سابق افغان صدر شہید ڈاکٹر نجیب اللہ نے ایک خوبصورت اور بامعنی جملہ کہا تھا، کہ اگر دشمن (پاکستان،پنجابی فوج) پورے افغانستان کو قبضہ بھی کرلے تو میں تن تنہا اس قبضہ کو چھڑا سکتا ہوں لیکن جس دن دشمن نے ہمارے ملک میں صرف دو میٹرکے مسجد کی معراب پراگر قابض ہوگیا تو سمجھ لینا ہم سے کوئی بھی خود کودشمن کی دہشت گردی، قبضہ گیریت سے آزاد نہیں کرپائے گا۔ شہید ڈاکٹر نجیب اللہ کے کہے ہوئے ایک ایک لفظ سچ ثابت ہوگئے ان کے اس تقریب کا پس منظر یہی کہ جس دن پنجابی نے ہماری مسجد کی دو میٹر معراب پر قبضہ کیا تو سمجھ لینا ہم غلام بنا دئے گئے کیونکہ اس دو میٹر معراب پر یبٹھا پاکستان کے مدرسوں سے فارغ التحصیل ملا تمھاری قوم کی بھلائی نہیں بلکہ تباہی کی ترغیب دیگی، تمھارے بچوں کو سکول، جدید تعلیم نہیں بلکہ خود کش بننے کی حوصلہ افزائی کریگی، افغان سماج میں نفرت، دہشت گردی اور جہاد جیسے زیریلے الفاظ بوئے گی۔ یہ ملا تمھاری نسل کشی، دشمن کے ہاتھوں مرنے والے معصوم افغان بچوں، بچیوں، عورتوں اور بزرگوں کی شہادت پر غمزہ نہیں بلکہ مسرت کا اظہار کریگی کیونکہ یہاں یہ مولوی آپ کی نہیں پاکستان کی نمائندگی کررہا ہوگا۔ تمھاری معراب پر براجماں پنجابی فوج کا یہ نمائندہ تمھاری نسل کشی کے خلاف نہ قوم کو متحد کرنے کی جرت کریگا نہ جہاد کے نام پر تمھاری نسل کشی کے خلاف کوئی فتویٰ دیگی کیونکہ افغان قوم کی نسل کشی سے ان کا چولہا چلتا رہیگا۔ جب پورے افغانستان پر پنجابی فوج قابض ہوگا تو افغان غیور قوم اپنی پوری طاقت سے حب الوطنی کے جذبہ سےسرشار ہوکر دشمن کے خلاف آخری خون کے قطرے تک لڑیگی لیکن جب مسجد کے معراب پر دشمن قابض ہوا تو اس دن ہمیں بہت مشکل سے اس غلامی اور بدبخشی و پنجابی شرپسندی سے چٹکارا ہوگا۔ پاکستان (پنجابی) نے رشیہ کے خلاف افغانوں کو استعمال کیا ، خون افغانوں کا بہا، پاکستان کے پنجابی جرنیلوں نے پنجاب کی مفادات کی جنگ افغانوں کے کندھوں پر بندوق رکھ کر لڑی تھی، روس جب ٹوٹا تب افغانستان میں دودھ اور شہد کی نہری نہیں بہے، سکول، ہسپتال، حکومت، معیشت، عوام کی معیار زندگی بہتر ہونے کی بجائے افغانستان مزید سو سال پیچھے چلی گئی۔ پاکستان (پنجابی) شروع دن سے یہی چاہتی ہے کہ افغانستان ترقی نہ کرپائے، یہی وجہ ہے روس کے جانے کے بعد پاکستان نے اپنا ایٹمی تجربے کرکے خود کو مضبوط کیا لیکن اس دوران لاکھوں افغان کنبے ہجرت کرکے پاکستان کے شہروں میں نان شبینہ کا محتاج بنا دئے گئے۔ پاکستان چونکہ انتہائی شاطر اور جھوٹ بولنے اور دھوکہ دہی کا ماہر ہے، دیکھا کہ نائن الیون حملوں کے بعد پاکستان پر حملے کے بادل منڈالا رہے تھے انہوں نے سعودی عرب ، چائنا، ایران اور روس سے پیسہ لیکر اسامہ کو اپنا مہمان بنایا لیکن اس بیچ شمسی ایئربیس، جیکب آباد اور پسنی کی فوجی ہوائی اڈے بھی امریکہ کے جھولی میں رکھ دیے، یہاں سے ڈرون اور دیگر جنگی طیارے اڑ کر ان افغانوں کو شہید کرتے رہے جن کے کندھے پر پاکستان (آئی ایس آئی ) نے جہاد کی بندوق رکھوا کر پاکستانی مفادات کا تحفظ کیا تھا۔ افغانستان میں جہاد کرنے والے نام نہاد طالبان یا حقانی وغیرہ نے پاکستانی فوج سے یہ پوچنے کی جرت نہیں کی کہ پنجابی فوج کے جرنیل نے ایک ٹیلی فون پر اپنی پینٹ اتارکر امریکہ کا ساتھ دینے کا ہامی بھری ہے اور ہم سے بندوق و بارود تھما کر لڑنے کے لئے کیسے اکسا سکتے ہو؟ افسوس کا مقام ہے کہ افغان بھائی اس وقت بھی پاکستان کے چالاکیوں سے ناشنہ نکلے، انہوں نے ہیرا منڈی کے پیداگیروں کی متعارف کرائے جانے والا نعرہ جہاد پر آنکھیں بند کرکے عمل کیا، اپنے لاکھوں افغان پڑھے لکھے، تعلیم یافتہ، قابل و ایماندار فوجی، سرکاری آفیسران کو خود کش حملوں کا نشانہ بنایا، اپنی معیشت کو اپاہج بنا کر رکھ دیا، جو پاکستان کا اولین خواہش و خواب تھا کہ کمزور ہو، اپنے سکولوں کو اڑا دیا، اپنی بچیوں کے لئے تعلیم جیسی زیور کو شجر ممنوعہ بنا دیا، اپنی ملکی ساکھ جو کبھی خوشحالی، پرامن ، تعلیم یافتہ ، مہمان نوازی اور محب وطنی سے مشہور تھے کو مسخ کرکے دہشت گرد ملک، جنونی جہادی جیسے الفاظ کی پیوند کاری کرکے دنیا کے سامنے خود کو بدترین، جاہل اور دہشت گرد قوم پیش کیا۔ افغان عوام کو پاکستانی فوج نے بطور ایندھن استعمال کرکے پنجاب میں بڑے بڑے ترقیاتی کام کئے۔ پاکستان آج افغان جنگ میں خود کو مظلوم ظاہرکرنے کی ناکام کوشش کررہی ہے دراصل جنگ کا متاثر اقوام بلوچ، پشتون اور سندھی ہیں کیونکہ پاکستان نے اپنے مارے جانے والے فوجیوں کی قیمت وصول کی ہے۔ اور امریکی فوجی امداد کے ذریعے بلوچ آزادی پسندوں ، پشتونوں اور افغانوں کے گھروں کو اجاڑ دیا، ان کی نسل کشی کی۔ دیر آید درست آید کے مصداق ، امریکہ نے گہرے چھوٹ کھانے کے بعد باالآخر یہ تسلیم کرہی لیا کہ پاکستان ایک جھوٹ اور دھوکہ دینے والا ملک ہے۔ امریکہ کا یہ اقرار بلوچ آزادی پسند لیڈرشپ اور منجھے ہوئے افغانستان قیادت کی اس دیرینہ موقف کی سو فیصد تائید ہے کہ امریکہ افغانستان میں ایک بے سود جنگ لڑ رہی تھی، افغانستان میں ہر حملے کا ماسٹر راولپنڈی، لاہور اور اسلام آباد میں بیٹھا ہے، افغانستان میں نیٹو، امریکہ افواج اور افغان عوام کے خلاف حملوں کا فائدہ براہ راست پاکستان اور پنجابی فوج کو پہنچ رہی تھی۔ اب اگر امریکہ اور نیٹو خطے میں ایک پر امن افغانستان چاہتی ہے اور خطے کو ایٹمی خطرات سے پاک کرنے پر سنجیدہ ہے، پاکستانی بلیک میلنگ سے ہمیشہ کے لئے چٹکارا پانا چاہتی ہے تو انہیں آزاد بلوچستان، آزاد پشتونستان اور آزاد سندھو دیش کو جلد از جلد تسلیم کرکے خوشحال افغانستان اور پر امن خطے کے لئے کردار ادا کرنا ہوگا۔ پاکستان پر انحصار کرنے کی بجائے بلوچ ، پشتون اور سندھ کے عوام سے رابطہ کرکے نیٹو سپلائی سمیت تمام دیگر معاملات پر سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا۔ کیونکہ جب تک پاکستان ہے، خطے میں بدبختی، حملے، دہشت گردی جاری و ساری رہیگا۔ امریکہ صدر نے پاکستان کے دہشت گردی پر مبنی پندرہ سالہ بد ترین ریکارڈ کو سامنے رکھتے ہوئے پاکستان کی نہ صرف ہرطرح کی امداد بند کردی ہے بلکہ پاکستان کی دہشت گردانہ کردار کو ختم کرنے کے لئے مزید اقدامات کا عندیہ دیا ہے۔ ان ممکنہ اقدامات کیا ہونگے ہمیں تادم تحریر اس کا علم نہیں ہے لیکن ہم کچھ سفارشات پیش کرنا چاہتے ہیں تاکہ امریکہ جنوبی ایشیا میں اپنے دوست طاقتوں کے ساتھ مل کر امن و خوشحالی کے اس سفر میں کامیاب رہے۔ پہلا: امریکہ کو پاکستان کے خلاف جنگ آزادی لڑنے والے بلوچ، پشتون، سندھی اقوام کی سفارتی، سیاسی، فوجی امداد کا اعلان کرنا چاہیے۔ دوسرا: بلوچستان کے حق میں امریکہ ایوان نمائندگان ، رکن کانگریس کی جانب سے ڈانا روراباکر کی سربراہی میں پیش کیا جانے والا قرارداد کو پاس کرکے بلوچستان کی آزاد حیثیت کی بحالی کافوی الفور اعلان کرنا چاہیے۔ تیسرا: افغانستان اور بلوچستان کا مشترکہ فوج تیار کرکے ڈیورنڈ لائن پر تعینات کی جائے تاکہ یہ محب وطن افغان بلوچ افواج پاکستانی فوج کی افغانستان میں بمعہ بارود، منشیات در اندازی کو روک سکے۔ چوتھا: کابل، اور وشنگٹن میں آزاد بلوچستان کا سفارتخانہ قائم کی جائے تاکہ عالمی برادری پاکستان اور چائنا سے متعلق کسی بھی معاشی، سیاسی ، تجارتی معاہدوں کے لئے آزاد بلوچستان کی حکومت سے براہ راست قانونی رابطہ کرکے خطے کی بھلائی کے لئے کام کرسکیں۔ پانچواں: بلوچستان کی تاریخ، ثقافت، اور جدوجہد کی عالمی سطح پر اجاگر کرنے کی غرض سے کابل، واشنگٹن سمیت دنیا بھر میں بلوچی زبان کے ٹی وی، ریڈیو نشریات کا جلد از جلد اجراح کرکے بلوچستان میں پاکستانی جنگی جرائم سے دنیا کو آگاہی دے اور بلوچستان کی تاریخی حیثیت اور کردار کو تسلیم کیا جائے۔ چھٹہ: امریکہ اور دیگر بلوچ دوست جمہوری ممالک کو چاہیے کہ وہ اقوام متحدہ میں بلوچستان کی رکنیت کے لئے ایک قرار پیش کرے تاکہ دہشت گردوں کا سرپرست اعلیٰ پاکستان و ایران کے متبادل کے طور پر بلوچستان اپنی نمائندگی خود کرسکے۔ ساتواں: نیٹو ممالک ، امریکہ، افغانستان، ہندوستان، بنگلہ دیش، اور دیگر جمہوری ممالک کو چاہیے کہ آزادی پسند بلوچ لیڈر شپ کے ساتھ ایک اعلیٰ سطح کا ہنگامی میٹنگ طلب کرکےپاکستان کے خلاف ایک مضبوط اور موثر حکمت عملی طے کی جائے جس میں بلوچستان اور افغانستان کو قلیدی کردار دی جائے۔