مجھے اس بات پر بہت ہی مسرت محسوس ہوا کہ ایرانی مقبوضہ بلوچستان کے اندر بلوچوں نے ایرانی قابض کے مختلف عسکری کیمپوں پر دھاوا بول دیا ہے، بہت سارے قابضین مارے گئے اور بہت سارے بلوچ بھی شہید ہوگئے، بخدا میں نے نہ کسی کی داڈھی کی لمبائی کی ناپ تول کی اور نہ ہی کسی کے شلوار کے پائنچے ٹخنوں سے ملا کر دیکھے، بلوچی معقولے کے مصداق ” کوریں چم ءَ پٹے ارس باز انت ۔” ایرانی مقبوضہ بلوچستان سیاسی حوالے سے وہی “کوریں چم” ہے، لیکن اپنی مٹی اپنا زمین اور وطن ہے دشمنوں کے زیر دست ہے، یہ خوشی دیرینہ تشنہ لبی کا نتیجہ ہے ،ایرانی مقبوضہ بلوچستان میں ایسا قطرہ بھی سمندر سا بے کراں محسوس ہوتا ہے، بہرحال بعد میں پتہ چلا فدائین تھے اور ان میں سے اٹھارہ بلوچ رزقِ خاک ہوئے، تاسف ضرور ہوا، رنجیدہ خاطررہے، دل نے کہا زندہ ہوتے، بچ جاتے، لڑکر نکل جاتے، مسقبل کی نئی صف بندیوں کے لیئے جیئے جاتے، جون ایلیاء کے ان مصرعوں کے باوصف:

دل سے بس ایک بات کہہ دیجیو

دل کا چاہا ہوا، نہیں ہوتا

لیکن امید بندھ گئی ،ہوسکتا ہے کہ انہی قطروں سے سیاسی شعور کی کونپلیں پھوٹیں اور فکرِنو کی بہار آجائے پھر ہمیں ایرانی قابض ریاست کے خلاف ایک بھرپور فکری و شعوری اور سیاسی مہمیز سےلبالب بلوچ قومی تحریک دیکھنے کو ملے۔ ایرانی مقبوضہ بلوچستان میں کوئی فدائی کرے یا گوریلہ جنگ کرے، سیاسی نعرہ بازی کرے یا پھر صرف دیواروں پر دو چار کلماتِ بد ریاستی گماشتوں کے خلاف لکھ دے، پھانسی کے پھندے کو چوم کر مستانہ وار بلوچستان زندہ باد کا نعرہ بلند کرے، مجھے یہ سب چیزیں ایک اطمینان ایک حوصلہ دیتی ہیں کیونکہ ایرانی مقبوضہ بلوچستان میں ایک ماحول بننے کو ہے، ایک لہر اٹھنے کو ہے ایک مٹی بند ہوکر فولاد بننے کو ہے، شاید ایک شروعات ہونے کو ہے، ایرانی مقبوضہ بلوچستان کو فی الحال ایک نقارے کی ضرورت ہے ،ایک ٹوکر ایک گونج کی ضرورت ہے چاہے وہ سیاسی نعرے سے آئے یا پھر گولیوں کی گڑگڑاہٹ سے آجائے، ” نوک کیسگ ” نئی ملنے والی طاقت کے جوش میں فدائین کے لہو سے آئے، ویسے بھی کچھ لہو کی چھینٹے لازم ہیں خوابیدہ ذہنوں کو بیدار کرنے کے لیئے، سوتے ہوؤں کو جگانے کے لیئے باقی پروسس کا تسلسل اور عمل اپنے اندر موجود تضادات کو خود ابھارتے ہیں اور پروسس خود ہرشئے کو آشکار کیئے دیتا ہے۔ ایران میں بلوچوں کا مذہبی شناخت کے حوالے سے جذبات ابھی بہت زیادہ مضبوط ہیں، کیونکہ یہ ایک واضح اور کھلا تضاد ہے، لیکن بلوچ کے سیکیولر فطرت کے سائے کٹر مذہبیت بذات خود ایک تضاد بھی ہے، لیکن وہ ابھی واضح نہیں کیونکہ ایک اور بڑے تضاد کے سائے میں چھپ گیا ہے۔

میں فی الحال ایرانی مقبوضہ بلوچستان میں کسی بلوچ کی عمامے و پگڑی کی پیچوں، شلوار کے پائچے کی اونچائی اور داڑھی و مونچھوں کی تراش و خراش سے یکسر الگ سوچتاہوں، بس سوچتایوں کہ کوئی آہٹ کوئی آواز کوئی جنبش اس خوابِ دیرینہ کی تسلسل کو توڑ کر بلوچ کو بیدار کردے، ایرانی مقبوضہ بلوچستان کے سیاسی و زمینی حقائق کا پاکستانی مقبوضہ بلوچستان کے ساتھ تقابل کرکے دونوں کا ایک ہی جیسا تُلنا کرنے کی فی الحال جسارت مجھ جیسے سیاسی کارکن کو ہرگز نہیں، میں دونوں اطراف کے فدائین کوایک ہی ترازو میں نہیں تول سکتا، مذہبی سخت قدامت پرستی اپنی جگہ لیکن بحیثیت ایک سیاسی کارکن میں سیاسی عمل کی سنجیدگی و بالیدگی کو اسکے سیاسی دورانیئے کے حساب سے تولتا ہوں، تسلسل معنی رکھتا ہے، ایران میں ایک شروعات ہے، نہیں معلوم واقعی شروعات ہے بھی یا نہیں، حاکم بدہن کسی اور کی مفادات کا بندوق بلوچ کے کندھے پہ تو نہیں رکھا جارہا، وقت کے جبر کے سائے میں سب آشکار ہوجاتاہے، لیکن جب تک ہر پہلو واضح نہیں ہوتی تب تک حسن ظن رکھنے میں کیا حرج ہے، میں اس لیئے یہاں اور وہاں پینے پلانے کی حلال و حرام کا یقینا قائل ہوں۔

جیش العدل اگر کل کو اپنی کمزور مگر اظہار کی حد تک بلوچ آزادی کی موقف کو باقاعدگی سےسامنے لائے اور اس میں بلوچ معاشی و معاشرتی اور سیاسی مفادات کی تحفظ کا عہد کرتے ہوئے مذہب کو مذہب ہی تک محدود رکھے، تو پھر یقیناً ان سے یہی التجا ہوگی کہ ایران جیسی وسیع الجثہ عسکری طاقت کے سامنے اپنے قوت کو برقرار رکھنا اہم ہے، لمبے عرصے تک لوگوں کو راہِ کارزار میں رکھ کر لڑانا اہم ہے، انہی لوگوں کو تجربات کی آگ سے گزار کر کندن بنانا اہم ہے، فدائین کا استعمال ماسوائے منزل کے قریب ہونےاور ایک فیصلہ کن جنگ لڑنے تک افرادی قوت کے زیاں کے علاوہ کچھ نہیں، گوریلہ جنگ ہی نجات کا ذریعہ ہے، لیکن بقول ساحر لدھیانوی “مگر یہ ہو نہ سکا اور اب یہ منظر ہے”

اب منظر یہ ہے کہ ایرانی مقبوضہ بلوچستان ایک ابھرتا میدان ہے، جہاں خوابیدہ ذہنوں کی بیداری کے لیئے ہم حال فی الحال تنقید کے گھوڑوں کو لگام دیتے ہیں تاوقتیکہ یہی ایرانی قابض قوتوں کے ساتھ لڑنے والے بلوچ مزید طاقت پاکر اپنی اصل جوہر کے حوالے سے ہمارے سامنے نہ آجائیں، ابھی زیر سطح موجود تضادات کو ابھرنا ہے، ابھی مور و مزار کا فیصلہ کرنا باقی ہے، ابھی تک یہ دیکھنا باقی ہے کہ نحیف و ناتواں کندھوں پر جب عوامی طاقت کا طمطراق آئے تو پھر یہ شانے بلوچ اجتماعیت کے خلاف استعمال ہونگے یا پھر بلوچ اجتماعی مفاد کے سامنے عاجزی و انکساری سے جھک جائیں گے، ” دیکھیے پاتے ہیں عشاق بتوں سے کیا فیض”

لیکن پاکستانی مقبوضہ بلوچستان اس مرحلے کو پار کرچکا ہے، وہاں گولیوں کی گڑگڑاہٹ اور سروں کے بے مقصد زیاں کو یہ کہہ کر جائز قرار دلوانے کی کوشش کرنا کہ بلوچ کو شعور میسر ہوگی، تحریک کی تشہیر ہوگی اور قومی جہد کا پیغام پہنچے گا، تو پاکستانی مقبوضہ بلوچستان کے بلوچ کو محض پیغام کے لیئے کم از کم اب لہو کے مزید چھینٹوں کی ضرورت ہرگز نہیں ہے، اسے ایک بامقصد اور تنقیدی پروسس کی ضرورت ہے جہاں وہ سیاسی و عسکری باریکیوں کو سمجھ سکے، اسکی سراسیمگی کو ختم کرنا ہے۔

اگر حسنِ ظن اور شک کے فائدے کو منہا کرلیں تو ہم شاید یہ کہہ سکتے ہیں کہ آج کی پاکستانی مقبوضہ بلوچستان میں جاری جہدِ آزادی ایک مسلسل تگ و دو، بے شمار قربانیوں، سعی و خطا اور لمبے سفر کی دین ہے، تب جاکے آج کی تصویری خاکے میں رنگ بھرنے کی شعوری سکت قوم کے نوجوان و پیراں سال مرد و خواتین میں پنپ چکی ہے، دوسری طرف ایرانی مقبوضہ بلوچستان بوجوہ ان تمام تحریکی تسلسل اور جہد کی پیچیدگیوں تک گزرنے سے محروم رہی ہے، اس میں بہت سارے عوامل کار فرما ہوسکتے ہیں، جس میں عالمی سازشوں سمیت، معاشی و مالیاتی محرکات و مذہنی و فرقہ وارانہ تفرقات نے نہاہت ہی اہم کردار ادا کیا ہے۔ ہم ایرانی مقبوضہ بلوچستان کے بارے کوئی سیاسی خوش فہمی پالنے اور حسنِ ظن رکھنے کے روادار ہوئے بغیر اور کسی لگی لپٹی کے علاوہ اپنی بات برملا طور پر کہہ دیتے ہیں کہ ایرانی مقبوضہ بلوچستان کی سیاسی و زمینی حقائق سیاسی شعور کے حوالے سے انتہائی کسمپرس حالت میں ہیں، سوائے اس حقیقت کے کہ بلوچستان ایران کے قبضے میں ہے اور ہم بلوچستان کی مٹی کے ایک ذرے و زمین کی ایک اینچ سے دستبردار ہوئے بغیر متحدہ بلوچستان کا دعویٰ کرتے ہیں اور ایرانی مقبوضہ بلوچستان میں ایرانی قبضہ گیر قوتوں کی جبرواستبداد پر ایسے ہی کھل کر بات کرتے ہیں جس طرح ہم پاکستانی قابض کی جابرانہ اقدامات کے خلاف اپنی آواز بلند کرتے ہیں۔

ایرانی مقبوضہ بلوچستان میں دسیوں عوامل کی وجہ سے سیاسی شعور کی حالیہ زبوں حالی ہمارے سامنے ہے اس میں بے شمار عنصر اپنے کردار کے ساتھ شامل ہیں، اس میں شاہ ایران کو عالمی برادری کی ساجھے دار ہونے کے ناطے ماضی میں بلوچ قوم پر مظالم کی کھلی چھوٹ ہونا، ایرانی ریاست کا بحیثیت تاریخی و اداراجاتی سطح پر صدیوں سے موجود ہونا اور ایرانی اداروں کا کسی قوم کو غلام رکھنے یا انکی سیاسی و ثقافتی شعور کوختم یا کمزور کرنےاور انہیں مختلف سیاسی چالبازیوں اور طور طریقوں سے اپنی قومی شناخت سے بیگانہ رکھنے کا بہترین گَر آنا وغیرہ شامل ہوسکتے ہیں، چونکہ ہم بلوچستان کو ایک اکائی اور ایک ہی متحدہ سرزمین مانتے ہیں، لیکن یہ حقیقت بھی اپنی جگہ موجود رہیگی کہ بلوچ دونوں اطراف غلامی کے الگ ادوار، الگ پیمانوں اور الگ سیاسی حقائق کے ساتھ جی رہے ہیں، تو پاکستانی مقبوضہ بلوچستان میں چونکہ غلامی کی پیچیدگیاں ابتدائی دورانیئے میں اس طرح سنگین نہیں تھیں، بلوچ کو سیاسی میدان ملا، ایک تسلسل تھا جو قدرے کمتر جبر و ستم کے سائے میں بہتر انداز میں نشونما حاصل کرسکا، انگریزوں کے ریموٹ کالونی ہونے کے ناطے آج کی پاکستانی مقبوضہ بلوچستان کو یقینا ًایرانی براہ راست مقبوضہ ہونے کے نسبت سیاسی بنیادوں پر تیاری کا بہترین موقع میسر رہا اور نئی تخلیق کی ہوئی پاکستانی ریاستی بند و بست میں ابتدائی دنوں کے اندر اتنی سکت نہ تھی کہ بلوچ کے اوپر سیاسی جبر کو انتہا تک لیجاتا، ادھر بلوچ کو نسبتاً بہتر مواقع ملے، خود کو منظم کرنے یا سیاسی بنیادوں پر اپنی شناخت و پاکستانی غلامی کے خلاف اپنی پیغام کو عام لوگوں تک پہنچانے کے لیئے، سو اسی سیاسی شعور کی بالیدگی کی تسلسل کو برقرار رکھتے ہوئے پاکستانی زیر قبضہ بلوچستان کے اندر موجود سیاسی شعور کی نمی سے ایرانی مقبوضہ بلوچستان کی تشنہ لبی کو سیراب کیا جانا تھا، مشرقی حصے کی سیاسی بیداری کی ثمرات کو بتدریج مغربی حصے کی افتادہ بخاک بلوچوں تک منتقل کرنا تھا، مشرقی حصے کو بطور سیاسی امام کے سامنے آکر پورے بلوچستان کے سیاسی شعور و بیداری کا محور بن جانا تھا۔

لیکن شومئی قسمت وہی بزعمِ خود شعوری حصے کی بلوچستان کو اب خود سیاسی، شعوری اور نظریاتی بیداری کے لالے پڑے ہوئے ہیں، یہ مقبوضہ حصہ شعور کی اس معکوس سفر پر گامزن جہاں لہو ابلتا ہے تو یہ اچھلتا ہے، لہو کی دھار کو مقصدیت کے ساتھ جوڑنے میں یکسر ناکام، اور اب کے دشمن قوتوں کی چیرہ دستیوں اور اپنوں کی فکری کم مائیگی کا ایسا امتزاج ابھر کے سامنے آیا ہے کہ متحدہ بلوچ سرزمین کی کہانی کہیں افق میں غروب ہورہی ہے اور اس پر مذہب و ملائیت، متوسط و سرداریت اور نجانے کتنے اور مہیب سے آسیب منڈلا رہے ہیں، سیاست بازی اور شوق و نمائشی پن اور خالی خولی بھڑک بازیوں نے ماجرا یہاں تک پہنچا دیا ہے کہ مکین اب خود دیوار کو مضبوط سائے سمجھنے کے بجائے دیوار ہی کے لیئےپریشان ہیں، بنیادیں ایسی کھوکھلی ہورہی ہیں لگتا ہے اب گرا کہ تب گرا، یہی حال آج کی بلوچ تحریکی نشیب و فراز کا ہے جو لہو کی فوار اور سروں کی جوبن کے باوجود تہی دامن اور پژمردگی کی راہ پر ہے، بجائے تحریک کو وسعت دیکر ایرنی مقبوضہ بلوچستان تک اسکی اثرات کو منتقل کرتے یار دوست خود سیب کی طرح بجائے نیوٹن کے ایران کے گود میں جاگرے، دوسری طرف جیش العدل کی کارروائیوں پر اپنی سیاسی کوتاہ اندیشی اور فکری سطحیت کو چھپانے کی کوشش کی جارہی ہے اور اپنے لیئے جائز جواز ڈھونڈے جا رہے ہیں۔

ایرانی مقبوضہ بلوچستان کے اندر جیش العدل کے طرز کا اظہاری ابھار نئی بات نہیں ہے، ماضی میں اسی ڈگر پر شہید عبدالمالک ریکی کی تنظیم جنداللہ نے بھی ایران میں کئی عسکری کارروائیوں کا ذمہ اپنے سر لیا، عبدالمالک ریکی کی تنظیم اور آج کے جیش میں کوئی خاص فرق نہیں ہے، لیکن بلوچستان اپنی طول و عرض میں جہاں لاکھوں مربع میل پر پھیلا ہوا ہے تو اس میں ظاہر سی بات ہے ایک نقطہ نظر کے لوگ ہونگے نہیں، اس میں آمریتی طبعیت کے لوگ بھی ہیں، اس میں جمہوریت پسندوں کا گروہ بھی ہے، اس میں ویسٹرن انتظامی سیاسی ڈھانچے کو سراہنے والے بھی ہونگے، اس میں لادین، میانہ رو، کم مذہبی اور کٹر مذہبی لوگ بھی لوگ ہونگے، اس میں اشتمالیت پسند بھی موجود ہوسکتے ہیں اور سرمایہ دارانہ طرز حکومت کے حامیوں سمیت سوشل ڈیموکریٹک طرز زندگی کے ماننے والے بھی ہیں۔

بلوچستان ثقافتی، مذہبی اور سماجی و سیاسی حساب سے ایک تنوع دار معاشرہ ہے جس میں ایک متنوع زندگی ہر معاملے میں ساتھ ساتھ چلتی چلی جاتی ہے، بلوچستان کو شاید اسی تنوع دار معاشرتی طرز زندگی نے کلہاڑی پیروں پر ماری ہے، آبادی زمینی حجم کے تناسب میں بہت کم اور منتشر ہے، سیاسی کارکن ہمیشہ کنفیوژن کا شکار رہا ہے، اس نے ہمیشہ سیاسی ادب باہر کی دنیا سے درآمد کی ہے، بیرونی کامیاب ہوتی قومی آزادی کی تحریکوں سے متاثر ہوکر من و عن تجربے کیئے ہیں، یا کررہے ہیں، کبھی بلوچستان کے زمینی حقائق کو پرکھ کر نہیں دیکھا، نہیں سوچا، اسی لیئے بلوچستان کی تنوع کو سمجھے بغیر سیاسی فضا اتنا کمزور رہا ہےکہ دشمن نے جب اور جہاں چاہا ہےایک طرز فکر کے حامل بلوچ گروہ کو دوسرے سوچ کے حامل بلوچ لشکرکے خلاف استعمال کیا اور لیڈرشپ کی سطح پر مسلط کچھ ناعاقبت اندیشوں نے بھوک، بدحالی، تنگ دستی، ازباب کی کمیابی و قلت اور جد و جہد کی شدت و زمینی حقائق سے گھبرا کر دشمن قوتوں کے لیئے اپنے آپ کو آسان بہت ہی آسان قیمت میں دستیاب کیا، جیسے چاہیں، جہاں چاہیں، جب چاہیں اور جس کے خلاف چاہیں استعمال کریں، لیکن پہلے کی جنداللہ اور اب کی جیش، مذہبی رجحانات رکھنے کے باوجود کبھی بلوچ اجتماعی مفادات کے سامنے دیوار نہیں بنے، آگے کیا ہوگا وہ دیکھنے والی بات ہوگی۔

ایران میں بلوچ کیوں مذہبی ہے، اسکے پیچھے کی حقیقت کو جانے بغیر اسکو سمجھے بغیر ملا کے داڑھی و پائچے ناپنے میں لگے ہوئے سیاسی کارکنوں اور گروہوں کی تشفی کے لیئے عرض کیئے دیتے ہیں کہ میری نظر میں مسقبل کا بلوچستان ایک سیکیولر، فلاحی و جمہوری ریاست کے علاوہ کچھ نہیں ہوگا، لیکن سیکیولر کے مطلب کو بھی بلوچ تناظر میں سمجھنا لازم ہے، جہاں سنی اور زگری دونوں کو یکساں آزادی و مواقع فراہم ہونگے یکساں قانون کے تاتحت ہونا ہوگا، لیکن فی الحال ایرانی مقبوضہ بلوچستان کے اندر مذہبی کارڈ جس طرح لوگوں کو متوجہ کرتی ہے وہ شاید کوئی اور کارڈ یا کوئی اور نعرہ نہ کرسکے، کیونکہ وہاں ایک واضح تضاد سنی و شیعہ کے درمیان موجود ہے، لیکن وہ تضاد پاکستانی مقبوضہ بلوچستان میں نہیں ہے، اس زمینی حقیقت کو سمجھے بغیر یا نظر انداز کرکے ایرانی بلوچوں پر تنقید کرنے والے وہی ہیں جو اپنی سیاسی و عسکری ادب بلوچستان کے زمین سے کہیں دور بہت دور سے درآمد کرکے لائے ہیں، مذہب باہر سے آیا ہو یا اپنی زمین سے وابستہ تاریخی پس منظر رکھتا ہو، مذہب اکثریتی اعتبار سے وقت گزرنے کے ساتھ ثقافتی و رہن سہن کے طور طریقوں میں ڈھل کر انسانی زندگی کا حصہ بن جاتا ہے، یہی چیز ایرانی مقبوضہ بلوچستان میں ہمیں نظر آتی ہے، وہاں سیاسی مزاحمت کی بنیاد قوم پرستی سے زیادہ مذہبی بنیادوں پر اسی لیئے استوار ہوگئی ہے کہ وہاں قابض و مقبوض کے درمیان مذہبی تضاد واضح ترین اور سب بڑی تضاد ہے جو ہر عام و خاص جو نظر آتا ہے، اب خود بلوچ قوم پرستی و کٹر مذہبیت کے درمیان بھی واضح تضاد موجود ہے، بسا اوقات بڑی تضادات کے سائے میں چھوٹے چھوٹے تضادات چھپ جاتے ہیں اور نظر نہیں آتے لیکن شیعہ سنی تضادات و مذہبی و ثقافتی شناخت وہاں بہتر انداز میں لوگوں کو متحرک رکھے ہوئے ہے، ابھی خالص قوم پرست رجحانات کو ایرانی مقبوضہ بلوچستان کے اندر پنپنے اور جڑ پکڑنے مین یقینا ًوقت لگے۔

البتہ ایران پر حملوں کے حوالے سے ہم جیش العدل کی ان اقدامات سے کافی خوش ہیں، مطمئن ہونا تو ابھی بہت دور کی بات ہے، لیکن دیکھنے والی بات یہ ہوگی کہ جیش العدل ان کارروائیوں سے ابھرتی ہوئی بلوچ عوامی جوش اور ملنے والی سیاسی و اخلاقی حمایت و طاقت کو کس طرح استعمال کریگا، ہم بہرحال یہی کوشش کرسکتے ہیں کہ جیش العدل سے اور انکے ماننے والوں یا انکے لیئے اپنے دلوں میں نرم یا امید کا گوشہ رکھنے والے لوگوں سے افہام و تفہیم سے بحث کرتے ہوئے انہیں اس بات پر آمادہ کرسکیں کہ ” سب سے پہلے، سب سے مقدم، سب سے اعلیٰ بلوچ قومی اقدار و خود اختیاری” کا تحفظ ہے باقی سب چیزیں بعد میں آتی ہیں۔

ہم فرعون کی طرح ہر موسیٰ کو محض اس ڈر کی بنیاد پر سمندر برد نہیں کرسکتے کہ آگے چل کر دشمن بن جائیگا، ہم بلوچستان کی تنوع دار سیاسی معاشرت اور طرز زندگی کو سامنے رکھتے ہوئے اپنی موقف سے سرمو انحراف کیئے بغیر چاہتے ہیں کہ بلوچستان میں موجود تمام قوتیں پاکستانی و ایرانی قبضہ گیروں کے خلاف ایک موثر حکمت عملی کے تحت متحدہ جد و جہد کی نوید لے کر سامنے آجائیں، جہاں جمہوریت، انسانی حقوق اور بلوچوں کی فلاح و شخصی آزادیوں کی بنیادی پر تمام قوتیں اکھٹی ہوں، ناں مجھے کسی کے پائنچوں کی بلندی سے غرض ہو ناکہ کسی کی داڑھی کی لمبائی ناپنے کی ضرورت ہو، بدقسمی سے فی الحال ایسا کچھ بھی نہیں ہے، ناں جیش العدل پر میرا بس چلتا ہے، ناں وہ کسی سیاسی پروسس سے پنپنے والا کوئی پس منظر رکھتا ہے، ناں ہی جہاں سے میرا تعلق ہے وہاں سے کبھی جیش العدل کے حوالے سے کوئی اتحاد، ساجھے داری و ہمکاری کی کوئی شائبہ مجھ تک پہنچا ہے، دونوں طرف بلوچ ہونے کے ناطے ہم البتہ یہ امید ضرور رکھتے ہیں کہ باہمی گفت و شنید میں جیش العدل بلوچستان کے مفادات کو باقی دیگر فروعی و گروہی مفادات سے مقدم جان کر ترجیح ضرور دیں گے۔