کی، لیکن اختیارات پر اختلافات ہیں۔
ایرانی پارلیمنٹ کے سربراہ قاليباف نے کہا کہ ایران فرانس کے ساتھ مذاکرات کے لیے تیار ہے تاکہ لبنان میں جنگ کو روکا جا سکے۔ ردعمل میں لبنان کے وزیر اعظم نجيب ميقاتی نے اس بیان کو لبنانی معاملات میں واضح مداخلت قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا اور کہا کہ لبنان کو کسی غیر ملکی guardian کی ضرورت نہیں۔ لبنانی وزیر اعظم نجيب ميقاتي نے ایرانی پارلیمنٹ کے سربراہ محمد باقر قاليباف کے اس بیان پر حیرت کا اظہار کیا کہ ایران، لبنان کے لیے فرانس کے ساتھ مذاکرات کرنے کو تیار ہے۔ انہوں نے اس کو لبنانی معاملات میں کھلی مداخلت قرار دیا اور کہا کہ لبنان خود اقوام متحدہ کی قرارداد 1701 کے نفاذ کے لیے ذمہ دار ہے۔ قاليباف کا یہ کہنا کہ ایران، فرانس کے ساتھ بات چیت کے لیے تیار ہے، لبنانی خودمختاری کے خلاف ہے۔ *یحيیٰ السنوار کا قتل:* اسرائیلی فوج نے حماس کے سیاسی سربراہ یحییٰ السنوار کو قتل کیا، جسے 7 اکتوبر 2023 کے حملے کا ماسٹر مائنڈ سمجھا جاتا ہے۔ اس قتل کو مغربی رہنماؤں نے امن کے لیے موقع قرار دیا، لیکن اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے کہا کہ جنگ تب تک جاری رہے گی جب تک حماس کے زیر حراست یرغمالیوں کی واپسی نہیں ہو جاتی۔دوسری جانب حماس کے متوقع سربراہ خلیل الحیا نے کہا کہ جنگ کے خاتمے تک یرغمالی رہا نہیں ہونگے۔ امریکی صدر جو بائیڈن اور دیگر مغربی رہنماؤں نے السنوار کے قتل کو تنازع کے خاتمے کا موقع قرار دیا، لیکن ایران اور حزب اللہ نے کہا کہ یہ مزاحمت کو مضبوط کرے گا۔
*نیتن یاہو کا بیان:* اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے کہا کہ السنوار کی موت کے باوجود جنگ اس وقت تک جاری رہے گی جب تک حماس کے زیر حراست تمام یرغمالیوں کی واپسی نہیں ہو جاتی۔ انہوں نے کہا کہ یہ جنگ کا ایک اہم لمحہ ہے، لیکن اسرائیل کی مکمل فتح تک یہ لڑائی جاری رہے گی۔
مغربی رہنماؤں نے السنوار کی موت کو ایک موقع قرار دیا کہ جنگ بندی کے لیے راستہ ہموار کیا جا سکتا ہے۔ امریکی صدر جو بائیڈن نے نیتن یاہو کو فون کرکے مبارکباد دی اور کہا کہ یہ ایک اہم موقع ہے کہ اسرائیل کے یرغمالیوں کو واپس لایا جا سکے۔ امریکی حکومت نے کہا کہ السنوار، جنگ بندی کی سب سے بڑی رکاوٹ تھے، اور ان کی موت کے بعد مذاکرات کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔ امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن نے سعودی عرب اور قطر کے رہنماؤں سے بات چیت کی، لیکن ابھی تک جنگ بندی پر کوئی پیشرفت نہیں ہو سکی۔ *فلسطینی تحریک کے بڑے سیاسی، سفارتی، اور عسکری ناکامیاں درج ذیل ہیں:*
*1۔ سیاسی ناکامیاں:*
*اندرونی تقسیم:* فلسطینی دھڑے، جیسے حماس اور فتح، کے درمیان اختلافات نے تحریک کو کمزور کر دیا ہے۔ حماس غزہ میں حکومت کرتی ہے جبکہ فتح مغربی کنارے پر حکومت میں ہے، جس کی وجہ سے فلسطینی عوام کے لیے ایک متحدہ قیادت کا فقدان ہے۔
*عدم اتفاق:* فلسطینی قیادت میں عدم اتفاق نے بین الاقوامی سطح پر مؤثر طور پر آواز اٹھانے کی صلاحیت کو متاثر کیا ہے۔ مختلف نظریات اور حکمت عملیوں کی وجہ سے ایک متفقہ پلیٹ فارم تشکیل نہیں دیا جا سکا۔
*بین الاقوامی حمایت میں کمی:* فلسطینی قیادت نے بین الاقوامی حمایت حاصل کرنے میں ناکامی کا سامنا کیا ہے، خاص طور پر عرب ممالک کی طرف سے۔ کئی عرب ممالک نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کی کوششیں کی ہیں، جس نے فلسطینی تحریک کی طاقت کو کمزور کیا ہے۔
*2۔ سفارتی ناکامیاں:* *امن مذاکرات میں ناکامی:* فلسطینی قیادت نے کئی بار اسرائیل کے ساتھ امن مذاکرات کی کوشش کی ہے، لیکن زیادہ تر مذاکرات بے نتیجہ رہے ہیں۔ یہ ناکامیاں فلسطینی عوام کی امیدوں کو متاثر کرتی ہیں اور انہیں مایوس کرتی ہیں۔
*بین الاقوامی اداروں کی حمایت میں ناکامی:* فلسطینی اتھارٹی نے اقوام متحدہ اور دیگر بین الاقوامی اداروں سے مدد حاصل کرنے کی کوشش کی، لیکن ان کوششوں کی موثر نتائج نہیں نکلے، جس کی وجہ سے ان کی عالمی سطح پر پذیرائی کم ہوئی ہے۔
*3۔ عسکری ناکامیاں:* *حملوں میں ناکامی:* حماس کی عسکری حکمت عملی، جس میں مسلح حملے شامل ہیں، بعض اوقات اسرائیل کے جواب میں مؤثر ثابت نہیں ہوتی۔ اسرائیل کی عسکری طاقت کے سامنے یہ حکمت عملی اکثر ناکام رہتی ہے، جس کے نتیجے میں شہری آبادی کو نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔
*عسکریت پسند گروہوں میں اختلافات:* حماس اور اسلامی جہاد جیسے گروہوں کے درمیان حکمت عملیوں میں اختلافات نے بھی فلسطینی عسکریت کو کمزور کیا ہے، جس کی وجہ سے ایک متفقہ عسکری حکمت عملی بنانا مشکل ہو گیا ہے۔
*4۔ عوامی حمایت میں کمی:* *عوامی اعتماد کا فقدان:* فلسطینی عوام میں قیادت اور تحریک کے بارے میں عدم اعتماد بڑھتا جا رہا ہے، خاص طور پر جب ان کی توقعات پوری نہیں ہو رہی ہیں۔ عوامی سطح پر ہمدردی کی کمی تحریک کی طاقت کو مزید کمزور کر رہی ہے۔
فلسطینی تحریک کو اپنی سیاسی، سفارتی، اور عسکری حکمت عملیوں میں اہم اصلاحات کی ضرورت ہے۔ ایک متحدہ قیادت، مؤثر سفارتی حکمت عملی، اور عوامی حمایت کی بحالی کے بغیر، فلسطینی تحریک کو ان چیلنجز کا سامنا کرتے رہنا پڑے گا۔ یہ ناکامیاں نہ صرف فلسطینی عوام کی زندگیوں پر اثرانداز ہوتی ہیں بلکہ خطے میں امن کے قیام میں بھی رکاوٹ بنتی ہیں۔
*ایرانی مداخلت کو فلسطینی تحریک کی ناکامیوں میں ایک اہم عنصر سمجھا جاتا ہے، خاص طور پر اس پس منظر میں کہ بہت سے عرب ممالک ایران کو پسند نہیں کرتے۔ اس مداخلت کے کچھ اہم پہلو درج ذیل ہیں:*
ایران کی فلسطینی امور میں مداخلت نے عرب ممالک میں تشویش پیدا کی ہے۔ بہت سے عرب ممالک، خاص طور پر خلیجی ریاستیں، ایران کی حمایت یافتہ تنظیموں جیسے حماس اور حزب اللہ کی بڑھتی ہوئی قوت کو خطرہ سمجھتے ہیں۔ یہ ناپسندیدگی فلسطینی تحریک کی حمایت کو متاثر کرتی ہے، کیونکہ عرب ممالک کی جانب سے ایران کی حمایت یافتہ قوتوں کو پسند نہیں کیا جاتا۔
ایران کی مداخلت نے فلسطینی دھڑوں میں مزید تقسیم پیدا کی ہے۔ حماس جیسے گروہ، جو ایران کی حمایت حاصل کرتے ہیں، کبھی کبھار فلسطینی اتھارٹی (جو مغربی کنارے پر ہے) کے ساتھ اختلافات میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ اس سے فلسطینی عوام کے درمیان ایک متفقہ پلیٹ فارم کا فقدان پیدا ہوتا ہے، جس کی وجہ سے ان کی تحریک کمزور ہو جاتی ہے۔
ایران کی عسکری حمایت نے حماس اور دوسرے گروہوں کی عسکریت پسندانہ حکمت عملیوں کو بڑھاوا دیا ہے۔ تاہم، یہ حکمت عملیاں اکثر اسرائیل کے خلاف مؤثر ثابت نہیں ہوتی ہیں اور بعض اوقات فلسطینی شہریوں کے لیے نقصان کا سبب بن جاتی ہیں۔ اس طرح کی حکمت عملیوں کی ناکامی عوامی حمایت میں کمی کا باعث بنتی ہے۔
بین الاقوامی حمایت میں کمی کا سبب بھی ایرانی مداخلت ہے۔ایران کی مداخلت نے بین الاقوامی سطح پر فلسطینی تحریک کی حمایت کو بھی متاثر کیا ہے۔ مغربی ممالک اور عرب ممالک ایران کی بڑھتی ہوئی قوت کے باعث فلسطینیوں کی حمایت میں ہچکچاہٹ محسوس کرتے ہیں، جو کہ فلسطینی تحریک کے لئے نقصان دہ ہے۔نتیجے کے طور پر ایرانی مداخلت فلسطینی تحریک کی ناکامیوں میں ایک اہم عنصر ہے۔ عرب ممالک کی ناپسندیدگی، فلسطینی دھڑوں کے درمیان اختلافات، عسکریت پسندانہ حکمت عملیوں کی ناکامی، اور بین الاقوامی حمایت میں کمی نے اس تحریک کو مزید کمزور کیا ہے۔ اس لیے، فلسطینی قیادت کو چاہیے کہ وہ اپنی حکمت عملیوں میں اس مداخلت کے اثرات کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک متفقہ اور مؤثر راستہ اختیار کرے۔