جب وہ کمسن تھی تو پدی زر کے مد و جزر میں جھومتی اور بل کھاتی لہروں کے سامنے بیٹھی ریت کے ذروں سے اپنی خوابوں پر مشتمل گھروندے بناتی تھی، ایسے قلعے نما گھروندوے جو آزادی اور تحفظ کا لطیف احساس سے مزین ہوتے، ریت سے بنی یہ نازک دیواریں سیسہ پلائی ہوئی محسوس ہوتی تھیں، خوابوں کی تعبیر، وہ اپنی اماں سے ہمیشہ کہتی ” میں اپنی مستقبل کی خواب کے نقشوں کو حقیقت کا روپ دے رہی ہوں”اماں۔۔۔ وقت گزرا، کھلونوں اور گھروندوں کی جگہ کتابیں آئیں، ذمہ داریاں بڑھ گئیں پدی ذر، کوہ باتیل، دشت کے گرد و غبار اور بحرِ بلوچ اپنی بے کراں وسعتوں سمیت دشمن کے نرغے میں تھا، نظریاتی وابستگی کے بوجھ کندھوں پر تادم آخر رہی، یونیورسٹی انکی مسکن بنی، خاموش کتابیں، دنیا کی تاریخ، سیاسیات، فلسفہ اور نفسیات ہر جملے کے اندر ایک کہانی چھپی ہوتی تھی اور وہ ہر کہانی میں بلوچ قوم کو ڈھونڈنے اور اسکی تاریخ، نفسیات اور قومی فلسفہ کو سمجھنے کی کوشش کرتی، مگر کتابوں کے صفحات میں جو کچھ لکھا تھا، اس نے اسے محض حفظ کرنے پر اکتفا نہیں کیا، بلکہ وہ ہر پڑھتی سطرکو عمل کے قالب میں ڈھالنے کی ہمہ وقت کوشش کرتی رہی، انہوں نے اپنے اندر ان لفظوں سے پھوٹتی ہر خواب کو جگایا۔ ایک دن، یونیورسٹی کی دیوار پر کسی نے لکھا: “وطن صرف زمین نہیں، نظریہ ہے، اور نظریہ وابستگی سے پیوستگی کے سانچے میں ڈھلنے کا نام ہے۔” اُس نے پہلی بار محسوس کیا کہ اسکے کندھوں پر پڑی آگہی کی بوجھ اب اسے چھین سے رہنے نہیں دے رہی، وہ اکثر کہتی:
” کتابے سنگتی پہ شپ جتاں
پہ منزلانی گاریں راہیاں
پہ مہرے بے مَرادیں دراہیاں
کتابے سنگتی دلاں کرار دنت
تئی زہیراں کورچات ءَ بار دنت “
وہ تنہا نہیں تھی، ان کے جیسے کئی لوگ تھے، مگر گودی ماہیکان نے کتابی شعور کو بارود بناکر دشمن کو دھول چٹانے کی اپنی زندگی کا اٹل فیصلہ کرلیا، نظریاتی فکر سے وابستگی اور مصمم ارادوں کے ساتھ ہر نفسیاتی داؤ کو جیت لیا، وہ قلم کے شیدائی اور مطالعے کی حصار میں گرفتار تھی، مگر دل میں گولہ بارود کی گھن گرج ہمیشہ زندہ رہی۔ انکو یہ معلوم تھا کہ نظریے سے مضبوطی کے ساتھ جڑت کی روشن چراغ ہمیشہ جلتا ہے، بجھتا نہیں، اور جو پروانہ دیوانہ وار اس شمع کے گرد آتا ہے، وہ راکھ نہیں، خاکِ وتن بنتا ہے۔
وتن ندریگ ماہیکان بلوچ قومی جہد آجوئی کی افق کا ایک روشن ستارہ اور وفاؤں کا استعارہ ہے، لیکن استعارے کو آج تک کون سمجھا ہے، عشق و عقل کے درمیان منطق و دلیل کی دامن پکڑ کر بنیادی آدرشوں سے جڑت کو برقرار رکھنا اور حالات کے اثر پزیری سے بے نیازی، شور و غوغا، نام و نمود اور شہرت کے بے لگام خواہشات کو تیاگنا انسان کی نظریاتی وابستگی کا معراج ہے، خاموش طبعیت کے مالک جن کے نینوں میں سہانے مستقبل کے خواب نہیں مقصد بستا تھا اور جو اپنی زیست کا سامان معروضی حقائق میں ڈھونڈتی رہی، وہ یقین رکھتی تھی کہ نظریاتی وابستگی کرداری جڑت سے مزین ہو تو جہدِ آجوئی کی پیچ در پیچ سفر کو آسان بنا سکتی ہے، انسان بھی اپنی کرداری سنجیدگی و فکری سنگینی سے جلا پاتی اور رہبری کا اعلی مقام اپنے نام کرتی ہے، بد سے بدتر حالات میں سنجیدہ، متوازن اور پرسکون فکری روش انسان کو یہی بات سکھاتی ہے کہ سیاسی عمل سرعت پسندی کا نام کبھی رہا ہی نہیں۔
ایک فرد جب ایک کرداری پیکر میں ڈھل جاتا ہے تو وہ ابدمان ہوجاتا ہے اور ماہیکان بن جاتا ہے، دراصل کردار انسان کو خوفِ خمیازہ سے بے نیاز اور حرصِ کرم و لالچ سے آزاد کردیتا ہے، یہی وتن ندریگ ماہیکان کی کہانی کا مرکزیتی اساس ہے جہاں وہ ایک فرد سے وسعت پاکر ساری منظر نامے پر صبحِ نو کی نوید بن کر پھیل جاتی ہیں، لہو کی لالی اور متصبر کردار کی لازوالی ایک ترازو میں ہرگز نہیں تولے جاسکتے، ماہیکان نظریاتی آدرشوں کے امین اور مرکزیتی اساس کو دوام دینے کی بلند آہنگ بن کر بلوچ گلزمین کی ” مسکیں ھاک ” کے ساتھ رزقِ خاک بن کر تا ابد انمٹ کرداری نقوش میں دوام پاگئے، اور پیچھے ایک سبق چھوڑ گئیں کہ راجی تحریک فیصلہ سازی کی مرکزیتی اساس کے بغیر ایک جرمِ ضعیفی بن کر رہ جاتی جسکی سزا مرگِ مفاجات کے علاوہ اور کچھ نہیں، اور اس مرگِ مفاجات کے ” جنتر ” میں پھس کر لہو کی قربانیوں کا تسلسل بے ہنگم ہی رہے گا۔
ماہیکان کے لیئے اپنے مشن کی تکمیل کے انتظار میں گزرتی عام دنوں کی طرح یہ بھی ایک عام دن تھا، وہی یونیورسٹی کلاس، کتابوں کی سنگتی اور فلسفےو تاریخ کی خشک و اکتاہٹ سے بھرپور مضامین، گیارہ بجے کا وقت تھا۔ کلاس سے نکل کر دیکھا موبائل کی اسکرین پر “کاہان میں فائرنگ، ایک بلوچ شہید” کی سرخی نے لمحہ بھر کے لیے اس کے وجود کو منجمد کر دیا وہ وہیں سبزہ زار پر بیٹھ گئیں، جیسے زمین سے لپٹ کر کچھ کہنا چاہتی ہو۔ تصویر کو دیکھتے ہوئے اس کے لب ہلے:
( جون ایلیا )“ ہے عجب فیصلے کا صحرا بھی، چل نہ پڑئیے تو پاؤں جلتے ہیں۔ ”
ماہیکان شاعری کا دلدادہ اور جون کے شاعری پر فریفتہ یہ بلوچ ملکہِ فکر و نظر کبھی نراش نہ ہوئی مایوسی جیسی تصورات کا اسکے پاس گزرنے کا یارانہ بھی نہ تھا، مضبوط اعصاب و اوصاف سے بہرہ ور، انہیں اس بات کا دکھ البتہ ہمیشہ رہا کہ فیصلے کی تپتی ہوئی صحرا میں پیر جلانے سے بہتر ہے کہ اپنی عظیم مقصد کی جانب ایک دو قدم چلا جائے وہ سوچ رہی تھیں کہ وتن ندریگ کے لیئے انتظار کی قطار میں شامل ایک سپوت دشمن پر قہر بن کر امرہونے کی مشن کی تکمیل سے پہلے آج کاہان میں دشمن کی گولیوں کا نظر ہوکر امر ہوگئیں، یہ حادثہ انکی دل کو بوجھل کرچکی تھی مگر انکے بلند اوسان و مضبوط اعصاب کو کمزور نہ کرسکیں، کیونکہ ان تمام جذباتی لمحات و دل گرفتگی کے باوجود وہ نظریات و مرکزیت کے پابندی کی بنیادی کلیے کو ہمیشہ اولین درجے پر رکھتی تھیں، انہیں یہ احساس ہمیشہ دامن گیر رہتی، مبادا ایسا نہ ہو کہ فیصلے کی تپتے صحرا میں پیر جلانے کے خوف سے چلنے کی ضد میں ہم کہیں سرپٹ بھاگنا شروع نہ کردیں اور تحریکی فیصلہ سازی کی مرکزیتی اساس کو پاؤں تلے روندھ نہ ڈالیں، لحموں کی خطا اور صدیوں کی سزا کی قانون کے تحت صدیوں کی محنت اور لمحموں کی خطا کا بھاری پڑنا انسان کو فیصلہ کرنے کی جلد بازی سے روکتا ہے، وہ سوچتی تھی کہ انفرادیت کے بُت کے سائے میں اگر اجتماعی احساس و مرکزیت کا وقار دب گیا تو سرزمین کے حجم سے زیادہ تصویروں کو توقیر ملے گی اور بُت پرستی و بُت سازی کی غیر سیاسی رویوں کو مزید تقویت ماہیکان صرف ایک فرد نہیں تھی، وہ ایک طرزِ فکر تھی، نظریات کی اساس پر استقامت سے کھڑی ایک استعارہ وہ ان گنت راہوں پر تنہا چلی تھی، دشت کل سر سے گوادر، پھر کراچی اور شال تک ہر گلی، ہر دیوار، ہر چوراہا اسکے قدموں کی گواہی دیتا، قربانی کی جذبے سے سرشار شعوری تقاضوں سے جھکڑی ہوئی ایک ایسی مظبوط فکر جو لہو کی چھینٹوں کو نظریاتی آدرشوں سے ہمیشہ کم تر سمجھتی، ماہیکان کی نطر میں جان نثاری محض لہو سے نہیں، فکر سے، استقامت سے، اور نظریاتی سخت گیری سے جڑی ہوتی ہیں۔
شہید ماہیکان نظریاتی استقامت اور وابستگی کی بنیادی کلیے سے واقف ایک ایسا مہان انسان جو اپنی لہو سے وتن کی گلشن کو سینچنے کے ساتھ ساتھ اس فکری روش کی آبیاری کو بھی اپنا زمہ سمجھتی ہے جو مستقبل کے اس سفر کا مسافر بننے کو بے تاب ہے، لہو کی بے نام چھینٹے دشمن کی نفسیات پر کافی دیر تک اپنے داغ تازہ رکھتے ہیں۔
انہوں نے کبھی بھی جذبات کی طغیانی میں فیصلے نہ کیے وہ ہمیشہ کہتی تھی کہ قومی تحریک ایک مستقل بہاؤ ہے، اس میں چہرے بدلتے رہتے ہیں، لوگ آتے ہیں اپنے حصے کا کردار نبھاتے اورچلے جاتے ہیں پرانوں کی جگہ نئے لوگ لے لیتے ہیں لیکن تحریکی سفر چلتی رہیگی، اور جہد آزادی اپنی سرشت میں ایک ایسی توانائی رکھتی ہے جو ہر کام کے لئیے اور ہر زمہ داری کے لئیے زمہ داروں کا تعین کرتی، انہیں انکی مطلوبہ مقام پر نصب کرتی اور ایک صابر و مہرباں ماں کی طرح انہیں جنتی رہتی ہے، بس شرط یہی ہے کہ نظریاتی انتشار و فکری بانجھ پن کی تسدید و حوصلہ شکنی برقرار رہے۔
شہید ماہیکان بے جان شئے کی طرح بہاؤ کی روانی اور مقبول بیانیے میں بہہ جانے کے کبھی قائل نہیں رہے، تن آسانی اور فکری آسائش کے لئیے بہتی دھارے کے ساتھ بہہ جانا، پاپولر بیانیے کے ساتھ جڑ جانا اور اکثریتی فکر کی تابعداری کرکے نام کمانا کتنا آسان ہوسکتا تھا، لیکن ماہیکان تو ماہیکان ہیں ان تمام فکری و نظریاتی کثافتوں سے پاک، ماہیکان کی سوچ میں ایک ٹھہراؤ تھا۔ وہ بے دھڑک، لیکن بے قابو نہ تھی۔ اس کے اندر جو آتش فشاں سلگتا تھا، وہ نظم و ضبط کی زنجیر میں بندھا تھا، وہ کہتی تھی: نظریاتی راستے کے مسافر کو یہ زیبا نہیں کہ وہ پگڈنڈیاں ڈھونڈتا پھرے، اگر سفر سخت ہے تو ہو، مگرنظریات اور فکری وابستگی پر کوئی سودے بازی نہیں ہو سکتی۔
وہ جون ایلیا کی ایک شعر اکثر اوقات پڑھتی
“ میں بھی بہت عجیب ہوں اتنا عجیب ہوں کہ بس “
ماہیکان میں کہ جگہ “ ہم “ پڑھتی
وہ اس بات کو عمومی رائے کے مطابق عجیب سمجھتی رہی وہ کہتی ہیں کہ اتنی بڑی قربانی کو سرعت پسندی کی داغ سے حد درجہ بچانا چاہئیے کیونکہ لہو کی چھینٹے جب ایک منظم لڑی میں پروئے جائیں تب جاکر نتیجہ خیز و با معنی راہیں نکل سکتی ہیں، انتظار اور اس سفر کی کھٹنائیاں ہماری مظبوط نظریات کا بنیادی اساس ہونی چاہئیں۔
اور ایک دن انکی مرادیں بھر آئیں، فیصلے کا دن آگیا نظریاتی وابستگی اور فکری استقامت کی لامتناہیت کو بلوچ تاریخ کے پنوں پر کنندہ کرنے کا دن وہ گلزمین کے بانہوں میں بانہیں ڈال کر ایک بلند آہنگ فکری بازگشت میں تبدیل ہوکر تا ابد خاموش رہ کر بھی سماعتوں میں رس گھولتی رہے گی فکرِ ماہیکان ہمیشہ بولتی رہے گی کہ
” جو پروانہ دیوانہ وار اس شمع کے گرد آتا ہے، وہ راکھ نہیں، خاکِ وتن بنتا ہے”۔