کوئٹہ (ہمگام نیوز) بلوچ نیشنل موومنٹ کے انسانی حقوق کے ادارے ’ پانک ‘ نے اپنی مارچ 2023 کی رپورٹ ’بلوچستان میں مکمل مارشل لا کی صورتحال‘ کے عنوان سے پیش کیا ہے۔
اس رپورٹ کے مطابق مارچ 2023 میں پاکستانی فوج نے 7 افراد کو قتل کیا۔ بلوچستان کے ضلع آواران کے علاقے کولواہ کے رہائشی چرواہا اللہ داد اور ضلع خاران کے رہائشی صلاح الدین سیاپاد کو دوران حراست بدترین تشدد کیا گیا۔ تشدد کے بعد دونوں کو بغیر ضروری اور ہنگامی طبی امداد فراہم کیے رہا کیا گیا جس سے دونوں متاثرہ افراد پاکستانی فوج کے تشدد سے شدید زخمی ہونے کی وجہ سے فوت کر گئے۔
پانک کی رپورٹ کے مطابق بلوچستان میں جبری گمشدگیاں انسانی حقوق کے سب سے بڑے مسئلے کے طور پر نمایاں ہونے کے باوجود بلوچستان میں یہ پاکستانی فوج کا روزمرہ کا معمول بن چکا ہے کہ وہ لوگوں کو ماورائے آئین و قانون گرفتاری کے بعد جبری لاپتہ کرتی ہے۔مارچ 2023 میں 58 افراد کو جبری لاپتہ کیا گیا اور ہزاروں جبری لاپتہ افراد میں سے صرف 31 افراد پاکستانی فوج کے عقوبت خانوں سے رہا کیے گئے جنھیں قید کے دوران ذہنی اور جسمانی اذیت دی گئی۔ پاکستانی فوج نے نا ہی انھیں کسی عدالت میں پیش کیا ہے ، نا ہی ان پر لگائے جانے والے الزامات کی وضاحت کی گئی ہے اور نا ہی ان کی گرفتاری کی وجہ بیان کی گئی ہے۔
رپورٹ میں بلوچستان میں میڈیا بلیک آؤٹ ، غیر اعلانیہ مارشل لا ، جبری گمشدگیاں ، ماورائے عدالت قتل اور پولیس کے کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو اجاگر کیا گیا ہے۔
پانک کی رپورٹ کے مطابق بلوچستان میں میجر آصف غفور کی بطور کور کمانڈر تعیناتی کے بعد انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں اضافہ ہوا ہے۔بلوچستان میں بطور کور کمانڈر میجر آصف غفور کی تعیناتی سے بلوچستان میں پر امن میں سیاسی سرگرمیوں پر بھی پابندی عائد کی گئی، تمام عوامی ادارے مفلوج ہوچکے ہیں اور میجر آصف غفور ایک کالونیل وائسرائے کی طرح بلوچستان کے تمام اداروں کو براہ راست احکامات جاری کر رہا ہے۔محکمہ تعلیم ، صحت اور عدلیہ جیسے ادارے بھی فوجی مداخلت سے محفوظ نہیں رہے۔فوجی حکام اعلی تعلیمی اداروں کے تعلیمی تقریبات سمیت تمام امور میں مداخلت کر رہے ہیں۔ بلوچستان یونیورسٹی کے بیشتر رقبے پر پاکستانی فوج کا قبضہ ہے اور عمارت میں ایف سی رہائش پذیر ہے۔ بلوچستان یونیورسٹی کے وائس چانسلر کی سرکاری رہائش گاہ میں بھی پاکستانی فوج کے ایک ونگ کمانڈر کی رہائش ہے۔ بلوچستان یونیورسٹی میں رہائش پذیر ایف سی کی طرف سے مصرف کیے جانے والے بجلی اور گیس کے ماہانہ لاکھوں روپے کے بلز بھی بلوچستان یونیورسٹی کی طرف سے ادا کیے جاتے ہیں جو پہلے سے ہی شدید مالی بحران کا شکار ہے۔
’’میڈیا بلیک ہول میں قید اور دنیا کی نظروں سے پوشیدہ بلوچستان دنیا کے ایک ایسے خطے میں تبدیل ہوچکا ہے جہاں انسانی حقوق کی پامالیاں عروج پر ہیں ۔انسانی بحران سے دوچار بلوچستان کی صورتحال کے ایک دن کے جائزے سے بھی یہاں انسانی حقوق کی سنگین صورتحال کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔مارچ 2023 میں انسانی حقوق کی صورتحال کا جائزہ یہ بتاتا ہے کہ بلوچستان میں ہر گزرتے دن کے ساتھ انسانی حقوق کی پامالیوں میں اضافہ ہو رہا ہے اور پاکستانی فوج بلوچستان کے عوام کی سیاسی اور انسانی حقوق سلب کرنے کے لیے ان پر بلاجھجک تشدد کر رہی ہے۔‘‘
پانک نے اپنی رپورٹ میں حق دو تحریک بلوچستان کے کارکنان اور قیادت پر ریاستی کریک ڈاؤن کا بھی ذکر کیا ہے، رپورٹ میں کہا گیا ہے 25 مارچ کو حق دو تحریک کےکونسلر حاجی جاوید، کونسلر نوید محمد، کونسلر نصیر شہزادہ، چیئرمین اللہ بخش، عابد جی ایم اور مولانا لیاقت بلوچ کی بھی ضمانتیں خارج کرکے انھیں گرفتار کیا گیا۔سیاسی سرگرمیوں اور اظہار رائے پر پابندی انسانی حقوق کی صریح خلاف ورزی ہے جس پر بلوچ عوام اپنے تحفظات اور تشویش کا اظہار کرتے ہیں اور یہ سوال رکھتے ہیں کہ جب ریاست اور انصاف کی ضامن ریاستی عدلیہ شہریوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ میں ناکام ہوں تو شہریوں کی حفاظت کی ذمہ دار کا تعین کس معیار اور اصول پر ممکن رہے گا ؟۔
رپورٹ میں جعلی مقدمے میں قید انسانی حقوق کی کارکن ماھل بلوچ کی گرفتاری کے مسئلے پر بھی تشویش کا اظہار کیا گیا ہے: ’’ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اس ضمن میں پاکستان کے وزیر داخلہ کو ایک خط لکھ کر ماھل بلوچ کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔ایمنسٹی انٹرنیشنل کا یہ عمل قابل تحسین ہے لیکن یہ موثر ثابت نہیں ہو رہا لہذا ایمنسٹی انٹرنیشل کو اس بارے میں متواتر پاکستانی حکام پر اپنا دباؤ برقرار رکھنا ہوگا اورانسانی حقوق کے تحفظ کے لیے وہ تمام ذرائع بروئے کار لانے ہوں گے جو انسانی حقوق کے بین الاقوامی قوانین کے نفاذ کی ضمانت دیتے ہیں۔‘‘
پانک نے پاکستانی عدلیہ کے کردار پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے تنقید کی ہے : ’’ 12 فروری 2023 کو شال سے جبری لاپتہ ہونے والے طالب علم ثاقب سرپرہ اور ساجد سرپرہ کو سی ٹی ڈی نے جعلی مقدمات ملوث کیا اور عدالت نے انھیں پانچ پانچ سال قید کی سزائیں سنائی ہیں۔ان کے کیسز میں بھی صرف پاکستانی فوج کی خواہش کو قانون مانتے ہوئے عدالت نے اپنا فیصلہ سنایا ہے۔پاکستانی بندوبست میں شامل دیگر خطوں اور دیگر معاملات میں پاکستانی عدلیہ ایک متحرک کردار ادا کرتی ہے اور از خود نوٹس کی بنیاد پر عدالتی کارروائیوں میں پاکستانی عدلیہ شہرت رکھتی ہیں مگر بلوچستان میں انسانی حقوق کے سنگین معاملات میں پاکستانی عدلیہ جانبدار ہوچکی ہے اور پاکستانی فورسز کے ایک سہولت کار کے طور پر کردار ادا کر رہی ہے جو بلوچستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو بڑھاوا دیتا ہے۔‘‘