پاکستان میں بلوچ اور پشتون قوموں کی جدوجہد اور ان کے ساتھ ہونے والے ریاستی سلوک پر بات کرنا ایک حساس اور اہم موضوع ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ ان قوموں کے ساتھ کئی دہائیوں سے ایسا سلوک کیا جا رہا ہے جسے اکثر لوگ “خون سستا” سمجھتے ہیں۔ بلوچ اور پشتون قوموں کے حقوق، ان کے مسائل، اور ان پر ہونے والے مظالم کو نظر انداز کرنا نہ صرف ان کی تاریخ کے ساتھ ناانصافی ہے بلکہ اس سے پورے ملک میں عدم استحکام اور ناانصافی کے جذبات کو ہوا ملتی ہے۔

تاریخی پس منظر: بلوچستان اور خیبر پختونخوا (پرانا نام: شمال مغربی سرحدی صوبہ) پاکستان کے وہ علاقے ہیں جہاں کی قومیں طویل عرصے سے اپنے حقوق کی جدوجہد کرتی آئی ہیں۔ پاکستان بننے سے قبل بھی یہ علاقے برطانوی سامراج کے ماتحت تھے، اور پشتون اور بلوچ قوموں نے اپنی آزادی اور خودمختاری کے لیے برطانوی راج کے خلاف مزاحمت کی تھی۔

بلوچ قوم کی تاریخ: بلوچ قوم کی مزاحمت کا آغاز اُس وقت ہوا جب برطانوی راج نے بلوچستان کے وسائل اور جغرافیائی اہمیت کو اپنے قابو میں لینا شروع کیا۔ بلوچستان کو 1948 میں پاکستان میں شامل کیا گیا، لیکن بلوچ قوم نے اس الحاق کو قبول نہیں کیا اور اپنی خودمختاری کے لیے جدوجہد جاری رکھی۔ بلوچ قوم کے ساتھ ریاستی سلوک میں اکثر تشدد، ماورائے عدالت قتل، لاپتہ افراد کی تعداد میں اضافہ، اور ان کے وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم شامل رہی ہے۔ 1970 کی دہائی میں بلوچستان میں قوم پرست تحریکیں زور پکڑ گئیں، جنہیں ریاست نے فوجی طاقت سے دبانے کی کوشش کی۔ اس دوران بلوچ قوم کے سینکڑوں افراد ہلاک اور لاپتہ ہوئے۔

پشتون قوم کی تاریخ: پشتون قوم نے بھی تاریخ میں اپنی خودمختاری اور شناخت کے تحفظ کے لیے اہم جدوجہد کی ہے۔ برطانوی راج کے دوران بھی پشتون علاقوں کو بار بار عسکری مداخلتوں کا سامنا کرنا پڑا۔ 1947 میں پاکستان بننے کے بعد، پشتونوں کو بھی اپنے حقوق کی جدوجہد میں مشکلات کا سامنا رہا۔ فاٹا (قبائلی علاقہ جات) کے علاقوں کو خصوصی قوانین کے تحت چلایا گیا، جہاں پشتونوں کو بنیادی حقوق سے محروم رکھا گیا۔ 2001 کے بعد دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پشتون علاقے خاص طور پر متاثر ہوئے، جہاں فوجی آپریشنز اور ڈرون حملوں کے نتیجے میں ہزاروں بے گناہ پشتون افراد ہلاک ہوئے۔

ریاستی پالیسیوں کا کردار: پاکستان میں بلوچ اور پشتون قوموں کے خلاف ریاستی پالیسیوں نے اکثر ان کے حقوق کو سلب کرنے کی کوشش کی ہے۔ بلوچستان میں قدرتی وسائل کی بہتات ہے، خاص طور پر گیس اور معدنیات، لیکن ان وسائل سے مقامی بلوچ قوم کو بہت کم فائدہ پہنچا۔ اسی طرح پشتون علاقوں میں بھی ترقیاتی کاموں کی کمی اور بنیادی سہولتوں کا فقدان رہا ہے۔ ریاستی ادارے ان علاقوں کو اکثر “سیکیورٹی” کے نقطہ نظر سے دیکھتے ہیں، جس کی وجہ سے وہاں کے لوگوں کے بنیادی انسانی حقوق کو نظرانداز کیا جاتا ہے۔

خون سستا کیوں ہے؟ بلوچ اور پشتون قوموں کے ساتھ ہونے والے ظلم و ستم کا نتیجہ یہ ہے کہ ان قوموں کے لوگوں کا خون سستا سمجھا جاتا ہے۔ ماورائے عدالت قتل، لاپتہ افراد کی بڑی تعداد، اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں نے ان قوموں کے لوگوں کے لیے انصاف کی راہیں مسدود کر دی ہیں۔ ان قوموں کے لوگوں کے مسائل کو اکثر قومی میڈیا میں جگہ نہیں دی جاتی، اور ان کے حقوق کی جدوجہد کو بعض اوقات ریاست مخالف قرار دے کر دبایا جاتا ہے۔

پی ٹی ایم (پشتون تحفظ موومنٹ): پچھلے کچھ سالوں میں پشتون قوم نے پشتون تحفظ موومنٹ (PTM) کے ذریعے اپنے حقوق کے لیے ایک نئی پُرامن جدوجہد شروع کی ہے۔ PTM کا مقصد پشتون علاقوں میں ماورائے عدالت قتل، لاپتہ افراد، اور فوجی آپریشنوں کے نتیجے میں ہونے والی تباہی کے خلاف آواز اٹھانا ہے۔ تاہم، ریاست نے PTM کی سرگرمیوں کو قومی سلامتی کے خلاف قرار دیا، اور اس تحریک کو دبانے کے لیے مختلف اقدامات کیے۔

بلوچ مزاحمت: بلوچ قوم کی مزاحمت بھی مختلف ادوار میں شدت پکڑتی رہی ہے۔ قوم پرست تحریکوں نے ریاستی جبر کے خلاف ہتھیار اٹھائے، جس کے جواب میں ریاست نے مزید فوجی کارروائیاں کیں۔ بلوچستان میں جاری شورش کے دوران بہت سے بلوچ رہنما قتل ہوئے یا لاپتہ ہوئے، جس سے وہاں کے عوام میں غم و غصہ بڑھتا گیا۔

بلوچ اور پشتون قوموں کا خون سستا اس لیے سمجھا جاتا ہے کیونکہ ان کے ساتھ ریاست نے تاریخ بھر میں غیر منصفانہ سلوک کیا ہے۔ ان قوموں کے حقوق کی جدوجہد کو دبانے کے بجائے، ریاست کو ان کے مسائل کو سنجیدگی سے حل کرنے کی ضرورت ہے۔