تحریر : حفیظ حسن آبادی

جب بھی پاکستان میں یکے بعد دیگرے سراُٹھانے والے بحرانوں کے اسباب کے بارے بات کی جاتی ہے تو درجنوں دلائل دئے جاتے ہیں جیسے اجتماعی بے حسی، انصاف کا فقدان، آئین و قانون کی پائمالیاں،بدعنوانی،کسادبازاری،لیڈروں کی شعبدہ بازیاں،کمزورجمہوریت،پدرشاہی،کم خواندگی اور سب سے بڑھ کراقلیتی قومیتوں کیساتھ جابرانہ رویہ اور اُن کا ظالمانہ استحصال وغیرہ وغیرہ مگر ان سب کے پیچھے جو بنیادی وجہ ہے اُس کی طرف بہت کم توجہ دیا جاتا ہے اور وہ ہے انکار!

جتنے مسائل ہم نے گنے یہ سب اُس انکار کے سبب پیدا ہوئے ہیں جس کے ارباب اختیار عادی ہوچکے ہیں۔بلوچ،پشتون، سندھی اپنے گھروں میں خود کو اور اپنے حقوق کومحفوظ نہیں سمجھتے۔سندھی اندرون سندھ سے کراچی آتے ہیں توخود کو پردیسی محسوس کرتے ہیں وہی کراچی جہاں بلوچ اور سندھی کارخانوں کا جال بچھائے ایک باوقار اور خوشحال زندگی گزارکر دوسروں کو پناہ دے رہے تھے آج یہ دونوں قومیں وہاں پناہ گزینوں سے بدتر حالات کا شکار ہیں۔

خیبر پختونخواہ میں پشتون پشاور کے بازار سے غائب ہوکر لاش کی صورت میں افغانستان سے برآمد ہوتے ہیں یا اُنکے بڑوں (مشران) کو صرف اس گناہ پر چُن چُن کر مار دیا جاتا رہا کہ وہ ریاست کے اُس طالبانائزیشن پالیسی کی مخالفت کرتے رہے ہیں جن پر آج حکمران خود نادم ہونے کا”اقرار“کرتے ہیں مگر کوئی بھی اس تباہی کازمہ دار نہیں، جوابدہ نہیں یعنی حقیقت میں آج بھی وہ اس مسلے کو ماننے سے انکاری ہیں جو اب ایک مسلے سے بڑھ کر قومی المیہ بن چکا ہے۔

بلوچ کا مسلہ جو اس وقت اپنی گھمبیر تریں صورت میں موجود ہے اور اس کے حل کا کوئی سراغ نہیں مل رہا لیکن اگر اسکی اجزائے ترکیبی اور محرکات کا بغور جائزہ لیا جائے تو یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ یہ مسلہ چھ مہینے سے دو سال میں حل ہوسکتاہے مگر اس پر خلوص نیت اور سنجیدگی سے توجہ دینے کے بجائے اسے حل کرنے ایسے آدھا تیتر آدھا بٹیر قوم پرستی کے نام پر موقع پرست عناصر کو کہا جاتا ہے کہ جو مظلوموں کیساتھ اُن کارونا روتے ہیں اور اذیت دینے والوں کیساتھ بیٹھ کر اُنکا دست و بازو بنتے ہیں اور اگر کھل کر کہیں تو یہ کہنے میں کوئی تردد نہیں ہونی چائیے کہ اُن کی دکان بھی اسی جنگ و جنگی کیفیت سے چل رہی ہے۔

 اس ضمن میں یہ تک جاننے کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی کہ یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے شہید نواب اکبرخان بگٹی کو یہ قول دے کر پہاڑوں پر جانے اور مسلح جنگ کیلئے آمادہ (دھکیلا) کیا تھاکہ اگر ڈیرہ بگٹی میں ایک گولی چلے گی تو جھالوان میں سو گولیاں چلیں گی۔اس میں دو رائے بالکل بھی نہیں کہ یہ جنگ جو شہید اکبر خان بگٹی نے شروع کیاتھا اُسے کسی نہ کسی دن لڑنا لازم تھا کیونکہ بنیادی مسلہ بلوچ کے وجود کو خطرے کا تھا جو آج بھی موجودہے مگر اُسے 2005 میں شروع کروانے اس اشتعالی کردار کو نظراندازنہیں کیا جاسکتا کہ جس کا مقصد نواب بگٹی کو لڑا کر دو فاہدے حاصل کرنے تھے پہلہ نواب بگٹی کے جانے کے بعد اُسکی سیاسی میراث بکھر جائے گی اور وہ اُسے سمیٹیں گے دوسرا اگر وہ شہید ہوتا ہے تو اُنکے اور اُنکے ساتھیوں کے قربانی کو کیش کیا جائے گا۔

  ارباب اختیار کااصل اسٹیک ہولڈرز سے معنی خیز گفتگو سے گریزاور بلوچ کے وجود کو درپیش گمشدگی کے سنگین مسلے کو قابل غور سمجھے بغیر ایسے دہرے کردار اور جنگ میں اپنا مفاد دیکھنے والے عناصر سے اصلاح احوال کی توقع رکھنا اس بات کی دلیل ہے کہ وہ ان موقع پرستوں کے بچھائے ہوئے جال کو سمجھنے سے قاصر ہیں اور وہ ان ریشہ دوانیوں کے نتیجے میں ہونے والے خونریزیوں،گمشدگیوں اور مسخ شدہ لاشوں کو مسلہ سمجھنے سے انکار ی ہیں۔

پورے پاکستان میں بلوچ کہیں بھی محفوظ نہیں یہاں تک اُنکے تعلیمی ادارے بھی چھاونیوں کا بھیانک منظر پیش کرتے ہیں،خواتین کو اُٹھاکر عقوبت خانوں میں اذیت دی جاتی ہے،چادرو چاردیواری کی پائمالی کی جاتی ہے،باپردہ خواتین کو اس انتہا تک ہراساں کیا جاتا ہے کہ وہ خودکشی کرنے پر مجبور ہوتی ہیں۔یہ سب انتہائی شرمناک، دردناک و گھمبیر مسائل ہیں مگر کوئی انھیں مسلہ ماننے تیار نہیں۔

عدالتوں کا یہ حال ہے کہ بہت ہی کم کیس مدعی و مدعی علیہ کو سپرد خاک کرنے سے قبل فیصلہ تک پہنچتے ہیں۔بڑوں کیلئے کوئی عدالت نہیں اگر اُن کے لئے عدالت لگتی ہے تو فقط اس نیت سے کہ اُنھیں کسی جوابدہی سے کیسے قانونی رستے سے نکلنے کی سہولت فراہم کی جائے؟ بلوچستان میں سرکاری سردار اور انکے چیلے سندھ میں وڈیرے،پنجاب میں سرکاری چوہدری اور خیبر پختونخواہ میں سرکاری خان مختلف ناموں کے چیلوں کے ساتھ اب بھی زمین پر خدا بنے بیٹھے ہیں۔پولیس،لیویز،انتظامیہ تمام سرکاری ادارے اُنکے تابع ہیں وہ آج بھی کمزوروں پر غلامانہ دؤر کے مظالم ڈھاتے ہیں مگر کوئی قانونی آنکھ اُنھیں نہیں دیکھتا،سات آسمانوں تک گونجتی اُنکی فریادیں،ڈوبتی اُبھرتی درد بھری سسکیاں کسی کو سُنائی نہیں دیتیں لوگ اِن عصر حاضر کے فرعونوں کے سامنے عاجز ہیں وہ روز اپنی عزت کا جنازہ خاموشی سے اُٹھا کر کسی داد رسی کرنے والے کی راہ تکتے ہیں مگر کوئی مشکلیں آساں کرنے نہیں آتا کیونکہ قانونی طور پر اُنکے نجات دہندے خود تمام جرائم میں طاقتوروں کے شریک کار ہیں یہ اس دؤر کا بدترین انسانی المیہ ہے،یہ مسلہ ہے مگر کوئی اسے حل نہیں کر رہا اس کا مطلب ہے کوئی اسے مسلہ ماننے کو تیار نہیں۔

نسلوں کی تربیت میں تاریخ کی ہمیشہ کلیدی کردار رہی ہے مگر یہاں تاریخ ایسے پڑھائی جاتی ہے کہ فاتح دیبل محمد بن قاسم نجات دہندہ کے طور پر وارد سندھ ہوتے ہیں مگر وہ خلیفہ وقت کے حکم پر کس جرم میں لپیٹ کر سمیٹ کر لے جائے جاتے ہیں اس پر خاموشی اختیار کی جاتی ہے محمد علی جناح کو بڑے فخر سے بانی پاکستان بتاتے ہیں مگر یہ کبھی نہیں کہتے کہ اُسے آخری بار ھسپتال لے جانے والی گاڑی بیچ رستے کیسے رُک گئی اور آپ تاخیر کے باعث آدھے رستے میں دم توڑ گئے؟ فاطمہ جناح کو مادر ملت تو کہتے ہیں مگر وہ درمیان میں کیسے غدار ٹھہرے اس پر تاریخ کو مہربہ لب کیا جاتا ہے۔

بچوں کو پڑھایا جاتا ہے کہ بلوچستان 27 مارچ 1948 کو پاکستان کے ساتھ ”خوشی“سے شامل ہوا مگر یہ نہیں بتاتے کہ اس سے قبل بلوچستان کے ایوان بالا و ایوان زیرین نے اپنے دو اجلاسوں میں پاکستان سمیت کسی بھی ملک سے الحاق کے سوال کے جواب میں کیا اکثریتی قرارداد پاس کیا تھا؟اور جن بلوچ ریاستوں اور مستجار علاقوں کو پاکستان نے خان سے الگ ریاستیں تسلیم کرکے بلوچستان کو ٹکڑوں میں تقسیم کرکے خان قلات کو بے دست وپا کیا ان اقدامات کی تاریخی درجہ بندی کیا ہے؟ اور یہ کبھی بھی نہیں کہا جاتا کہ پاکستان نے خان قلات اور بلوچ ریاستوں کیساتھ یا بعد میں مختلف اوقات میں بلوچوں کیساتھ جو وعدے کئے اُن میں سے ایک بھی وعدہ وفا نہیں ہوا حتٰی کہ قران پر رکھے ہاتھ کے وعدے بھی پورے نہیں کئے گئے۔تاریخ سے ایسی چشم پوشی،یہ وعدہ خلافیاں یہ بدقولیاں سنگین مسلے ہیں جو آج کی تمام ناراحتی و بیزاریوں کی بنیاد ہیں مگر ارباب اختیار اُنھیں مسلہ ماننے سے انکاری ہیں یہی وجہ ہے جو ان پر لب کشائی کی بھی اجازت نہیں۔

پشتونوں کا پاکستان کیساتھ الحاق کے تاریخ کا بھی یہی حال ہے یہاں تک تو کہاجاتا ہے کہ وہ ایک ریفرنڈم کے تحت شامل ہوئے مگر اس کی تفصیل میں جانے سے روکا جاتا ہے بلکہ یہاں تک کہ اُسے پڑھنے اور جاننے کی بھی ممانیت ہے کہ اُس ریفرنڈم میں پشتونوں کو صرف دو آپشن دیئے گئے تھے ہندوستان یا پاکستان ان میں سے کسی ایک کے ساتھ شامل ہو جاؤ۔ اُنھیں باچا خان کی تمام کوششوں کے باوجود الگ آزاد رہنے یااپنے تاریخی وطن افغانستان کے ساتھ شامل ہونے کا آپشن تک نہیں دیا گیا کسی قوم کو اُس کی حق انتخاب سے محروم کرنا اور اُسے کسی ایسے کے حق میں رائے دینے پر مجبور کرنا اخلاقی،سیاسی اور مذہبی لحاظ سے درست نہیں جو گذشتہ چھیتر برسوں سے بیشمار مسائل کو بنیادیں فراہم کرتا رہا ہے مگر حاکم آج تک اسے مسائل کا باعث سمجھنے سے انکاری ہیں۔

مشرقی پاکستان کو الگ کرنے کے بارے میں یہ ضرور پڑھاتے ہیں کہ دشمن ہندوستان نے مداخلت کرکے پاکستان کو دولخت کیا مگر اس پر لب کُشائی سے احتیاط کا دامن تھامنے کا کہا جاتا ہے کہ کس طرح مغربی پاکستان کے جمہوریت کے علمبرداروں نے کس کی ایما پر اپنے 86 سیٹوں کیساتھ 167 سیٹوں والے مشرقی پاکستان کے لیڈروں کو حکومت بنانے نہیں دیا اور دنیا کی تاریخ میں پہلی بار ایسا رویہ اپنایا کہ اکثریت اقلیت سے عاجز ہوکر علیحدگی اختیار کرنے پر مجبور ہوا۔

جدید تاریخ میں یہ ضرور بتاتے ہیں کہ عبدالقدیر خان پاکستان کا ہیرو ہے جس نے پاکستان کو ایٹمی قوت بنایا مگر یہ بات ہرگز نہیں بتائیں گے کہ اُنھیں بعد میں کس طرح بے توقیری کاسامنا کرنا پڑااور وہ کس طرح فٹ پاتھوں پر انٹرویو دیتے ہوئے اپنے پچھتاوے کا اظہار کرتا رہا وغیرہ وغیرہ اگر تاریخ ایسے فرمائشی اوراق سے ترتیب دی جاتی ہے تو اس کا مطلب ہے غلطیوں کا اصلاح نہیں کیا جاتا بلکہ اُنھیں دبا کر انکار کاارتکاب کیا جارہا ہے۔

داخلی طور پر پاکستانی ریاست دست خالی اور ارباب اقتدار و اختیار ارب پتی و کھرب پتی ہیں۔پورے پاکستان میں سینکڑوں تعلیمی ادارے اصطبل،رہائشی مکانوں یا کھنڈرات میں تبدیل ہوئے ہیں صحت کے شعبوں میں کارکردگی یہ ہے کہ ہسپتالوں میں بچھو،سانپ اور کتا کاٹنے کی دوائیاں تک میسر نہیں باقی تما م شعبوں کا یہی حال ہے پھر بھی یہ لوگ اپنی نالائقی،بے حسی سے انکاری ہیں بین القوامی طور سیاست کا یہ حال ہے کہ دیرینہ دوست امریکہ کا اعتبار اُٹھ چکا ہے”تاریخی دوست“ چین مشکوک نظروں سے ہر حرکت پر نظر رکھے ہوئے ہے ہمسایوں میں کسی سے بھی تعلقات خوشگوار نہیں کسی سے تعلقات کشیدہ ہیں تو کسی سے اچھے نہیں تو کسی سے حالت جنگ میں ہیں۔

 حالات کو معمول پر لانے سیاستدانوں کے جرات،ویژن اور مدلل ہونے کا معیار یہ ہے کہ ایک ملکی سربراہ غیر ملکی طاقتور ملک کے سربراہ کے سامنے پرچی پرلکھے چار جملے ٹھیک سے نہیں پڑھ سکتا تودوسرا سربراہ تمام سفارتی و عام بیٹھنے کے آداب سے ناآشنا گلی کے لوفروں کی طرح

ٹانگیں پھیلا کے ایسے بے سروپا گفتگو کرتا ہے جیسے وہ کسی سربراہ مملکت سے نہیں اپنے کسی زونل قیادت سے باتیں کررہا ہے۔یہ حقیقی اور سنگین مسائل ہیں مگر یہ بار بار دہرائے جارہے ہیں اس کامطلب ہے جو لوگ انکے اصلاح کی صلاحیت رکھتے ہیں وہ ان مسائل کے ہونے سے انکاری ہیں نہیں تو وہ انکا تکرار سے قبل درستگی کرتے۔

بحث کو سمیٹتے ہوئے اتنا کہنا کافی ہے کہ انکار کی بنیاد پر کھڑی رشتوں کی بنیادیں مضبوط نہیں ہوتیں جو زور زبردستی سے وقتی طور پر تو قائم رکھے جاسکتے ہیں مگر وہ کب ناگہانی ہواؤں کی زد میں آکر بکھر جائیں کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا۔

 (ختم شُد)