1988کی بات ہے جب بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کا مرکزی کونسل سیشن بلوچستان یونیورسٹی کوئٹہ میں ہورہاتھا اسی سیشن میں وحید بلوچ چیرمین اورشہید غلام محمدسیکریٹری جنرل منتخب ہوئیں سیشن 1986 کی بی ایس او کی تقسیم اور خونی تصادم کے بعد ہورہا تھا اس تصادم میں کئی جانیں گئی سیکڑوں طلبا تعلیمی اداروں سے بیدخل کئے گئے،اسی خونی تصادم کے پس منظر میں عطا شاد نے اپنا مشہور شعر لکھا۔ مروچئیں رنداولاشارے نام آس وتی گس وتی سنگ وتی سر وتی ذیمیں دلا کجا براں تیروتی جگر وتی۔ اختلافات کی بنیاد یہی تھی ڈاکٹریاسین کی قیادت والا بی ایس اوکا موقف تھا کہ بلوچ کا مسئلہ قومی ہے بلوچ قوم ایک جابر قوم پنجابی کا غلام اور جبر کا شکار ہے اس مسلے کاحل قومی آزادی وقومی برابری ہے ورسری جانب ڈاکٹر کہور گروپ کا موقف تھا بلوچ کا مسئلہ طبقاتی ہے بلوچ اپنے ہی سرداروں اور نوابوں کے ظلم اور جبر کا شکار ہیں وہ بطور خاص نواب اکبر بگٹی نواب خیربخش مری اور سردارعطااللہ مینگل کو نشانہ بناتے تھے وہ یہ بھی کہتے کہ پنجابی من حیث القوم مظلوم ہیں سرمایہ داراور ملٹی نیشنل کمپنیاں دنیا کے تمام مظلوموں کا استحصال کررہی ہیں تمام مسائل کا حل انکو کمیونسٹ طرز حکومت میں نظرآرہاتھا۔ ان تمام مسائل کر مد نظر رکھتے ہوہے سیشن کے دوسرے روز عمرشہید آڈیٹوریم میں ایک سمینار ہورہاتھا سمینار کا عنوان تھا پاکستان میں قومی سوال۔۔۔۔۔۔۔ اس سمینار میں بائیں بازو کے چوٹی کے بیشتر دانشور اور سیاسی رہنما مدعو تھے نظامت کے فرائض شہید غلام محمد انجام دے رہے تھے۔ مقررین میں پاکستان کمیونسٹ پارٹی کے سیکریٹری جنرل پروفیسرجمال نقوی بھی تھے جمال نقوی نے اپنی تقریر میں کہا کہ پوری دنیا کی طرح بلوچ مسئلہ بھی طبقاتی ہے اور بی ایس او اسی طبقاتی کشمکش کی وجہ تقسیم ہوئی ہے یہ تقسیم ہماری کوششوں سے ممکن ہوئی ہے جمال نقوی کی تقریر کے بعد ناظم شہید غلام محمد نے بطور خاص کہا کہ آج پروفیسرجمال نقوی نے اعتراف کرلیا کہ بی ایس او کی تقسیم میں کمیونسٹ پارٹی تھا۔ وقت نے کئی کروٹیں بدلی نیشنل ازم کے طوفان نے کمیونزم کے ٹائٹانک کو غرق آب کردیا۔سرمایہ داریت کا امام دنیا کا پیش امام بن گیا اسی پیش امام نے ایشیاء میں جماعت کیلئے صف بندیاں شروع کی ہیں۔بلوچ قوم میں ایک ابھار آیا اور زوال کی جانب لڑکڑاتا چلا گیا۔بی این ایم اور بی ایس او آذاد نے آواران میں پناہ لی اور زلزلے کے ملبے تلے دب گئے۔بی ایس اوکے چیئرمیں زاہد کرد پراسرار طور پر غائب ہوگئے اور کالعدم ہونے کے باوجود سی سی ممبر لطیف جوہر نے چیئرمین کی بازیابی کیلئے تادم مرگ بھوک ہڑتال شروع کی اس بھوک ہڑتالی کیمپ میں نئے نئے کرداروں کی رو نمائی شروع ہوئی ان کرداروں میں مرحوم کمیونسٹ پارٹی کی آخری نشانی نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن کی خواتین کامریڈز اور ایک نورمریم بھی ہیں۔بھوک ہڑتال زاہد کرد بازیاب نہ ہوئے لیکن نئے در کھل گئے سارے راستے کوئے جانان کی طرف رہنما بن گئے بانک کریمہ بلوچ اور لطیف جوہر ذندہ دلان لاہور کے مہمان بن گئے۔ ادہر مرحوم ومدفون بی این ایم کے نام پر جلسے شروع ہوئے ان جلسوں میں سب کچھ بدلا بدلا سا تھا بلوچستان کے جھنڈے کا صرف ڈنڈا رہ گیا تھا اس پر وہی یک ستارہ والا جھنڈا تھاجس پرتین اور ستارے ٹانک کر ڈاکٹر مالک نے اپنے مقدر میں روشنی بھری تھی۔بہت بھولے بسرے سیاسی اور اصطلاحات نعرے دوبارہ گونجنے شروع ہوئے۔ مڈل کلاس بمقابلہ نواب سردار سرمایہ دارانہ نظام کی خرابیان ملٹی نیشنل کمپنیوں کی سازشین کمیونزم کی خوبیان۔کیا ہم ددوبارہ 86 میں چلے گئے ہیں لیکن تب تو سویت یونین کی قیادت میں آدھے یورپ میں کمیونسٹ اقتدار میں تھے اور تواور ہمارے ہمسا ئے ملک افغانستان میں ثور انقلاب آچکا تھا اب تو ماؤسٹ چین پنجابی سے بڑھ کر ہمارے وسائل لوٹ رہاہے۔نورمریم نے مشکے جاکر چی گویرا ثانی دیگر قیمتی تخائف دیئے ہوں یا نہ دئیے لیکن مجھے یقین ہے کہ پروفیسر جمال نقوی کی لائبریری کے کتب تحفے میں ضرور دئیے ہونگے اور یہ بتانا بھول گئی ہوگی کہ زمانہ قیامت کی رفتار سے آگے چلی گئی ہے۔سوچتا کہ تب بلوچ قوم کو تقسیم کرنے والا ایک گھاگ جہاندیدہ پروفیسر جمال نقوی تھا اور اب ہمیں بے وقوف بنانے والی ایک خوبرو دوشیزہ نور مریم ہے۔کیا عروج تھا کیا زوال ہے۔۔۔۔؟؟؟