پسنی (ہمگام نیوز) اطلاعات کے مطابق غیر مقامی سندھی ناخدا ماہی گیروں کے خلاف مقامی ماہی گیر اور حق دو تحریک کا اپنی زیرو پوائنٹ پر دھرنا ، ٹریفک معطل ، مطالبات منظور ، دھرنا اور احتجاج 15 دن کے لیے موخر کردی گئی ہے ـ
تفصیلات کے مطابق پسنی کے ماہی گیر اور حق دو تحریک نے پسنی میں غیر مقامی سندھی ناخدا ماہی گیروں کے خلاف احتجاجا پسنی زیرو پوائنٹ کو بند کر دیا ، مین شاہراہ پر شامیانے لگا کر اسے عام ٹریفک کی آمدورفت کے لیے مکمل طور پر بند کر دیا ، ماہی گیر اور حق دو تحریک کا کہنا ہے کہ غیر مقامی سندھی ناخدا ماہی گیر کسی بھی طرح پسنی میں کام نہیں کر سکتے ان کا کہنا تھا غیر مقامی سندھی ناخدا سمندر کو نقصان پہنچا رہے ہیں ۔
احتجاجی ماہی گیروں سے حق دو تحریک کے سربراہ مولانا ہدایت الرحمان ، حسین واڈیلہ اور دیگر نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مچھلی کے بیوپاری مقامی ماہی گیروں کا استحصال کر رہے ہیں باہر سے سندھی ناخدا ماہی گیروں کو لاکر سمندر کو تاراج کر رہے ہیں ماہی گیروں نے پانچ مطالبات پیش کیے جنھیں اے ڈی سی گوادر زاکر بلوچ نے منظور کیے.
واضح رہے کہ مقامی ماہی گیر اور حق دو تحریک نے اپنے مطالبات کے حق میں پانچ دن تک پسنی پریس کلب کے سامنے دھرنا دیا جبکہ گزشتہ روز ماہی گیروں نے سندھی ماہی گیروں کے قرض اتارنے کے لیے اپنے زیورات بھی لائے ، اے ڈی سی گوادر زاکر بلوچ اور اسسٹنٹ کمشنر پسنی محمد جان بلوچ نے احتجاجی ماہی گیروں سے ملاقات کی اور مطالبات منظور کر لیے جس پر ماہی گیر اور حق دو تحریک نے دھرنا 15 دن کے لیے موخر کر دی.
دوسری جانب مقامی مچھلی بیوپاری اور فش کمپنی مالکان کا کہنا ہے کہ پورے بلوچستان میں دوسرے علاقے کے لوگ اگر محنت مزدوری کرتے ہیں لیکن حق دو تحریک نے صرف پسنی میں سندھی ناخدا ماہی گیروں کے کام پر پابندی عائد کر دی ہے ،
مچھلی کے بیوپاریوں کا کہنا ہے کہ سندھی ماہی گیر کسی بھی غیر قانونی کام میں ملوث نہیں میں اور نہ ہی وہ غیر قانونی طریقے سے مچھلیاں پکڑ رہے ہیں ۔
لیکن اسکے باوجود انہیں پسنی شہر سے نکالنے کا مطالبہ لسانیت کو فروغ دینا ہے ،
مچھلی کے بیوپاریوں نے بتایا کہ سندھ کے ماہی گیر مقامی بیوپاریوں کے قرضدار بھی ہیں اور وہ ہر سال محنت مزدوری کر کے اپنے قرضہ جات بھی ادا کرتے ہیں
انہوں نے کہا کہ ایک سازش کے تحت پسنی کے بیوپاریوں کو کمزور کیا جارہا ہے جبکہ دوسری جانب سمندر میں غیر قانونی ٹرالنگ عروج پر ہے جسے روکھنے کے لیے کوئی آواز نہیں اٹھائی جارہی ہے ۔