لندن (ہمگام نیوز) ممتاز بلوچ قومی رہنما اور فری بلوچستان موومنٹ کے سربراہ حیربیارمری نے سماجی رابطہ (ایکس) پر لکھا پاکستانی جنرل عاصم منیر نے بلوچ قوم کی توہین کرتے ہوئے کہا کہ: “ہم دس نسلوں میں بھی بلوچستان کو آزاد نہیں کرا سکیں گے۔” یہ بلوچ قوم کے لیے ایک براہ راست چیلنج ہے، اور یہ بات واضح رہے کہ بلوچ اسے غلط ثابت کریں گے۔ بلوچ نہ اسے بھولیں گے، نہ معاف کریں گے۔ یہ توہین یاد رکھی جائے گی، اور اس کا جواب ضرور دیا جائے گا۔ اس فوجی جنرل نے اشارہ دیا کہ پنجابی ہمیشہ بلوچستان پر حکمرانی کریں گے، جو کہ بلوچ قوم کے لیے ایک بہت بڑی توہین ہے۔
بلوچ رہنما نے کہا ایران میں ایک نام نہاد “سپریم لیڈر” ہوتا ہے، اور اب یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ یہ جنرل بھی خود کو “فیلڈ مارشل” کہہ کر اسی طرح کے مقام پر فائز کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ پاکستانی پنجابی ذہنیت کی گندگی یہاں کھل کر سامنے آ رہی ہے۔
بلوچ رہنما نے کہا ہر آزادی کی تحریک میں 0.1 فیصد غدار ہوتے ہیں، فرانس میں مارشل فلپ پیٹن نے اپنے ہی لوگوں سے غداری کر کے نازیوں کا ساتھ دیا۔ بلوچوں کے معاملے میں بھی کچھ ایسے ہی لوگ تھے، ان میں سے ایک، سرفراز بھٹی، جو کہ ایک بگٹی خاندان میں پیدا ہوا، نے غداری کو چُنا اور ’بھٹی‘ کہلایا۔ بلوچوں کی سرزمین کے دفاع میں جب بھی کوئی عمل پنجابی مفادات کو نقصان پہنچاتا ہے، وہ کہتا ہے کہ یہ بلوچ روایت کے خلاف ہے۔ بلوچ روایت کہتی ہے کہ دشمن کی مدد نہ کرو، اور ہمیشہ اپنی سرزمین کا دفاع کرو۔ بھٹی، جو کہ ایک ڈیتھ اسکواڈ کا سربراہ ہے اور سینکڑوں بلوچوں کو قتل کر چکا ہے، وہ کس روایت کی پیروی کرتا ہے؟ پاکستانی روایت؟ دشمن سے میل جول قوم کی تعریف نہیں بنتی، بلکہ بزدلی کو ظاہر کرتی ہے۔
پاکستان کا سرکاری مؤقف یہ ہے کہ وہ اسلامی ایمان کی حفاظت کر رہے ہیں، اور جو بلوچ آزادی چاہتے ہیں وہ “بھارت کے ایجنٹ” ہیں۔ ان میں بلوچوں کا سامنا کرنے کی ہمت نہیں، اس لیے وہ عربی الفاظ استعمال کر کے بلوچ قوم کو بدنام کرتے ہیں تاکہ مذہب کا سہارا لے کر اسے جائز ثابت کریں۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ بلوچ ہمیشہ سے تمام قابضوں کے خلاف لڑتے آئے ہیں اور نوآبادیاتی قوتوں جیسے #پرتگالی اور برطانوی سامراج کے خلاف مزاحمت کرتے رہے ہیں، جو کہ بھارت کے وجود میں آنے سے بہت پہلے کی بات ہے۔
پاکستانی پنجابی فوج، جو برطانوی نوآبادیاتی نظام کی وفادار تھی، اب بلوچوں کو مورد الزام ٹھہرا رہی ہے۔ درحقیقت پاکستانی روایت اسلامی روایت سے مختلف ہے۔ پاکستان کو برطانویوں نے صرف سات دہائیاں قبل بنایا تھا، نوآبادیاتی مشن کو آگے بڑھانے کے لیے، اور آج تک وہ اسی ایجنڈے کو فروغ دے رہا ہے۔ پاکستان نے برطانیہ کی خدمت کی، اور اب کئی آقاؤں کی خدمت کر رہا ہے، خاص طور پر #چین کی، جس کی وجہ سے پاکستان کو ’دلالِ چین‘ کہا جاتا ہے۔
اسلام تو برصغیر میں پاکستان کے وجود میں آنے سے پہلے ہی موجود تھا، اور بلوچ اسلام پر عمل کرتے تھے۔ اسلام کو پاکستان کی “حفاظت” کی ضرورت نہیں۔ اسلام کے نام کا استعمال صرف ایک ہتھیار کے طور پر کیا جا رہا ہے، یہ سچائی نہیں۔ یہ مذہب کا عوام کو دھوکہ دینے کے لیے استعمال ہے۔
یہ کم عقل جنرل، کٹھ پتلی وزیراعظم اور ان کے ساتھیوں نے کوئٹہ شہر میں بلوچ پگڑیاں پہن کر سمجھا کہ سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا، جبکہ وہ پانچ فوجی آپریشن کر چکے ہیں، لاکھوں زندگیاں تباہ کر چکے ہیں، اور بلوچوں کو اپنی زبان میں تعلیم حاصل کرنے کی اجازت نہیں دی۔ اب انہوں نے اعلان کیا ہے کہ اس سال پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام کے لیے ایک ہزار ارب روپے مختص کیے جائیں گے، جس میں سے 250 ارب بلوچستان کے لیے رکھے گئے ہیں۔ اگر آپ پنجاب کی آمدنی دیکھیں، تو وہ چند ارب ڈالرز ہی ہے، جبکہ بلوچستان اس سے چار گنا زیادہ پیداوار دے رہا ہے۔ اب ایک جھوٹے برابری کے دعوے کے تحت وہ صرف عوامی شعبے کی آمدنی میں سے بلوچستان کو تھوڑا حصہ دینے کا اعلان کر رہے ہیں، مگر بلوچ اس چالاکی کو سمجھتے ہیں۔ دہائیوں سے ہمارے وسائل لوٹنے کے بعد، اور بلوچ مزاحمت کے سامنے بے بس ہو کر اب وہ جھوٹی لالچ دے کر ہمیں خریدنا چاہتے ہیں۔ لیکن ہم اس فریب میں نہیں آئیں گے۔
بلوچ رہنما نے آخر میں کہا بلوچ پاکستان کا حصہ نہیں بننا چاہتے، کسی بھی حال میں۔ اور ہم بِکنے والے نہیں ہیں۔ ہم اپنی شناخت کو ضائع نہیں ہونے دیں گے، اور نہ ہی اس مصنوعی اور ناکام ریاست کا حصہ بنیں گے۔