تحریر :حورین بلوچ
شہدا ہر قوم کے اثاثے ہوتےہیں انہی کی بدولت سماج بنتی ہیں ، انہی کی بدولت اقوام کی پہچان ہوتی ہے ، وہ ہی ہیں جو اپنے لہو بہا کر آنے والے نسلوں کی زندگیوں کو روشناس کرتے ہیں ، ان کے مقاصد بڑے اہم ہوتے ہیں وہ اپنے مقاصد اور نظریے کے اتنے پختہ ہوتے ہیں کہ وہ اپنے جانوں کا بھی نذرانہ پیش کرتے ہیں ، وہ اپنی فکر سے اتنے مخلص ہوتے ہیں کہ ان کے سامنے موت بھی بے بس رہ جاتا ہے ، وہ موت کو ہمیشہ مسکراتے ہوئے گلے لگاتے ہیں
اسی طرح بلوچستان کی آزادی کی جدوجہد میں شہدا کی لازوال مثالیں موجود ہیں ، جن کی بدولت بلوچستان کی آزادی کی تحریک کو بہت سی کامیابیاں ملی ہیں ۔ ازل سے لیکر آج تک بلوچ ورنا ، کماش ، خواتین ، بچے، بوڑھے سب مختلف شکلوں میں اپنے زندگی فدا کئے ہیں ۔شہید مہراب خان سے لیکر شہید ریحاں جان تک ، شہید بابو نوروز سے لیکر شہید نواب اکبر خان تک ، شہید سفر خان سے لیکر شہید کمبر چاکر تک، شہید گلبہار سے لیکر استاد اسلم بلوچ تک ، شہید الیاس نذر سے لیکر شہید طارق کریم تک اور بھی ہزاروں شہدا کی نام شاہراہ آزادی پہ ملیں گے ۔ جب تک بلوچستان پہ ظلم جاری رہے گا ایسے ہی سرزمین کے سپوت قربان ہوتے جائیں گے تاکہ سرزمین کی حفاظت ہو ، مادر وطن کی آجوئی ممکن ہو ، بلوچ قوم ایک اچھی زندگی گزارسکتی ہو ۔
بلوچستان کے دوسرے علاقوں کی طرح بسیمہ سے سینکڑوں فرزندوں نے اپنے حق ادا کئے ہیں ، ان کی لازوال قربانیوں کی بدولت بسیمہ سے آزاد بلوچستاں کیلئے آواز اٹھائی جاتی ہے ، ان کی شہادت نے سماج میں جرات ، حوصلے اور ہمت پیدا کئے ہیں، انکی دلیرانہ جدوجہد ہمیشہ نوجوانوں کیلئے مشعل راہ رہی ہے ، بلوچستان میں جب بھی شہدا کو یاد کی جائے گی تو ان میں بسیمہ کے عظیم سپوتوں کا نام سر فہرست رہے گا ، ایک ہی گھر کے 28 افراد کی شہادت سے یہی پیغام ملتی ہے کہ جدوجہد ء آزادی سے بڑھ کر کوئی بھی عمل اہمیت کی عامل نہیں ہوتا ۔
بسیمہ وہ سرزمین ہے جس نے کماش ، ورنا اور بچوں کے ساتھ عورتوں کی بھی قربانی دی ہے ، جس قوم کی خواتین شاہراہ ء آزادی پہ قربان ہوجائیں اس قوم کو شکست دینا یا مزید غلام رکھنا ممکن ہی نہیں رہے گا ۔ بسیمہ میں خواتین کی نام بھی شہدا کی فہرست میں ہیں ، جو قابل ء فخر ہے کہ اب بھائیوں کے ساتھ ساتھ بہنیں بھی قربانی دینے کیلئے تیار ہیں ۔
دشمن جتنا زور لگائے ، جتنی بھی کوشش کرے ، فرزندوں کو شہید کرے ، علاقے میں اپنے لئے دلال پالے ، پیسے پرست دلالوں کو خریدے لیکن فکر ء طارق کریم زندہ رہے گا، جدوجہد ء آزادی جاری رہے گا ، ایک دن ایسا بھی آئیگا کہ سرزمین بلوچستان دشمن کی قبضے سے آزاد ہوگا ، پھر شہیدوں کے قبریں سجھیں کیونکہ انہی کی قربانی کی بدولت آزاد بلوچستان کی جدوجہد منزل کو پہنچے گا۔