سرکار کے دو پیاروں میں چپکلش، اصل مسلہ کیا ہے؟

                                                                                            

 تحریر: حفیظ حسن آبادی

 

بلوچستان میں برادریوں میں مسلے ہمیشہ رہے ہیں اور رہیں گے بھی. 

ماضی میں بلوچ یہ مسلے خود حل کرنے کی کوشش کرتے تھے جو کبھی حل ہوتے تو کبھی الجھ کر سینکڑوں کو نگل کر ہزاروں کو ادھر اُدھر ہجرت پر مجبور کر کے خود بخود ختم ہوتے مگر بعد میں انگریز نے ان خاندانی رنجشوں کو اپنے سیاسی مقاصد حاصل کرنے کے لئے نئی جدت کیساتھ دوام دار و کنٹرولڈ بنا کر بھرپور طریقے سے استعمال کیا. اسی کمزوری سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے بلوچ وطن کو قوم سمیت ٹکڑوں میں تقسیم کیا جس کی وجہ سے وہ آج جہاں بھی ہیں اقلیت و اکثریت کی جھنجھٹوں میں پڑے اپنے بنیادی حقوق کیلئے منظم مزاحمت نہیں کر سکتے جو انکے نجات کا وسیلہ بنے.

ستم پر ستم یہ سوا ہوا کہ انکی اس کمزوری کو انگریز نے ریجن سے بے دخلی کے بعد وراثت کے طور پر ادراک کی صورت میں پاکستان اور ایران کو منتقل کیا اور انھوں نے اس کا بھرپور فائدہ اُٹھایا اور آج دن تک اُٹھا رہے ہیں. 

اب صورتحال یہ ہے کہ بلوچستان کے جتنے بھی بااثر لوگ ہیں قطع نظر اس کے کہ وہ سرکاری سردار یا معتبر ہیں یا غیر جانبدار سب کے پیٹھ پر ایک خاندانی جھگڑے کا مصیبت لاد رکھا ہے. سردار خیر بخش مری کو چھوڑ کر باقی سب نے کسی نہ کسی مقام پر اس ہتھکنڈے کا شکار ہو کر مصلحت کا راستہ اپنایا. کبھی ریاست کا اے اور کبھی بی ٹیم کا حصہ بن کر بلوچ قومی مفادات کے خلاف ریاستی اقدامات کا حصہ رہے. اس دؤران بعض سیاست دان سے دکاندار اور نہ جانے کیا کیا بنے.

شفیق مینگل اور اخترمینگل کے درمیان نہ ختم ہونے والی طویل “جھڑپیں” بھی انگریز کے دور سے شروع وراثت کے طور پر منتقل ہوکر ریاستی پالیسی کا حصہ بنے جہاں سرکار کے دونوں بازو آپس میں الجھے نظر آتے ہیں. 

دونوں ایک دوسرے پر ریاستی سرپرستی کا الزام لگاتے ہیں جبکہ حقیقت میں دونوں ریاست کو یکساں عزیز ہیں اگر یہاں کوئی لاچار و  بے سرپرست ہے تو وہ بلوچ قوم ہے یہ دونوں ہرگز نہیں. اخترمینگل اور شفیق مینگل کا معاملہ بد اچھا بدنام بُرا کے مصداق ہے.

 شفیق براہ راست ریاست کے تمام پالیسیوں کی برملا حمایت کرتا ہے جبکہ اختر بھی عملاً تمام پالیسیوں کا حصہ و حمایتی رہا ہے مگر اقرار نہیں کرتا. شفیق بلوچ بیگناہ لوگوں کو اُٹھوا کر انھیں اذیتیں دیتا ہے یا اذیت دینے فورسز کے حوالے کرتا ہے جسے بلوچ قومی جرم کہتے ہیں مگر حقیقت میں یہ جرم سردار عطاء اللہ مینگل کے اُس فرمان کی تکمیل ہے جو انھوں بی بی سی کے رپورٹر کو اپنے انٹرویو میں کہا تھا کہ “ان لڑکوں کو چن چن کر پکڑ کر مارو” شفیق بھی تو ٹھیک یہی کام یعنی چن چن کر پکڑ کر مار رہا ہے اوپر سے اختر نے ان بیگناہوں کو اذیت دینے اپنا قعلہ فورسز کے حوالے کیا ہے جہاں ان جبری لاپتہ بلوچوں کو اذیتیں دے دے کر شہید کر کے لاش ویرانوں میں پھینک دیا جاتا ہے جہاں سے اختر مینگل کا” ان لاشوں کے وارث” ہونے کا دوسرا کردار شروع ہوتا ہے. 

شفیق الاعلان خفیہ اداروں کے ساتھ ہے جبکہ اختر اقتدار کی کرسی پر تشریف رکھتے ہوئے پاؤں قوم برستی کے پٹے پرانے چارپائی سے لٹکاتے ہیں. شفیق بلوچ آزادی پسندوں کو جسمانی طور پر ختم کرنے ریاست کا آلہ کار ہے جب کہ  اخترمینگل نہ صرف اس فکر کی نفی کرنے عملی طور پر پارلیمانی سیاست کے نام پر سرگرم عمل ہے بلکہ وہ قمبرخان مینگل جیسے لوگوں کا سرپرست ہے جس کے بارے میں بلوچ آزادی پسندوں کا خیال ہے کہ آس نے قلات اور رخشان ڈویژن میں بلوچ آزادی پسندوں کے خلاف وہی کام کیا ہے جس کام کیلئے شفیق مینگل بدنام ہے. 

شفیق مینگل سمیت تمام بلوچ پارلیمنٹرین بلوچ قوم کے مجرم اور اس کے سامنے ملامت ہیں جو حکومتوں میں رہتے ہوئے انکے اذیتوں کو کم نہیں کرسکتے جبکہ اختر مینگل ان سے ایک ہاتھ آگے ہے جو ایک سانس میں ایک طرف صدر، وزیراعظم، سینٹ چیرمین صوبائی وزیر اعلیٰ منتخب کرنے اور چیف آف آرمی سٹاف کی مدت ملازمت میں توسیع سے لیکر ریکوڈک سمیت بلوچ وسائل کو لوٹنے اور پاکستانی  (بلوچ کے نہیں) قرضوں کے عوض کوڑیوں کے مول نیلام کرنے ساتھ ہے دوسری طرف بلوچ بیگناہ گمشدگاں کے لواحقین کے آنسوؤں، سسکیوں کو ہر فورم پر اپنے سیاسی مقاصد حاصل کرنے کیلئے استعمال کر رہا ہے . 

عمران خان کے ساتھ معاہدہ کے بعد ایک مہینہ نہیں گزرے تھے کہ بی این پی مینگل کی طرف سے بیان آیا “بلوچ لاپتہ افراد بارے ہمارے مطالبات نہیں مانے جارہے اگر ایک گمشدہ بازیاب ہوتا ہے تو دس مزید غائب کئے جاتے ہیں” پورے ساڑھے چار سال نہ صرف گمشدگیوں کا سلسلہ جاری رہا بلکہ اس میں شدت لاتے ہوئے کئی بلوچ خواتین کو جن میں کچھ  کو اُنکے شیرخوار بچوں کیساتھ اغواء کرکے چھاؤنیوں میں لے جا کر تشدد کا نشانہ بنایا گیا. ان مظالم  کے خلاف بی این پی مینگل کی طرف سے صرف مندرجہ بالا بیان تسلسل سے دہرایا گیا الٹی میٹم بھی دئے گئے مگر نہ ریاست نے بات سُنی اور نہ سردار کو  بیان سے آگے کچھ کرنے کی توفیق ہوئی. تاہم اتنا ضرور دیکھنے میں آیا کہ جب بھی آپ نے لاپتہ افراد معاملے پر ناراضی کا اظہار کیا تو حکومت نے انکے کسی پیٹی ٹھیکیدار کے کچھ اٹکے ہوئے بل پاس کئے کسی اسکیم کو پی ایس ڈی پی میں شامل کیا، کوئی سرکاری عہدہ دیا آخر میں جب شہباز شریف کے دؤر میں آپ بہت ناراض ہو گئے تو گورنری لے کر ہی بلوچ لاپتہ افراد اور بلوچستان کا مسئلہ “حل” کیا. 

اخترمینگل عمران حکومت سے لیکر شہباز حکومت تک تمام حکومتی تقرریوں میں شامل رہا برابر مراعات لیتا رہا بلکہ بعض اوقات تو حکومتی ارکان سے بھی زیادہ فنڈز و مراعات وغیرہ لیا مگر حیران کن بات یہ ہے کہ آخر تک کوئی یہ نہ جان سکا کہ آپ حکومت میں ہیں کہ اپوزیشن میں ہیں. اسکی وجہ یہ ہے کہ وہ بیک وقت دونوں جگہ موجود تھے عام لوگوں اور اپنے ووٹرز کیلئے حکومت کا حصہ نہیں تھے جبکہ اپنی پارٹی قیادت کی مخصوص گروپ کیلئے حکومت میں تھے. اُنکے اپنے کام حکومت میں شامل ہونے والوں کی طرح حل ہوتے رہے اور عوام کے مسائل اپوزیشن کی طرح رُل گئے . 

اب آتے ہیں اصل مسلے کی طرف جو اسی چالاکی کی پیداوار ہے جی ہاں پارٹی کے دو کشتیوں میں سواری کی وجہ سے لوگ بہت مایوس ہوچکے ہیں جس کا اظہار چند دن پہلے پارٹی کے سینئر لیڈر آغا موسیٰ جان نے اپنے ایک صوتی پیغام میں سوشل میڈیا کے زریعے کیا تھا آپ سردار عطاء اللہ مینگل کی برسی کے موقع پر لوگوں کی عدم دلچسپی و کم شرکت پر پارٹی قیادت اور پارلیمانی لیڈروں کو مورد الزام ٹھہرا کر برملا فرما رہے تھے کہ ان لیڈروں نے عوام کو مایوس کیا ہے کیونکہ انھوں نے نوکریاں بیچی ہیں فنڈز خردبرد کئے ہیں. 

اب جب حقیقت یہ ہے تو سرکار کیلئے ایک بار پھر اخترمینگل کی سربراہی میں بی این. پی کو چند سیٹوں پر جتوانا مشکل ہے وہ عوام میں جائیں گے تو کیا کہیں گے؟ خاص کر بلوچ گمشدگاں کا مسئلہ جو یہ جماعت شروع سے زبانی کلامی اچھال کر عملی طور پر کیش کررہی ہے اب اسے مزید ماضی کی طرح استعمال کرنے کی پوزیشن میں نہیں کیونکہ سب نے دیکھ لیا کہ آپ کو ریاست نے لاپتہ افراد کمیشن کا سربراہ بنایا آپ نے دس، بیس، پچاس، سو لاپتہ افراد کو برآمد کرنے کے بجائے سابق کمیشن و کمیٹی سربراہان کی طرح انکے لواحقین کے درد کا تماشہ بنایا. میڈیا، کیمروں کی موجودگی میں پھر سے تفصیلات لینے کی وقت زوالی کی حالانکہ وہ یہ ضرور جانتے ہیں کہ لاپتہ افراد کیلئے اور ان کے لواحقین کیلئے ایک ایک منٹ قیمتی ہے وہ اذیت میں ہیں، کسی بھی وقت کسی کی بھی جان جا سکتی ہے آپ یہاں وہاں جانے اور کاغذی کاروائیوں میں وقت ضائع کرنے کے بجائے پہلے کم از کم اُن گمشدگاں کو برآمد کرواتے جن کا لسٹ آپ کے پاس ہے اور آپ اس لسٹ کو قومی اسمبلی میں لہرا بھی چکے ہیں. جہاں تک نئی تفصیلات لینے کی بات ہے وہ آپ کو دؤران کار لواحقین اور وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی طرف سے ملتا رہتا.

 اب آپ لاپتہ افراد بارے دھرنا دینے کی بات کرتے ہیں لیکن اس میں بھی پوائنٹ سکورنگ اور زخم کُریدنے سے باز نہیں آتے اگر دھرنا ہی دینا ہے تو وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز والے گزشتہ پانچ ھزار دنوں سے زائد عرصے سے سردی گرمی میں بیٹھے ہیں آپ جاکر اُن کے ساتھ بیٹھ کر اُن کی جدوجہد کو تقویت بخشیں مگر چونکہ آپ کا مسئلہ یہ نہیں بلکہ آنے والے انتخابات میں اس مسئلے کی آڑ میں زیادہ سے زیادہ توجہ حاصل کرنا ہے اس لئے آپ اُنکے ساتھ بیٹھنے روادار نہیں یا آپ میں اتنی ہمت نہیں کہ ماما قدیر و حقیقی غمزدہ ماؤں، بہنوں کے ساتھ اُس وقت تک بیٹھیں کہ یہ مسئلہ حل ہو اس لئے الگ سے دکان سجا کر بیٹھ گئے تاکہ یہاں سے اُٹھنے میں آسانی ہو نہیں تو ماما قدیر و بہن زرینہ وغیرہ کے ساتھ بیٹھ کر مسلے کے حل تک بیٹھے تو الیکشن کون لڑے گا کہ جسمیں کامیابی کیلئے یہ پاپڑ بیلنے پڑ رہے ہیں. اس کے ساتھ ہی یہ سوال بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ آپ نے یہ دھرنا اُس وقت کیوں نہیں دیا جب آپ اقتدار میں آدھے اندر آدھے باہر تھے.

 یقین مانیں اگر آپ اسمبلی میں بیٹھنے اور صدر، وزیر اعظم، چیرمین سینٹ وغیرہ جیسے اہم تقرریوں کو گمشدگاں کے مسئلے کے حل سے مشروط کرتے تو نتیجہ بالکل بھی اتنا مایوس کن نہیں ہوتا. زندہ یا مردہ کچھ تو باہر آتے. ہمیں یہاں اس پر زور دینے کی ضرورت نہیں کہ اس مسئلے سے جڑے دو باتیں بہت اہم ہیں جنکی طرف اختر مینگل  پانچ سال تک ایک انچ بھی پیشرفت کا اشارہ تک نہ دے سکے پہلا جو بے گور و کفن مسخ لاشیں ملی ہیں اُنکے ڈی این اے کرانے کا بندوبست کرتا یہ ظلم اور لاوارثی کی انتہا نہیں تو کیا ہے کہ ہزاروں مسخ شدہ لاشیں نامعلوم کے کھاتے میں زمین میں گاڑھے گئے ہیں جو کسی کا والد، کسی کا بھائی، کسی کا منگیتر اور کسی کا خاوند ہو سکتے ہیں آپ لوگ جس طرح اپنے اسکیمات پی ایس ڈی پی میں شامل کرنے دوڑ دھوپ کرتے اس سے نوے فیصد کم کوشش سے یہ کام کیا جاسکتا تھا مگر آپ نے ایسا نہیں کیا. ریاست چاہتی کہ بلوچوں کو “نامعلوم” لوگ اُٹھائیں اور وہ مر کر نا معلوم گاڑھے جائیں مگر آپ تو قوم کی وارثی کا دعویٰ کرتے ہیں آپ اس درد سے اس مسئلے سے لاتعلق کیسے ہو سکتے ہیں؟ دوسرا اور اہم بات یہ کہ آپ اس بات کو یقینی بناتے کہ لاپتہ افراد نہ صرف برآمد ہوں بلکہ اُن کو کیوں، کس نے اُٹھایا ہے؟اگر وہ مجرم ہیں تو انھیں ملکی قوانین کے تحت دفاع کا حق ملا ہے کہ نہیں؟ اگر وہ گنہگار ثابت ہوئے ہیں تو سزا درست ہے اگر بیگناہ غائب کئے گئے یا مارے گئے ہیں اس کا جواب دہ کون ہے؟ مختصر یہ کہ وہ یہ مسئلہ حل نہیں کر سکے جو اُنکے اپنے بقولِ برآمد کم اور لاپتہ زیادہ ہوئے ہیں.

 اس کے علاوہ وہ نہ بیروزگاری میں کمی لا سکے بلکہ جو انھیں ملے وہ بقول آغا موسیٰ جان بولی پر بکے ہیں نہ ترقیاتی کام ہوئے نہ ہسپتالوں کی حالت بہتر ہوئی نہ تعلیمی میدان میں کوئی حوصلہ افزا نتیجہ دے سکے نہ سڑکیں بنیں اگر بنیں تو ایسے کہ سائیکل دؤڑاو تو سیمنٹ ڈامبر کیساتھ ٹائروں کے ساتھ چپک کر اکڑ جائے یہاں تک کہ گوادر جیسے اہم تریں شہر کے پینے کے پانی کا دیرینہ مسئلہ تک حل نہیں کیا جا سکا، ٹرالر مافیا مسئلہ ویسے کا ویسے ہی رہا ، فورسز کے ہاتھوں لوگوں کو تنگ کرنے اور ان کی تڈلیل کا سلسلہ نہ رُک سکا، مجموعی طور پر بلوچستان میں بدترین مایوسی اور ریاست سے لاتعلقی کے رحجان میں کوئی بہتری لا سکے. 

حقیقت حال یہ ہے کہ جس ایم پی اے اور ایم این نے اپنا انتخابی منشور دیا ہے وہ آج جا کر اس کا دفاع نہیں کرسکتے. لوگوں کے پاس سوال ہی سوال ہیں اور اختر مینگل اور اس کے ساتھیوں کے پاس جواب نہیں پاکستانی سیاست کے عین روایت کے مطابق انہی سوالات کے مسلے سے بچنے کیلئے انکے سرپرست ریاست نے ایک اور مسلے کے غبارے میں ہوا بھر کر فضا میں چھوڑا جسے یہ لوگ وڈھ کا مسئلہ کہتے ہیں تاکہ یہ لوگ جہاں بھی جائیں وڈھ کا مسئلہ دیگر مسائل پر باری رہے جسکی آڑ میں یہ سرکار کی ظلم کی داستانیں بیان کرکے اپنی مظلومیت ثابت کرکے اُسے ایک بار پھر ووٹ کی صورت کیش کر سکیں. 

اس بحث کے تناظر میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ سب سرکاری سرپرستی میں کنٹرولڈ ایک نورا کشتی ہے تو درمیان میں کئی لوگ کیسے مارے گئے جواب اتنا مشکل نہیں ایک تو ان فائرنگز میں ایسے غریبوں کے بچے مرے ہیں کہ جن کے بچوں کی تعزیت کیلئے یہ بڑے اُن کے گھر تک نہیں گئے ہیں بلکہ انھیں بلوچی روایات کے برخلاف اپنے ہاں بلا کر نمائشی تعزیت کی ہے. دوسری بات یہ کہ میں ذاتی طور پر اسلحہ کے بارے میں بالکل بھی معلومات نہیں رکھتا لیکن جن جن اسلحہ کی نمائش دونوں طرف سے ہوئی ہے اور ہم نے انٹرنیٹ سے انکے بارے میں معلومات حاصل کی ہے وہ اتنے تباہ کن اور موثر ہیں کہ اگر انھیں ٹھیک نشانے پر مارتے تو اب تک کم از کم شفیق مینگل اور اخترمینگل اپنے ہمنشینوں کیساتھ ہزار بار ایک دوسرے کو ہلاک کر چکے ہوتے. جہاں تک سرکار کا سردار کا راستہ روکنے اور جان سے مارنے کی باتیں بی این پی مینگل کی طرف سے ہو رہی ہیں وہ بھی درست نہیں کیونکہ سرکار جس سے ناراض ہو اسے تو خاکروب کی نوکری بھی نہیں ملے گی جبکہ آپکی جماعت کو صوبے کی گورنری سونپ دی گئی ہے راستے سے ہٹانے کی بات میں بھی صداقت نہیں کیونکہ ہم نے دیکھا ہے کہ ریاست ملک کے اندر جس کو مارنا چاہتا ہے اسے پہاڑوں میں جاکر مارتا ہے یا دن دھاڑے وکیل کی موجودگی میں اس کے دفتر سے اُٹھا لے جا کر مارتا ہے. ہاں آپ کے جان سے مارنے کے امکانات اس وقت ضرور تھے اگر آپ اپنے قول پر عمل کر کے شہید نواب اکبر خان بگٹی اور بالاچ مری کا ساتھ دیتے مگر آپ نے ایسا نہیں کیا اور “سیاست” کا محفوظ و منفعت بخش راستہ چُنا.

حرف آخر : یہ دشمنی دیرینہ علاقے میں اثر و رسوخ، جائیداد و مجموعی معتبری کا ہے اسے قومی سیاست سے جوڑنا درست نہیں مگر جیسے کہ اوپر عرض جا چکا یہ ریاست کنٹرولڈ دشمنی ہے وہ جب چاہیں خاص مقصد حاصل کرنے اسمیں شدت لاتے ہیں جیسے ابھی الیکشن سے پہلے کیا جارہا ہے اور جب چاہیں اس میں نرمی لاتے ہیں جیسے پچھلے پانچ سال میں اس میں ایسی شدت کا مشاہدہ نہ ہوا کہ جس کیلئے سردار مینگل کو دھرنا دینے یا لانگ مارچ کی ضرورت پڑے.

بہتر یہی ہے کہ اختر مینگل اور شفیق مینگل اپنا خاندانی و معتبری کے جھگڑے کو قومی جھیڑہ بنانے کے بجائے اُسے خاندانی دشمنی ہی رہنے دیں اور اپنے بلوچی طریقے سے اس کا حل تلاش کریں ۔نہ اختر اپنی ذات کو بلوچستان بنا ئے اور نہ شفیق خود کو پاکستان بنا کر پریشان حال قوم کو مزید غمزدہ کرے اگر آپ دونوں بلوچستان کے دیگر مشکلات کم نہیں کرسکتے تو یہ دشمنی ختم کرنے اسلام آباد کے پیر چھو کر درخواست کرکے اُس کو منظور کرواسکتے ہو ۔اور اختر مینگل سے ایک گزارش  ہے کہ جس دن آپ اُن بہنوں کے سوال کا جواب لائے کہ ریاست بتائے کہ ہم خود کو بیوہ سمجھیں یا اپنے شوہروں کی بیویاں ؟ جس دن آپ  یہ جواب لائے تب آپ ضرور لاپتہ افراد کی بات کریں نہیں تو آپ 2001 سے جب سے نئی گمشدگیاں شروع ہوئی ہیں اب تک کسی نہ کسی طرح اسمبلیوں میں رہے ہیں اگر اس دوراں آپ صرف اس ایک سوال کا جواب تک نہ لاسکے تو آپ کو انکے زخموں پر نمک پاشی اور درد کا تماشہ بنا کر اقتدار تک پہنچنے کا سیڑھی بنانے کا کوئی اخلاقی حق نہیں۔ کاش ہم شفیق مینگل سے بھی بحثیت بلوچ ایسی درخواست کرسکتے لیکن ہم ایسا نہیں کرسکتے کیونکہ وہ اپنے بُرائی کا کردار انتہائی ایمانداری سے نبھاتا ہے اور اُس کے بارے کوئی کسی بھی غلط فہمی میں مبتلا نہیں جبکہ آپ کے بارے میں ایسا کہنا مشکل ہے  ۔۔۔۔۔۔۔۔ ،،