ہمگام رپورٹ : پاکستان کے کٹھ پتلی وزیر اعظم کی افغانستان کے اندرونی معاملات میں قصداً مداخلت نئے صدارتی انتخابات بارے بیان پر افغانستان میں قومی اور عوامی سطح پر، سوشل میڈیا میں پاکستان کے خلاف نفرت اور غصہ میں اضافہ دیکھنے کو مل رہاہے۔ عمران خان کے بیان کے فوراً بعد افغانستان کے  این ڈی ایس کےسابق سربراہ اور نائب صدارتی امیدوار امر اللہ صالح نے اپنی سوشل میڈیا ٹوئٹر اکاونٹ پر رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہیں کہ پاکستان کے وزیر اعظم کا افغانستان کی آئین کو تحلیل کرنے اور جمہوری نظام کو منہدم کرکے امن عمل میں برقرار جمود کو توڑنے کی جو اشارہ ہے وہ آئی ایس آئی کا مطمع نظر ہے اور پاکستان کی اس خواہش کو تکمیل تک پہنچانے کے لئے افغانستان کے اندر کچھ لوگ آئی ایس آئی کو خوش کرنے کے لئے پاکستان کی اس ڈیمانڈ کو دہرا رہے ہیں۔ عبوری حکومت کی پاکستانی خواہش ایسا بے وقوفانہ عمل ہے کہ ہم آئین کو تحلیل کرکے نئے سرے سے صفر(0) سے کام شروع کریں۔ واشنگٹن میں افغانستان سفارتخانے کے ایک اعلیٰ عہدیدار مجید قرار نے پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان پر طنز کرتے ہوئے کہا کہ تم (عمران خان) اپنی بیویوں کے ساتھ صلاح کرکے اپنی گھر کو ٹھیک نہیں کرسکتے تو افغانستان بارے لب کشائی کا تمھیں حق نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم طالبان کی برے چہرے سے واقف ہیں ، پاکستان ان کے چہرے پر میک اپ کرکے انہیں خوبصورت پیش نہیں کرسکتی۔ افغان خفیہ ادارے کی سابق سربراہ اور صدارتی انتخابات میں بطور صدر امیدوار رحمت اللہ نبیل نے کہا عمران خان نے آئی ایس آئی کی ایما پر افغانستان میں عبوری حکومت کا جو اشارہ دیا ہے یہ جان بوجھ کر کیا جارہا ہے، انہوں نے افغان سیاست دان اور سابق مشیر افغان حکومت، حنیف اتمر کو بھی آڑے ہاتھوں لیا کہ ان کی اور پاکستان کا افغانستان میں عبوری حکومت بابت رائے میں مماثلت پائی جاتی ہے۔ سابقہ افغان قومی سلامتی کے مشیر حنیف اتمر نے عمران خان  کے بیان کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے اسے غیر موضوع قرار دیتے ہوئے اس بیان کو افغانستان کی قومی سلامتی کے خلاف اور اندرونی معاملات میں قصداً مداخلت کہا ۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان کی مستقبل کا فیصلہ افغان عوام کریں گے نہ کہ ہمارے ہمسائے خواہشات ہم پر تھونپ سکتے ہیں۔ سابق افغان صدر حامد کرزئی نے اسے افغانستان کے معاملات میں کھلی مداخلت قرار دیتے ہویے کہا کہ ہم اپنے پڑوسی ملک (پاکستان) اور خطے کے دوسرے ممالک کے ساتھ باہمی احترام پر مبنی تعلقات چاہتے ہیں ہم پاکستان سے کہنا چاہتے ہیں کہ وہ انتخابات یا کسی بھی افغان مسئلے بابت بیانات کے ذریعے ہمارے اندرونی معاملات میں مداخلت سے گریز کریں۔ افغانستان میں امریکی سفیر جاہن باس نے بھی پاکستان کے مداخلت پر مبنی بیان کے تناظر میں کہا کہ افغانستان میں عبوری حکومت پر کوئی بھی بات نہیں ہوئی ہے، حکومت کا قیام افغان آئین اور افغان عوام کا فیصلہ ہے طالبان سے عبوری حکومت سے متعلق کوئی بھی بات نہیں ہوئی نہ ہی عبوری حکومت پر مذاکرات ہوئے ہیں۔ یاد رہے کہ عمران خان نے رواں ماہ کے آغاز میں افغان طالبان کو اسلام آباد میں ان سے ملاقات کی دعوت دی تھی جو افغان طالبان نے قبول کرتے ہوئے کہا تھا کہ امریکہ کے ساتھ قطر میں مذاکرات کے بعد اب وہ وزیراعظم پاکستان کے ساتھ بات چیت کریں گے۔ اور عمران خان نے اس کے بعد کہا کہ افغانستان میں امن کے قیام کے لیے عبوری حکومت لائی جانی چاہیے جو طالبان سے بات کر سکے کیونکہ موجودہ حکومت امن کی راہ میں رکاوٹیں ڈال رہی ہے۔ لیکن عمران خان کو افغانستان نے ان کے معاملات مین مداخلت قرار دیتے ہوئے کابل میں موجود پاکستانی سفیر کو طلب کر لیا ہے۔ اور اب زلمے خلیل زاد نے بھی اس بیان کے خلاف کہا ہے کہ عمران خان کا بیان ٹھیک نہیں ہے۔ زلمے خلیل زاد نے اپنے ٹویٹر پیغام میں لکھا ہے کہا عمران خان کا افغانستان کے حوالے سے بیان تعمیری نہیں ہے، افغانستان کے بارے میں فیصلہ کرنے کا حق صرف اور صرف افغانیوں کو ہے ۔ عالمی کمیونٹی کو چاہیے کہ وہ افغانستان کی حوصلہ افزائی کرے تا کہ افغان اکٹھے ہو سکیں۔ افغانستان کے چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ نے بھی عبوری حکومت کے قیام کی قیاس آرائیوں کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے کہا کہ عبوری حکومت کا عندیہ بیرونی ایجنڈا ہے جسے قبول نہیں کیا جائیگا۔ افغان حکومت اور سیاستدانوں کے علاوہ سوشل میڈیا پر افغانستان کے عوام اور نوجوانوں میں عمران خان کے بیان پر شدید اوربڑے پیمانے پر رد عمل دیکھا جارہا ہے، سوشل میڈیا میں سرگرم سماجی اور سیاسی حلقوں اور پاکستان کے مابین فیس بک اور ٹوئٹر پر گھمسان کی لڑائی شروع ہوگئی ہے۔ افغانستان کے لوگوں کا کہنا ہے کہ پاکستان عرصہ دراز سے افغانستان کے قومی اور خارجی معاملات میں کھلی مداخلت کررہی ہے، طالبان اور دیگر پراکسی جنگجووں کی ہر طرح کی مدد کے بعد اب پاکستان کھل کر افغانستان کے اندرونی معاملات اور خارجہ پالیسیوں میں ڈکٹیٹ کرنے پر اتر آئی ہے ۔ افغانستان کے باشعور طبقہ کا پاکستان کے خلاف رد عمل سے ظاہر ہوتا ہے وہ پاکستان کے کسی بھی پیش قدمی اور پروپیگنڈے کا موثر جواب دینے کے لئے پوری طرح متحد ہیں۔