تحریر: مارک شیا
*ہمگام آرٹیکل*
دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکہ بلاشبہ دنیا کی سب سے بڑی اقتصادی طاقت تھا اور اس کا خیال تھا کہ اس کی فوج بھی اسی طرح سب سے طاقتور ہے۔
مگر آٹھ سال کی جنگ میں بے شمار فوجیوں اور وسیع تر وسائل جھونکنے کے بعد بھی امریکہ کو شمالی ویتنام کی افواج اور ان کے گوریلا اتحادیوں، ویت کاننگ کے ہاتھوں شکست ہوئی۔
امریکی لڑاکا دستوں کے حتمی انخلا کی 50 ویں سالگرہ (29 مارچ 1973) پر ہم نے چند ماہرین سے بات کرکے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ امریکہ ویتنام کی جنگ کیسے ہارا۔
یہ سرد جنگ کا عروج تھا، اور کمیونسٹ اور سرمایہ دار عالمی طاقتیں ایک دوسرے کے خلاف آمنے سامنے تھیں۔
دوسری جنگ عظیم سے دیوالیہ ہونے والے فرانس نے انڈوچائنا میں اپنی کالونی کو برقرار رکھنے کی کوشش کی مگر ناکام ہو گیا، اور ایک امن کانفرنس کے نتیجے میں آج کا ویتنام، شمال کی جانب کمیونسٹ اور جنوب میں امریکی حمایت یافتہ ریاست میں تقسیم کر دیا گیا۔
لیکن فرانسیسیوں کی شکست سے اس ملک میں تنازعہ ختم نہیں ہوا اور اس خوف کے باعث کہ اگر تمام ویتنام کمیونسٹ ہو گیا تو آس پاس کے ممالک بھی تباہ ہو جائیں گے، امریکہ ایک ایسی جنگ میں کود پڑا جو ایک دہائی تک جاری رہی اور اس میں لاکھوں جانیں ضائع ہوئیں۔
تو پھر دنیا کی سب سے بڑی فوجی طاقت کس طرح غریب جنوب مشرقی ایشیا میں ایک نئی تشکیل شدہ ریاست کے باغیوں سے جنگ ہار گئی؟
اس جنگ پر بےحساب لاگت آئی- 2008 میں امریکی کانگریس کی ایک رپورٹ کے مطابق جنگ پر کل اخراجات 686 بلین ڈالر (آج کے حساب سے 950 بلین ڈالر سے زیادہ) تھے۔
لیکن امریکہ نے دوسری جنگ عظیم میں اسے چار گنا سے زیادہ خرچ کیا اور کامیاب بھی ہوا، اور کوریا میں طویل فاصلے کی جنگ لڑی تھی، اس لیے امریکہ کے پاس اعتماد کی کوئی کمی نہیں تھی۔
برطانیہ کی سینٹ اینڈریوز یونیورسٹی میں امریکی خارجہ اور دفاعی پالیسی کے ماہر ڈاکٹر لیوک مڈپ کا کہنا ہے کہ جنگ کے ابتدائی سالوں میں جیت کے حوالے سے مثبت سوچ پائی جاتی تھی۔
انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’امریکہ بہت سارے مسائل سے بخوبی واقف تھا، اس بارے میں بہت سارے شکوک و شبہات تھے کہ آیا امریکی فوج ویتنام کے ماحول میں جنگ لڑ سکتی ہے یا نہیں اور پھر بھی، 1968 تک امریکی حکومت کو یقین رہا کہ وہ آخر کار جیت جائے گی۔‘
تاہم یہ یقین جلد ہی ختم ہو گیا۔۔ خاص طور پر جنوری 1968 میں کمیونسٹوں کی جارحانہ کارروائیوں کے نتیجے میں جنگ کی فنڈنگ کے لیے امریکی کانگریس کی حمایت کم ہوتی گئی اور بلآخر 1973 میں امریکہ ویتنام سے اپنے لڑاکا فوجیوں کے انخلا پر مجبور ہو گیا۔
تاہم ڈاکٹر مِڈپ سوال کرتے ہیں کہ کیا امریکی جنگی دستوں کو ویتنام میں جانا بھی چاہیے تھا یا نہیں؟ ایک اور ماہرِ تعلیم، ڈاکٹر نگوین ہوانگ آن، جو یونیورسٹی لیکچرر ہونے کے ساتھ ساتھ ہنوئی میں فیس بک پر بہت معروف ہیں، وہ بھی یہی سوال کرتی ہیں۔
وہ جنگ کے دوران شمالی ویتنام میں پلی بڑھیں اور شہری علاقوں پر امریکی بمباری ہوتے دیکھی، وہ کہتی ہیں کہ ویتنام میں امریکی فوجیوں کا کوئی کام نہیں تھا۔
وہ کہتی ہیں ’میری رائے میں، امریکیوں نے شمالی ویتنام کی حکومت کے لیے بہت اچھا کام کیا اور جب تک وہ جیت رہے تھے، ان کے تمام اقدامات اور غلطیوں کو جنگ سے جوڑتے ہوئے انھیں معاف کر دیا گیا تھا۔‘
ہالی ووڈ کی کئی فلموں میں اکثر نوجوان امریکی فوجیوں کو جنگل کے ماحول سے نمٹنے کے لیے جدوجہد کرتے دکھایا گیا ہے، جب کہ ویت کانگریس کے باغی بڑی مہارت کے ساتھ گھنے جنگلوں میں رہتے ہیں اور وہاں سہ نکل کر اچانک حملہ کر تے ہیں۔
ڈاکٹر مڈپ نے اعتراف کیا کہ ’کسی بھی بڑی فوج کو ایسے ماحول میں لڑنے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑے گا جس میں امریکیوں کو لڑنے کے لیے کہا جا رہا تھا۔‘
’یہاں کے کچھ حصے جنوب مشرقی ایشیا کے گھنے ترین جنگلات میں سے ایک ہیں۔‘
لیکن وہ کہتے ہیں، دونوں فریقوں کی قابلیت میں فرق بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا سکتا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ جنگ کے دوران کہا گیا کہ امریکی فوج اس ماحول سے نمٹ نہیں سکتی جبکہ شمالی ویتنامی اور ویت کانگ اس کے عادی ہیں، وہ کہتے ہیں کہ یہ سچ نہیں ہے۔
’شمالی ویتنامی فوج اور ویت کانگ کے لیے بھی اس ماحول میں بھی لڑنا آسان نہیں تھا اور انھیں بہت جدوجہد کرنا پڑی۔‘
ڈاکٹر مڈپ کے مطابق یہ بات زیادہ اہم ہے کہ ہمیشہ باغیوں نے جنگ کے وقت اور مقام کا انتخاب کیا، اور وہ لاؤس اور کمبوڈیا میں سرحد کے اس پار محفوظ پناہ گاہوں میں پیچھے ہٹنے میں کامیاب ہوئے جہاں امریکی افواج کے لیے تعاقب ممکن نہیں تھا۔
امریکہ کی اوریگون یونیورسٹی کے شعبہ سیاسیات کے سربراہ پروفیسر ٹونگ وو نے بی بی سی کو بتایا کہ امریکہ کی توجہ ویت کانگ گوریلوں سے لڑنے پر مرکوز تھی جس کی وجہ سے شکست ہوئی۔
انہوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’جنوب سے اٹھنے والی شورش کبھی بھی سائگون کو شکست نہیں دے سکتی تھی لیکن اس سٹریٹجک غلطی نے شمالی ویتنامی فوج کے دستوں کو جنوب میں داخل ہونے کی اجازت دی اور یہ دراندازی کرنے والی فوجیں ہی تھیں جو جنگ جیت گئیں۔‘
اس تنازعہ کو اکثر طپہلی ٹیلی ویژن جنگ‘ کہا جاتا ہے اور جس حد تک اس کی میڈیا کوریج ہوئی وہ بے مثال تھی۔
1966 تک کے یو ایس نیشنل آرکائیوز کے تخمینے کے مطابق 93 فیصد امریکی خاندانوں کے پاس ٹی وی سیٹ تھے اور جوفوٹیج وہ دیکھ رہے تھے وہ پچھلے تنازعات کے مقابلے میں کم سنسر شدہ اور جلدی نشر کی جا رہی تھی۔
یہی وجہ ہے کہ ٹیٹ حملے کے دوران سائگون میں امریکی سفارت خانے کے احاطے کے ارد گرد لڑائی بہت شدید تھی۔ سامعین نے حقیقی وقت میں دیکھا کہ ویت کانگ اس تنازعہ کو جنوبی حکومت اور امریکی عوام کے بیڈ رومز تک پہنچانے میں کامیاب ہے۔
1968 کے بعد سے، کوریج بڑی حد تک جنگ کے لیے ناموافق تھی۔۔۔ معصوم شہریوں کے مارے جانے، معذور ہونے اور تشدد کا نشانہ بننے کی تصاویر ٹی وی اور اخبارات میں دکھائی گئیں اور بہت سے امریکی خوفزدہ ہو کر جنگ کے خلاف ہو گئے۔
ملک بھر میں ایک بہت بڑی احتجاجی تحریک نے جنم لیا۔
4 مئی 1970 کو ایسے ہی ایک مظاہرے میں، اوہائیو کی کینٹ سٹیٹ یونیورسٹی میں چار پرامن طلبا مظاہرین کو نیشنل گارڈز کے اہلکاروں نے گولی مار کر ہلاک کر دیا۔
’کینٹ سٹیٹ قتل عام‘ نے مزید لوگوں کو جنگ کے خلاف کردیا۔
آنے والے تابوتوں کی تصاویر نے عوام پر تباہ کن اثر ڈالا۔ اس جنگ میں تقریباً 58,000 امریکی فوجی ہلاک یا لاپتہ ہو گئے۔
پروفیسر وو کے مطابق اس میں شمال کے لیے ایک بڑا فائدہ تھا: اگرچہ ان کے نقصانات کہیں زیادہ تھے، ان کی مطلق العنان ریاست کا میڈیا پر مکمل کنٹرول اور معلومات پر اجارہ داری تھی۔
’امریکہ اور جنوبی ویتنام کے پاس رائے عامہ کو اس حد تک تشکیل دینے کی صلاحیت اور خواہش نہیں تھی جس حد تک کمیونسٹ کر سکتے تھے۔ ان کے پاس بڑے پیمانے پر پروپیگنڈہ کا نظام تھا۔ انھوں نے سرحد بند کر دی اور اختلاف رائے کو دبایا۔ جو بھی جنگ سے اختلاف کرتا تھا اسے جیل بھیج دیا جاتا تھا۔‘
شمال سے تعلق رکھنے والے پروفیسر نگوین بھی متفق ہیں: ’امریکہ میڈیا کی جنگ ہار گیا۔ شمالی ویتنام دنیا سے بالکل الگ تھلگ تھا، اس لیے اس کی حکومت کی غلطیاں ظاہر نہیں ہوئیں، دنیا نے انھیں صرف صالحین کے طور پر دیکھا۔ لیکن امریکہ کے مظالم کی تصویریں ہر طرف پھیل گئیں۔‘
ہ ایک غیر معمولی تنازعہ تھا جس میں لوگوں نے دیکھا کہ امریکہ نے بہت سے خوفناک ہتھیاروں کا استعمال کیا۔
نیپلم (ایک پیٹرو کیمیکل آتش گیر میں جو 2700C پر جلتا ہے اور جس چیز کو چھوتا ہے اس سے چمٹ جاتا ہے) اور ایجنٹ اورنج (ایک اور کیمیکل جو جنگل میں دشمن کے کوور کو ختم کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے لیکن جس سے فصلیں بھی تباہ ہو گئیں اور لوگ فاقہ کشی پر مجبور ہوئے) کے استعمال نے دیہی آبادیوں میں امریکہ کا تاثر بہت خراب کیا۔
’تلاش اور تباہ‘ کے مشن میں لاتعداد بے گناہ شہریوں کا قتل عام ہوا۔ ویتنام جنگ کے سب سے بدنام واقعہ ’ 1968 کے مائی لائی قتل عام‘ میں امریکی فوجیوں نے کئی سو ویتنامی شہریوں کو قتل کیا۔
شہریوں کی ہلاکتوں نے ایک مقامی آبادی کو امریکہ مخالف کر دیا، خیال کیا جاتا ہے کہ یہ آبادی ویت کاننگ کی حمایت کے لیے مائل نہیں تھی۔
ڈاکٹر مڈپ کا کہنا ہے کہ’ایسا نہیں ہے کہ جنوبی ویتنام کے لوگوں کی اکثریت کمیونسٹ تھی – زیادہ تر لوگ صرف اپنی زندگی میں آگے بڑھنا اور ہاں تک ممکن ہو اس جنگ سے بچنا چاہتے تھے۔‘
پروفیسر وو اس بات سے متفق ہیں کہ امریکہ نے دل و دماغ جیتنے کے لیے جدوجہد کی۔
وہ کہتے ہیں ’غیر ملکی فوج کے لیے لوگوں کو خوش کرنا ہمیشہ مشکل ہوتا ہے۔‘
ڈاکٹر گوئین کا کہنا ہے کہ ’یہ صرف شمالی نہیں بلکہ جنوبی بھی امریکہ مخالف تھے۔ جنوب میں امریکی ایجنسیوں میں کام کرنے والوں خصوصاً خواتین کے ساتھ بہت امتیازی سلوک کیا جاتا تھا۔‘
حقیقت یہ ہے کہ امریکی ویتنام میں تعینات تھے اور جنوبی ویتنام کی فوج کی کمانڈ ان کے ہاتھ میں تھی، اسی وجہ سے تمام ویتنامی امریکہ سے نفرت کرنے اور ان پر عدم اعتماد کرنے لگے۔