تحریر: سلام سنجر
کئی بار ایسا ہوتا ہے کہ جنوبی ایشیا کی جغرافیائی سیاسی حرکات و سکنات بدلتے بدلتے رہ جاتے ہیں کیونکہ بھارت پاکستان کے چپقلش کے درمیان میں عالمی طاقتوں اور سرمایہ داروں کے مفادات وابستہ ہونے کے ساتھ ساتھ پاکستان اور بھارت کی ضرورت ان عالمی طاقتوں کو ہے جو کہ وہ خطے میں موجود دو عالمی کھلاڑی روس اور چین کا راستہ روکنے کے ان ممالک کی بھی استعمال میں کار آمد ہو سکتے ہیں
۔ اس وقت بظاھر جنوبی ایشیا میں طاقت کا توازن بدستور نازک ہے اور عالمی طاقتوں بالخصوص امریکہ کے سٹریٹیجک مفادات خطے کے مستقبل کی تشکیل میں فیصلہ کن کردار ادا کرتے ہیں لیکن امریکہ ایک شاطر کھلاڑی ہے جو موقعہ دیکھ کر پھانسہ پھینک سکتا ہے ۔ دیکھنے میں ہندوستان اور پاکستان کے درمیان حرکات و سکنات نہ صرف ان کی تاریخی دشمنی سے بلکہ امریکہ، چین، روس اور یہاں تک کہ یورپ کے عالمی گریٹ گیم کے ساتھ بھی گہرے طور پر جڑے ہوئے ہیں ۔ لیکن ایسا نہیں ہے کہ پاکستان اور بھارت کی ظاہری دشمنی صرف اس حد تک محدود ہے کہ کس طرح دشمنی کا گیم شروع کرکے یا مذہب کے کارڈ استعمال کرکے ہر سیول اور فوجی حکومت اپنا الو سیدھا کرے۔
پہلگام واقعے کے بعد پانی کے مسائل پر بھارت اور پاکستان کا تنازعہ ایک سنگین تشویش کا باعث ہے، خاص طور پر 1960 کے سندھ آبی معاہدے کے تحت ، جب کہ نظریاتی طور پر بھارت دباؤ کی صورت میں پاکستان کی پانی کی فراہمی کو روکنے یا کنٹرول کرنے کی کوشش کر سکتا ہے، عملی طور پر نہیں، مختصر مدت میں یہ تقریباً ناممکن ہے جو کہ بھارت پاکستان کا پانی روک دے ۔ اس پانی کو روکنے کے لیے ضروری ڈیموں، سرنگوں اور ڈائیورژن ڈھانچے کی تعمیر میں کم از کم 15-20 سال لگیں گے۔ یوں سمجھ لیجئے کہ پاکستان کا پانی روکنا بھارت کے لیے اس وقت ناممکن نظر آتا ہے ۔ اس پانی کو روکنے کے مالیاتی بوجھ بہت بڑ سکتا ہے ، مہنگائی، ماحولیاتی ضوابط اور سیاسی رکاوٹوں پر غور کرتے ہوئے اس منصوبے پر اربوں کی لاگت آئے گی ۔ جو کہ اس آبی راستے کو روکنا اس وقت بھارت کے لیے ناممکن ہے جو پاکستان کو فراہم ہو رہا ہے ۔
اس بات سے ہر کوئی باخبر ہو جائے کہ سندھ طاس معاہدے کی کسی بھی خلاف ورزی پر شدید بین الاقوامی تنقید ہوگی ۔ اور شاید امریکہ اس کی ممانعت کرے کیونکہ پاکستان کی ضرورت اس وقت امریکہ کو ہے۔
اس طرح اگرچہ بھارت پانی کے مسائل کو ایک سفارتی ہتھیار کے طور پر دھمکی دے سکتا ہے یا استعمال کر سکتا ہے، خاص طور پر موجودہ عالمی اقتصادی اور سیاسی صورتحال کے ساتھ پانی پر صریح جارحیت میں ملوث ہونے کا امکان نہیں ہے۔ یعنی پانی روکنا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہے۔
یہ بات قابل غور ہے کہ جنوبی ایشیا کے حوالے سے امریکہ کی پالیسی ہمیشہ بڑے سٹریٹیجک اہداف پر مبنی رہی ہے۔ فی الحال واشنگٹن کے اقدامات ایک محتاط توازن عمل کو ظاہر کرتے ہیں اور امریکہ نہ بھارت کو ناراض کرنا چاہتا ہے اور نہ وہ پاکستان کو بھارت میزائلوں کے زد میں دیکھنا چاہتا ہے ۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ بھارت چین کے لیے ایک اہم جوابی توازن کے طور پر ابھرا رہا ہے۔ جو کہ وہ اسے مضبوط بنا کر چین پر دباؤ رکھنے کے لئے اسے استعمال کرنا چاہتا ہے۔
دوسری جانب بنگلادیش کے حالات سے با خبر ماہرین کہتے ہیں کہ امریکہ نے جب شیخ حسینہ واجد سے یہ مطالبہ کیا تھا کہ مجھے بنگلادیش کے گرم پانیوں تک رسائی دیجئے تو شیخ حسینہ واجد نے کسی بھی طرح سے اس بات سے انکار کر دیا جو کہ اب امریکہ بنگلادیش ، بھارت کے منی پور اور میانمار کے ایک حصے کو ساتھ ملا کر ایک نیا ملک :چلمگم: یا “زلمگم ” کے نام سے بنانا چاہتا ہے جو کہ فی الحال اس منصوبے پر کام شروعات نہیں ہو سکی ہے لیکن قوی امکانات موجود ہیں۔
اور بھارت کو جنگی ماحول امریکہ اس لئے نہیں دیکھنا چاہتا ہے کہ امریکی کمپنیاں، جیسے ایپل، ٹیسلا، اور گوگل نے ہندوستان میں مینوفیکچرنگ اور کاروباری کاموں کو بڑھایا ہے۔ اور ایک سب سے بڑی منڈی کے طور پر آگے آ رہا ہے جو کہ امریکہ اپنے مصنوعات بھارت میں لاکر پیسہ کمانا چاہتا ہے ۔ ایک اور اہم سبب یہ بھی ہے انڈو پیسیفک میں چینی اثر و رسوخ کو محدود کرنے کے لیے QUAD اتحاد (امریکہ، بھارت، جاپان، آسٹریلیا) کو امریکہ نے مضبوط کیا ہے۔
جبکہ امریکہ نہیں چاہتا ہے کہ بھارت روس سے دفاعی ہتھیار خریدے بلکہ وہ ان سے اپنے دفاعی اہداف پورا کرے اور اسی نام سے وہ ہندوستان اور امریکہ کے درمیان دفاعی تعلقات مزید گہرا دیکھنا چاہتا ہے جو کہ ایک ظاہری بات ہے حقیقت نہیں ہے۔
آبی مسائل کے علاوہ خطے میں موجود پاکستان امریکہ کے لیے ایک اہم زون ہے کیونکہ چین کے خلاف بھارت کا ساتھ دینے کے باوجود امریکہ پاکستان کو چھوڑنے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ اس کی سب سے بڑی وجہ بھارت کو دباؤ میں رکھنے کے لیے پاکستان کا وہ کارڈ استعمال کرتا ہے تاکہ توازن یہاں سے بھی برقرار رہے اور پاکستان امریکہ کے لیے وہ اڈا ہے جہاں سے اگر مستقبل میں چین کے اندر کوئی خانہ جنگی جیسا چین کا ایغور مسلمانوں پر مظالم اور امریکہ کی اس پر خاموشی یہی ظاہر کرتا ہے کہ وہ ایغور مسلمانوں کا مذہب کے نام پر امریکہ استعمال کرکے چین کو ایک طرح سے اندر سے کمزور کرے ۔ اسی سبب پاکستان کو ایک اڈا کے طور پر استعمال کرتا ہے۔
اور پاکستان افغانستان اور وسطی ایشیا سے متعلق امریکی کارروائیوں کے لیے اہم رسائی کے راستے فراہم کرتا ہے۔
جبکہ پاکستان پر امریکہ کا اثر و رسوخ افغانستان میں طالبان کی حکومت کو سنبھالنے میں مدد کرتا ہے اور ایران کے عزائم کو بھی روکتا ہے۔
اسی لیے امریکہ طالبان کے حوالے سے کوئی خاص ردعمل نہیں دکھا رہا ہے کیونکہ وہ پاکستان اور ایران پر دباؤ برقرار رکھنے کے لیے وہ طالبان کارڈ کو بھی استعمال کر سکتا ہے۔
ایک غیر مستحکم پاکستان سے سیکیورٹی خلا پیدا ہونے کا خطرہ ہے جس سے چین اور روس فائدہ اٹھا سکتے ہیں لیکن پاکستان امریکہ کا ایک کھٹ پتلی ملک ہے وہ امریکہ آقا کے ڈر سے چین و روس کے ساتھ کسی بھی ایسے تعلقات کو استوار کرنے سے ڈرتا ہے جس سے امریکی مفادات کو نقصان پہنچے اور روس و چین کو فوائد ملے ۔ اس طرح خطے میں موجود امریکہ ہر اس پیچیدہ تعلقات کو برقرار رکھنا چاہتا ہے جو کہ علاقائی استحکام کے لیے بہت اہم ہے اور چینی روسی تعاون کو محدود کرنے کے لیے ہندوستان کو چین کا سامنا کرنے کے ساتھ ساتھ پاکستان پر اثر و رسوخ برقرار رکھنے کے لیے با اختیار بناتا رہا ہے ۔ مزید برآں عالمی گریٹ گیم کے ٹیبل پر موجود طالبان جو اب مضبوطی سے افغانستان کا اقتدار ان کے ہاتھ میں ہے ۔ امریکہ انہیں ایک اہم ہتھیار کے طور پر دیکھ رہا ہے۔
طالبان کے ساتھ امریکہ کی خفیہ مصروفیت کا مقصد افغانستان کو مکمل طور پر چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو (BRI) نیٹ ورک میں آنے سے روکنا ہے۔ اور طالبان کا اثر و رسوخ ایران اور پاکستان پر دباؤ ڈالنے کے لیے بھی کام کرتا ہے، اور انھیں ایسی سخت پالیسیوں پر مجبور کرتا ہے جو کہ اس مذہبی پن زیادہ ہو جو کہ وہ انہیں اعتدال پسندی کی جانب گامزن ہونے سے روکتا ہے ۔ اگر افغانستان ایک جمہوری اور فلاحی ریاست بن جائے مذہبی جنونیت کو ترک کرکے افغان حکومت یا افغانی افغانستان کے بارے میں سوچنے لگیں تو کل عالمی طاقتیں خاص کر امریکہ اور یورپین ان پر پابندیوں کی رسی ان کے گلے میں ڈال کر انہیں معاشی حوالے سے نہ صرف منہدم کریں گے بلکہ وہ ان کی جمہوری سوچ کا سر چشمہ بھی بند کریں گے کیوں کہ یہ نہیں چاہتے ہیں کہ دنیا جمہوریت ہو اور کسی بھی طرح ان کی سرمایہ کاری کو ضرب لگے ۔ جہاں جمہوریت ہوگی امن ہوگا لوگوں کی سوچنے صلاحیت کو پروان چڑھانے میں مدد ملے گی۔
علاوہ ازیں ہندوستان اور پاکستان دونوں اپنی طاقت اور اسٹریٹجک اہمیت کے باوجود ایک بڑی بساط کے کھلاڑی بھی نہیں ہیں، امریکہ ہندوستان کو ایک اقتصادی اور فوجی دیو کے طور پر فروغ دے رہا لیکن وہ اب بھی مغربی ٹیکنالوجی اور سرمایہ کاری پر منحصر ہے ۔ مگر وہ بھارت کو اس قدر مضبوط نہیں کرے گا کہ آنے والے دنوں میں اس کے لیے ایک سر درد بن جائے ۔ جس کی سب سی بڑی مثال چین ہے جس کو امریکہ نے روس کے خلاف مضبوط ہونے میں مدد کی تھی اب وہ ایک سر درد بن گیا نہ صرف امریکہ کے لیے بلکہ خطے میں موجود تمام ممالک ان سے بیزار ہیں اور اس کی سوچ بھی قابضانہ ہے۔
جبکہ پاکستان وسطی ایشیا میں امریکی مفادات، انسداد دہشت گردی، اور چین کے مغربی کنارے کی نگرانی کے لیے اسٹریٹجک طور پر ناگزیر ہے۔
اگرچہ دونوں ممالک محسوس کرتے ہیں کہ وہ اپنے قومی مفادات کو آگے بڑھا رہے ہیں، لیکن اب بھی بڑی عالمی طاقتیں اپنی اپنی بدلتی ترجیحات کے مطابق ان کا انتظام اور جوڑ توڑ کر رہی ہیں ۔ چین اقتصادی دباؤ میں ہے لیکن پھر بھی اپنے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو کے ذریعے اثر و رسوخ کا دعویٰ کرتا ہے۔
اسی طرح یوکرین کے طویل تنازعے کے بعد الگ تھلگ ہونے والا روس چین اور ایران کے قریب آ رہا ہے اور ایک مشرقی بلاک بنانے کا خواہشمند ہے۔
ایران نے روس اور چین کے ساتھ تعلقات بڑھا رکھے ہیں لیکن اسے مغربی اور علاقائی مزاحمت کا سامنا ہے ۔ مشرق وسطیٰ غیر مستحکم ہے لیکن کثیر قطبی اتحاد کی طرف بڑھ رہا ہے، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات مشرق اور مغرب کے درمیان توازن کا کردار ادا کر رہے ہیں۔
اب وسطی ایشیا ایک متنازعہ علاقہ ہے، جہاں امریکہ، چین، روس اور ترکی سبھی اثر و رسوخ کے لیے مقابلہ کرتے ہیں۔
آج ہم جس چیز کا مشاہدہ کر رہے ہیں وہ “گریٹ گیم” کی ایک جدید شکل ہے، جہاں کوئی بھی کھلاڑی دوسرے پر مکمل اعتماد نہیں کرتا، اور وفاداریاں لین دین ہوتی ہیں۔ امریکہ بھارت کو چین کے خلاف استعمال کرتا رہے گا، پاکستان کو بھارت کے خلاف متوازن بنائے گا، اور پاکستان اور ایران پر اپنا اثر و رسوخ برقرار رکھنے کے لیے طالبان کی حمایت جاری رکھے گا۔
یہ اسٹریٹجک ویب اتنا پیچیدہ اور اعصابی ہے کہ عام مبصر اس کی پوری گہرائی کو بمشکل ہی سمجھ سکتے ہیں۔ ہر اقدام اقتصادی مفادات، فوجی پوزیشننگ، اور طویل مدتی غلبہ کے اہداف سے جڑا ہوا ہے۔
جغرافیائی سیاسی مسابقت کے اس نئے دور میں جنوبی ایشیا سب سے اہم میدان جنگ میں سے ایک ہے، جہاں آج کے اتحادی کل کے حریف ہو سکتے ہیں، اس بات پر منحصر ہے کہ عالمی بساط پر ٹکڑے کیسے چلتے ہیں۔