تاریخ شاہد ہے کہ ہر قومی تحریک کی کامیابی کا انحصار اس کے نظریاتی استقلال اور فکری یکجہتی پر ہوتا ہے، نہ کہ وقتی مصلحتوں اور عارضی سہولتوں پر۔ قومی آزادی ایک ایسا اصول ہے جو کسی وقتی مصلحت یا سیاسی چالاکی کا محتاج نہیں ہوتا، بلکہ اس کا تقاضا یہ ہے کہ ایک واضح اور مستحکم راہ اختیار کی جائے۔ اگر ہم ایک ایک کر کے وہ بنیادی نکات ترک کر دیں جو ہماری تحریک کی اصل روح ہیں
یعنی آزادی کا غیر مشروط مطالبہ، ایک متفقہ روڈ میپ، متحدہ بلوچستان کا نظریہ، جامع سیاسی قیادت، واحد حکمت عملی، سنگل نیشنل آرمی، اور ایک مضبوط و متفقہ نعرہ تو پھر ہماری جدوجہد محض ایک سراب میں تبدیل ہو جائے گی، جہاں سمت کا تعین ممکن نہیں رہے گا اور مقصد پس پشت جا پڑے گا۔
یہ لمحۂ فکریہ ہے کہ آج ہم اپنی تمام تر توانائیاں کسی پارلیمانی شخصیت کے دفاع میں صرف کر رہے ہیں، جبکہ ہماری اصل جدوجہد نظریاتی استحکام کا تقاضا کرتی ہے۔ اگر ماضی میں ہم نے اپنی صفوں کو منظم اور مربوط کیا ہوتا تو شاید نہ ڈاکٹر مھرنگ اور سمی دین گرفتار ہوتے، نہ شاہ جی اور بیبگر جبری لاپتہ کیے جاتے۔ لیکن ہم نے اپنی مزاحمتی قوت کو کسی اور کے سائے تلے پروان چڑھانے کی کوشش کی، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہماری تحریک کمزور پڑتی گئی اور اصل مقصد پس پشت چلا گیا۔
اگر آج یہ دلیل دی جا رہی ہے کہ کسی پارلیمانی شخصیت کی حمایت اس لیے ضروری ہے کہ وہ جبری گمشدگیوں کے خلاف آواز بلند کر رہا ہے، تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہی اصول کل ان افراد پر بھی لاگو ہوگا جو بلوچ نسل کشی میں براہ راست شریک رہے ہیں؟ کیا وقت کا جبر ہمیں مجبور کر سکتا ہے کہ ہم کل کو سرفراز بگٹی جیسے عناصر کے ساتھ کھڑے ہوں؟ اگر ہم وقتی ضرورتوں کو اصولی مؤقف پر فوقیت دینا شروع کر دیں، تو پھر ہمارے پاس اپنے نظریے کے حق میں کوئی اخلاقی جواز باقی نہیں رہے گا۔
قومی تحریکیں کبھی بھی “پیچھے چھوڑ، آگے دوڑ” کے اصول پر کامیاب نہیں ہوتیں۔ وہ راستہ جو وقتی فوائد کے عوض بنیادی اصولوں کو قربان کر دے، وہ آخرکار تباہی کی طرف ہی جاتا ہے۔ تاریخ میں وہی تحریکیں کامیاب ہوئی ہیں جنہوں نے اپنی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کی، نہ کہ وہ جنہوں نے وقتی مصلحتوں کی بنیاد پر راستہ بدلا۔
یہ کہنا کہ “اگر تم یہ سب کچھ کہتے ہو تو خود کر کے دکھاؤ یہ سب باتیں فکری کمزوری اور جدوجہد کی روح سے لاعلمی کو ظاہر کرتا ہے۔ کسی بھی اجتماعی تحریک کی کامیابی کسی ایک فرد کے بس کی بات نہیں ہوتی، بلکہ یہ اجتماعی ہم آہنگی اور فکری اتحاد کا متقاضی ہوتا ہے۔ اگر اجتماعی ہم آہنگی پیدا نہیں ہو رہی، تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم اپنے نظریے سے انحراف کریں اور پارلیمانی سیاست کی گود میں جا بیٹھیں۔ اصل ضرورت یہ ہے کہ ہم اپنے اصولوں پر ڈٹے رہیں، اپنی صفوں کو منظم کریں، اپنی پالیسیوں کو واضح کریں اور اپنی تحریک کی نظریاتی بنیادوں کو کمزور کرنے کی بجائے مزید مستحکم کریں۔
اگر ہم ان اصولوں کو پس پشت ڈال دیں، تو پھر ہماری تحریک بے سمت ہو جائے گی، اور ہماری منزل محض ایک خیال بن کر رہ جائے گی۔ حقیقی آزادی کے لیے ہمیں وقتی مصلحتوں کے بجائے فکری استقلال اور نظریاتی یکجہتی کی راہ اپنانا ہوگی، کیونکہ یہی وہ واحد راستہ ہے جو کسی بھی قومی جدوجہد کو کامیابی کی منزل تک پہنچا سکتا ہے۔