ایک بات بالکل طے ہے اور اسے امریکن اور اس کے اتحادی بھی جانتے ہیں کہ افغانستان میں پاکستانی مداخلت اور اس ملک بارے اسکے مزموم عزائم ہی بنیادی مسئلہ ہیں جو لاکھوں لوگوں کو نگلنے اورلاکھوں لوگوں کو بے گھرکرنے کے بعد بھی حل نہیں ہوپارہا۔ مگر افسوس کہ ہر بار اس مسلے کو حل کرنے کی کوشش کے وقت مذکورہ بہت ہی ضروری بات کو ثانوی سمجھ کر نظر انداز کیا جاتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ہر کوشش ناکامی پر منتج ہوتی ہے۔ گذشتہ سال شروع ہونے والے اور اس سال ختم ہونے والے امریکہ طالبان مذاکرات بھی انہی ناکامیوں کی کڑی ہے۔
ہماری نصف درجن سے بھی زیادہ تحریریں اس بات کی گواہ ہیں کہ گفتگو کے شروع ہوتے ہی ہم نے انھیں بے نتیجہ و بے حاصل قرار دیا۔ کیونکہ اس بار بھی امریکہ نے شروع سے سابقہ دو غلطیاں دہرائیں پہلی اُس نے پاکستانی اشارے پر طالبان کے کہنے پر اپنے اتحادی کابل حکومت کو اعتماد میں نہیں لیا دوسرا طالبان کے پیچھے پاکستان کی ماسٹر مائنڈ حیثیت کو نظر انداز کیا۔
امریکہ کی پریشانی: افغانستان کے مشکلات کواگر حالات کے تناظر میں دیکھا جائے توامریکہ کی پریشانی اپنی بدترین شکل میں موجود ہے لیکن اس کے لئے امریکہ ہی سب سے بڑا ذمہ دار ہے جو افغانستان میں داخل ہوتے وقت سوویت یونین کی ناکامیوں کے مطالعہ کو درخوراعتنا نہیں سمجھا اور شروع اُس مقام سے بھی ایک قدم پیچھے کیا جہاں سے سوویت یونین نے افغانستان کو چھوڑاتھا۔ سوویت یونین نے دو غلطیاں کیں پہلے افغان جنگ کو پاکستان منتقل نہیں کیا یا نہیں کرسکا دوسرا پاکستان کے اندر بلوچ آزادی کی تحریک کی سفارتی،اخلاقی اور عسکری حمایت نہیں کی جوایک مضبوط اتحادی ہوسکتا تھا۔ افغان حکام اور سوویت حکام بلوچ کو پاکستان کے خلاف ایک ایسی قوت کے طور پر متحرک ضرور دیکھنا چاہتے تھے کہ وہ پاکستان کو کسی دن مجبور کرکے مجاہدین کے بدلے گفت و شنید کے میز پر لائے مگر اُنکی مکمل آزادی بارے فیصلہ نہیں کرسکے تھے یہی وجہ تھی کہ سردار خیر بخش مری نے پاکستان کے ساتھ بڑے جنگ کے آغاز سے اجتناب کیا۔کچھ ایسے ہی اہم موقعوں پر راقم کو بھی موجود ہونے کا شرف ملا ہے جہاں سردار مری نے افغان اور روسی حکام کی باتوں کو سُنی اَن سُنی کیا جن کاہم نے ماضی میں اپنے چند مضامین میں حوالہ بھی دیا ہے۔
مگر امریکہ نے ایک قدم پیچھے رکھتے ہوئے پاکستان کو افغانستان میں جنگ کا سرغنہ سمجھنے کے بجائے اُسے اتحادی بنا کر گویا بلی کو کچے گوشت کا چوکیدار بنایاجس نے ساتھ ساتھ رہ کر امریکہ کے ہر منصوبے سے باخبر ہو کر اُسے ناکام بنانے کی مکمل منصوبہ بندی کی۔ اس اتحادی ہونے کے کارن یہ ممکن ہوا کہ اس اکیسوویں صدی کے ٹیکنالوجی اور انٹلیجنس ترقی کے دؤر میں ملا عمر کو دنیا سے جاتے دو سال گزرے تھے اور امریکہ بہادر اُس کے نمائندوں سے بات چیت کرتا پھررہاتھا،بن لادن ایبٹ آباد میں برسوں چھپا رہا اور کسی کو خبر نہیں ہوئی، ملا اختر منصور پاکستانی پاسپورٹ پر بزنس کرتا اور دنیا کے سیر سپاٹے کرتا رہا،کوئٹہ شوریٰ کوئٹہ میں بیٹھ کے امریکی اور اتحادیوں کو مارنے کے منصوبے بناتا رہا،اقوام متحدہ کا قرار دیا گیا دہشت گرد حافظ سعید، داود ابراہیم اور مسعود اظہر اوردرجنوں ایسے بین القوامی دہشت گرد پاکستان میں آزادانہ سرگرمیاں جاری رکھیں،فنڈ ریزنگ کریں اور دہشتگرد کاروائیوں کیلئے کھلے عام بھرتیاں کریں؟ یقیناً ایسی بیشمار باتیں یہی ظاہر کرتی ہیں کہ امریکی حکام اپنے اتحادی پاکستان کی خلوص اور دہشتگردی کے خلاف جنگ میں سنجیدگی بارے بدترین غلط فہمی کا شکار رہے ہیں۔امریکی اعلیٰ ذہن والوں سے ایک عاجزانہ سوال ہے کہ اگر پاکستان نے اتحادی ہوکر یہ سب کیا اور کررہا ہے تو کیا سوچ کر کیا اُمید رکھکر یا کس خوش فہمی کا شکار ہو کر امریکی حکام کی طرف سے بارہا یہ بیان دیا جاتا رہا ہے کہ پاکستان دہشتگردی کے خلاف جنگ میں ہمارا اتحادی ہے؟ کیا وقت نہیں پہنچا کہ پاکستان کے اتحادی کردار کو دوسرے زاویے سے دیکھا جائے کہ اگر یہ اتحادی ہے تو دشمنی کیا ہے؟؟ پاکستانی الجھنیں اور دوغلی پالیسیاں: نئے عالمی صورتحال کے تناظر میں دیکھا جائے تو مشکلات میں گراپاکستان دنیا کے تنہا ترین ممالک میں شمار ہوتا ہے اُس کا دیرینہ دوست امریکہ ناراض ہے،روس بھروسہ نہیں کرتا ہے اور چین کے رویے سے ایسے لگ رہا ہے کہ وہ یہ محسوس کرنے لگا ہے کہ اُسے ماموں بنایا گیا ہے۔ داخلی طور پر سیاسی و اقتصادی بحران دربحرانیں ان تمام کا ایک ہی سبب ہے کہ پاکستانی حکمران اندر اور باہر ہرجگہ دوغلی پالیسی بنائے ہوئے ہیں۔ چین کے ساتھ ساٹھ بلین ڈالر کے معاہدات دستخط کرکے بلوچوں کی ملکیت کو کوڑیوں کے عوض اُنکے حوالے کیا۔جب چین نے ساڑھے اٹھارہ بلین ڈالر اس پروجیکٹ پر خرچ کئے تب اسلام آباد نے جان بوجھ کر چین سے مشورہ کئے بغیر سعودی عرب،عرب امارات وغیرہ کو گوادر میں حصہ دار بنایا،چین سے وعدہ کیا تھا کہ پاک چین معاہدات کسی کے سامنے نہیں کھولے جائیں گے لیکن آئی ایم ایف کے سامنے سی پیک سمیت چین کے تمام مالیاتی معاہدات کھول کررکھ دیئے جس سے چین ناراض ہوا۔ پاکستانی حکام نے ایسا اس لئے کیا کیونکہ اُنھیں پتہ ہے اگر بلوچستان گوادر سمیت چین کے قرضوں کے بھینٹ چڑھ گیا تو پنجاب کے بھوکے ہجوم کوکھانے کے لالے پڑجائیں گے۔پاکستان نے روس کو یہ تسلی دی تھی کہ طالبان کیساتھ ملکر القاعدہ اور داعش کا خاتمہ کیساتھ ریجن سے امریکہ سے سوویت یونین کا بدلہ لیں گے۔ بعد میں روسیوں کو پتہ چلا کہ دنیامیں بھلے داعش القاعدہ وغیرہ الگ ساخت و اجزائے ترکیبی رکھتے ہوں مگر پاکستان میں آکے سب آئی ایس آئی کے اپنے بنتے ہیں کچھ وقت قبل روسی وزیر دفاع کایہ بیان کہ پاک افغان بارڈر پرموجوددہشتگردوں کے ٹھکانوں کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا اُنھیں ضرورکسی نہ کسی کی حمایت حاصل ہے جو وہاں کیمپ لگائے کسی ممانعت کے بغیر ادھر اُدھرآزادانہ حرکتیں کرتے ہیں۔ اس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ روس واشگاف الفاظ میں کسی کی بھی طرف سے ہونے والے دوغلی پالیسی کو ناقابل قبول کااشارہ دے کرمدمقابل کو اصلاح احوال کا موقع فراہم کرنا چاہتا ہے مگر پاکستان سیدھا ہو نہیں سکتا کیونکہ اُس کا طالبان،القاعدہ و دیگر دہشتگرد تنظیموں کیساتھ یہی انڈرسٹینڈنگ ہے کہ کافروں (امریکہ،رو س،ہندوستان)کو افغانستان سے نکال کر یہاں خلافت کی بنیاد رکھکر سینٹرل ایشیا کے راستے روس سے ہوتے ہوئے یورپ داخل ہونا ہے دوسری طرف کشمیر کے راستے ہندوستان میں غزوہ ہند کا آغاز کرنا ہے۔ جن داعش، القاعدہ،لشکر طیبہ،جیش محمد کا خاتمہ امریکہ، روس اور مہذب دنیا چاہتی ہے اصل میں پاکستان انہی دہشتگردوں سے وہی قوت بنانا چاہتاہے جو دنیا میں اُسکی سربراہی میں خلافت قائم کریں گے۔ بدقسمتی سے یہی گھناؤنااورناقابل یقین فکر ان تمام خون آشامیوں کے پیچھے کارفرما ہے جو تمام اقتصادی قید و بند وسیاسی تنہائیوں کے باوجود پاکستان کو افغانستان میں خونریزیوں سے باز رہنے نہیں دیتا۔
افغانستان میں خونریزی کا پاکستانی نیا منصوبہ: امریکہ طالبان مذاکرات کاسلسلہ رُکنے سے سب سے زیادہ پاکستان متاثر ہوا کیونکہ وہ انہی مذاکرات کی آڑ میں امریکہ کی خوشنودی حاصل کرکے بیرونی وداخلی دباؤ کم کرکے اپنی تمام تر توجہ افغانستان و کشمیر پر مرکوز کر کے افغانستان کو برباد اور ہندوستان کو پریشان کرناچاہتا تھا مگراشرف غنی کی حکومت،افغان سول سوسائٹی، افغان آرمی، این ڈی ایس کے دو ٹھوک موقف اور کئی صاحب بصیرت لوگوں کی درست نشاندہی نے امریکہ کو پاکستانی چالوں کو سمجھنے میں مدد کی جس سے اُس نے طالبان کے ساتھ مذاکرات معطل کئے۔
پاکستان مذاکرات کی آڑ میں افغانستان میں صدارتی انتخابات کوتعطل کا شکار کرکے کئیرٹیکر حکومت لاکر انارکی کی راہ ہموار کرنے کا منصوبہ بنا چکا تھا اس سے جنگ پھر نکتہ آغاز سے شروع ہوتا اورامریکہ کا انحصارپھر پاکستان پر بڑھتا،افغانستان کی کئیرٹیکر طفیلی حکومت پاکستان کا دست نگر ہوتا اور اُسکے معاملات اسلام آباد اور واشنگٹن کے درمیان طے پاتے۔ یہاں بجا طور پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اب اشرف غنی بطور افغان سربراہ کیوں پاکستان کیلئے قابل قبول نہیں گو کہ وہ پہلے افغان صدر ہیں جس نے جی ایچ کیو کا دؤرہ کیا؟جواب بہت واضع ہے کیونکہ جس شدت سے اشرف غنی نے 2014 میں پاکستان کی طرف جھکاؤ رکھا اور اُس سے توقعات وابستہ کیں پھر اُسے پاکستانی منفی و منافقانہ رویے نے اُسی شدت سے مایوس کیا۔ پہلی بار حکومت میں آتے وقت وہ پاکستان بارے غلط فہمیوں کیساتھ آیا تھا اور اب وہ پاکستان بارے کسی بھی وقت سے بہترجانتا ہے اور پاکستان بارے ایسی واضع سوچ رکھنے والاکوئی بھی افغان لیڈر پاکستان کیلئے کبھی بھی قابل قبول نہیں رہا ہے اور نہیں رہے گا۔ پاکستان کیلئے اس وقت کا اشرف غنی اور اُسکی نئی ٹیم کسی بھی صورت قابل قبول نہیں کیونکہ وہ پاکستان بارے نہ صرف بالکل واضح ہوچکے ہیں بلکہ مدتوں بعد اُنکی حکمت عملی بھی ایسی بنی ہے کہ اُس پر چل کر اُنکی جیت اور پاکستان اور اُس کے پالے دہشت گردوں کی بھیانک ہار یقینی ہے۔
افغانستان کا امریکہ کے سامنے استقامت اور اپنا واضع موقف رکھنے سے پاکستان بہت گھبرایا ہوا ہے اس لئے وہاں اس وقت جو اکھاڑ پچھاڑ ہورہی ہے وہ اس لئے ہورہی ہے کہ اگر ملک پر بیرونی دباؤ کم نہیں کیا جاسکا تو داخلی طور پر استحکام لانے کی کوشش کی جائے اس منصوبے کی تکمیل کیلئے غالب امکان ہے کہ چند مہینوں میں پھرامریکہ طالبان مذاکرات کا ڈرامہ شروع کیا جائے لیکن اس بار بات چیت کیلئے پاکستان اور طالبان دونوں کوچند مشکلات درپیش ہیں پہلے یہ مذاکرات ایک حقیقی جنگ بندی کاضامن کیسے بن سکتے ہیں؟ دوسرا طالبان القاعدہ وغیرہ کے درمیان تعلقات کو کیسے منقطع سمجھا جائے جو بظاہر الگ ہیں لیکن جب کہیں طالبان کے خلاف بمباری یا آپریشن ہوتا ہے تو القاعدہ والے ایک کمپاؤنڈ میں طالبان کے ساتھ ہلاک ہوتے ہیں۔ تیسرا یہ کہ اس وقت داعش اور القاعدہ کے خلاف تین بڑی قوتیں امریکہ،افغان فورسز،طالبان سب لڑ رہے ہیں پھر بھی وہ کم ہونے کی بجائے بڑھ رہے ہیں بعد میں طالبان افغان آرمی کو تحلیل کرکے اکیلے اُنکے خلاف لڑیں گے تو صورتحال کیا ہوگی یالڑیں گے ہی نہیں؟ چوتھا اور سب سے اہم بات یہ کہ چین اور روس پہلے جیسے ایکٹونہیں ہوسکیں گے کیونکہ اُن دونوں کو بات چیت کے منقطع ہونے تک پاکستان اور طالبان ایک ایسا میکانزم دکھانے کامیاب نہیں ہوئے کہ امریکہ کے جانے کے بعد یہاں کیسے امن لائی جاسکتی ہے؟کہیں ایسا تو نہیں کہ طالبان گلبدین کی طرح ایک گروہ لیکر اندر آکر بیٹھ جائیں گے اور باقی سارے پھر ملکر نئی جنگ کا آغاز کریں؟ امریکہ کا جانا اُن کا مقصد ضرور ہے لیکن اپنے ہمسائے میں ایک نئی اور غیر متوقع جنگ بھی اُن کا مطمع نظر نہیں۔اُنھیں یہ خدشہ لاحق ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو اور حالات ایسی کروٹ نہ بدلیں کہ یہاں سے دہشتگردی اور ڈرگ اسمگلنگ سرکاری سرپرستی پر چار سو پھیلائی جائے۔
نئے مذاکرات کے آغاز سے اگر امریکہ کی طرف ایسے سوالوں کے جوابات حاصل کرنے زور دیا گیا تو یقیناً بات چیت نہیں ہوسکتی ہے اور فوج ملک میں مارشل لاکی راہ ہموار کرکے حسب سابق تمام باگ ڈور امریکہ کے حوالے کرنے کا ڈرامہ رچائے گا اور وہی ہر چیز کی گارنٹی دے گا پھر اُسی کے زریعے نئے امریکہ طالبان بات چیت کا سلسلہ شروع کیا جائے گا تاکہ ایک بار پھر ضیاء اور مشرف دؤر حکومت کی طرح ڈالروں کی برسات ہو اورامریکہ کی مہربانی سر پر بنی رہے۔تاہم اگر مارشل لاء کے بغیر کام چل سکا تو وہ موجودہ تمام رسوائیوں اور ملکی تنہائیوں کا ذمہ دار کسی بھی سول حکومت کو ٹھہرانا پسند کریں گے۔
مختصر یہ بات اُس وقت کامیاب ہوسکتی ہے کہ امریکہ افغان حکومت کومکمل اعتماد میں لے اور براہ راست پاکستان کو ذمہ دار ٹھہرا کر اُس سے افغان امن بارے گفت و شنید کرے کیونکہ افغانستان میں الف سے ی تک تمام دہشتگرد تنظیمیں آئی ایس آئی کے پیرول پر ہیں اور اُسکی مدد کے بغیر یہ سب تنظیمیں چار مہینے بھی اپنی سرگرمیاں جاری نہیں رکھ سکیں گی۔انہی کی وجہ سے طالبان میں موجود وہ عناصر افغان حکومت سے بات چیت سے کتراتے ہیں جو افغانستان میں پاکستان کے اثر سے آزاد حکومت دیکھنا چاہتے ہیں۔اگر امریکہ پاکستان کو براہ راست ذمہ دار ٹھہرا ئے بغیرسول حکومت یا فوج کی گارنٹی پر طالبان سمیت کسی بھی گروہ سے بات چیت میں الجھ گیا اُس سے امریکہ اور افغانستان کو کچھ نہیں ملنے ولا البتہ پاکستان کو اپنے دہشتگردوں کیلئے مناسب وقت ملے گا جس سے وہ نئی قوت کے ساتھ پھر جنگ میں شدت لائیں گے۔