سه شنبه, اکتوبر 15, 2024
Homeآرٹیکلزوینزویلا کرائسز ، تحریر: سعید بلوچ

وینزویلا کرائسز ، تحریر: سعید بلوچ

وینزویلا کرائسز

تحریر: سعید بلوچ

ہمگام : اردو کالم

 

وینزویلا جنوبی امریکہ میں واقع ہے جس کی سرحدیں کولمبیا، گیانا اور برازیل سے ملتی ہیں۔ وینزویلا رقبے کے لحاز سے دنیا میں 33ویں بڑی ملک ہے جو کولمبیا، گیانا اور برازیل کے درمیان 912050 مربع کلومیٹر میں پیھلی ہوئی ہے۔ وینزویلا کے دارلحکومت کراکس ہے اور نظام حکومت صدارتی ہے۔ وینزویلا میں آفیشل زبان ہسپانوی ہے۔اقوام متحدہ کے شماریات کے مطابق 2012 میں وینزویلا کی کل آبادی 29954782 تھی۔ اسپین نے 1522 میں وینزویلا پر قبضہ کیا۔ ہسپانوی قبضے سے پہلے یہاں کے لوگ چھوٹی چھوٹی گروہوں میں رہ کر زیادہ تر فصلات اور شکار پر اپنا گزر بسر کرتے تھے اور سکون و سادگی کے ساتھ زندگی گزارتے تھے۔ ہسپانوی سلطنت نے ان لوگوں کی زمینوں پر قبضہ جما کر ان کی زندگیوں کو اجیرن بنا دیا، ان کو اپنا غلام بناکر ان کے ساحل وساحل کو خوب لوٹا۔ وینزویلا کے مقامی لوگوں نے ہسپانوی قبضے کے خلاف مزاحمت کرتے ہوئے طویل عرصے کے بعد اپنی آزادی واپس حاصل کرلی۔

وینزویلا ہسپانوی امریکی نوآبادیاتی علاقوں میں سے پہلی ریاست تھی جس نے 1811 میں اپنی آزادی کا اعلان کرلیا۔ لیکن وینزویلا اپنی مکمل آزادی تب حاصل کرتا ہے جب وینزویلا جہموریہ گرین کولمبیا میں شامل تھا جس نے 1850 میں ایک الگ ریاست کے طور پر اپنی مکمل آزادی حاصل کرلی تھی۔ آزادی حاصل کرنے کے بعد وینزویلا کئی سیاسی و سماجی نشیب و فراز میں گزرتے گئے۔ انیسویں صدی کے دوران وینزویلا سیاسی بحران کا شکار ہوگیا، ایک سخت حالات نے پوری ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ وینزویلا نے کبھی آمریت کا مزہ چکا تو کبھی جہموریت کا۔ 1945 میں Ei Trienio نے صدر Medina angarita Adeco کے مقابلے میں اقتدار حاصل کرلی۔ جس نے بعد میں 1949 میں عوامی انتخابات کا انعقاد کیا اور انتخابات میں برتری حاصل کرلی۔ لیکن کچھ وقت بعد فوجی بغاوت نے ان کا تختہ الٹ دیا اور اسی طرح وینزویلا نے دس سال تک آمریت کا مزہ چکا۔

وینزویلا نے اپنی سیاسی سفر میں کئی نشیب و فراز دیکھے کئی سماجی مسائل کا سامنا کیا۔ ایک بحران کے بعد دوسرے بحران ان کے گردن پر آ کر طوق لعنت بن گئی۔ حال ہی میں ایک نئی مسئلے نے وینزویلا کو اپنے آغوش میں لے لیا جس کو بین الاقوامی میڈیا نے وینزویلا کرائسز کا نام دیا ہے۔ جی ہاں وینزویلا کی بحران نے پوری ملک کو اپنے لپیٹ میں لے کر ملکی نظام کو درہم برہم کردی ہے۔ لوگوں کی حالات دن بہ دن بدتر ہوتی جارہی ہیں۔ چیزوں کی دام آسمان کو چو گئی ہے۔ آلودگی پورے ملک کو گیر چکی ہے۔ دیرے ، دیرے مسائل بڑھتے جارہے ہیں، روز مرہ زندگی کے مشکلات میں اضافہ ہورہی ہے ایک رپورٹ کے مطابق اب تک دس لاکھ لوگ وینزویلا سے ہجرت کرکے دوسرے ممالک میں جا کر بسنے کو مجبور ہوگئے ہیں۔

اب سوال یہ ہے کہ ان مسائل کے پیچھے کیا وجوہات ہیں؟ یہاں پر ہمارے لیے یہ جانا از حد ضروری ہے کہ وینزویلا لاطینی امریکہ کے ممالک میں سے ایک امیرترین ملک ہے۔ وینزویلا دنیا میں سب بڑی آئل برآمد کرنے والے ممالک میں سے ایک ہے۔ لیکن اس کے باوجود وینزویلا میں یہ معاشی و سیاسی بحران آخر کیوں؟ یہاں پر ہمیں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ وینزویلا میں آئل کو extract کرنا کافی حد تک مشکل ہے جیسے سعودی عرب اور دوسرے ممالک میں اسے آسانی سے نکالا جاتا ہے۔ مگر یہاں پر آئل کو extract کرنے کے لیے کروڑوں کے ڈالر خرچ ہوتے ہیں۔ اس لیے جب آئل کے قیمت میں کمی آتی ہے تو یہ وینزویلا کے پوری معشیت پر اثر انداز ہوتی ہے۔ حال ہی میں بین الااقوامی مارکیٹ میں آئل کے قیمتوں میں کمی آگئی اور مارکٹ میں جو آئل کی قیمت ہے وہ وینزویلا کی معاشی نظام کو چلانے میں پوری نہیں ہورہی ہے۔کیونکہ وینزویلا کی معیشت مکمل طور پر آئل کی برآمد پر منحصر ہے اس لیے جب بین الاقوامی مارکیٹ میں آئل کی قیمتوں میں اونچ نیچ آتی ہے تو یہ براہ راست وینزویلا کی معیشت پر اثرانداز ہوتی ہے۔

وینزویلا میں معاشی حالات کے خرابی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ یہاں پر پرائیویٹ کمپنیوں کی فقدان ہے ۔ وینزویلا میں صرف ایک بڑی سرکاری کمپنی ہے جسے PDVAS کہا جاتا ہے۔ پوری ملک کی معشیت اسی کمپنی کے دارومدار پر گھومتی ہے۔ جب آئل کے قیمتوں میں کمی آتی ہے تو Pdvas نقصان میں چلی جاتی ہے۔ جب یہ کمپنی نقصان میں چلی جاتی ہے تو یہ اپنی مزدوروں کو تنخوائیں نہیں دے سکتا۔ چونکہ وینزویلا کی بیشتر آبادی اسی کمپنی پر انحصار کرتی ہے صاف ظاہر ہے جب pdvas خسارے میں چلی جاتی ہے تو اس کے اثرات پوری ملک کے معیشت پر مرتب ہوتے ہیں۔ اس وقت وینزویلا کے بحران کی یہی دو ہم وجوہات ہیں۔ اس بحران کو قابو میں لانا خاصا مشکل کام ہے کیونکہ وینزویلا میں آئل نکالنے کے لیے کروڑوں ڈالر خرچ ہوتے ہیں جب pdvas اپنے ورکرز کو تنخوائیں دینے کا اہل نہ ہو تو آئل extract کرنے کے لیے اتنے سارے پیسے کہاں سے لائے؟ وینزویلا کے موجودہ صدر نکولاس مادورو کے لیے یہ سخت امتحان کی ایک گھڑی ہے کہ وہ کس طرح ملک کو اس بحران سے نکالنے میں کامیاب ہوگی۔ اور دوسری جانب پورے ملک میں نکولاس مادورو کے خلاف مظاہرے ہورہے ہیں۔ اس احتجاج و مظاہروں کے نتیجے سے اب تک کئی لوگ جان بحق و زخمی ہو گئے ہیں۔ کیونکہ عوام اس کسمپرسی اور بحران کا زمہ دار نکولاس مادوروں کو ٹہھراتی ہے۔ دوسری جانب اپوزیش لیڈر گوائڈو حکومت کے خلاف ان مظاہروں کی قیادت کررہی ہے جو دن بہ دن عوام کو حکومت کے خلاف مائل کرنے میں کامیاب ہوتا جارہا ہے ۔ جس نے حال ہی میں عوام کے سامنے اپنے آپ کو ملک کا نیا صدر بھی ڈکلیئر کرلیا۔

نکولاس مادورو کے لیے مشکلات میں تب اضافہ ہوا جب امریکی صدر ٹرمپ نے باقاعدہ گوائڈو کی حمایت کا اعلان کردیا۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے بیان میں کہا کہ “امریکی حکومت اب نکولاس مادورو کو وینزویلا کا قانونی صدر تسلیم نہیں کریگی بلکہ اب اپوزیشن لیڈر گوائڈو کو اب وینزویلا کا صدر مانا جائے گا۔” یہاں پر ایک بات کھل کر واضع ہوجاتی ہے کہ امریکہ وینزویلا میں واضح طور سے تختہ پلٹنے کے چکر میں ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ امریکہ کیوں وینزویلا میں تختہ پلٹانا چاہے گی؟ اس کی دو وجوہات ہیں ۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے جو میڈیا میں کھلے عام طور پر اس کے متعلق بحث ہورہی ہے۔ یعنی امریکہ کا کہنا ہے وینزیلا کے حالات بے قابو ہوچکے ہیں، وہاں پر لوگ کسمپرسی کے حالات میں زندگی بسر کرنے میں مجبور ہیں، بے روزگاری دن بہ دن بڑھتی جارہی ہے، حالات دن بہ دن خراب تر ہوتے جارہے ہیں، جس کے نتیجے میں پورے خطے پر بدامنی پھیل رہی ہے اور اس کا زمہ دار نکولاس مادورو ہے لہذا اب اس کو اقتدار سے اٹھا دی جائے، اور اس کے جگہ اپوزیش لیڈر گوائڈو کو اقتدار دی جائے۔ یہ بھی انکشاف ہوئی ہے کہ امریکہ اپوزیش لیڈر گوائڈو کو کروڑوں ڈالر کا امداد دے رہی ہے ۔

امریکی مداخلت کے ردعمل میں نکولاس نے اپنے ایک مزمتی بیان میں کہا کہ ہمارے ڈومیسٹک معاملے میں امریکہ کی مداخلت قابل قبول نہیں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ امریکہ وینزویلا کی بربادی کے درپے ہے ۔ نکولاس نے وینزویلا میں تمام امریکی سفارتکاروں کو ملک چھوڑنے کے لیے چھوبیس گھنٹوں کی الٹی میٹم دی ہے۔ اور امریکہ میں اپنے تمام سفارتکاروں کو ملک واپس آنے کا حکم بھی جاری کی ہے۔

اگر وینزویلا میں امریکی مداخلت پر بغور جائزہ لی جائے تو وینزویلا میں امریکی مداخلت کی ایک الگ وجہ کھل کر واضع ہوجاتی ہے جسے کے متعلق میڈیا پر بہت ہی کم بحث کی جارہی ہے اور وہ وجہ ہے روس اور چین۔ کیونکہ وینزویلا کی موجودہ سوشلسٹ صدر روس اور چین کے ساتھ اپنے تعلقات کو مضبوط بنانے کا خواں ہے اور یہ امریکہ کے لیے قابل قبول نہیں ہے۔ جب وینزویلا معاشی بحران میں جھکڑ گیا تو روس نے اس موقع سے فائدہ اٹھا کر وینزویلا میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کرنا شروع کی، ماسکو ٹائم کے مطابق روس نے وینزویلا میں چھ بیلین ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہیں۔ جس کے بعد یہ رپورٹ بھی منظر عام پر آگئی کہ روس وینزویلا میں ایک ملٹری بیس بھی بنانا چاہتا ہے چونکہ وینزویلا امریکہ کے نزدیک واقع ہے اس لیے اگر روس یہاں پر ملٹری بیس بنانے میں کامیاب ہوگیا تو اس کے نتیجے سے امریکہ کافی حدتک دباؤ میں رہے گا۔ اسی طرح چین بھی وینزویلا میں اربوں ڈالر کے سرمایہ لگانے کی خواں ہے ۔ دراصل روس اور چین وینزویلا میں سرمایہ کاری کے توسط سے وینزویلا کو بحران سے نکالنا چاہتے ہیں۔کیونکہ اگر وینزویلا اس بحران سے نکلنے میں کامیاب ہوگیا تو اس کا مطلب نکولاس کا بحیثیت صدر پوزیشن مضبوط ہوگی۔ جب نکولاس کی پوزیشن مستحکم ہوگی تو روس اور چین باآسانی اس خطے میں امریکہ کے لیے درد سر بن جائیں گے۔ اس لیے روس نے وینزویلا میں امریکی مداخلت کی مذمت کرتے ہوئے کہا اگر امریکہ وینزویلا میں تختہ پلٹنے کی کوشش کرے گا تو اس کے منفی اثرات پورے خطے میں مرتب ہونگے، روس نے یہاں تک بھی کہا کہ اگر امریکہ نے وینزویلا میں فوجی طاقت کا استعمال کیا تو اس کے ردعمل میں روس بھی بھی فوجی طاقت استعمال کرنے سے گریز نہیں کریگی۔

اب یہاں ایک بات طے ہے اگر روس اور امریکہ وینزویلا میں فوجی تصادم تک گئے تو یہ نہ صرف وینزویلا کے لیے بلکہ پورے براعظم کے لیے ایک آفت سے کم نہیں ہوگی۔

یہ بھی پڑھیں

فیچرز