کوئٹہ (ہمگام نیوز) بلوچ جبری لاپتہ افراد و شہداء کیلئے قائم وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے کیمپ کو 5202 دن ہوگئے۔

بی ایس او کے سابقہ چیئرمین زبیر بلوچ موجودہ سینئر وائس اور دیر اراکین نے کیمپ میں آخر لواحقین سے اظہار یکجہتی کی ۔

اس موقع پر وی بی ایم پی کے چیرمین ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ بلوچستان میں قبضہ گیر اسٹیبلشمنٹ اپنے غیر آئینی اور غیر قانونی قبضہ کو طول دینے کے لیئے تشدد کے ذریعے بلوچ قومی جدجہد کو ختم کرنے کے لئے غیر انسانی حرکات پر عمل پیرا ہے تشدد کرو مارو پھینک دو کی پالیسی کے تحت 2001 سے اب تک ہر مکتبہ فکر کے بلوچوں کی مسخ شدہ لاشیں ملی ہیں۔ اور 65000 ہزار سے زاہد بلوچوں کو جبری لاپتہ کیا گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ بلوچ گھروں پر ریاستی فورسز ایف سی خفیہ ادارے سی ٹی ڈی کی یلغار معمول کی بات ہے فصلوں کو جلانا اور مال مویشیوں کی لوٹ مار کا کوئی حساب کتاب نہیں ہے بلوچ دانشوروں کی ٹارگٹ کلنگ کی جا رہی ہے۔ بلوچ خواتین بھی ریاستی زندانوں میں اذیتیں سہہ رہی ہیں اور بعض ریاستی فورسز کے ہاتھوں شہید ہوئے ہیں۔ بچے بھی ریاستی درندگی سے نہیں بچھ پائے۔ اگر ایک وکیل یا ٹیچر اپنے مقدص پیشے کے بجائے مخبری پر اتر اتا ہے تو اسے ذندہ رہنے کا کوئی حق نہیں۔ اگر کوئی کسی بھی شکل میں اپکے علاقے میں آتا ہے انفارمیشن یکجا کرتا ہے نوجوانوں کو اغوا کرواتا ہے تو اس کے درپردہ کاموں کو دیکھیں۔ ظاہری کو نہیں مسخ شدہ لاشوں کے پیچھے ان ہی لوگوں کا ہاتھ ہے۔ انہیں سزا دینا قوم کی بھلائی ہے جب اپکا اپنا بھائی خفیہ اداروں کے ہاتھوں اغوا کرواتا ہے تو انہیں پھول کا ہار پہنائیں۔ وکیل استاد انسانیت کا علمبردار ہونے کے بجائے چنگیزیت کا کردار ادا کر رہے ہوں اور وہ درپردہ قاتل کا رول ادا کر رہے ہیں تو کیا انہیں معاف کیا جائے کیا قاتل کو مارنا گناہ ہے مخبر کا تعلق کسی بھی پیشے سے ہو یا کسی بھی قوم سے ہو جو مخبری کرتا ہے اسے زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں ہے جو کسی کا بھی بھائی بیٹا یا باپ ہی کیوں نہ ہو۔